Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 113
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ
وَجَآءَ : اور آئے السَّحَرَةُ : جادوگر (جمع) فِرْعَوْنَ : فرعون قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّ : یقیناً لَنَا : ہمارے لیے لَاَجْرًا : کوئی اجر (انعام) اِنْ : اگر كُنَّا : ہوئے نَحْنُ : ہم الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
جادو گر فرعون کے پاس پہنچ گئے اور ونہوں نے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمارے لئے انعام تو ضرور ہوگا ؟
لغات القرآن آیت نمبر (113 تا 122 ) ۔ اجر (انعام) ۔ المقربین (مقربین۔ (باعزت درباری) ۔ ان تلقی (یہ کہ تو ڈالے گا) ۔ القوا (انہوں نے ڈالا۔ انہوں نے پھینکا ) ۔ سحروا (باندھ دیا ) ۔ اعین الناس (لوگوں کی آنکھوں کو) ۔ استرھبوا (انہوں نے ڈرادیا ) ۔ بسحر عظیم (بڑے جادو سے ) ۔ اوحینا (ہم نے وحی کی ) ۔ الق (ڈال دے ) ۔ عصاک (اپنی لاٹھی کو ) ۔ تلقف (نگلنے لگا ) ۔ مایا فکون (جو کچھ کہ وہ بناتے ہیں ) ۔ وقع (واقع ہوگیا۔ کھل گیا) ۔ بطل (تبا ہوگیا ) ۔ غلبوا (وہ مغلوب کردیئے گئے) ۔ ھنالک (اس جگہ) ۔ انقلبوا (وہ پلٹ گئے) ۔ صغرین (ذلیل و سوا ہونے والے ) ۔ القی (ڈال دیئے گئے۔ (القاء) ۔ سجدین (سجدہ کرنے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر (113 تا 122 ) ۔” قدرت کو عجیب تماشا دکھانا منظور تھا اس لئے ملک کے تمام علاقوں شہروں اور قصبوں کے باکمال جادو گروں کو فرعون کے ہاتھوں ایک جگہ جمع کرادیا۔ نہ صرف ان کو جمع کردیا بلکہ ان کو پوری طرح اپنے کمالات پیش کرنے کا موقع دیا گیا اس طرح پورے ملک کے کونے کونے سے وہ لوگ سمٹ آئے جو اپنے فن میں کمال رکھتے تھے۔ انہوں نے کلی اعتماد کے ساتھ اپنے دائو پیچ پیش کئے۔ مگر ان کا اعتماد اس وقت بری طرح شکست کھا گیا جب فرعون جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہلواتا تھا وہ اور اس کے ملک کے تمام سرداروں کی موجودگی میں فرعون اور فرعونیوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑا اور وہ تمام لوگ جن پر اور جن کے کمال فن پر فرعون کو ناز تھا وہ سب کے سب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئے۔ رب العالمین کے سامنے سجدہ میں گر گئے اور انہوں نے اس بات کی وضاحت کردی کہ ہم اس رب العالمین پر ایمان لائے ہیں جس کو موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) اپنا رب کہتے ہیں۔ کیونکہ فرعون تو خود اپنے آپ کو رب اعلی کہلواتا تھا۔ وہی لوگ جو کچھ دیر پہلے فرعون سے بہترین انعام کے امیدوار تھے جب سچائی ان کے سامنے آئی تو انہوں نے فرعون اور اس کی طاقت ، اس کو فوج اور سلطنت کی وسعت کو نظر انداز کر کے صرف اللہ کیو قوت و طاقت پر بھروسہ کرلیا۔ یہی ایمان کی سب سے بڑی قوت و طاقت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ۔ وہ لوگ جو تن تنہا بلا جھجک جابر ترین سلطان کے سامنے کلمہ حق کہہ کر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو صرف اور صرف زور ایمانی کے بل پر ان دنیاوی جباروں اور قہاروں سے ٹکر لیتے ہیں جب کے پاس فوج بھی ہے خزانہ بھی ہے اور جی حضوریوں تنخواہ برداروں کی جماعتیں بھی ہیں۔ وہ لوگ جو شہادت پیش کرنے کا دم خم رکھتے ہیں۔ بہارہو کر خزاں لا الہ الا اللہ کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ کس طرح غیبی قوتیں ان کے قدموں کو چومتی ہیں۔ کس طرح باطل کے قلعوں پر حق کا جھنڈا لہراتے ہیں۔ تاریخ اس پر گواہ ہے کروڑوں عوامل ہیں جو واقعات کی شکل و صورت ترتیب دیتے ہیں۔ انسانی آنکھ دو چار کو دیکھ سکتی ہے۔ ظاہری عوامل کی طاقت انتہائی کم ہے۔ خفیہ اور پوشیدہ عوامل کی طاقت انتہائی زیادہ ہے طاہری عوامل کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن وہ فرعون نمرود، ہامان اور قارون کس قدر بیوقوف ہیں جو ظاہری عوامل ہی کو سب کچھ مانتے ہیں اور غیب کی طاقتوں سے لاعلم اور لا پرواہ ہیں وہ شخص کس قدر مضبوط ہے جو اپنارشتہ لا الہ الا اللہ سے ملائے ہوئے ہے۔ ان آیات میں وحی اور القا ” کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) پر وحی نازل ہوتی ہے اور القا غیر پیغمبروں کے لئے ہے اس لا سل کی، اس وائرلیس، اس ٹیلی پیتھی سے بڑا ہتھیار اور کیا ہو سکتا ہے جو انسان کے دل کی دنیا کو بدل ڈالے اور اس طرح دنیا کا دل بدل ڈالے جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہے۔ وہ چیز جسے ہم توفیق الہٰی اور نور ایمانی کہتے ہیں جو ہمیں نیا دل اور نیا دماغ دیتی ہے وہ ہے قدرت کا اسلحہ خانہ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ جادو گر جو نظربندی، مسمریزم اور طلسمات ہوش ربا کے استاد تھے جو اپنی طاقتیں پیغمبر وقت کے مقابلے میں لے آئے تھے جن پر فرعون اور اسکے سرداروں کو ناز اور گھمنڈ تھا۔ ایک ہی القا، ایک ہی توفیق الہٰی اور نور ایمان میں اللہ جانے کیا سے کیا ہوگئے اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
Top