بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Ghaashiya : 1
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِؕ
هَلْ : کیا اَتٰىكَ : تمہارے پاس آئی حَدِيْثُ : بات الْغَاشِيَةِ : ڈھانپنے والی
(اے نبی ﷺ کیا آپ کو اس ڈھانپ لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے ؟
لغات القرآن۔ الغاشیۃ۔ ڈھانپ لینے والی ( قیامت) ۔ عین انیۃ۔ کھولتا چشمہ۔ ضریع۔ کانٹے والی گھاس۔ لا یسمن۔ نہ موٹا کرے گا۔ ناعمۃ۔ تروتازہ۔ نمارق۔ گائو تکیے، موٹے گدے۔ زرابی۔ گدے۔ مبثوثۃ۔ بکھرے ہوئے۔ پھیلے ہوئے۔ الابل۔ اونٹ۔ خلقت۔ بنایا گیا۔ پیدا کیا گیا۔ رفعت۔ بلند کیا گیا۔ نصبت۔ جما دیا گیا۔ سطحت ۔ بچھائی گئی۔ مصیطر۔ مسلط ہونے والا۔ حاکم۔ ایاب۔ پلٹنا۔ تشریح : قرآن کریم میں قیامت کے بہت سے نام آتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نام ” غاشیہ “ بھی ہے۔ غاشیہ کے معنی چھپالینے، چھا جانے اور ہوش و حواش اڑا دینے والی کے آتے ہیں یعنی ایک ایسی اچانک آفت جو نظام کائنات کو درہم برہم کرکے ہر چیز کو اپنے اندر چھپا لیگی اور سب کے ہوش و حواش اڑا کر رکھ دے گی۔ اس کی اہمیت اور ہولناکی کو واضح کرنے اور ذہنوں کو پوری طرح متوجہ کرنے کے لئے ایک سوالیہ انداز اختیار کرتے ہوئے اللہ نے پوچھا ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے وہ چھا جانے والی چیز کیا ہوگی ؟ خود ہی جواب عنایت فرماتے ہوئے ارشاد ہے کہ اس دن تمام لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق دو گروہوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ ایک گروہ ان نافرمانوں کا ہوگا جنہوں نے زندگی گناہ، کفر اور شرک میں گزاری ہوگی ان کا یہ حال ہوگا کہ انہیں اللہ کے عذاب، اپنے اعمال اور انجام کو دیکھ کر سخت مایوسی ہوگی، چہروں پر تھکن، محنت اور مشقت کے آثار نمایاں ہوں گے۔ جب وہ بھوک پیاس سے تڑپ اٹھیں گے تو ان کو پینے کے لئے کھولتے ہوئے شرم چشمے کا پانی پلایا جائے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ کر رکھ دے گا اور کھانے کے لئے ان کو ” ضریع “ دیا جائے گا۔ عرب میں ضریع ایک ایسا پھل ہوتا ہے جسے قریش مکہ ” شبرق “ کہا کرتے ہیں۔ وہ ایلوے کی طرح انتہائی کڑوا اور زہریلا ہوتا تھ اور جب وہ خشک ہوجاتو تو اس کڑوے، کسیلے اور بدبو دار پھل کو جانور بھیمنہ لگانا پسند نہ کرتے تھے۔ فرمایا کہ اتنا زہریلا، کڑوا اور قابل نفرت پھل ان کو غذا کے طور پر دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جہنم کی آگ میں ایک ایسا پھل تیار ہوگا، جس کو ” زقوم “ کہا جات ا ہے۔ اسی طرح ان جہنمیوں کی غذا غسلین (زخموں کا دھو ون) بھی ہوگا۔ علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ ممکن ہے جہنم میں چھوٹے بڑے مجرموں کے الگ الگ مقامات ہوں اور ان میں سی کسی کو ضریع کسی کو زقوم اور کسی کو غسلین دیا جائے گا۔ بہرحال اس کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ غذا جس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے آدمی کی بھوک مٹے اور قوت آئے۔ لیکن یہ ایسی غذا ہوگی جس سے نہ اس کے بدن کو قوت و طاقت ملے گی اور نہ توانائی میسر آئے گی۔ ایک طرف تو یہ جہنمی بری طرح تکلیفیں اٹھا رہے ہوں گے اور دوسری طرف ایک اور گروہ ہوگا جو ہر طرح کے عیش و آرام اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹ حاصل کرکے خوشی اور مسرت کا اظہار کر رہا ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے زندگی بھر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کی ہوگی۔ جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو چھوڑ کر ایمان، تقویٰ ، پرہیز گاری اور خیر و فلاح کا راستہ منتخب کیا ہوگا۔ وہ آخرت میں اپنے اعمال کے بہترین نتائج سے انتہائی خوش و خرم ہوں گے۔ خوشی ان کے چہروں سے ٹپک رہی ہوگی۔ ان کو شاہانہ انداز سے ہر طرح کی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ عالی شان اور خوبصورت جنتیں جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی کسی طرف سے لغو، فضول اور ایسی باتیں نہ سنیں گے جو انہیں ناگوار ہوں۔ ہر طرف بہتے ہوئے پانی کے جھرنے اور چشمے، نرم بچھونے، ایسے اونچے اور بلند تخت جن پر چڑھنا اترنا آسان ہوگا۔ برابر برابر بچے ہوئے قالین اور گائو تکیے، مخمل کی مسندیں اور شراب سے بھرے ہوئے ساغر و جام جو چیز چاہیں گے وہ ان کو ایک اشارے میں مل جائے گی۔ غرضیکہ یہ گروہ ہر طرح کے عیش و آرام اور من پسند جنت میں ہوگا۔ فرمایا کہ یہ تمام باتیں انسان کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں جو لوگ اس دنیا کے فائدوں میں لگے رہتے ہیں ان کا برا انجام ہے لیکن جنہیں آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ اپنے بہترین انجام تک پہنچیں گے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ کا یہ نظام ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر وہ ہماری مخلوق میں غور کرلیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس پوری کائنات میں اللہ نے بیشمار نشانیاں بکھیر رکھی ہیں جو لوگ ان پر غور وفکر کرتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں اور جو پوری زندگی غفلت میں گزار دیتے ہیں ان کے حصے مین سوائے ناکامویں اور نامرادیوں کے اور کچھ بھی نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے چار چیزوں کو آدمی کے سامنے رکھ کر یہ پوچھا ہے کہ ذرا ان پر غور کرکے بتائو کہ جو اللہ ان تمام چیزوں کو پیدا کرکے مخلوق کے فائدے کیلئے ان میں ہزاروں صلاحتیں پیدا کرسکتا ہے وہ آدمی کو ایک مرتبہ پیدا کرکے دوسری مرتبہ پیدا کیوں نہیں کرسکتا ؟ وہ ظالموں کو جہنم میں اور ایمان والوں کو جنت کی راحتوں سے ہم کنار کیوں نہیں کرسکتا ؟ فرمایا کہ اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں جن سے تم دن رات ہزاروں فائدے حاصل کرتے ہو۔ اونٹ جس کو صحرا کا جہاز کہا جاتا ہے اپنے اندر کسی قدر خصوصیات رکھتا ہے۔ وہ عربوں کے نزدیک انتہائی قیمتی چیز تھی جس سے وہ بہت محبت کرتے تھے فرمایا کہ ایک طرف تو اس کی شکل صورت، بدن اور انداز کو دیکھو کہ کس طرح لمبا چوڑا بےہنگم سا لگتا ہے لیکن اس میں جو اللہ نے عظمتیں رکھ دی ہیں وہ اس قدر زیاد ہیں کہ ان کو شمار کرتے کرتے آدمی تھک جائے۔ مثلاً اس کے دودھ، گوشت، کھال اور چمڑے سے تم ہزاروں فائدے حاصل کرتے ہو۔ اس میں صبرو قناعت انتہا درجہ کی ہے۔ صبر تو ایسا کہ اس پر کتنا ہی بوجھ لاد کر ہنکا دو تو وہ شکوہ نہیں کرتا۔ ایک بچہ بھی ایک اونٹ کی مہار پکڑ کرلے چلے تو وہ گردن جھکا کر چلنے لگتا ہے۔ جب اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا جاتا ہے تو وہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے کہ اس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے۔ چلنے کیلئے کہا جائے تو صحراؤں کو عبور کرکے ہفتوں چلتا رہتا ہے۔ ایک ہفتہ تک اس کو کھانا نہ دیا جائے پانی نہ پلایا جائے تو وہ اپنے ملاک کی وفاداری میں کئی کئی دن تک بھوکا رہتا ہے مگر اف تک نہیں کرتا۔ فرمایا کہ کبھی تم نے اس بات پر غور کیا کہ اتنے بڑے ڈیل ڈول کے بےڈھنگے سے جانور کو کس نے تمہارے تابع کردیا ہے ؟ یقینا اللہ نے اس کو انسان کے لئے مسخر کردیا ہے۔ اللہ کی دوسری نشانی آسمان ہے۔ فرمایا کہ کبھی تم نے غور کیا کہ اتنا بڑا آسمان جو بغیر کسی سہارے اور ستون کے تمہارے سروں پر چھت کی طرح تان دیا گیا ہے۔ چاند، سورج اور ستاروں سے اس کو ایک خاص رونق عطا کی گئی ہے اور انسانی ضروریات کو ان کے متعلق کردیا ہے۔ تیسری نشانی پہاڑوں کی طرف دیکھنے کے لئے فرمایا کہ دیکھو پہاڑ کس طرح جمے کھڑے ہیں۔ اللہ کے حکم سے زمین کو اور اس کے زلزلوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے سینے میں ہزاروں مع دنیات دفن ہیں۔ بہترین پتھر، ہیرے، جواہرات، سونا، چاندی ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں، بہترین لکڑی۔ انسان کی جیسی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سے اپنی ضرورت کی چیزیں نکالتا رہتا ہے۔ بتایا یہ گیا ہے کہ آخر وہ کون سی ذات ہے جس نے پہاڑوں کو یہ عظمت ، جمائو، شان اور ہزاروں مع دنیات کا امین بنایا ہے یقینا یہ سب اللہ کی قدرت سے ہی ممکن ہوا اور اللہ نے ان تمام چیزوں کے فائدے انسان کے لئے پہاڑوں میں رکھ دئیے ہیں۔ چوتھی نشانی زمین ہے وہ ایک شفیق و مہربان ماں کی طرح ہے جو اللہ کے منکرین اور اللہ کو ماننے والے سارے انسانوں کو اپنی گود میں لئے ہوئے ہے اور ہر ایک کو اپنے وجود سے پوری طرح فائدے اٹھانے دیتی ہے۔ نرم اتنی کہا ایک بچہ بھی اس کو کھود سکتا ہے اور مضبوط اس قدر کہ بڑی سے بڑی عمارت کو اپنے اوپر لئے کھڑی ہے۔ ہر طرح کی انسانی غذائیں اور دوسری مخلوق کے لئے غذائیں مہیا کرتی ہے۔ اس کے سینے میں بھی تیل، گیس ، کوئلہ، پانی کی نہریں اور انسانی زندگی کر ہر سامان موجود ہے۔ فرمایا کہ زمین ہو یا آسمان، اونٹ ہو یا پہاڑ یہ سب اللہ نے اپنی قدرت سے پیدا کئے ہیں جن سے انسان فائدے حاصل کرتا ہے مگر یہ نہیں سوچتا کہ اگر اللہ ان کے اندر یہ خصوصیات نہ رکھتا تو کیا انسان اپنا وجود برقرار رکھ سکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ تمام لوگوں کو ان ساری حقیقتوں کو سمجھاتے رہیے اور اسلام کے نظریہ حیات کو پیش کرتے رہیے۔ نظریہ زندگی کو پھیلانے میں کسی زور و زبردستی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی آپ کا کام ہے کہ آپ دین کی سچائیوں کو پہنچانے کی جدوجہد کرتے رہیے۔ ان سب کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے جو لوگ سزا کے مستحق ہوں گے انکو سخت سزا دی جائے گی ہم خود ہی سب کو حساب لے لیں گے۔
Top