بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Az-Zukhruf : 1
حٰمٓۚۛ
حٰمٓ : حا۔ میم
حا ۔ میم حروف مقطعات ( معنی اور مراد کا علم اللہ کو ہے)
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 15 : ام الکتاب ( اصلی کتاب ( کتاب کی جڑ) صفحا (موڑ دینا ، پھیر دینا ( جسم کا چوڑا حصہ) مسرفین ( حد سے بڑھنے والے) بطش ( زور ، گرفت ، پکڑ) مضی (گزر گیا) مھد ( بچھونا) انشرنا ( ہم نے اٹھایا) ترکبون ( تم سواری کرتے ہو) لتستوا ( تا کہ تم سیدھے رہو) ظھور (ظھر) (پیٹھیں) مقرنین (مقرن) (قابو میں لانے والے) منقلبون (لوٹنے والے) تشریح : آیت نمبر 1 تا 15 : سورة زخرف کا آغاز ” حم “ حروف مقطعات سے کیا گیا ہے جن کے معنی اور مراد کا علم اللہ کو ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلی والی سورتوں میں تفصیل سے عرض کیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں ” حم “ سے شروع کی جانے والی سات سورتیں ہیں جن میں سے یہ چوتھی سورت ہے۔ احادیث میں ” حم “ سے شروع کی جانے والی سورتوں کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں جو شخص ان سورتوں کو پڑھنے کا عادی ہوگا تو یہ سات سورتیں جہنم کے ساتوں دروازوں پر موجود ہوں گی جو اس کو جہنم سے بچانے کے لئے رکاوٹ بن جائیں گے۔ اس سورت کی ابتداء قرآن کریم کے ذکر سے کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم ایک ایسی روشن ، واضح اور بلند رتبہ کتاب ہے جو حکمت و دانائی کی باتوں سے بھر پور ہے جو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رہبر و رہنماء ہے۔ اس کو جتنا بھی فروغ دیا جائے گا دنیا میں امن و سکون اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہوگا ۔ کفار و مشرکین کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت کم کرنے کی جتنی بھی کوششیں اور شرارتیں کرلیں اللہ اپنے اس کلام کو مکمل کر کے رہے گا اور ساری دنیا میں نہ صرف اس کا پیغام پہنچ کر رہے گا بلکہ سچائی کی اس روشنی کے بغیر زندگی کے اندھیرے ان سے دور نہ ہو سکیں گے۔ یہی وہ روشنی ہے جس کو پھیلانے کے لئے اللہ نے ہر زمانہ میں اپنے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو صراط مستقیم پر چلا سکیں مگر کفار و مشرکین نے ہمیشہ ان پیغمبروں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا اور گستاخی کرتے ہوئے اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام سہ منہ پھیر کر غرور وتکبر اور ضد کا طریقہ اختیار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان کو سخت ترین سزائیں دیں اور ان کی زندگیوں کو اس طرح مٹا دیا کہ پھر وہ دوسروں کے لئے نشان عبرت اور قصے کہانی بن کر رہ گئے ۔ اہل مکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح تم آج اللہ کے بھیجے ہوئے اس کے آخری محبوب نبی کریم ﷺ کو جھٹلا رہے ہو اور تمہیں اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ ہے ذرا اپنے سے پہلے گزری ہوئی نافرمان قوموں کو دیکھو کہ جب انہوں نے اپنی نا فرمانیوں کی حد کردی تو اللہ نے ان کو اور ان کے غرور کو خاک میں ملا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سوال کیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! ذرا آپ ان سے پوچھئے کہ اس زمین و آسمان کو کس نے بنایا اس کو انسانوں کے لئے راحت و آرام اور ان کی تمام ضروریات کا ذریعہ کس نے بنایا ؟ منزل تک پہنچنے کے لئے راستے ۔ مردہ زمین میں زندگی پیدا کرنے کے لئے بارشوں کا انتظام ، مختلف چیزوں کی طرح طرح کی قسمیں ، دریا ، سمندر کو پار کرنے اور کاروبار کے لئے ایک طرف سے دوسری طرف آنے جانے کے وسائل ، قسم قسم کے جانور اور مویشی کس نے پیداکئے ؟ یقینا اگر ضمیر مردہ نہ ہوچکے ہوں تو ہر ایک کے دل سے ایک ہی صدا بلند ہوگی کہ ان سب چیزوں کا خالق اور مالک صرف اللہ ہے۔ لیکن انسان کی یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ وہ ایک اللہ کو ماننے کے بجائے دوسرے بہت سے معبودوں کا گھڑ کر ان سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ، پتھر کے بےجان بتوں کو اپنا مشکل کشا سمجھ بیٹھتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے انسان کو جتنی نعمتوں سے نوازا ہے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتا اور اسکے سوا کسی کی عبادت و بندی نہ کرتا لیکن وہ اپنی ہر کامیابی کو اپنی محبت کا نتیجہ قرار دے کر اللہ کی نا شکری کرتا رہتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو سواری پر سوار ہونے کے وقت ایک دعا سکھائی ہے جس میں اللہ کی عظمت وقدرت اور شکر کا بہترین انداز سکھایا گیا ہے۔
Top