Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 67
وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَآ اَنْفَقُوْا : جب وہ خرچ کرتے ہیں لَمْ يُسْرِفُوْا : نہ فضول خرچی کرتے ہیں وَلَمْ يَقْتُرُوْا : ور نہ تنگی کرتے ہیں وَكَانَ : اور ہے بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان قَوَامًا : اعتدال
اور وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں۔ نہ وہ تنگی اختیار کرتے ہیں اور وہ اس کے درمیان اعتدال قائم رکھتے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 67 تا 77 : انفقوا (انہوں نے خرچ کیا) ‘ لم یسرفوا (انہوں نے بےجا نہیں اڑایا) ‘ لم یقتروا (نہ انہوں نے تنگی کی ) ‘ قوام ( ٹھرا ہوا۔ اعتدال و میانہ روی) ‘ یلق (وہ پڑے گا) ‘ اثام (گناہ) ‘ یضعف (دوگنا کردے گا) ‘ مھان (ذلیل و خوار) ‘ متاب (لوٹنے والا۔ توبہ کرنے والا) ‘ لایشھدون (وہ موجود نہیں ہیں) ‘ الزور (جھوٹ) ‘ لغو (فضول۔ بےہودہ) ‘ کرام (سنجیدگی۔ عزت) ‘ لم یخروا (وہ نہیں کرتے) ‘ صم (بہرے) ‘ عمیان ( اندھے) ھب (عطا فرما۔ دے دیجئے) ‘ قرۃ (ٹھنڈک) ‘ الغرفۃ (اونچا مکان) ‘ تحیۃ (دعا) ‘ مایعبئو ا (وہ پرواہ نہیں کرتا ) ‘ لزام (چمٹنے والی) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 67 تا 77 : ان آیات سے پہلے یہ بیان کیا گیا ہے کہ رحمن کے بندے کون ہیں ؟ ان سے پہلی آیت میں رحمن کے بندوں کی چار صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ (5) پانچوں صفت یہ ہے کہ وہ مال و دولت کی خرچ میں راہ اعتدال اختیار کرتے ہیں نہ تو فضول خرچی میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ اس کے دریمان کی راہ کو اختیار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ خرچ کرنے میں سب سے اچھی عادت اعتدال و تو ازن کی ہے کہ نہ تو اس قدر کنجوسی اختیار کی جائے کہ وہ کسی پر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریں اور نہ ان فضول خرچوں کی طرح بن جاتے ہیں کہ جب وہخرچ کرنے لگتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ کہیں ان کو کل دوسروں کا محتاج نہ ہونا پڑجائے۔ (6) رحمن کے بندوں کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ کسی کی ناحق جان نہیں لیتے۔ البتہ اگر جان لینے کا حق ہو تو عدالت کے ذریعہ جان لی جاسکتی ہے جس کو شریعت میں قصاص کہا جاتا ہے۔ شریعت نے تو ہمیں کسی جانور کی بھی بلاوجہ جان لینے کا اختیار نہیں دیا ہے۔ انسان تو شریعت کی نظر میں نہایت اہم ہے لہذا رحمن کے بندوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ ناحق کسی کی جان نہیں لیتے۔ (7) رحمن کے بندوں کی ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ ناجائز جنسی تعلق قائم نہیں کرتے (زنا نہیں کرتے) کیونکہ یہ فعل انسانی معاشرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ جو بھی ایساکرے گا وہ یقیناً گناہ گار ہے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے اور قیامت میں اس کو دوگنی سزا دی جائے گی۔ (8) آٹھویں صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ حق و صداقت کے پیکر بنے رہتے ہیں اور جھوٹ اور فریب کے قریب سے بھی نہیں گذرتے۔ نہ وہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں نہ کسی سے دھوکے بازی اور فریب کا معاملہ کرتے ہیں۔ (9) رحمن کے بندوں کی نویں صفت یہ ہے کہ جب وہ کسی فضول محفل یا جگہ سے گذرتے ہیں تو نہ اس میں شرکت کرتے ہیں نہ ان کی ہمت افزائی کرتے ہیں نہ جھگڑتے ہیں بلکہ بڑے وقار و سنجیدگی سے وہاں سے گذرجاتے ہیں اور اپنی منزل کی فکر جاری رکھتے ہیں۔ (10) رحمن کے بندوں کی دسویں صفت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے اور ان کو ان آیات پر دھیان دینے کے لئے کہا جاتا ہے تو اس کو نظر انداز نہیں کرتے یا ان پر اندھے بہروں کی طرح بےتو جہی سے نہیں گرتے بلکہ پوری پوری توجہ سے سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (11) رحمن کے بندوں کی گیارہوں صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی باہ گاہ میں یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں ہماری اولاد اور گھر والوں میں ایسی برتک عطا فرما کہ جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور ہمیں نیکیوں میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ رحمن کے بندے ہیں ان کو ان کی نیکیوں کی وجہ سے اور صبر و تحمل کی وجہ سے ایسے بلند وب الا مکانات اور جنت کی راحتیں عطا کی جائیں گی جن کا وہ اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہر طرف دعائیں اور محبت و سلامتی کے پیغام ہوں گے۔ ان راحتوں اور سکون میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جو اہل ایمان کے لئے بہترین ٹھکانا ہوگا۔ آخر میں یہ فرمایا ہے کہ وہ رب العالمین بےنیاز ہے اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہ پکارے گی تو اس کی شان اور عظمت میں کوئی فرق پیدا نہ ہوگا۔ البتہ وہ لوگ جو اللہ کو پکارنے کی سعادت حاصل کرسکتے تھے اور وہ نہیں پکارتے تو وہ اس نیکی سے محروم رہیں گے اور آخرت میں وہ سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔ رحمن کے بندوں کی مذکورہ صفات پر سورة الفرقان کو ختم فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو رحمن کا سچا بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت کی تمام کامیابیاں نصیب فرمائے۔ آمین الحمد للہ ان آیات کا ترجمہ اور تشریح مکمل ہوئی واخرو دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
Top