Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 76
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمْ : اس نے دیا انہیں مِّنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل بَخِلُوْا : انہوں نے بخل کیا بِهٖ : اس میں وَتَوَلَّوْا : اور پھرگئے وَّهُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : روگردانی کرنے والے ہیں
لیکن جب خدا نے ان کو اپنے فضل سے (مال) دیا تو اس میں بخل کرنے لگے۔ اور (اپنے عہد سے) روگردانی کر کے پھر بیٹھے
ثعلبہ کے بارے میں آیت کا نزول تفسیر :۔” ومنھم من عاھد اللہ لئن اتنا من فضلہ۔۔۔۔۔۔۔ وبما کانوا یکذبون “ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس ثعلبہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی بیٹھا تھا۔ اس نے یہ بات سنی تو ثعلبہ کے پاس گیا اور کہا ” ویحک یا لعلبۃ “ تیرا ناس ہوا اے ثعلبہ ! اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں یہ آیت نازل کی ہے تو ثعلبہ نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور سوال کیا کہ آپ (علیہ السلام) اس کا صدقہ قبول کرلیں تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے تو وہ اپنے سر میں مٹی ڈالنے لگا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تیرا اپنا عمل ہے میں نے تجھے حکم دیا تھا تو نے میری اطاعت نہ کی ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس کا صدقہ قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ اپنے گھر آگیا اور آپ (علیہ السلام) دنیا سے تشریف لے گئے۔ پھر وہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میرا صدقہ قبول کرلیں تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے قبو ل نہ کیا میں بھی قبول نہ کروں گا ۔ پھر حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمر ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قبول نہ کیا میں بھی قبول نہ کروں گا ۔ پھر حضرت عثمان غنی ؓ کے پاس آیا ، انہوں نے بھی قبول نہ کیا تو ثعلبہ حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں مرگیا ۔ ابن عباس ، سعید بن جبیر ؓ اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ ثعلبہ انصار کی ایک مجلس میں آیا اور ان کو گواہ بنایا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کچھ دے تو میں اس میں سے ہر حق والے کو دوں گا اور اس سے صدقہ کروں گا اور صلہ رحمی کروں گا اور قریبی رشتہ داروں پر احسان کروں گا تو اس کا چچا زاد بھائی مرگیا تو وہ وراثت میں اس کو مال ملا تو اپنے وعدہ کو پورا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حسن اور مجاہد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ثعلبہ بن حاطب اور معتب بن قشیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ دونوں بنو عمرو بن عوف کے تھے۔ یہ ایک مجلس میں گئے جہاں چند لوگ بیٹھے تھے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ! اگر ہمیں اللہ تعالیٰ مال دیں تو ہم اس میں سے صدقہ کریں ، جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مال دیا تو اس پر بخل کرنے لگے۔” ومنھم “ یعنی منافقین میں سے ” من عامد اللہ لئن اثانا من فضلہ لنصدقین “ اور ہم اس میں سے اللہ کا حق ادا کریں گے۔” ولنکونن من الصالحین “ ہم نیک لوگوں والے کام کریں گے صلہ رحمی اور اچھے کاموں میں خرچ کرنا وغیرہ۔
Top