Baseerat-e-Quran - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
کسی مومن مرد اور عورت کے حق میں جب اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردیں تو پھر ان کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں جا پڑا ۔
لغات القرآن : آیت نمبر 36 تا 40 الخیرۃ : اختیار امسک : روک لے مبدی : ظاہر کرنے والا وطر : حاجت زوجنا : ہم نے نکاح کردیا ادعیاء : بلاتے ہیں۔ پکارتے ہیں یبلغون : وہ پہنچاتے ہیں یخشون : وہ خوف رکھتے ہیں۔ ڈرتے ہیں حسیب : حساب لینے والا تشریح : آیت نمبر 36 تا 40 ان آیات میں حضرت زید ؓ ابن حارثہ سے حضرت زینب ؓ کا نکاح ، طلاق ، پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ سے حضرت زینب ؓ کا نکاح ، منہ بولے بیٹوں کی شرعی حیثیت کے اہم ترین مسئلوں کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ حضرت زید ؓ ابن حارثہ بنو کلب کے حارثہ ابن شراحیل کے بیٹے تھے ۔ والد کا نام سعدٰی بنت ثعلبی تھا اور ان کا تعلق قبیلہ طے کی شاخ بنی معن سے تھا ۔ جب حضرت زید آٹھ دس سال کے تھے تو ان کو والدہ ان کو ساتھ لے کر اپنے میکے روانہ ہوئیںَ راستے میں بنی قین ابن جسر نے حملہ کرکے ان کا تمام مال وا سباب لوٹ لیا اور مردوں ، عورتوں اور بچوں کو اپنا غلام بنالیا۔ ان ہی میں حضرت زید ؓ کو بھی انہوں نے اپنا غلام بنالیا تھا۔ جب عکاظ کے میلے میں ان کو فروخت کرنے کے لئے لایا گیا تو حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے حکیم اب حزام نے ان کو خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کو تحفہ کے طور پر پیش کیا۔ جب نبی کریم ﷺ کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوا تو ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری ؓ نے حضرت زید ؓ کو ایک غلام کی حیثیت سے آپ ﷺ کو ہبہ (Gift) کردیا۔ اس طرح حضرت زید کو حضور اکرم ﷺ کی خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے بھی حضرت زید ؓ کی تربیت فرمائی اور آپ کی صلاحتیوں کو دیکھ کر ان سے محبت فرمائی۔ جب حضرت زید کے والدین کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا مکہ مکرمہ میں ہے تو ان کے والد اور چچا حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ار کہا کہ زید ہمارا بیٹا ہے آپ جو بھی معاوضہ طے کریں گے وہ ہم پیش کردیں گے۔ آپ زید کو آزاد کر دیجئے اور ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ بنی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آپ لوگ خود زید سے پوچھ لیں اگر وہ جانا چاہتا ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہتا ہے تو میں ایسا آدمی ہوں کہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں اس کو نکا دوں ۔ حضرت زید کے ولاد اور چچا نے کہا یہ تو آپ نے بہت اچھی بات کہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس رہنا چاہتے ہو تو تمہاری مرضی۔ حضرت زید ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کو چھوڑ نہین جاسکتا ۔ والد اور چچا نے کہا کیا تم آزادی کے مقابلے میں غلامی پسند کرتے ہو۔ حضرت زید نے کہا میں نے آپ ﷺ کے اندر وہ کمالات ، اوصاف اور عظمتیں دیکھی ہیں کہ اب میں کسی اور کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ حضرت زید ؓ نے کہا میں نے آپ ﷺ کے اندر وہ کمالات ، اوصاف اور عظمتیں دیکھی ہیں کہ اب میں کسی اور کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ حضرت زید ؓ کا یہ جواب سن کر ان کے والد اور چچا واپس چلے گئے۔ آپ نے اسی وقت حضرت زید کو آزاد کر کے قریش کے بھرے مجمع میں اعلان کردیا کہ لوگو ! تم گواہ رہنا میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔ اس کے بعد سب لوگ ان کو زید ابن محمد کہنے لگے کیونکہ اس زمانہ میں منہ بولابیٹا حقیقی اور صلبی بیٹا سمجھا جاتا تھا جو وراثت کا حق دار بھی ہوا کرتا تھا۔ اگر چہ اس دور میں یہ ایک عام بات تھی جس کا رواج تھا مگر اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ تھے۔ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعہ اس رسم کو مٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جو دنیا سے رنگ و نسل اور آقا و غلام کے ہر فرق کو مٹانے کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے آپ نے حضرت زید کا نکاح بنو قریش کی ایک آزاد ، خود مختار اور معزز خاتون جو آپ کو پھوپھی امیمہ بنت عبدالطیف کی صاحبزادی حضرت زینب تھیں ان سے کرنے کا فیصلہ فرمالیا۔ جب حضرت زینب ؓ ، ان کے گھر والوں اور قریش کو معلوم ہوا تو انہوں نے اس پر سخت اعتراض کیا کہ حضرت زید ایک آزا اد کردہ غلام تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرکے فرمایا کہ جب اللہ اور اس کے رسو ل کسی مومن مرد یا عورت کے لئے کوئی فیصلہ کردیں تو پھر کسی کا اختیار باقی نہیں رہتا کیونکہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی ہوئی گمراہی میں جاپڑے گا۔ اس حکم کے آنے کے بعد حضرت زینب، ان کے بھائی اور خاندان کے لوگ اس نکاح پر راضی ہوگئے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان دونوں کا نکاح خود پڑھایا اور حضرت زید کی طرف سے مہر ادا کیا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ مہر دس دینار سرخ (چار تولے سونا) اور ساٹھ درہم (اٹھارہ تولے چاندی) ایک بار برداری کا جانور ، ایک زنانہ جوڑا، پچاس مد آٹا (پچیس کلو آٹا) اور دس مد (پانچ کلو ) کھجوریں دے کر رخصت کیا۔ (ابن کثیر) یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر میاں بیوی کے درمیان مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہو تو زندگی بےمزہ اور بےرونق ہو کر رہ جاتی ہے۔ حضرت زید بن حارثہ کا نکا 4 ھ میں ہوا تھا۔ مگر زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ دونوں میں بات بات پر اختلاف اور جھگڑے شروع ہوگئے یوں طلاق تک نوبت پہنچ گئی ۔ حضرت زید نے روانہ کے جھگڑوں سے تنگ آکر جب طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا اور نبی کریم ﷺ کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ نے ان دونوں کو اچھی طرح سمجھایا اور اللہ کے خوف سے ڈرایا مگر دونوں میں خلیج بڑھتی چلی گئی اور ایک دن حضرت زید ؓ نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی۔ اس وقت آپ کے دل میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہونا شروع ہوگئے جس کو ظاہر کرنا بھی مشکل تھا۔ آپ سوچتے تھے کہ جب آپ نے بنو قریش کی ایک لڑکی کا نکاح آزاد غلام سے کیا تھا اور پورے خاندان نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے آگے اپنا سر جھکا دیا تھا مگر طلاق کے بعد یقینا پورے خاندان پر اس کا گہرا اثر پڑے گا اور سب اپنی توہین محسوس کریں گے ۔ دوسری طرف اللہ نے یہ فیصلہ فرمادیا تھا کہ اب اس رنج و غم سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ نبی کریم ﷺ عدت گذرنے کے بعد حضرت زینت ﷺ سے خود نکاح کرلیں تاکہ بنو قریش جس غم سے نڈھال ہیں وہ اس باہر آسکیں۔ لیکن اس میں ایک زبردست دشواری یہ تھی کہ آپ نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا جو اس زمانے کے دستور کے مطابق حقیقی بیٹوں کی طرح ہوتا تھا۔ اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے میں کفار مشرکین کی طرف سے زبر دست پروپیگنڈے کا اندیشہ تھا۔ یہ تمام فکریں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ اس رسم کو آپ کے ذریعے ہی ختم کرایاجائے۔ چناچہ حضرت زینب ؓ کی عدت گذرتے ہی آپ نے حضرت زینب سے نکاح کرلیا۔ بنو قریش تو خوش تھے مگر منافقین ، کفار و مشرکین نے آپ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کرکے رکھ دیا کہ (حضرت ) محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ پروپیگنڈہ اس قدر شدید تھا کہ پرانے رسم و رواج کے دل دادہ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں اور حکم دیا کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو پھر آپ کسی کی پرواہ نہ کریں کیونکہ آپ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ۔ اگر آپ اس رسم کو نہ مٹائیں گے تو پھر قیامت تک کوئی اور نبی نہیں آئے گا جو اسی بری رسم کو مٹا سکے گا ۔ اللہ تعالیٰ تمام باتوں کی حقیقت اور اس کے انجام سے پوری طرح واقف ہے۔ گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ اے محمد ﷺ آپ اللہ کے آ خری نبی اور رسول ہیں جن پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے لہذا اگر قانون اور معاشرہ میں کوئی اصلاح آپ کے زمانہ میں نہ ہوئی تو پھر آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے جو اس کمی کو پورا کرسکے گا۔ لہذا آپ اپنے اوپر برداشت کرکے اس جاہلیت کی رسم کو مٹالیں ڈالیں اور کسی کے کہنے سننے کی پر واہ نہ کریں۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند ضروری باتیں (1) اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ ایک مومن مرد یا ایک مومن عورت کو جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم دیں تو اس کے بعد سرتابی یا انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ اختیار صرف اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہے اور کسی کو حاصل نہیں ہے لہذا اللہ و رسول کے سامنے اپنے آزادانہ اختیار کو چھوڑ دینا سب سے بڑی سعادت ہے۔ (2) قرآن کریم میں بہت سے پغمبروں کا نام لے کر ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بڑے بڑے اکا صحابہ ؓ کا اشاروں میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ لیکن ان کا نام نہیں لیا گیا صرف حضرت زید ؓ ابن حارثہ کا نام لے کر ان کا ذکر فرمایا گیا ہے جو ان کی عظمت کا بہترین اظہار ہے۔ (3) حضرت زید ؓ ابن حارثہ رسول اللہ ﷺ کا یہ احسان تھا کہ آپ نے ان کی تعلیم و تربیت فرمائی۔ آپ نے ان کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود آپ نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓ سے کر کے حضرت زید ؓ کی طرف سے ان کا مہر ادا کیا۔ جب دونوں میاں بیوی میں اختلاف شدت اختیار کر گئے تو آپ نے ان دونوں کو اچھی طرح سمجھایا، اللہ کے خوف سے ڈرایا اور ہر اونچ نیچ کو سمجھانے کی کوشش کی حضرت زید ؓ پر اللہ کا یہ احسان تھا کہ اس نے ان کو دولت ایمان سے مالا مال کیا۔ قرآن کریم میں ان کا نام لے کر ذکر کرنے سے ان کی عزت کو چار چاند لگا دیئے ۔ (4) جب حضرت زید ؓ نے حضرت زینب کو طلاق دے دی تو حضرت زینب کی ذہنی الجھنوں اور خاندان کی رسوائی سے آپ سخت پریشان تھے۔ جب اللہ کی طرف سے آپ کو اشارہ مل گیا کہ حضرت زینب کی عدت گذرتے ہی آپ ان سے نکاح کرلیں تو آپ کو اس سے بھی زیادہ فکر پیدا ہوگئیں کیونکہ آپ کو اس کا ڈر تھ کہ کفار و مشرکین اس نکاح پر یہ کہہ کر طعنے دیں گے کہ آپ نے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اللہ نے ایک چیز کا فیصلہ کردیا ہے اور آپ کا نکاح حضرت زینب ؓ سے کردیا تو آپ کی شان کے خلاف ہے کہ آپ اس کے بعد لوگوں کے طعنوں اور باتوں سے پریشان ہوں کیونکہ جس دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے اس دل میں کسی دوسرے کا کوئی خوف نہیں ہوا کرتا۔ (5) آپ اگرچہ روحانی اعتبار سے ہر ایک کے باپ سے بڑھ کر ہیں مگر مردوں میں سے آپ کسی کے باپ نہیں ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے حضرت زید ؓ کو زید ابن محمد کہنا چھوڑ دیا اور آپ کو پھر سے زید ؓ ابن حارثہ کہا جانے لگا۔ (6) حضرت زید کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو حضرت خدیجہ ؓ ، حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت علی مرتضیٰ کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہیں۔ (7) قرآن و حدیث اور اجماع امت کا یہ متفقہ فیصلہ اور عقیدہ ہے کہ نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ہر طرح کی نبوت و رسالت کی تکمیل ہوچکی ہے۔ لہذا آپ کے بعد کسی دوسرے نبی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اور اس کے ماننے والے تمام لوگ قطعاً کافر ہیں اور ملت اسلامیہ سے خارج ہیں اس پر تمام محدثین مفسر ین اور علماء امت متفق ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کے سلسلہ میں امت کی کبھی دورائے نہیں رہی ہیں بلکہ پوری امت آج بھی اور اس سے پہلے بھی اس بات پر متفق ہے کہ آپ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے بعد میں کوئی کسی طرح کا نبی آیا ہے اور نہ آئے گا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے ” خاتم النبین “ کی غلط تعبیر اور تشریح کر کے جس طرح لوگوں کو جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ خاتم کا لفظ اسٹیمپ کیلئے نہیں بلکہ سیل کردینے کے لئے آیا ہے ۔ جس طرح کسی لفافے کو سیل کردیا جائے تو اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اب یہ لفافہ بند ہوچکا ہے اور اس پر سیل لگ گئی ہے اب کوئی چیز نہ تو باہر سے اندر جاسکتی ہے اور نہ اندر سے باہر آسکتی ہے۔ ختم نبوت پو پوری امت کا پختہ یقین ہے اور وہ ان لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں جو مرزا غلام قادیانی یا اس جیسے کسی شخص کو نبی مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوری امت کو اس عظیم فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین
Top