Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 93
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو البتہ بنا دیتا تمہیں اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک امت وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَ : اور يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَلَتُسْئَلُنَّ : اور تم سے ضرور پوچھا جائیگا عَمَّا : اس کی بابت كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی جماعت بنا دیتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راستہ پر لگا دیتا ہے اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا
لغات القرآن آیت نمبر 93 تا 96 شاء اللہ اللہ نے چاہا۔ لتسئلن البتہ تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔ ل اتتخذو تم نہ بناؤ۔ تزل پھسلج اتا ہے۔ تذوقوا تم چکھو۔ صددتم تم نے روکا۔ لاتشتروا تم نہ بیچو، فروخت کرو۔ ینفد ختم ہوجائے گا۔ باق باقی رہنے والا ۔ احسن زیادہ بہتر۔ تشریح : آیت نمبر 93 تا 96 اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور ارادہ کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ عقل سے انسان خیر اور شر کو پہچانتا ہے اور ارادہ کی قوت سے ہدایت یا گمراہی میں سے کسی ایک راستہ کا انتخاب کر کے اس پر چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوجائے تو وہ نجات حاصل کر کے جنت کی ابدی راحتوں سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ جب وہ صراط مستقیم پر چلنے کا پختہ عزم و ارادہ کرلیتا ہے اور اس کے نزدیک آخرت کی کامیابی ہی سب کچھ ہوتی ہے اس وقت دنیا کا بڑے سے بڑا لالچ بھی اس کو صراط مستقیم سے ایک قدم بھی ہلنے نہیں دیتا لیکن جب ایمان اور عزم و ارادہ میں پختگی نہیں ہوتی تو وہ جس طرح چند پیسوں کا فائدہ دیکھتا ہے اسی طرف چل پڑتا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت کچھ حضرات تو وہ تھے جنہوں نے آخرت کے ادھار پر اپنا سب کچھ راحت و آرام اور مال و دولت اللہ کے دین کے لئے وقف کردیا تھا لیکن بعض وہ لوگ تھے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کر اپنی تھا یعنی اللہ سے پکا وعدہ اور عہد و پیمان کرلیا تھا لیکن جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ کفار قریش کو غلبہ حاصل ہو رہا ہے تو وہ ان کی طرف مائل ہونے لگے بعض روایات کے مطابق کفار مکہ ان نئے نئے مسلمانوں کو مال و دولت کا لالچ دے کر یہ کہتے تھے کہ اگر تم نے ہمارا دین اور طریقہ اختیار کیا تو ہم تمہیں مالا مال کردیں گے۔ ایسے لوگوں کے لئے فرمایا کہ : اگر اللہ چاہتا تو ساری دنیا کے انسانوں کو ایک ہی امت اور جماعت بنا دیتا۔ ان میں کوئی اختلاف نہ ہوتا ایک طرح رہتے، سوچتے اور حکم کی تعمیل کرتے لیکن اللہ کی مشیت یہ ہے کہ خیر و شر، حق و باطل اور نور و ظلمت کو باقی رکھے تاکہ خیر، حق اور نور کی پہچان ہو سکے ۔ اگر دنیا میں خیر ہی خیر ہوتی تو اس کی قدر نہ ہوتی اور پہچان بھی نہ ہوتی لیکن ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے اسی لئے اللہ نے خیر و شر کو پیدا کیا تاکہ ہر شخص خیر اور شر کی حقیقت کو پہچان کر اس کو اختیار کرسکے۔ البتہ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ انسانوں کے دل اللہ کی انگلیوں کے بیچ میں ہوتے ہیں وہ جب چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جب چاہتا ہے ان کے دلوں کو اوندھا کردیتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے راہ ہدایت نصیب فرمائی ہے۔ بہرحال توفیق جو اللہ کی طرف سے ملتی ہے وہ تو ایک نعمت ہے لیکن عقل کے فیصلے اور عزم و ارادے کے ساتھ کئے گئے ہر طرح کے عمل سے متعلق ہی اللہ کے ہاں پوچھا جائے گا اور اللہ تعالیٰ جنت یا جہنم میں بھیجنے کا فیصلہ فرمائیں گے۔ ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جب تم پختہ عہد و پیمان کرلو تو اس پر پورے عزم و یقین کے ساتھ آگے بڑھاؤ، دنیا کا لالچ تمہارے قدم نہ روک لے اور تم نے جو اللہ و رسول ﷺ سے عہد کیا ہے اس پر جم جماؤ او اس عہد و پیمان کو دھوکے اور فریب کا ذریعہ نہ بناؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے قدم اکڑھنے سے دور سے بھی بد دل ہوجائیں اور اس طرح دنیا کے مال و دولت کے لالچ میں آ کر خود بھی گمراہیوں کیپ یچھے چل پڑو اور تمہیں دیکھ کر دور سے بھی تمہاری راہ پر چل پڑیں اس طرح تمہاری اپنی گمراہی کا جو وبال اور عذاب ہے وہ تو آ کر رہے گا لیکن دوسروں کو گمراہ کرنے کا گناہ بھی تمہارے سر پر آجائے گا اور اس طرح تم دوہری سزا کے مستحق بن جاؤ گے۔ فرمایا کہ دنیا کا وقتی مفاد انسان کے قدموں کو ڈگمگا دیتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ دنیا کی دولت جس کے بدلے آدمی اپنے ایمان کو بیچ دیتا ہے کب تک اس کے پاس رہے گی۔ آخر کار ایک دن یہ مال و دولت اور زندگی ختم ہوجائے گی۔ یہ باقی رہنے والی چیزیں نہیں ہیں لیکن جو چیزیں اللہ کے پاس ہیں وہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں ان کو فنا نہیں ہے۔ وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہوئے صبر و تحمل اور ایثار و قربانی سیک ام لیتے ہیں آخرت کی ابدی راحتیں ان ہی لوگوں کے لئے ہیں۔ لیکن جو دنیاوی مفادات کیلئے اپنے ایمان کی دولت کو بیچ ڈالتے ہیں وہ آخرت میں ناکام بھی ہوں گے اور کسی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں ہوگی۔
Top