Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
منافقین کی دوسری قباحت قال تعالیٰ واذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض۔۔۔ الی۔۔۔ ولکن لا یشعرون۔ اور یہ منافقین اپنے باطنی مرض کی وجہ سے اس درجہ کو پہنچ گئے ہیں کہ فساد کو صلاح اور صلاح کو فساد اور مرض کو صحت سمجھنے لگے ہیں۔ کیونکہ جب اسے یہ کہا جائے کہ زمین میں فساد مت کرو تو یہ کہتے ہیں کہ جز ایں نیست کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ منافقین کئی طرح سے ساد پھیلاتے تھے۔ کبھی مسلمانوں کے راز فاش کرتے۔ کبھی کافروں کو مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کرتے اور کبھی کافروں کے اعتراضات اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کے سامنے نقل کرتے تاکہ وہ مذبذب اور متزلزل ہوجائیں ان سب کو حق تعالیٰ نے فساد سے تعبیر فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں نفاق خواہ دین کا ہو یا دنیا کا خود ایک مستقل فساد ہے۔ دو رویہ ہونے سے بڑھ کر کوئی فساد نہیں۔ ایسا شخص ہمیشہ فساد پھیلاتا ہے اور کسی کا خیر خواہ نہیں ہوتا۔ مسلمان جب ان کو اس قسم کے سادوں سے منع کرتے تو جواب میں یہ کہتے کہ انما نحن مصلحون۔ جز ایں نیست کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ سب شیر وشکر ہوجائیں۔ آپس میں کوئی اختلاف نہ رہے۔ نئے دین کی وجہ سے جو جھگڑا اور اختلاف پیدا ہوگیا ہے کہ ایک دوسرے کے درپے قتل و غارت اور ایذاء اور ہتک حرمت ہوگیا ہے وہ سب یک لخت ختم ہوجائے اور ملک اور ملت پہلی حالت پر لوٹ آئے اور سلسلۂ معاش وتجارت حسب سابق جاری ہوجائے۔ حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں۔ الانھم ھم المفسدون۔ آگاہ ہوجاؤ کہ یقیناً یہی لوگ مفسد ہیں۔ کہ کفر اور ایمان اور شرک اور توحید کو ایک کرنا چاہتے ہیں اور جس کفر وشرک کے فتنہ اور فساد کی اصلاح کے لیے حق تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے یہ فتنہ پرداز۔ پھر اسی فساد کو دوبارہ اپنی جگہ پر لانا چاہتے ہیں لیکن قلبی مرض کی وجہ سے ان کا باطنی احساس اس درجہ مختل ہوگیا ہے کہ اصلاح اور فساد کے فرق کو بھی محسوس نہیں کرتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ دین حق فتنہ نہیں بلکہ کفر اور شرک ہی فتنہ اور فساد ہے۔ اسی کے مٹآنے اور اسی کی اصلاح کے لیے حضرات انبیاء مبعوث ہوئے اور کفر اور شرک ہی کے فتنہ کے استیصال کے لیے جہاد و قتال کرنا عین اصلاح ہے۔ جہاد کو فساد بتانا یہی فتنہ اور فساد ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ۔ وقال تعالیٰ یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر وصد عن سبیل اللہ وکفر بہ والمسجد الحرام واخرج اھلہ منہ اکبر عنداللہ والفتنۃ اکبر من القتل۔ کافروں سے قتال و جہاد کرو یہاں تک کہ کفر اور شرک کا فتنہ اور فساد باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ لوگ آپس سے ماہ حرام میں 8 قتال کرنے کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ بیشک ماہ محرم میں ابتداء قتال کرنا بہت بڑا گناہ ہے لیکن اللہ کے دین سے لوگوں کو روکنا اور اللہ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے مسلمانوں کو تنگ اور پریشان کر کے نکالنا ماہ حرام میں قتال کرنے کے جرم سے کہیں زیادہ ہے۔ اور کفر اور شرک کا فتنہ قتل وغارتگری کے فتنہ سے بہت بڑا ہے۔ اگر کسی مریض کا ہاتھ گل یا سر گیا ہو تو اس عضو کا کاٹ دینا اور اس کا داغ دے دینا ہی حاذق طبیب کے نزدیک اصلاح ہے۔ ورنہ اگر اس عضو کو قطع نہ کیا گیا تو تمام بدن کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح سے اگر اعداء اللہ سے جہاد و قتال نہ کیا جائے تو روحانہ طور پر تمام عالم کے خراب ہونے کا اندیشہ بلکہ ظن غالب ہے اب آئندہ آیت میں ان کی بےشعوری کی ایک دلیل بیان فرماتے ہیں کہ وہ اہل عقل اور حق تعالیٰ کا اتباع کرنے والوں کو بیوقوف اور احمق سمجھتے ہیں۔ یہی حال ملاحدہ اور زنادقہ کا ہے کہ آیات اور احادیث میں تاویلات فاسدہ کر کے مسلمانوں کو فتنہ اور فساد میں ڈالتے ہیں اور بےعقلی سے اس فساد کو اصلاح سمجھتے ہیں۔
Top