Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 59
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ١ؕ وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا١ؕ وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا
وَمَا مَنَعَنَآ : اور نہیں ہمیں روکا اَنْ : کہ نُّرْسِلَ : ہم بھیجیں بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ كَذَّبَ : جھٹلایا بِهَا : ان کو الْاَوَّلُوْنَ : اگلے لوگ (جمع) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی ثَمُوْدَ : ثمود النَّاقَةَ : اونٹنی مُبْصِرَةً : دکھانے کو (ذریعہ بصیرت فَظَلَمُوْا بِهَا : انہوں نے اس پر ظلم کیا وَ : اور مَا نُرْسِلُ : ہم نہیں بھیجتے بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّا : مگر تَخْوِيْفًا : ڈرانے کو
ہمیں نشانیاں (معجزات) بھیجنے سے جس چیز نے روکا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ان سے پہلے لوگوں نے (دیکھنے کے باوجود) ان کو جھٹلایا ہے (جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا ہے) ہم نے قوم ثمود کو ایک اونٹنی دی جو ان کے لئے بصیرت کی چیز تھی مگر انہوں نے اس کے ساتھ زیادتی ہی کی ہے اور ہم نشانیاں اس لئے بھیجتے ہیں کہ لوگ اس سے ڈریں
لغات القرآن آیت نمبر 59 تا 60 مامنعنا ہمیں نہیں روکا۔ نرسل ہم بھیجتے ہیں۔ مبصرۃ دیکھنے کو، ذریعہ بصیرت۔ تخویف ڈرانے کو۔ احاط گھیر لیا، قابو کرلیا۔ الرؤ یا خواب ، دکھاوا۔ ارینا ہم نے دکھایا۔ الملعونۃ لعنت کی گئی۔ طغیان سرکشی، نافرمانی۔ تشریح : آیت نمبر 59 تا 60 قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ کفار مکہ طرح طرح کے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے کبھی کہتے کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے کبھی کہتے مکہ کے چاروں طرف جو پہاڑ ہیں ان کو ہٹا کر صاف اور کھلا ہوا میدان بنا دیا جائے تاکہ کھیتی باڑی کی جاسکے، کبھی کہتے کہ ہمارے وہ رشتہ دار جو مر چکے ہیں ان کو زندہ کردیا جائے تاکہ ہم ان سے باتیں کریں اور آپ کی نبوت کی تصدیق کر کے ایمان لانے کی کوشش کریں وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ! یہ لوگ جن معجزات کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کو دکھانے میں ہمارے لئے کوئی رکاوٹ یا مانع نہیں ہے۔ ہم نے پہلے نبیوں کو معجزات دیئے ہیں آپ کو بھی دے سکتے ہیں لیکن اگر ان لوگوں نے ان معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان قبول نہ کیا تو پھر اللہ کے عذاب آنے میں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہ بن سکے گی اور اس آخری امت کے لئے ایسا کرنا ہماری مصلحت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قوم ثمود نے اپنے نبی حضرت صالح سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایک گابھن اونٹنی سامنے چٹان سے نکلے، بچہ دے اور ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ اللہ نے ان کا مطالبہ پورا کردیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے نہ صرف اس معجزہ کا انکار کردیا بلکہ اللہ کی اس نشانی کو قتل کردیا اور نا فرماین کی انتہا کردی۔ آخر کار اللہ کا عذاب قوم ثمود پر ٹوٹ پڑا شدید زلزلے اور خوفناک گرج چمک نے ان کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا دیا جیسے اس بستی میں کوئی کبھی آباد ہی نہ تھا۔ فرمایا کہ ایمان و یقین لانے والے تو کبھی کسی معجزہ کا مطالبہ نہیں کرتے اور نہ ان کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت ہوتی ہے بلکہ وہ نور بصیرت سے سچائی کو پہچان کر اس پر ایمان لاتے ہیں جس طرح فرعون کے بھرے دربار میں تمام جادوگروں کے سامنے سچائی آگئی تو انہوں نے فرعون کی دھمکیوں کے باوجود ایسے عزم و یقین کا اظہار کیا جس کو قرآن کریم نے نہایت وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی حیدر کرار، حضرت خدیجہ الکبری اور حضرت زید نے اور تمام صحابہ کرام نے نہ کسی معجزہ کو دیکھا نہ مطالبہ کیا نہ ان کو ضرورت تھی کیونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی عظیم سیرت پاک قرآن کریم کی پر عظمت تعلیمات، معراج نبوی ﷺ کو اچھی طرح دیکھا تھا جو کسی معجزہ سے کم نہیں تھے مزید کسی معجزہ کا مطالبہ ایک بچکانہ فرمائش سے زیادہ حیثیت نہ رکھتا تھا۔ تمام صحابہ کرام تو ہر روز آپ کی ایک ایک صفت کو معجزہ ہی سمجھتے تھے۔ معراج النبی کے موقع پر جب کفار مکہ نے آپ کا مذاق اڑایا اور بعض نئے نئے مسلمان ہونے والے بھی پیچھے ہٹ گئے تھے اس وقت ابوجہل نے یہ سمجھ کر کہ اگر حضرت ابوبکر بھی آپ سے پیچھے ہٹ جائیں تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی اور نبی کریم ﷺ کی تحریک کی جان نکل جائے گی۔ جب ابوجہل نے واقعہ معراج کا ذکر حضرت ابوبکر سے کیا تو ان کا جواب تھا کہ ہم تو ہر روز فرشتوں کی آمد و رفت اور وحی کی کیفیات کو دیکھتے رہتے ہیں اگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ میں رات کو معراج پر گیا اور اسی رات سب کچھ دیکھ کر واپس آگیا تو اس میں مہارے لئے تعجب کی کوئی بات نہیں ہے آپ نے جیسا فرمایا میں اس کیت صدیق کرتا ہوں۔ حضرت ابوبکر کی اس تصدیق نے انہیں بارگاہ نبوی سے ’ صدیق “ کا لقب دلا دیا۔ اس سے یہ اصلی حقیقت سامنے آگئی کہ جو لوگ نور بصیرت رکھتے ہیں انہیں باہر کی کسی روشنی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہی تمام صحابہ کرام کا حال تھا کہ ان کو اللہ کے سچے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی پر پورا پورا اعتماد اور بھروسہ تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی دلیل، برھان یا معجزہ دکھانے میں اگر کوئی رکاوٹ تھی تو وہ یہی تھی کہ اگر ان کے مطالبہ پر معجزہ دکھا دیا گیا اور پھر وہ لوگ ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب ضرور آئے گا اور اس قوم کو قوم ثمود کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ چونکہ آخری نبی کی یہ آخری امت ہے اس لئے ان کو ان کے مطالبہ پر معجزات نہیں دیئے گئے کیونکہ اب اسی امت کو قیامت تک تمام دنیائے انسانیت کی رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دینے ہیں۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے غزوہ بدر کے موقع پر اللہ سے مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کی بقا کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ الٰہی اگر تیرے ماننے والوں کی یہ مٹھی بھر جماعت مٹ گئی تو پھر (قیامت تک) تیرے دین کی ذم داری کون اٹھائے گا۔ اے اللہ اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہوگئی تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اے اللہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آج کے بعد آپ کی عبادت نہ کی جائے۔ آپ اس قدر عاجزی اور محویت کے ساتھ دعا فرما رہے تھے کہ آپ کے کاندھے سے چادر بار بار پھسل جاتی اور حضرت ابوبکر صدیق آپ کی چادر کو آپ کے کاندھوں پر ڈالتے جاتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی نبوت و رسالت کی طرح یہ امت بھی آخری امت ہے اب کسی نے نئے نبی یا رسول کی ضرورت باقی نہیں ہے۔ اس لیئے اللہ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! جب تک آپ ان میں موجود ہیں ہماری یہ شان نہیں ہے کہ ہم ان پر عذاب کو نازل کریں۔ چونکہ نبی کریم ﷺ دنیاوی حیات کے بعد اپنی قبر مبارک میں آج بھی حیات ہیں اور قیامت تک آپ کی لائی تعلیمات اور فیض جاری رہے گا اسی لئے آپ کی امت پر وہ عذاب نہ آئیں گے جیسے عذاب گزشتہ قوموں پر آئے تھے۔ یہاں ایک بنیادی بات کو سمجھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی ان آیات کا سہارا لے کر منکرین حدیث نے ” معجزات نبوی “ کا انکار کردیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ آپ کو کوئی معجزہ عطا نہیں کیا گیا۔ میں یہ عضر کروں گا کہ منکرین حدیث نے ان آیات کے ظاہری پہلو کو سامنے رکھ کر اپنی بےعقلی اور جہالت کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ اگر وہ ذرا بھی غور کرتے تو ایسی بچکانہ اور احمقانہ بات کبھی نہ کرتے وجہ یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ نے معجزات کا انکار نہیں کیا بلکہ کفار کے مطالبہ کو بچکانہ قرار دیا ہے کیونکہ اگر ان کا مطالبہ مان لیا جاتا اور وہ یقینا اس پر ایمان نہ لاتے تو اللہ کے عذاب آنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہتی اور یہ امت مٹا دی جاتی جب کہ اللہ کے فیصلے اور مصلحت کے تحت اس امت کو قیامت تک باقی رہنا تھا اور رہے گی انشاء اللہ۔ رہے وہ معجزات جو نبی کریم ﷺ سے ظاہر ہوئے ہیں وہ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں جن کی تفصیلات کے لئے معجزات نبوی پر امت کے علماء کرام کی سینکڑوں کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں جو معتبر ترین احادیث سے ثابت ہیں۔ ان کا انکار ممکن ہی نہیں ہے لیکن جنہوں نے اپنی آنکھوں پر انگریزوں کے چشمے لگا رکھے ہیں ان کو نظر نہ آنا کوئی تعبج کی بات نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنے ان مصنوعی چشموں کو اپنی آنکھوں پر سے اتار کر دیکھیں گے تو نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ان کو معجزہ نظر آئے گا جس کا انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ ان آیات میں معراج النبی اور شجر معلونہ کو آزمائش قرار دیا گیا ہے اس کی کچھ تفصیل عرض ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے معراج کی صبح کو ارشاد فرمایا کہ آج رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصی اور پھر واں سے ساتوں آسمانوں، جنت و جہنم اور اللہ کی ذات وصفات کو دیکھ کر آیا ہوں تو کفار کو یقین نہ آیا اور وہ لوگ جنہوں نے بیت المقدس کو دیکھا تھا ان کو بلایا گیا۔ اللہ نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے کردیا۔ کفار پوچھتے گئے اور آپ بیت المقدس کی ایک ایک بات تفصیل سے بتاتے گئے۔ اس سب کے باوجود انہوں نے ان واقعات اور حقائق کو مذاق میں اڑا دیا حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ خود ایک معجزہ تھا مگر جو لوگ نور بصیرت اور سنجیدہ غور و فکر نہیں رکھتے ان کے لئے بڑی سے بڑی سچائی بھی ایک بےحقیقت چیز ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک تو معراج النبی ان کے لئے آزمائش تھی دوسرے ” شجر ملعونہ “ جس کو ” زقوم “ بھی فرمایا گیا ہے یہ بھی کفار کے لئے ایک آزمائش کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کیونکہ جن کو اللہ کی قدرت پر یقین کامل ہے ان کو یقین تھا کہ اللہ کی یہ قدرت ہے کہ وہ کسی درخت کو آگ میں پیدا کرسکتا ہے اور آگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ آگ اور درخت دونوں ہی اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ اگر اللہ چاہے تو آگ سلامتی کے ساتھ حضرت ابراہیم پر گل و گلزار بن سکتی ہے پانی میں راستے اور صحرا میں چشمے جاری ہو سکتے ہیں تو آگ میں وہ درخت جو جہنمیوں کی غذا کے طور پر ان کو کھانے کیلئے دیاجائے گا وہ اللہ کی قدرت سے کیوں باقی نہیں رہ سکتا ۔ یہ درخت جو دوزخیوں کیلئے ہوگا۔ اس تلخ ، بد مزہ، قابل نفرت، کانٹے دار درخت ہوگا۔ جس کو کھانے پر وہ مجبور ہوں گے۔ روایات میں آتا ہے کہ ” زقوم “ دوزخ کی تہہ میں پیدا ہوگا۔ جب دوزخی بھوک کی شدت میں اس پر اپنا منہ ماریں گے تو وہ تڑپ کر رہ جائیں گے کیونکہ وہ ان کے پیٹ میں ایسی آگ لگا دی گا جیسے پانی ان کے پیٹ میں کھول رہا ہے۔ اس پر لعنت کی گئی ہے یعنی جس طرح جہنمی اللہ کی رحمت اور کرم سے دور ہوں گے اسی طرح یہ درخت یعنی دوزخیوں کی غذا بھی اللہ کی رحمت سے دور قابل لعنت ہوگی۔ جب قرآن کریم میں یہ بتایا گیا کہ دوزخیوں کو دوزخ میں کھانے کیلئے زقوم دیا جائے گا تو ابوجہل نے کہا ہمارے لئے مکھن اور کھجوریں لاؤ۔ جب یہ چیزیں آگئیں تو اس نے لوگوں کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی اور کہنے لگا ہمارا زقوم تو یہ ہے۔ یعنی اس نے معراج النبی اور آگ میں درخت کا مذاق اڑایا اسی لئے قریش کہا کرتے تھے کہ ابو کبشہ کے لڑکے کو دیکھو وہ ہم سے عجیب باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جہنم کی آگ ایسی ہوگی جو پتھروں تک کو جلا ڈالے گی۔ پھر کیا یہ ممکن ہے کہ اس میں ایسا درخت بھی ہو (اور آگ اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے) خلاصہ یہ ہے کہ جس کو ایمان لانا ہوتا ہے اس کو نبی کی بات ہی کافی ہوتی ہے لیکن جس کو ایمان نہیں لانا اس کے لئے سو بہانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کی ایک ایک بات پر ایمان و یقین لانے کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین۔
Top