Baseerat-e-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو ! اپنے اوپر اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے تھے پھر ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور ایسے لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ دیکھنے والا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 9 تا 13 جنود (جند): لشکر۔ بہت سے لشکر ریح : ہوا، آندھی لم تروا : تم نے نہیں دیکھا فوق : اوپر زاغت : کھلی رہ گئی الحناجر : کلیجہ ھنالک : اسی جگہ غرور : دھوکا۔ فریب ارجعوا : تم لوٹ جاؤ یستاذن : وہ اجازت چاہتا ہے عورۃ : غیر محفوظ فرار : بھاگنا تشریح : آیت نمبر 9 تا 13 مدینہ منورہ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے آباد تھے بنو قریظہ اور بنو نضیر۔ مدینہ منورہ میں بسنے والے تمام قبیلوں سے آپ ﷺ نے امن و سلامتی قائم رکھنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے ایک معاہدہ کیا تھا جس میں ایک شرط یہ بھی مقرر کی گئی تھی کہ بعد نضیر نے بد عہد کی اور نبی کریم ﷺ کو قتل تک کرنے کی سازش کر ڈالی۔ پوری تخلیق کرلینے کے بعد آپ نے بنو نضیر کو دس دن کی مہلت دے کر فرمایا کہ وہ مدینہ منورہ سے نکل جائیں جا کر آباد ہوجائیں۔ دس دن کی مہلت گذرنے کے بعد آپ نے ان کا محاصرہ کرلیا ۔ تنگ آکر یہو دی نکلنے کے لئے تیار ہوگئے۔ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ تین آدمی ایک اونٹ پر جتنا سامان لاد کرلے جاسکتے ہوں لے جائیں بقیہ سب کچھ چھوڑ کر مضافات مدینہ سے نکل جائیں ۔ چناچہ یہودیوں کا یہ قبیلہ خیبر میں جا کر آباد ہوگیا۔ بنو نضیر چپ بیٹھنے والے نہ تھے انہوں نے بنی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو مٹانے کی سازشیں شروع کردیں ۔ چناچہ بنو نضیر اور قبیلہ ابو دائل کے تقریبا ً بیس آدمی مکہ مکرمہ اور انہوں نے قریشیوں سے کہا وہ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ورنہ جس طرح آج بنو نضیر نکال دیئے گئے ہیں تمام لوگوں کا انجام اس سے مختلف نہ ہوگا۔ قریش تو جنگ بدر اور جنگ احد میں طرح شکست کھا کر انتقام کی آگ میں جل رہے تھے وہ تیار ہوگئے۔ ان بیس آدمیوں اور قریشیوں نے مسجد حرام میں جاکر بیت اللہ کی دیواروں سے اپنے سینے لگا کر عہد کیا کہ جب تک ہم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہے وہ (حضرت ) محمد ﷺ کے خلاف جنگ کرتا رہے گا۔ بنو نضیر کے یہودی اس کوشش میں کامیاب ہونے کے بعد ایک زبر دست جنگ جو قبیلہ بنو غطفان کے عینیہ ابن حصین کے پاس پہنچے انہوں نے اپنے اور قریشیوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی تفصیل بتائی اور بنو غطفان کو اس جنگ میں شریک کرنے کے لئے اس بات کا لالچ بھی دے دیا کہ اگر وہ اس جنگ میں ان کا بھر پور ساتھ دیں گے تو اس سال ان کے ہاں جتنی بھی کھجوریں پیدا ہوں گی وہ ان کو دے دی جائیں گی۔ سردار قبیلہ نے ان کی اس شرط کو مان کر ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا۔ قریشیوں اور بنو غطفان کی حمایت کے بعد انہوں نے عرب کے تمام قبائل کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ یہ اتحادی فوجیں (Collation) اپنی پوری طاقت و قوت کے ساتھ مدینہ کے چاروں طرف سے زبر دست حملہ کریں گے اور غربت و افلاس کی زندگی گذارنے والے مسلمانوں کو پوری طرح تباہ و برباد کرکے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں گے۔ بنو نضیر نے مدینہ کے یہودی قبیلے بنو قریظہ کو بھی اس جنگ میں شرکت کی دعوت دی تاکہ اندر اور باہر سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی جائے ۔ نبی کریم ﷺ کو اپنے جاسوسوں کے ذریعہ کی زبردست جنگی تیاریوں کی اطلاع مل رہی تھی ۔ آپ نے اس تمام صورتحال سے اپنے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کو آگاہ کردیا۔ آپ نے حسب عادت صحابہ کرام ؓ سے مشورہ فرمایا کہ اس صورتحال کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے نہایت ادب و احترام سے غرض کیا یا رسول اللہ ہمارے ملک فارس میں خند قیں کھود کر پہلے اپنی حفاظت کی جاتی ہے اور پھر دشمن کا مقابلہ کیا جاتا ہے نبی کریم ﷺ نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور طے کیا کہ مدینہ منورہ کے اطراف میں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا۔ آپ مہاجرین و انصاری کو دس دس آدمیوں کی جماعت میں تقسیم کرکے ہر دس آدمیوں کو چالیس چالیس ہاتھ خندق کھودنے کا حکم دیا ۔ تمام صحابہ کرام ؓ اور خود نبی کریم ﷺ نے پیٹ سے پتھرباندھ کر نہایت فقر و فاقہ کی حالت کے باوجودہ صرف چھ دن میں ساڑھے تین میل لمبی اور پانچ پانچ فٹ گہرائی اور مناسب چوڑائی کے ساتھ اس خندق کو مکمل فرمایا۔ خندق چوڑائی اور گہرائی اتنی زیادہ تھی کہ دشمن اس کو پار نہیں کرسکتا تھا۔ آپ نے خندق کے آس پاس تیر اندازوں کو بٹھا دیا تاکہ جو بھی اس خندق کو پار کرنے کی کوشش کرے اس کو تیروں سے چھلنی کردیا جائے۔ آپ نے اندرونی طور بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو بنو قریظہ کی بستیوں کے قریب ٹھہرا دیا کیونکہ بظاہر یہ جگہ عورتوں ، بچوں اور ضعیفوں کے لئے محفوظ تھی ۔ ادھر پورا عرب ان نہتے اور کمزور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے پر جوش طریقے پر تیاریوں میں لگ گیا تھا ۔ قریشیوں نے چار ہزر لڑاکا جوان، تین سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ اس جنگ کے لئے تیار کر لئے۔ جب یہ لشکر مکہ مکرمہ سے اپنی پوری تیاریوں کے ساتھ نکلا تو راستے میں بنو غطفان اور دوسرے قبیلے بھی اس لشکر میں شامل ہوتے چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ان کی تعداد پندرہ ہزار تک جا پہنچی تھی۔ ادھر مسلمانوں کی تعداد تین ہزار تھی جس میں بہت سے منافق بھی شامل ہوگئے تھے۔ جب آپ نے کفار کی تیاریوں اور لشکروں کی روانگی کا حال سنا تو آپ نے فرمایا حسبنا اللہ و نعم الوکیل یعنی ہمیں اللہ کا فی ہے اور وہی مشکل کشا ہے۔ یہ وقت مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش کا وقت تھا ایک طرف سارا عرب اور اس کی طاقت تھی جو ہر طرح کے ہتھیاروں سے مسلح تھا اور وہ بڑے فخر و غرور کے ساتھ تیزی سے مدینہ منورہ کی طرف بڑھ رہا تھا ادھر بےسرو سامانی اور فقر و فاقہ تھا۔ جب عام مسلمانوں کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس طوفانی کے آنے سے چاروں طرف خوف و ہر اس پھیل گیا اور کمزور دل مسلمانوں کے اوسطان خطا ہوگئے ۔ وہ منافق جو قتی طور پر ساتھ ہوگئے تھے انہوں نے کھلم کھلا کہنا شروع کردیا کہ ہم سے تو قیصرو کسری کے ایوانوں کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اب تو ہمارے کلیجے منہ کو آرہے ہیں اور پوری عرب کی طاقتیں جمع ہو کر ہمیں مٹانے کے لئے آنے ہی والی ہیں۔ ہم اتنے زبردست لشکر کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ انہوں نے یہ کہ کر نبی کریم ﷺ سے واپس جانے کی اجازت چاہی اور آپ سے، ہم اتنے زبر دست لشکر کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ انہوں یہ کہہ کر نبی کریم ﷺ سے واپس جانے کی اجازت چاہی اور آپ سے جس نے بھی اجازت مانگی آپ نے اس کو اجازت دے دی۔ جن لوگوں کا اللہ پر اعتماد تھا انہوں نے کہا اللہ کی مدد ضرور آئے گی اور وہ اللہ ہمیں ان کفار کے مقابلے میں پست نہیں فرمائے گا۔ ان کا اس بات پر ایمان تھا کہ انہیں ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے اگر انہوں نے میدان جنگ کو چھوڑ دیا تو ان کو دنیا اور آخرت کی رسوائی سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ اس تصور کے ساتھ ہی اہل ایمان کفار کا مقابلہ کرنے کے لئے ڈٹ گئے۔ جب کفار کا لشکر مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو وہ اس خندق اور جنگ کے انداز کو دیکھ کر حیران رہ گیا اب اس خندق کے ایک طرف کفار و مشرکین کے لشکر نے پڑائو ڈال دیا تھا اور دوسری طرف مسلمان بڑی مستعدی سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ جب کفار کا لشکر مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو وہ اس خندق اور جنگ کے انداز کو دیکھ کر حیران رہ گیا اب اس خندق کے ایک طرف کفار و مشرکین کے لشکر نے پڑائو ڈال دیا تھا اور دوسری طرف مسلمان بڑی مستعدی سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ کفار کے لشکر میں سے کچھ لوگوں نے اس خندق کو پار کرنے کی کوشش کی تو ان پر تیروں کی بو چھاڑ کردی گئی جس سے وہ بھاگ گئے۔ یہ سردی کا سخت موسم تھا۔ کھانے پینے کی چیزوں کی کمی تھی۔ بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے جذبہ جہاد سے سرشار اہل ایمان کفار کی ہر نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ جب اس محاصرہ کو بیس دین سے زیادہ ہوگئے اور مدینہ منورہ میں گھسنے سے عاجز ہوگئے تو انہوں نے بنو قریظہ کو اس غداری پر آمادہ کرلیا کہ وہ اپنے وعدے کو توڑ کر اندر سے مسلمانوں پر حملے کریں اور باہر سے وہ حملے کریں گے۔ بنو قریظہ نے جب غداری پر کمر باندھی آپ ﷺ کو اور صحابہ کرام ؓ کو اس کی اطلاع سے خاص تشویش پیدا ہوگئی کیونکہ تمام عورتیں ، بچے اور بوڑھے اسی علاقے میں جمع کرلئے گئے تھے جو بنو قریظہ کے قریبی علاقے تھے۔ جب اہل ایمان نے اپنے ایثار و قربانی کا عظیم مظاہرہ کیا تو اللہ نے ان کی اس طرح مدد فرمائی کہ کفار کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑا۔ مکہ کے وہ لوگ جو اتنی سردی کے عادی نہ تھیان کے لئے موسم کی ٹھنڈک ناقابل برداشت ہوگئی تھی وہ تو یہ سمجھ کر آئے تھے کہ اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور ہم دو ایک دن میں فتح کے جھنڈے لہراتے ہوئے مدینہ پر قبضہ کرلیں گے لیکن تقریبا ایک مہینہ کے محاصرہ نے ان کو نڈھال کر کے رکھادیا۔ ادھر بنو قریظہ اور ان اتحادی فوجوں کے درمیان غلط فہمی پیدا ہونے سے یہ متحدہ فوج مایوس ہوگئی تھی اور آخر کا شدید سردی اور طوفانی ہوائوں سے تنگ آکر یہ اتحادی فوجیں بھاگنے پر مجبور ہوگئیں اور ایک دن صبح کو اہل ایمان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ رات کے اندھیرے میں ساری اتحادی فوجیں بھاگ کھڑی ہوئیں۔ اہل ایمان صحابہ کرام ؓ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اب یہ لوگ کبھی ہم پر حملہ نہ کریں گے بلکہ ان پر حملہ کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے زیر مطالعہ آیات میں ان ہی واقعات کی طرف اشارہ کرکے اے ایمان والو ! تم اللہ کی اس نعمت کی قدر کرو جب کہ تمہارے اوپر بہت سے لشکر چڑھ آئے تھے پھر ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور ایسے لشکر سے تمہاری مدد کی جو تمہیں نظر نہ آتا تھا۔ اللہ تو ہر اس عمل کو دیکھتا ہے جو تم کرتے ہو فرمایا کہ تم اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے اوپر سے اور نیچے سے لشکر وہ چڑھ دوڑے تھے۔ جب تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں ۔ تمہارے کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کر رہے تھے یہ ایک شیدی آزمائش کا وقت تھا اور یاد کرو جب منافقین جن کے دل میں روگ تھا وہ کہنے لگے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو بھی وعدے کئے تھے وہ سوائے دھوکے اور کچھ نہ تھے ۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اے یثرب والو ! (مدینہ والو ! ) ت تمہارے لئے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے تم سب لوٹ چلو ۔ ایک گروہ نے اجازت مانگنا شروع کردی تھی اور کہنے لگے تھے کہ ہمارے گھر محفوظ نہیں ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ سب ان عذر تھے در حقیقت وہ یونہی جان بچا کر بھاگنا چاہتے تھے۔ ولو دخلت ولا نصیرا ۔
Top