Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 71
وَ نَجَّیْنٰهُ وَ لُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا لِلْعٰلَمِیْنَ
وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے بچا لیا وَلُوْطًا : اور لوط اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : وہ جس میں ہمنے برکت رکھی فِيْهَا : اس میں لِلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور ہم نے اسے (ابراہیم کو) اور لوط کو اس سر زمین کی طرف (بھیج کر) بچا لیا جس میں ہم نے جہانوں کے لئے برکت رکھی ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 71 تا 75 نجینا ہم نے نجات دی۔ وھبنا ہم نے عطا کیا۔ نافلۃ عطیہ، ضرورت سے زائد۔ ائمۃ (امام) رہنما، پیشوا۔ فعل الخیرات بھلائیوں کے کام، نیک کام۔ حکم حکمت، نبوت۔ الخبائت گندگیاں، بدکاریاں۔ تشریح :- آیت نمبر 71 تا 75 گزشتہ آیات میں آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مشرکین نے آگ کے الاؤ میں جھونک دیا تھا اور اتنی زبردست آگ میں پھینکنے کے بعد وہ اس سے مطمئن تھے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس آگ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے گل و گلزار بنا دیا تھا۔ بعض روایتوں کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سات دن تک اس آگ میں رہے۔ پھر نہایت خاموشی سے انہوں نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی چونکہ حضرت ابراہیم علیہ اسللام پر اس وقت تک ایمان لانے والے دو ہی افراد تھے آپ کی اہلیہ حضرت سارہ ؓ اور حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام، ہجرت کے وقت حضرت ابراہیم کے ساتھ یہی دونوں افراد تھے جن کو لے کر انہوں نے فلسطین میں جا کر قیام فرمایا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو نمرود اور اس کی قوم سے نجات عطا فرمائی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو جب اللہ نے نبوت عطا فرمائی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو سدوم کے عاقے میں بھیج دیا۔ موجودہ زمانہ میں سدوم اردن اور اس اسرائیل کے درمیان کا وہ علاقہ ہے جس کو بحرمیت سے کہا جاتا ہے۔ یہاں سدوم اور عمورہ کی سات بستیاں تھیں جن کو شدید گناہوں کی سزا میں اس طرح تباہ و برباد کردیا گیا اور بستیوں کو الٹ دیا گیا کہ ” آج ان بستویں کی جگہ ایک ایسا سمندر ہے جس کو بحرمیت یا بحر مردار کہا جاتا ہے یہاں کی زمین سطح سمندر سے کئی سو فٹ نیچے چلی گئی ہے اس سمندر میں کوئی کشتی تک نہیں چل سکتی یہاں تک کہ اس کے پانی میں چھوٹے سے چھوٹا جانور جیسے بیکٹیریا وغیرہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس سر زمین پر پوری قوم ایسی بد اخلاقی اور برائیوں میں مبتلا تھی جوان سے پہلے ساری دنیا میں کوئی قوم بھی اس برائی میں مبتلا نہیں ہوئی تھی اس قوم کے مزاج میں بدچلنی ، بد اخلاقی ، سرکشی، تکبر اور غرور کے ساتھ غیر فطری عمل کی محبت رچ بس گئی تھی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے بعد ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو ایسی سر زمین کی طرف بھیج کر بچا لیا جس سر زمین میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت ہی برکت رکھی ہے۔ فرمایا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم نے اسحاق (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا کیا اور انعام کے طور پر یعقوب (علیہ السلام) جیسا پوتا عنایت کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب اسرائیل تھا اس لئے ان کے بارہ بیٹوں کو اللہ نے اس کثرت سے اولاد عطا کی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کہلانے لگے اور بارہ بیٹے بارہ قبیلے اور خاندان بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل اور حضرت سارہ کے بطن سے اٹھارہ اسل بعد حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو پیدا کیا جو بہت نیک اور صالح تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو نبوت اور رسالت کے ساتھ ساری دنیا کی پیشوائیت اور امامت بھی عطا فرمائی تھی جو اللہ کے حکم سے لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا کرتے تھے۔ فرمایا کہ ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ اس بات کی تعلیم دے دی تھی کہ وہ ہمیشہ نیکیاں اور بھلائیاں کرتے رہیں۔ نماز قائم کرتے اور زکوۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتیر ہیں چناچہ وہ اللہ ہی کی عبادت اور بندگی کرتے تھے۔ فرمایا کہ اس طرح ہم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو علم و حکمت اور دانئای سے نوازا تھا اور ان کو اس بستی سے بچا لیا تھا جو ہر طرح کی بدکاریوں میں مبتلا ہو کر اپنی آخرت کو برباد کر رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قوم لوط صرف اسی فعل میں مبتلا نہیں تھی بلکہ ان میں اور بھی بہت سے عیب تھے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر فطری عمل یعنی مردوں کا مردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا تمام برائیوں کی جڑ ہے اس کے بعد بہت سی برائیاں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) پر خصوصی رحم و کرم نازل فرمایا اور وہ خود بھی انتہائی نیک انسان تھے۔ جس بستی میں وہ تھے صرف اس کو بچا لیا گیا باقی سب بستیوں کو برباد کردیا گیا تھا۔ جیسا کہ تشریح میں عرض کیا گیا ہے کہ خلاف فطرت (لواطت) بدکاری اس قدر شدید فعل ہے کہ اس سے قومیں تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں اور ایسی قوموں کا اللہ کے عذاب سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں نام نہاد ترقی یافتہ قومیں جس طرح اس فعل بد کو قانونی تحفظ دیتی چلی جا رہی ہیں اس کے اثرات تو ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور ہر روز کوئی نہ کوئی بیماری کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر قوموں نے اس فعل سے توبہ نہ کی تو دنیا میں کوئی ایسی خطرناک اور ناقابل تصور بیماری پھیلے گی جس سے کروڑوں لوگ مر جائیں گے یا ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوجائیں گے کیونکہ اس عمل بد کا یہ لازمی نتیجہ ہے۔ جس سے کسی حالت میں بچنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو آنے والے عذاب سے محفوظ فرمائیں اور ایسے قوانین سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائیں جس سے ساری انسانیت کے تباہ ہوجانے کا امکان ہے کیونکہ جب کسی قوم پر اللہ کا عذاب بھڑک اٹھتا ہے تو اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اللہ ساری انسانیت کو ظالموں کے ظلم سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
Top