Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 191
اَیُشْرِكُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ٘ۖ
اَيُشْرِكُوْنَ : کیا وہ شریک ٹھہراتے ہیں مَا : جو لَا يَخْلُقُ : نہیں پیدا کرتے شَيْئًا : کچھ بھی وَّهُمْ : اور وہ يُخْلَقُوْنَ : پیدا کیے جاتے ہیں
کیا وہ اللہ کے ساتھ ان کو شریک کرتے ہیں جو خود بنائے جاتے ہیں لیکن وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے۔
لغات القرآن ۔ لا یخلق۔ پیدا نہیں کیا۔ لا یتبعوکم۔ وہ تمہاری پیروی نہ کریں گے۔ صامتون۔ چپ رہنے والے۔ عباد۔ (عبد) ۔ بندے۔ فلیستجیبوا۔ پھر چاہیے کہ وہ کہا مانیں۔ ارج۔ (رجل) ۔ پاؤں۔ یمشون۔ وہ چلتے ہیں۔ یبطشون۔ وہ پکڑتے ہیں۔ کیدون۔ تم میرے خلاف تدبیریں کرو۔ لا تنظرون۔ مجھے مہلت نہ دو ۔ ولی اللہ۔ میرا حمایتی اللہ ہے۔ یتولی۔ وہ سنھالتا ہے۔ تشریح : سورة الاعراف چونکہ ختم پر ہے چناچہ اس سورت کی تمام باتوں کو شرک کی نفی میں مختصر جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اور یاددھانی کے طور پر ان کا نچوڑ پیش کردیا گیا ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کو بھی ضروری ہدایات دی جا رہی ہیں۔ یہ سورة مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مکہ کی زندگی میں مشرکین مکہ کا سلوک آپ کے ساتھ اور آپ کے صحابہ ؓ کے ساتھ کیا ہوگا۔ شرک میں تین چیزیں ملی جلی ہوتی ہیں (1) عقیدہ (2) مظاہر عقیدہ یعنی بت درخت، سانپ، آگ، جادو، بارش، کڑک، وغیرہ۔ (3) ۔ رسومات پرستش۔ ان تینوں باتوں میں سب سے اہم مظاہر عقیدہ ہیں ان کے گرد ہی عقیدے اور پرستش کے سارے طریقے گھومتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ ان آیات کا ہدف یہ مظاہر ہی ہیں ان دنوں بیم اور آج بھی بتوں اور شرک کی دوسری چیزوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے یہاں قرآن کریم کے دلائل درج ذیل ہیں۔ 1) یہ بت جو لوگوں کے ہاتھوں سے تراشتے ہوئے ہیں اپنی تخلیق میں دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہیں نہ خود ہل سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں ایک چیونٹی کو بھی پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اگر کوئی ان کو توڑ دے تو یہ اپنا بچائو نہیں کرسکتے جس کا جی چاہے وہ توڑ دے یا پھینک دے یہ احتجاج بھی نہیں کرسکتے۔ جو اس قدر بےبس اور بےحس ہوں وہ نہ تو خالق ہیں نہ مالک ہیں نہ کسی کو نفع دے سکتے ہیں نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ 2) ان کے پاس نہ دماغ ہے نہ دل ہے جو صحیح اور غلط راہ کے درمیان تمیز کرسکے۔ 3) یہ اسی طرح کی مخلوق ہیں جیسے اور مجبورو محکوم ہیں۔ 4) ان میں دعا قبول کرنے یا نہ کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے مانگنے والوں کو دے 5) ان کے پاس نہ پاؤں ہیں، نہ ہاتھ، نہ آنکھیں نہ کان۔ ان کے چہروں پر قلم سے یا پینٹ سے آنکھیں بنا دی گئی ہیں مگر وہ ایسی آنکھیں ہیں جن میں کوئی نور اور روشنی نہیں ہے۔ 6) یہ مجہول و مفعول اگر سارے کے سارے جمع ہوجائیں تو نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ بگرے ہوئے کو سنوار سکتے ہیں۔ پھر ایسی بےحقیقت چیزوں سے مانگنا اور ان کو اپنا حاجت روا ماننا کہاں کا انصاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مومنو ! آج ساری دنیا اس دھوکے میں مبتلا ہے ان کو ہماری طرف سے باخبر کردو اور ان کی بند آنکھوں کو کھول دو ۔ اور اس راستے میں کسی طرح کی فکر مت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے راستے پر چلنے والوں کو خوف محافظ ہے۔ یہ بت اور ان کے ماننے والے اہل ایمان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ یہ وہ دلائل ہیں جو ان کے من گھڑت معبودوں کے خلاف بیان کئے گئے ہیں ان دلائل کی موجودگی میں کسی ہٹ دھرمی، کج بحشی ور کسی طرح کی باتوں کی گنجائش نہیں ہے لیکن پھر بھی ان بتوں کا بازار کیوں گرم ہے۔ غور کیا جائے تو صرف یہ بات نکل کر آئے گی کہ اس میں ذاتی مفاد اور ہر عمل کرنے کی آزادی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
Top