Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ : لے لیں آپ مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال (جمع) صَدَقَةً : زکوۃ تُطَهِّرُھُمْ : تم پاک کردو وَتُزَكِّيْهِمْ : اور صاف کردو بِهَا : اس سے وَصَلِّ : اور دعا کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّ : بیشک صَلٰوتَكَ : آپ کی دعا سَكَنٌ : سکون لَّھُمْ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اے نبی ﷺ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوۃ) لے کر انہیں پاک اور صاف کردیجیے اور ان کے لئے دعا کیجیے۔ بیشک آپ کی دعا ان کے لئے باعث سکون ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے الا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 103 تا 106 خذ (لے لو، لیجیے) صدقۃ (صدقہ) تطھرھم (ان کو پاک کیجیے) تزکیھم (ان کے دل پاکیزہ بنایئے) صلوتک (آپ کی دعا) سکن (سکون ہوگا) یقبل (وہ قبول کرتا ہے ) عباد (بندے) یاخذ (وہ لیتا ہے ) مرجون (روک دیئے گئے) تشریح : آیت نمبر 103 تا 106 تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیات حضرت ابولبابہ اور ان کے چھ ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ حضرت ابولبابہ ہجرت مدینہ سے پہلے بیعت عقبہ کے موقع پر حلقہ اسلام میں داخل ہوئے وہ اور ان کے چھ ساتھی کم و بیش ہر جہاد میں اپنے مالوں اور جانوں سے ایثار و قربانی کا عظیم مظاہرہ کرتے رہے لیکن غزوہ تبوک کے موقع پر بعض مجبوریوں کا سہارا لے کر اس میں شرکت نہ کرسکے اور گھر بیٹھ گئے۔ جب حضور اکرم ﷺ واپس تشریف لائے تو ان سب کو اپنے فعل پر سخت ندامت اور شرمندگی محسوس ہوئی۔ انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی ﷺ کے ستونوں سے باندھل یا اور انہوں نے اس بات کا عہد کیا کہ جب تک ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے معاف نہیں کیا جائیگا ہم اسی طرح بندھے رہیں گے خواہ ہمیں بندھے بندھے موت ہی کیوں نہ آجائے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو ان کو کھولا گیا۔ شکرانے کے طور پر انہوں نے اپنا وہ سب مال و متاع جو اس جہاد میں شرکت کی وجہ سے رکاوٹ بن گیا تھا سب کا سب صدقہ کردینے کی اجازت چاہی لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس میں سے ایک تہائی مال قبول فرمایا اور اس طرح ان کے ظاہر و باطن کو پاک کیا اور ان کے لئے دعا فرمائی۔ مفسرین نے ان آیات کا یہ شان نزول ارشاد فرمایا ہے لیکن یہ آیات اپنے مفہوم کے لحاظ سے عام ہیں جو اس واقعہ پر بھی منطبق کی جاسکتی ہیں اور عام مفہوم پر بھی۔ بہرحال ان آیات میں قیامت تک مسلمانوں کے لئے یہ حکم موجود ہے کہ مسلمانوں کا امیر، مملکت کے تمام لوگوں سے صدقہ وصول کر کے اس کو عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ رے گا۔ اس طرح صدقات واجبہ کی وصولی کی اصل ذمہ داری اسلامی حکومت کی ہے جو صدقات (زکوۃ) وصول کر کے قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق ضرورت مندوں میں تقسیم کرے گی۔ اگر کوئی اس سے انکار کر دے تو اس کے خلاف جہاد بھی کیا جاسکتا ہے۔ چناچہ سیدنا صدیق اکبر نے اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں صرف اس لئے زکوۃ کا انکار کرنے والوں سے جہاد کیا کہ وہ اس حکم کو حضور اکرم ﷺ کی ذات تک محدود سمجھتے تھے۔ لیکن صدیق اکبر نے ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائی جو نماز اور زکوۃ کو اپنی تاویلوں کے من گھڑت اصولوں کے مطابق الگ الگ کردینا چاہتے تھے۔ مانعین زکوۃ کا کہنا یہ تھا کہ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو ہم سے زکوۃ و صدقات وصول کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ آپ جب تک ہم میں رہے ہم زکوۃ ادا کرتے رہے جب آپ موجود نہیں ہیں تو حضرت ابوبکر کو اس کا اختیار کس نے دے دیا کہ وہ ہم سے زکوۃ وصول کریں اس لئے حضرت عمر فاروق جو دین کے معاملات میں کسی سے کسی رعایت کے قائل نہ تھے انہوں نے بھی شروع شروع میں حضرت ابوبکر صدیقف کی رائے سے اتفاق نہ کیا اور مانعین زکوۃ کے خلاف کسی شدید اقدام سے گریز کا مشورہ دیا لیکن جب حضرت عمر فاروق کے سینے کو اللہ نے کھول دیا تو انہوں نے بھی حضرت ابوبکر صدیقف کی بھپرور تائید کی اور اس طرح نماز اور زکوۃ کے احکامات کو اپنے من مانے طریقے پر الگ الگ کرنے کی سازش کے خلاف اعلان جہاد کردیا گیا۔ اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ کسی آیت کا شان نزول بات کو سمجھنے کے لئے ایک اہمیت تو ضرور رکھتا ہے لیکن وہ حکم میں کسی شخص کے ساتھ خاص نہیں ہوتا بلکہ قرآن کریم کا تو ہر حکم قیامت تک اہل ایمان کے لئے حکم عام کا درجہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کیا لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور صدقات کو بھی توبہ کے قبول ہونے کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ فرمایا کہ لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پابندی کرتے رہو۔ اگر کچھ غلطی ہوجائے تو وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ اللہ نے اس میں حضرت ابولبابہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف معافی کا اشارہ تو کردیا اور نبی کریم ﷺ کو ان کے لئے حکم بھی دے دیا مگر ان تین حضرات کے لئے بھی معافی کا اشارہ دے دیا جن کے لئے آسمانی فیصلے کا معاملہ بہت قریب ہے۔ چنانچہ آیت نمبر 118 میں ان کی معافی کا بھی اعلان فرما دیا گیا۔
Top