Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا ‘ پھر ہم نے اسے زندگی عطا کی اور اسے وہ روشنی عطا کی جس کی بدولت وہ لوگوں کے درمیان (زندگی کی) راہیں طے کرتا ہے۔ کہیں وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور کسی طرح وہاں سے نکل نہ سکتا ہو۔ اسی طرح کافروں کی نگاہ میں ان کے کام خوشنما بنادیئے گئے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 122 : احیینا (ہم نے زندہ کردیا) ‘ یمشی (چلتا ہے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 122 : قرآن کس چزٓ کو زندگی کہتا ہے ؟ انسان اور ہر چیز فلکیات ‘ فضائیات ‘ حیوانات ‘ نباتات ‘ جمادات ‘ آبیات ‘ بخارات ‘ متحرکات کی زندگی کا تعلق بس اسی دنیا سے ہے۔ ان کا مقصد زندگی جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے۔ انسان کی زندگی اور مقصد زندگی کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی ہے۔ اس کے پاس دوزندگیاں ہیں۔ فانی زندگی کھیتی ہے۔ لافانی زندگی اس کا پھل۔ انسان جب تک اپنا فریضہ زندگی ادا کر رہا ہے جس کا تعلق سراسر اس دنیا سے ہے وہ زندہ ہے ورنہ وہ مردہ۔ انسان جب تک اپنا فریضئہ زندگی ادا کررہا ہے (جس کا تعلق اس دنیا کے ذریعہ آخرت سے ہے) وہ زندہ ہے ورنہ مردہ۔ وہ لوگ جو صرف اسی دنیا کے لئے بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں مردہ ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر۔ مردہ تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن یہ مردہ دل خود بھی بہکے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی بہکار ہے ہیں۔ ارسطوں جو با بائے سائنس کہا جاتا ہے اس کی عقل کی انتہا کہاں تک ہے۔ کہتا ہے کہ انسان ذی عقل حیوان ہے۔ یعنی ہے تو وہ حیوان ہی لیکن اس کے پاس ایک عقل بھی ہے۔ اسلام اس ذی عقل حیوان کو اٹھاتا ہے اور بلند ترین خلیفۃ اللہ فی الارض کا درجہ عطا کرتا ہے اور اس کی موجودہ زندگی کا تعلق آئندہ زندگی سے جوڑ دیتا ہے کہ اگر وہ اپنا فرض منصبی انجام دیتا ہے تو جنت میں ورنہ جہنم میں جائے گا۔ یہ انسان اپنی عقل سے حیوانیت ہی کا کام لے گا اگر اس کے پاس وہ خاص روشنی نہ ہو جس کا نام ایمان ہے۔ اس آیت میں ایمان کو روشنی سے اور بےایمانی کو اندھیرے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تمام انسان کسی نہ کسی طرح کی روشنی کے محتاج ہیں اور روشنی کے بغیر کوئی صحیح قدم نہیں اٹھا سکتے ‘ تو آخرت کے کام کے لئے بھی ہمیں ایک خاص روشنی کی ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح سورج چاند بجلی اور آگ کا انتظام کردیا ہے اسی طرح وحی جلی اور وحی خفی کا بھی انتظام کردیا ہے۔ اور جس طرح وہ سورج چاند کا محافظ ہے اسی طرح وحی جلی اور وحی خفی کا بھی رہتی دنیا تک محافظ ہے۔ ” ایک وہ شخص جو پہلے مردہ یعنی کافر تھا ‘ اللہ نے اسے دونوں عالم کے لئے زندہ کردیا یعنی اسے حلقہء اسلام میں لے آیا اور اس نے اس کو نور ایمان عطا کردیا جسکی مدد سے وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہیں طے کر رہا ہے۔ دوسرا شخص جو گھپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہے اس کی حیوانیت اسے کفر سے باہر نکلنے نہیں دیتی اور اس کے اعمال کو خوش نما بنا کر پیش کررہی ہے۔ بھلا یہ دوطرح کے انسان کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ بھلا بینا اور اندھا برابر ہو سکتے ہیں ؟ “ چراغ سے صرف چراغ والا ہی فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ جہاں تک اس کی روشنی جاتی ہے ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مومن کے ایمان سے ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب رہے وہ بد نصیب جو کفر کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ما رہے ہیں اور اسی میں مست ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کے اعمال انہیں خوش نما بنا کر دکھا رہا ہے اور وہ خود عقلمندی کے چکر میں مبتلا ہیں۔
Top