لغات القرآن۔
الم نشرح۔ کیا ہم نے نہیں کھول دیا۔ صدر۔ سینہ۔ وضعنا۔ ہم نے اتارا۔ ورز۔ بوجھ۔ انقض۔ توڑ دیا تھا۔ ظھر۔ پیٹھ۔ رفعنا۔ ہم نے بلند کردیا۔ فرغت۔ تو نے فراغت حاصل کرلی۔ انصب۔ (عبادت کی) تکلیف اٹھا۔ ارغب۔ رغبت کر۔
تشریح : اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر اپنی تین نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔
1۔ شرح صدر
2۔ وضع و زر
3۔ اور رفع ذکر
1۔ سوالیہ اندازپر ارشاد فرمایا کہ اے نبی ﷺ کیا ہم نے آپ کو شرح صدر عطا نہیں کیا ؟ کیا ہم نے آپ کے ہر اس بوجھ کو جو آپ کی کمر کو جھکائے دے رہا تھا آپ کے اوپر سے نہیں اتارا ؟ کیا ہم نے آپ کے ذکر کو بلند نہیں کیا ؟
نشرح کے معنی کھول دینا، صدر کے معنی سینہ اور دل کے آتے ہیں۔ یعنی کیا ہم نے آپ کے سینے اور دل کو قرآن کریم کے علوم، اس کی سچائیوں اور اخلاق حسنہ کیلئے نہیں کھول دیا ہے ؟
شرح صدر کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا۔ ” جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے دل کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔ (سورۃ الانعام آیت نمبر 125) ۔
سورة زمر کی آیت نمبر 22 میں فرمایا کہ ” وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر ہے۔
ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جس بند پر مہربان ہوتا ہے اور اس کی بھلائی چاہتا ہے وہ اس کے دل میں سچائیوں ، صداقتوں اور اخلاق حسنہ کے قبول کرنے کی ایک ایسی صلاحیت پیدا کردیتا ہے جس سے اس کی ذہنی کشمکش، الجھاء اور پریشانیوں کا ہر بوجھ اس کے کاندھوں سے اتار دیتا ہے اور وہ ایک ایسے نور کی روشنی میں چلتا ہے جو اس کو منزل تک پہنچا دیتی ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جب یہ فرمایا گیا کہ تم فرعون کے دربار میں جا کر اس کو راہ ہدایت دکھائو تو انہوں نے عرض کیا۔ ” الٰہی میرے سینے کو میرے لئے کھول دیجئے اور میرے کام کو آسان فرما دیجئے “۔ اللہ نے ان کو شرح صدر عطا فرمایا اور معجزات کے ذریعہ ان کو آسانیاں عطا کردی گئیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ایک خوبصورت بات ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے انشراح قلب کی درکواست کی جو قبول کر کے آسانیاں عطا کردی گئیں لیکن نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شان محبویت تو دیکھئے کہ آپ کو اللہ نے بن مانگے اپنی رحمت خاص سے خود ہی انشراح قلب عطا فرما دیا اور آپ کے ہر بوجھ کو اتار کر آپ کو آسانیاں عطا فرما دیں۔
شرح صدر کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس مراد ” شق صدر “ بھی ہوسکتا ہے۔ شق صد ریہ ہے کہ آپ کے سینے کو چاک کرکے اس میں آپ کے دل کو نکالا گیا اور اس میں رے ہر آلائش کو نکال کر نارنجی رنگ کا نور بھرا گیا۔ روایات کے مطابق شق صدر چار مرتبہ ہوا ہے۔
شق صدر کے سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ بھی وہ نعمت ہے جو کسی اور نبی اور رسول کو عطا نہیں کی گئی۔ شق صدر کیا ہے ؟ اس کا علم تو اللہ کو ہے وہی اس کی مصلحت سے بہتر واقف ہے۔ لیکن ظاہر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ شو صدر اللہ کے حکم سے فرشتوں نے کیا ہے۔ چونکہ عقل مند آدمی کا کوئی کام بغیر مصلحت کے نہیں ہوتا تو جب تمام انسانوں کو عقل عطا کرنے والے کی طرف سے کوئی کام ہو تو وہ بغیر مصلحت کے کیسے ہوسکتا ہے ؟ یقینا اس میں کوئی بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آپ کے قلب مبارک پر نازل کیا ہے اس لئے نزول قرآن سے پہلے قلب کی زمین کو تیار کیا گیا تاکہ وہ قرآن کریم جیسے وزنی اور بھاری کلام کو برداشت کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے ’ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جاتا اور پھٹ جاتا (الحشر آیت نمبر 21) ۔ قلب مصطفیٰ ﷺ کے قربان جائیے کہ آپ نے امت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس قرآن کریم کے بوجھ کو اپنے قلب پر برداشت کیا۔
بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ شرح صدر، انشراح قلب اور شق صدر یہ وہ خصوصیات ہیں جو آپ کے سوا کسی اور نبی اور رسول کو عطا نہیں کی گئیں۔
2۔ وضع و زر۔ بوجھ کا اتارا جانا۔ یعنی اے نبی ﷺ 1 ہر وہ بوجھ جو آپ کی کمر کو جھکا رہا تھا۔ اللہ نے اپنی رحمت اور کرم سے اس کو اتار دیا ہے۔ یہ بوجھ کیا تھا اس کی تفصیل کو یہاں بیان نہیں کیا گیا البتہ قرآن کریم کا نازل ہونا اور اس بھاری کلام کو برداشت کرنا اور اس کا بوجھ اٹھانا۔ عرب کے جاہلانہ اور ظالمانہ معاشرہ میں جہاں ہر طرف جہالتوں نے ڈیرے جما رکھے تھے۔ عدل و انصاف کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ جہاں کسی کی جان، مال اور آبرو تک محفوظ نہ تھی۔ اخلاق اور عقائد کی گندگیاں عام تھیں ۔ قتل و غارت گری، جنگ وجدال، بت پرستی، زر پرستی اور رسموں سے پورا معاشرہ گندگی کا ڈھیر بن کر رہ گیا تھا یہ تمام باتیں آپ کی سلیم الفطرت طبیعت پر ایک بوجھ تھیں اور آپ تلاش حق کی جستجو میں ہر طرف دیکھ رہے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوپر اپنا کلام نازل کرکے رہنمائی فرمائی اور ایسا اطمینان قلب عطا فرمایا کہ جس سے اللہ کے دین کو ساری دنیا تک پہنچانے کے راستے ہم وار ہوگئے۔ جو کام دوسروں کی نظروں میں ناممکن تھے وہ سب ممکن اور آسان ہوگئے۔
3۔ رفع ذکر۔ آپ کی ذکر پاک کو بلند کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر پاک کو ہر جگہ بلندی اور عظمتیں عطا فرمائی ہیں عرش یا یا فرش، آسمان ہو یا زمین، فرشتوں کی محفل ہو یا انسانوں کی، جنت کا دروازہ ہو یا عرس کے کنگرے اسی طرح اسلامی شعار اذان، اقامت، نماز، تکبیرات، خطبہ جمعہ، خطبہ عیدین، کلمہ شہادت اور درود شریف وغیرہ۔ غرضیکہ تمام شعائر اسلامی میں اللہ کے ساتھ آپ کا نام مبارک بھی نہایت ادب واحترام اور پوری تعظیم و تکریم سے لیا جاتا ہے۔ دنیا کو کئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ و رسول کا نام لیو اموجود نہ ہو۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک دن جبرئیل میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا میرا رب اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں نے آپ کے ذکر کو کس طرح بلند کیا ؟ میں نے کہا للہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جبرئیل نے کہا اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب اور جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہیں میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔ (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم)
اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ پہلی بت تو یہ کہ اے نبی ﷺ ! جب آپ حق و صدات کی آواز کو بلند فرمائین گے اور کفار و مشرکین کی بت پرستی اور رسموں کے خلاف اللہ کے احکامات کو بیان فرمائیں گے تو وہ لوگ جو صدیوں سے اپنے جھوٹے معبودوں کی پرستش کرتے چلے آرہے ہیں وہ آپ پر پریشانیوں ، مشکلات اور مصائب کے پہاڑ توڑ دیں گے۔ آپ اپنی جگہ صبرو تحمل سے ڈٹ کر ان حالات کا مقابلہ کیجئے کیونکہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ کوئی مشکل ایسی نہیں ہے جس کے بعد راحت و آرام نہ ہو۔
دوسری بات یہ فرمائی کہ جب آپ اپنے دینی فرائض اور ذمہ داریوں سے فارغ ہوجائیں تو کچھ دیر کے لئے راتوں کی تنہائی میں اللہ کی عبادت و بندگی کی مشقت برداشت فرمائیں۔ کیونکہ دین و دنیا کی ساری بھلائیاں اسی مین ہیں کہ آدمی ا اپنے اللہ کو ہر لمحے اور خاص طور پر راتوں کی تنہائیوں میں یاد کرے۔
نبی کریم ﷺ جو دن بھر اللہ کے دین کیلئے جدوجہد فرماتے تھے اور ہر طرح کی ناگواریاں برداشت کرتے تھے۔ پھر بھی آپ راتوں کو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت و بندگی کرتے تھے کہ روایات کے مطابق آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا تھا بلکہ کبھی کبھی تو ورم پھٹ کر رسنے لگتا تھا مگر آپ اللہ کی عبادت و بندگی کی مشقت کو برداشت فرماتے تھے۔ اس میں آپ کے امتیوں کے لئے یہ سبق موجود ہے کہ وہ کٹھن سے کٹھن حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔ اللہ پر مکمل اعتماد و یقین رکھیں کہ مشکل حالت کو وہی آسان فرمانے والے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور نوافل ادا کریں۔ صحابہ کرام ؓ ، بزرگان دین اسی بات پر عمل کرکے اپنی راتوں کو اللہ کے ذکر وفکر اور عبادت سے زندہ رکھا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی راتوں کو اٹھ کر اپنے رب کی عبادت و بندگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔