Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) ۔ میرے ان احسانات کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے ہیں۔ تم مجھ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرو میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔ تم مجھ سے ہی ڈرتے رہو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 40 تا 46 (بنی) : بیٹے، اولاد، ابن کی جمع بنین ہے، اضافت کی وجہ سے نون گر گیا۔ (اسرائیل): حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ترجمہ : اللہ کا بندہ ۔ (اوفوا) : پوراکرو۔ (عھد): وعدہ، معاہدہ۔ (ارھبون ) : مجھ سے ڈرو۔ (ارھبوا۔ ۔۔ ۔ تم ڈرو، وقایہ ، فارھبونی، ” ی “ گرگئی ) ۔ (مصدق): تصدیق کرنے والا، سچا بتانے والا۔ (لا تکونوا): تم نہ ہو۔ (کافر): انکار کرنے والا۔ (لا تشتروا): تم فروخت نہ کرو۔ (ثمنا قلیلاً ): تھوڑی قیمت، گھٹیا قیمت۔ (فاتقون): مجھ سے ڈرو، (یہ بھی ارھبون کی طرح ہے) ۔ (لا تلبسوا): نہ ملاؤ۔ (الحق): سچ۔ (الباطل): جھوٹ۔ (تکتموا): تم نہ چھپاؤ۔ (یہاں اصل میں لفظ ہے لا تکتموا ۔ نہ چھپاؤ) ۔ (ارکعوا): رکوع کرو، جھکو۔ (اتامرون): کیا تم حکم دیتے ہو۔ سکھاتے ہو۔ تشریح : آیت نمبر 40 تا 46 اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” اللہ کا بندہ “ ۔۔۔۔ اسرائیل حضرت ابراہیم کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے ہیں جن کو بنی اسرائیل فرمایا گیا ہے۔ جو بعد میں اپنے آپ کو یہودی کہنے لگے۔ اس رکوع میں بنی اسرائیل (یہودیوں) سے خطاب کیا گیا ہے جن پر اللہ نے بڑے بڑے انعامات کئے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تقریباً چار ہزار انبیاء کرام تشریف لائے، توریت ، زبور اور انجیل جیسی عظیم کتابیں دی گئیں اور دنیاوی عزت و عظمت سے نوازا گیا تھا۔ ان ہی وجوہات کی بناء پر بنی اسرائیل کو سارے عرب میں بڑا وقار حاصل تھا عرب کے لوگ اس فیصلے کے منتظر تھے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بنی اسرائیل تصدیق کرتے ہیں یا نہیں۔ اسی لئے سورة بقرہ میں بنی اسرائیل سے خطاب فرمایا گیا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم اللہ کی ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کر جو اس نے اپنے فضل وکرم سے تمہارے اوپر کی ہیں، تمہیں آج اور اس سے پہلے جو بھی نعمتیں حاصل تھیں اس میں تمہاری ذاتی صلاحیتوں ، اہلیتوں اور قابلیتوں کا کوئی دخل نہ تھا اور نہ ہی تمہارے اس نسلی امتیاز اور نسبی شرافت کا نتیجہ ہے جس پر تم فخر و غرور کرتے ہو بلکہ یہ محض اس کا فضل و کرم ہے۔ اب تمہارے اوپر اللہ کا سب سے بڑا فضل وکرم یہ ہے کہ تمہارے اندر وہ نبی ﷺ تمہاری اصلاح کے لئے بھیجے گئے ہیں جن کے آنے کی خوش خبریاں تمہاری کتابوں میں موجود ہیں، اور جن کے آنے کے تم منتظر تھے۔ وہ تمہاری کتاب کی تصدیق کرنے والے ہیں اس لئے تم ان پر ایمان لے آؤ، ان کی شریعت کی پابندی کرو تا اللہ کے دین کے ذریعے تمہیں پھر وہی عظمتیں حاصل ہوجائیں جو تم اپنی ناشکریوں اور بد اعمالیوں کی بھینٹ چڑھا چکے ہو۔ تم نے مجھ سے شریعت کی پابندی کا وعدہ کیا تھا اور میں نے اس کے بدلے میں تمہیں دنیا کی بہترین زندگی، اس کی راحتیں اور عظمتیں دینے اور آخرت میں دائمی نجات اور ابدی سکون کا وعدہ کیا تھا۔ آج اگر تم حضرت محمد ﷺ پر ایمان لے آؤ تو یقیناً تمہیں وہی کھوئی ہوئی عظمتیں دوبارہ نصیب ہوجائیں گی۔
Top