Baseerat-e-Quran - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو ۔ اللہ تو بےنیاز اور تمام تعریفوں والا ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 15 تا 26 فقرائ ( محتاج ، ضرورت مند) الغنی ( بےنیاز ، جو کسی کا محتاج نہ ہو) الحمید (جس کی ذات میں ہر طرح کی خوبیاں موجود ہوں) لا تزر (بوجھ نہیں اٹھاتا ہے) مثقلۃ ( لدا ہوا بوجھ) حمل (بوجھ) مسمع ( سنانے والا) خلا (گزر گیا) زبر (صحیفے ، کتابیں) نکیر (عذاب) تشریح : آیت نمبر 15 تا 26 :۔ انسان کی سب سے بڑی بھول اور نادانی یہ ہے کہ وہ اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کے لئے ایک اللہ کو چھوڑ کر بہت سی ایسے کمزور اور ناقابل اعتبار سہاروں میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے جن کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہوتی اور اس طرح وہ زندگی بھر گمراہی کے اسی دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ ایسے نادانوں سے فرمایا گیا ہے کہ انسان اور دنیا کی تمام چیزیں اسی ایک اللہ کی محتاج ہیں اس بےنیاز اور تمام تعریفوں کی مستحق ذات نے انسان کو پیدا کر کے اس کے لئے زندگی گزارنے کے اسباب عطاء فرمائے ہیں ۔ اب اگر وہ ان کفار و مشرکین کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹا کر کسی دوسری ایسی مخلوق کو لے آئے جو ہر طرح اس کی اطاعت گزار اور فرماں بردار ہو تو یہ اس کے لئے کوئی مشکل اور دشوار کام نہیں ہے۔ ارشاد ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال و کردار کا خود ذمہ دار ہے اور قیامت کے ہولناک دن کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ۔ رشتہ دار ، دوست احباب یہاں تک کہ مشفق و مہر بان ماں باپ بھی اس کو سہارا دینے سے انکار کردیں گے اور ہر ایک اس طرح اپنی فکر میں لگا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد نہ کرسکیں گے اور اس طرح وہ اپنی بد عملیوں کے سبب جہنم کے ابدی عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ اس کے بر خلاف ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والے جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار ہوں گے۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو ان کے اعمال کے برے انجام اور عذاب جہنم سے ڈراتے رہیے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں وہی ان باتوں پر غور و فکر کریں گے اور اس پر دھیان دیں گے۔ لہٰذا جو لوگ ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے ظاہری و باطنی پاکیزگی حاصل کریں گے وہی آخرت کے تمام فائدے حاصل کرسکیں گے۔ اور جب وہ اللہ کی طرف لوٹیں گے تو کامیاب و بامراد ہوں گے۔ فرمایا کہ وہ لوگ اتنا بھی غور نہیں کرتے کہ ایک اندھا اور آنکھوں والا ، اندھیرا اور روشنی جھلسا دینے والی گرم ہوا اور درختوں کی ٹھنڈی ہوا اور چھاؤں ، مردہ اور زندگی برابر نہیں ہوتے تو وہ لوگ جو گناہوں بھری زندگی گزار رہے ہیں وہ ان کے برابر اور انجام کے اعتبار سے ایک کیسے ہو سکتے ہیں جو ایمان اور عمل صالح اختیار کر کے زندگی گزار رہے ہیں ؟ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان سچائیوں کو سمجھنے کے باوجود اگر لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہیں اور ان پر روحانی موت طاری ہوچکی ہے اور وہ مردوں کی طرح سن نہیں سکتے تو اگرچہ ان کو سنانا یا نہ سنانا برابر ہے مگر آپ کا کام یہ ہے کہ ان کو برے انجام سے ڈراتے رہیے۔ کیونکہ ہم نے آپ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ اگر وہ ضد ، ہٹ دھرمی اور جہالت کی وجہ سے آپ کو جھٹلاتے ہیں تو اس میں پریشان اور رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر آئے ہیں ان کو اسی طرح کے حالات سے واسطہ پڑا ہے حالانکہ وہ صحیفے اور روشن کتابیں بھی لائے تھے لیکن کافروں نے ان کا انکار کیا اور اس طرح وہ اپنے برے انجام سے دو چار ہو کر رہے۔
Top