Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 105
وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۚ
وَقُلِ : اور کہ دیں آپ اعْمَلُوْا : تم کیے جاؤ عمل فَسَيَرَى : پس اب دیکھے گا اللّٰهُ : اللہ عَمَلَكُمْ : تمہارے عمل وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) وَسَتُرَدُّوْنَ : اور جلد لوٹائے جاؤگے اِلٰى : طرف عٰلِمِ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر فَيُنَبِّئُكُمْ : سو وہ تمہیں جتا دے گا بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اور آپ کہہ دیجیے کہ تم عمل کئے جائو پھر بہت جلد اللہ، اس کا رسول ﷺ اور اہل ایمان تمہارے کاموں کو دیکھ لیں گے اور تم بہت جلد غیب و شہادت کے جاننے والے اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے پھر وہی بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 107 تا 110 مسجد ضرار (نقصان پہنچانے والی مسجد) تفریق (اختلاف پیدا کرنے کو) ارصاد (شکار کے لئے، گھات لگانے کے لئے) حارب (جس نے جنگ کی) الحسنی (نیکی) یشھد (وہ گواہی دیتا ہے) اسس (بنیاد رکھ دی گئی) اول یوم (پہلے دن) ان تقوم (یہ کہ آپ کھڑے ہوں) رجال (مرد ہیں، کچھ لوگ ہیں ) یحبون (جو پسند کرتے ہیں) ان یتطھروا (یہ کہ وہ پاک صاف رہیں) بنیان (عمارت) شفا (کنارہ) جرف (کمزور گڑھا، کھوکھلا گڑھا) ھار (گرنے کو) انھار (وہ گر پڑا) لایزال (ہمیشہ) ریبۃ (شک کا کانٹا) تقطع (ٹکڑے ہوجائیں) تشریح : آیت نمبر 107 تا 110 منافقین کی سازشوں کا ذکر پچھلی آیات میں آچکا ہے۔ اب یہاں ایک نئی خطرناک سازش کا ذکر ہے۔ مدینہ میں نصاریٰ کے پیشواؤں میں سے ابو عامر (راہب) تھا جو مذہب کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کا ماہر تھا جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو اس کی پیشوائی کا بازار ٹھنڈا پڑنے لگا۔ اس نے کئی مرتبہ نبی کریم ﷺ سے دین اسلام کے بارے میں بحثیں بھی کیں مگر سنجیدہ وہاں باوقار جوابات نے اس کے شیطانی جذبوں کو کم ہونے کے بجائے اور بڑہا دیا اور اس نے اسلام کے دشمنوں سے مل کر طرح طرح کی سازشیں شروع کردیں۔ جنگ احد، جنگ حنین اور جنگ احزاب وغیرہ کے بھڑکانے میں اس کی سازشوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ جب اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کو برابر کامیابیاں مل رہی ہیں اور ان کیق دم بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں تو وہ روم بھاگ گیا۔ وہاں اس نے قیصر روم کے سامنے مسلمانوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ وہ بھی گھبرا گیا۔ غزوہ تبوک کا واقعہ بھی اسی لئے پیش ایٓا کہ قیصر روم نے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نبی کریم ﷺ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فوری قدم یہ اٹھایا اور فیصلہ کیا کہ قیصر روم کے حملہ کرنے سے پہلے ان پر حملہ کردیا جائے تاکہ ان کی ہمتیں ٹوٹ جائیں۔ چناچہ آپ نے وقت کی سپر پاور کے خلاف اعلان جہاد کردیا اور اللہ نے اس میں مسلمانوں کی عزت و عظمت میں اور چار چاند لگا دیئے۔ غرضیکہ ابو عامر کی سازشوں کا جال چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ اس میں ایک بہت بڑی سازش ” مسجد ضرار “ بھی ہے۔ اس نے مدینہ کے بعض با اثر منافقین کو خط لکھا کہ تم قلب مدینہ میں ایک عمارت بنوائو جہاں تمہارے اور ہمارے آدمی تنہائیوں میں اسلام کو مٹانے کی تدبیریں کرسکیں ۔ روم سے ہمارے جاسوس راہبوں کی شکل بنا کر وہاں پہنچیں گے اور دین کی جڑیں اکھاڑنے میں ہمیں ایک مضبوط مرکز مل جائے گا۔ اس کی یہ بھی تجویز تھی کہ اس کو مسجد کا نام دے دیا جائے اور لوگوں میں مشہور کردیا جائے کہ مسجد قباہم سے دور ہے ضعیفوں اور کمزوروں کو وہاں پہنچنے میں سخت دشواری ہوتی ہے۔ چناچہ مدینہ کے وہ منافقین جو دین اسلام کی جڑوں کو کاٹ دینا چاہتے تھے انہوں نے مسجد قبا کے قریب ہی اس کی تعمیر کر ڈالی ۔ ایک مرتبہ ان منافقین نے حضور اکرم ﷺ سے بھی درخواست کی کہ وہ اس مسجد میں تشریف لا کر نماز پڑھا دیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی تو میں تبوک کی مہم میں لگا ہوا ہوں تبوک سے واپسی پر دیکھا جئے گا۔ جب آپ تبوک سے واپس تشریف لائے تو قران کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں اور اس مسجد کو (1) ضرار (نقصان پہنچانے والی) ۔ (2) کفر و انکار کی مسجد (3) مومنوں میں تفریق پیدا کرنے کی سازش (4) اور اس شخص کی پناہ گا ہق رار دیا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر غزوہ تبوک سے واپسی کے فوراً بعد آپ نے اپنے چند اصحاب کو حکم دیا کہ ابھی جا کر اس عمارت کو ڈھا دو اور اس میں آگ لگا دو ۔ یہ صحابہ کرام اسی وقت گئے اور تعمیل حکم میں اس عمارت کو ڈھادیا اور اس میں اگٓ لگا دی۔ اس طرح منافقین کی سازشوں کا مرکز تباہ کردیا گیا۔ جہاں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ” مسجد ضرار “ کی سازش کو بےنقاب فرمایا اور منافین کی چالوں کو ناکام بنا دیا۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ ایسی مسجد میں قدم بھی نہ رکھیں بلکہ وہ مسجد جس کی پہلے دن سے بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے جس کے رہنے والے بھی ظاہری اور باطنی صفائی ستھرائی کے پیکر ہیں انہیں اللہ پسند کرتا ہے آپ اس میں تشریف لے جائیں۔ کیونکہ وہ مسجد (قبا) جو پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیادوں پر قائم کی گئی ہے وہ اس مسجد کے برابر کبھی نہیں ہو سکتی جو گرنے والی کمزور زمین کے کنارے پر بنائی گئی ہے جو بالآخر اس کو اور اس میں رہنے والوں کو لے کر جہنم کی آگ میں جھونک دی جائیگی۔ آگے فرمایا کہ انہوں نے جس مسجد (ضرار) کی بنیاد رکیھ ہے وہ ہمیشہ ان کے نفاق اور شک کو بڑھاتی رہے گی اور یہ سلسلہ ان کی زندگی کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
Top