Baseerat-e-Quran - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے۔ میں تمہارے پاس یا تو (راستے کی ) خبر لاتا ہوں یا آگ کا شعلہ (انگارہ) لے کر آتا ہوں تاکہ تم اس سے گرمائی حاصل کرسکو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 7 تا 14 : (اھل) گھروالے۔ اہل خانہ) ‘ انست ( میں نے دیکھا) شھاب (شعلہ) ‘ قبس (انگارہ) نودی (آوازدی گئی) ‘ تصطلون (تم سینکو۔ گرمائی حاصل کرو) ‘ بورک (برکت دی گئی) ‘ حول ( اردگرد۔ آس پاس) ‘ تھتز (لہراتا ہے) ‘ جان (سانپ۔ اژدھا) ‘ مدبرا (پیٹھ پھیرنے والا) ‘ لم یعقب (مڑکرنہ دیکھا) ‘ مبصرۃ (آنکھیں کھولنے والی) ‘ استیقنت ( یقین کرلیا) ‘ علو (بڑائی۔ تکبر) عاقبۃ (انجام۔ نتیجہ) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 7 تا 14 : ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو اس سورت کے مضامین کے لحاظ سے دوبارہ ارشاد فرمایا گیا ہے جب وہ مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس دس سال گذارنے کے بعد اپنے گھروالوں کے ساتھ واپس مصر تشریف لارہے تھے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سردی کی رات اور اندھیرے کی وجہ سے مصر کا راستہ بھول گئے تھے۔ دور دور تک کوئی شخص بھی نہ تو راستہ بتانے والا تھا اور نہ سردی سے بچنے کا سامان تھا۔ یہ جگہ وادی سینا یا وادی طوی کے قریب واقع تھی۔ آپ نے جب ایک جلتی ہوئی آگ کو دیکھا تو اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ ذرا تم ٹہرو میں نے ایک جلتی آگ کو دیکھا ہے شاید وہاں کوئی راستہ بتانے والا مل جائے یا کم ازکم میں تھوڑی سے آگ یا انگارہ ہی لے آؤں گا تاکہ سردی سے بچائو کیا جاسکے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب اس آگ سے کچھ قریب ہوئے تو ایسا محسوس ہو اجیسی کسی جھاڑی یا درخت میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ ایک ہرا بھرا درخت ہے۔ جب موسیٰ اس آگ کی طرف بڑھے تو وہ آگ آپ سے دور ہونے لگی اور جب آپ پیچھے ہٹتے تو ایسا لگتا جیسے آگ ان کا پیچھا کررہی ہے۔ آپ اسی حیرت و تعجب میں تھے کہ اس جھاڑیا درخت میں سے ایک آواز بلند ہوئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ آگ کے اندر ہے یا اس کے ارد گرد ہے وہ مبارک و برکت والا ہے۔ اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے اور وہی رب العالمین ہے۔ فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) یہ میں ہی اللہ ہوں جس کی حکمت ہر چیز پر غالب ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھنا شروع کیا کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کیونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ آواز ہر سمت اور جانب سے آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ ! تم اپنا عصا (لاٹھی) کو پھینکو۔ جیسے ہی انہوں نے اپنے عصا کو پھینکا تو وہ ایک اژدھا بن گیا جو پتلے سانپ کی طرح نہایت پھر تیلا اور دوڑ نے والا تھا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اژدھا کو دیکھا تو بشری تقاضے کے تحت ان پر ایک خوف طاری ہوگیا اور انہوں نے خوف کے مارے اس طرح بھاگنا شروع کیا کہ پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھا اللہ کی طرف سے آواز آئی کہ اے موسیٰ ! تم ڈرو مت کیونکہ میرے سامنے رسول ڈرا نہیں کرتے۔ ڈر تو اس شخص کو ہوتا ہے جو کسی قسم کی کوتاہی یا گناہ کرتا ہے۔ پھر بھی اگر وہ پلٹ آئے اور توبہ کرلے تو اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے وہ معاف کردیتا ہے چونکہ آپ نے تو کوئی خطا کی نہیں ہے لہٰذا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ اے موسیٰ ! اپناہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالیے وہ بغیر کسی عیب یا بیماری کے (چاند کی طرح) چمکتا ہو نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو یہ دونوں معجزات دیکر ارشاد فرمایا کہ اب آپان دونوں معجزات کو لے کر فرعون کے دربار میں بےخوف و خطر پہنچ جائیے۔ اور اس کو اور اس کی نافرمان قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے کیونکہ وہ لوگ بہت زیادہ حد سے نکل چلے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طرح طرح کے نو معجزات عطا فرمائے مگر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کی قوم نے اپنے ظلم وتکبر سے توبہ نہیں کی اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے فرعون اور قوم فرعون کو ان کے فساد کی وجہ سے بھیانک انجام سے دوچار کیا اور پانی میں ڈبو دیا گیا۔ سورۃ النمل کی ان آیات کی مزید تشریح اور وضاحت یہ ہے کہ (1) اللہ تعالیٰ جسم اور جسمانیت سے پاک ذات ہے۔ اس موقع پر یہ بات ایک دفعہ اور عرض ہے کہ اس جھاڑیا درخت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو چمک ‘ آگ اور روشنی نظر آئی ہے وہ اللہ کا نور اور تجلی ہے جو اس درخت پر ڈال دی گئی تھی۔ اس آگ کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ نے اس درخت میں حلول کرلیا تھا بلکہ محسوسات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دکھایا گیا کہ یہ درخت میں لگی ہوئی آگ ‘ یہ دنیا کی آگ نہیں ہے بلکہ اللہ کی تجلی کا عکس ہے جو نظر آتا ہے۔ آگ کی شکل میں اس لئے دکھائی گئی کہ اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آگ اور روشنی کی ضرورت تھی۔ (2) یہ غیبی آواز جو اس درخت سے معجزاتی طور پر آرہی تھی اس کی کوئی سمت یا جہت مقرر نہیں تھی بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ آواز ہر طرف سے آرہی ہیجس کو صرف حضرت موسیٰ کے کان ہی نہیں بلکہ تمام اعضاء یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ سن رہے تھے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے اس وادی طوی میں حضرت موسیٰ کو دو معجزات عطا فرمائے عصا کا اژدھا بن جانا اور بغل میں سے ہاتھ نکالنا جو چاند کی طرح چمکدار اور روشن ہوجاتا تھا۔ بقیہ معجزات مختلف اوقات میں عطا فرمائے۔ (1) جادو گروں کی شکست اور فرعون کی ذلت۔ (2) شدید ترین قحط سالی (3) ٹڈیوں کا عذاب (4) غلے اور اناج میں سرسریوں کا پڑجانا۔ (5) ہر چیز میں خون کا عذاب۔ (6) مینڈکوں کا عذاب۔ (7) طوفان۔ جب بھی ان میں سے کوئی عذاب آتا تو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتے ‘ دعا کی درخواست کرتے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب ٹل جاتا تو پھر سے اسی طرح اپنی نافرمانیوں میں لگ جاتے تھے۔ غرضیکہ جب یہ قوم حد سے آگے بڑھ گئی اور فساد فی الارض کی انتہاؤں پر پہنچ گئی تب اللہ کا فیصلہ آگیا اور فرعون اور اس کے تمام لشکر کو تباہ و برباد کردیا گیا اور پانی میں ڈبودیا گیا۔ اس کے برخلاف اللہ نے حضرت موسیٰ اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمادی۔ (4) ظلم و زیادتی اور تکبر و غرور ایسی بڑی خرابی ہے جو انسان کو حق و صداقت کی راہوں سے روک دیتی ہے اور اس برے انجام تک پہنچا دیتی ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔
Top