Baseerat-e-Quran - Ar-Ra'd : 12
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَۚ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : وہ جو کہ يُرِيْكُمُ : تمہیں دکھاتا ہے الْبَرْقَ : بجلی خَوْفًا : ڈرانے کو وَّطَمَعًا : اور امید دلانے کو وَّيُنْشِئُ : اور اٹھاتا ہے السَّحَابَ : بادل الثِّقَالَ : بوجھل
وہی تو ہے جو تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے جس میں امید اور خوف اندیشے دونوں ہوتے ہیں اور وہ ان بادلوں کو بلند کرتا ہے جو پانی سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں
لغات القرآن آیت نمبر 12 تا 15 البرق بجلی ۔ چمک طمع امید ینشئی وہ اٹھاتا ہے السحاب بادل الثقال بھاری یسبح تسبیح کرتا ہے الرعد کڑک خیفۃ (اس کے ) خوف (سے) یرسل وہ بھیجتا ہے الصواعق بجلیاں۔ کڑک یصیب وہ پہنچاتا ہے۔ گراتا ہے یجادلون وہ جھگڑتے ہیں شدید المحال سخت پکڑنے والا دعوۃ الحق سچائی کی پکار لایستجیبون وہ جواب نہیں دیتے ہیں باسط پھیلانے والا لیبلغ تاکہ وہ پہنچے فاہ منہ بالغ پہنچنے والا طوع خوشی کرہ مجبوری بےبسی ظلل (ظل) ۔ سائے الغدو صبح الاصال شام تشریح : آیت نمبر 12 تا 15 یہ کائنات اور اس کا نظام کیا ہے ؟ اس کی حقیقت کا تو ہمیں علم نہیں ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے البتہ اپنی معلومات اور تحقیق سے ہمیں جو بھی نظر آتا ہے ہم اس کا اظہار کردیتے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں یا سوچ رہے ہیں وہ واقعی سچ ہے۔ دنیا کے سائنسدان، فلاسفر اور دانش و ریہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے جو نظر یہ پیش کیا ہے وہ اتنا صحیح ہے کہ اس میں تبدیلی ناممکن ہے مثلاً دو ہزار سال تک دنیا بھر کے سائنسدان اور فلاسفرز کا یہ خیال تھا کہ زمین ساکن ہے، آسمان اس کے گرد گھوم رہا ہے اور چاند، سورج اور ستارے آسمان پر جڑے ہوئے ہیں۔ صرف ایک دوربین کی ایجاد نے دو ہزار سال کے اس فلسفے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا اور یہ ثابت کردیا کہ زمین تو خود گردش میں ہے وہ اپنے سورج کے گرد گھوم کر دن، رات، ہفتے، مہینے اور سال بنا رہی ہے۔ اس طرح ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ روزانہ سورج نکل رہا ہے، چاند چمک رہا ہے، ستارے ٹمٹا رہے ہی، اونچے اونچے پہاڑ میخوں کی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں، دریا، ندیاں بہہ رہی ہیں اور سمندر موجیں مار رہا ہے، ہواؤں کے دوش پر بادل اڑ رہے ہیں، گرج چمک کے ساتھ آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی بجلی چمک رہی ہے، بارشیں برس رہی ہیں، زمین میں ایک نئی زندگی کروٹیں لے رہی ہے۔ لیکن اتنے بڑے نظام کو کون چلا رہا ہے، جب ایک مشین بھی خود بخود بن کر اپنے آپ کام نہیں کرسکتی تو کیا اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والا اور چلانے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر انسان کی فطرت چلا اٹھے گی کہ اس کائنات کو پیدا کر کے اس کو چلانے والی ذات کوئی ہے اور صرف اللہ ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک نظام تو وہ ہے جو ہمیں نظر آتا ہے اور دن رات اس تجربے سے ہم گذرتے ہیں۔ لیکن اس نظام کے پیچھے ایک اور روحانی نظام کارفرما ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا مثلاً یہ یہ دیکھتے ہیں کہ گرمی پڑی، سمندر سے مان سون اٹھا، بادل بنے اور کڑک چمک کے ساتھ کسی جگہ جا کر برس گئے اور مردہ زمین میں ایک نئی زندگی پیدا ہوگئی۔ لیکن قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے نظام پر اللہ نے فرشتے مقرر کئے ہوئے ہیں حدیث میں آتا ہے کہ ” رعد “ ایک فرشتہ کا نام ہے جو بجلی کے کوڑے سے بادلوں کو ہانکتا ہے یہ فرشتہ اللہ کی تسبیح کرتا رہتا ہے، انسان اور حیوان ان کی اس تسبیح کی آواز تو نہیں سنتے البتہ بادلوں کی ہیبت ناک آواز کو سب سنتے ہیں۔ مشرکین اور کفار کا عقیدہ یہ ہے کہ جب ان کا معبود ان سے ناراض ہوجاتا ہے تو یہ گرجچ چمک اور کڑک پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جس بجلی کو تم اس امید کے ساتھ دیکھتے ہو کہ وہ برس کر تمہارے کھیتوں کو سیراب کر دے گی اور اس کڑک اور گرج اور بجلی سے تم خوف زدہ ہوجاتے ہو جو چمکتی رہتی ہے اور دلوں کو ہلا ڈالتی ہے۔ یہ سب کچھ تمہیں کون دکھاتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ بادلوں کی اس گرج چمک سے اس کے فرشتے بھی خوف سے اس کی تسبیح کرنے لگتے ہیں اور اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ پھر اللہ جس پر چاہتا ہے اس بجلی کو گراتا ہے۔ اس وقت وہ کفار اللہ کو پکارنے کے بجائے اپنے جھوٹے معبودوں کو پکارنے لگتے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ جن جھوٹے معبودوں کو پکارتے ہیں اس کائنات کے نظام میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے وہ ایک بےحقیقت اور بےجان چیزیں ہیں۔ پھر بھی وہ اپنے ان معبودوں سے مانگتے ہیں ۔ ایسا ہی ہے جیسے کوئی پیاسا آدمی پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے اور وہ پانی اس کے منہ تک نہ پہنچے۔ یعنی جیسے یہ کوشش لا حاصل اور فضول ہے اسی طرح غیر اللہ کو پکارنا اس کو سجدے کرنا انتہائی احمقانہ حرکت ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ فرمایا کہ کیا تم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ اس کائنات کی ہر چیز خوشی سے یا مجبوری سے اسی کے سامنے سجدہ کررہی ہے۔ اس کے حکم کی تعمیل کر رہی ہے اور صبح و شام کے سائے بھی در حقیقت اسی معبود حقیقی کو سجدے کر رہے ہیں۔
Top