Bayan-ul-Quran - An-Nahl : 93
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو البتہ بنا دیتا تمہیں اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک امت وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَ : اور يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَلَتُسْئَلُنَّ : اور تم سے ضرور پوچھا جائیگا عَمَّا : اس کی بابت كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تم سے ضرور پوچھا جائے گا اس بارے میں جو کچھ تم کرتے تھے
آیت 93 وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً اللہ تعالیٰ یہ بھی کرسکتا تھا کہ پوری انسانیت کو ایک ہی امت بنا دیتا تاکہ نسلوں اور قوموں کی یہ تفریق ہی نہ ہوتی اور نہ ہی ایک امت کو معزول کر کے دوسری امت کو نوازنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر جس اللہ نے بخت نصر کے ہاتھوں تمہاری بربادی کے بعد حضرت عزیر کی دعوت توبہ کے ذریعے تمہاری نشأۃ ثانیہ کی تھی وہ یہ بھی کرسکتا تھا کہ ایک دفعہ پھر کسی اصلاحی تحریک کے ذریعے تمہیں اپنی ہدایت اور رحمت سے نواز دیتا۔ اس طرح آخری نبی بھی تم ہی میں آتے اور یہ قرآن بھی تم ہی کو ملتا۔ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا۔ وَّلٰكِنْ يُّضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ آیت کے اس حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ ”وہ گمراہ کرتا ہے اسے جو گمراہی چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اسے جو ہدایت چاہتا ہے۔“ وَلَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ یعنی اس وقت تم لوگ ایک بہت بڑے امتحان سے دو چار ہو۔ تمہارے پاس نبی آخر الزماں کے بارے میں واضح نشانیوں کے ساتھ علم آچکا ہے اور تم اللہ کی کتاب کے وارث بھی ہو۔ اس کے باوجود اگر تم نے ہمارے نبی کی تصدیق نہ کی اور آپ کو جھٹلانے پر تلے رہے تو اس بارے میں تم سے ضرور جواب طلبی ہوگی۔ اب ذرا سورة البقرہ کی ان آیات کو ذہن میں تازہ کیجئے : يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۔ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ ۠ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ۔ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَــقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ”اے بنی اسرائیل ! یاد کرو تم میری وہ نعمت جو میں نے تم پر انعام کی ‘ اور پورا کرو میرا عہد ‘ میں پورا کروں گا تمہارے ساتھ کیے گئے عہد کو اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور مت ہوجاؤ تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے ‘ اور مت بیچو میری آیات کو تھوڑی سی قیمت کے عوض اور میرا ہی تقویٰ اختیار کرو۔ اور نہ ملاؤ حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ حق کو جانتے بوجھتے۔“ ان آیات کو پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سورة النحل میں جو بات اَوْفُوْا بِعَہْدِ اللّٰہِ سے شروع ہوئی ہے یہ گویا تمہید ہے اس مضمون کی جو سورة البقرۃ کی مندرجہ بالا آیات کی شکل میں مدینہ جا کر نازل ہونے والا تھا۔
Top