Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں خرابی نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو سنوارنے والے ہیں
سچ سچ ہی ہے خواہ کوئی اور کہے : 22: وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ : اس قول کا قائل کون ہے ؟ قرآن کریم نے واضح نہیں کیا اور اس کی وضاحت نہ کرنے میں ایک خاص راز پوشیدہ ہے وہ یہ کہ تم سے کوئی بات کہی جائے تو اس بات پر غور کرو ، اس کو اچھی طرح سمجھو اور یہ چیز اپنی عادت میں پختہ کرلو۔ ایسا نہ ہو کہ بات سنتے ہی تم کہنے والے کی تلاش میں لگ جائو۔ کیونکہ سچ ہمیشہ سچ ہی ہے خواہ اس کا کہنے والا کوئی ہو اور جھوٹ ہمیشہ جھوٹ ہی ہے خواہ اس کا کہنے والا کوئی ہو۔ اس حقیقت کو یاد رکھو کہ سچ قبول کرنا ہے اور جھوٹ سے اجتناب کرنا ہے ۔ ہاں ! اللہ اور اس کے رسول ہمیشہ سچ ہی کہنے والے ہیں ان کی طرف کسی جھوٹ کی نسبت ہو تو فوراً سمجھ جاؤ کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی بات نہیں۔ اگر یہ اصول تم نے یاد رکھا تو اسلام کا سمجھنا تم پر آسان ہوگیا۔ اصلاح و افساد : 23: اصلاح اور افساد دونوں آاپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ضدین کبھی آپس میں ایک نہیں ہوتیں اگرچہ وہ مخلوط ہوں۔ نور و ظلمت دست و گریباں ہیں۔ خیر و شر ہم آغوش نہیں اور ایک دوسرے کو مستلزم۔ جس چیز کو ایک اصلاح کہتا ہے ، دوسرا اسی کو فساد کے نام سے تعبیر کرتا ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس لئے آئے ہیں کہ بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ ظلم سے نجات دلائیں لیکن فرعون اسی کو فساد کہتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ باوجود اس اختلاط و التباس کے ان دونوں میں ایک حد فاصل ضرور ہے یہی بات زیر نظر آیت میں بیان کی گئی ہے ، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے اس کی حقیقت متعین کردیں تاکہ بات بالکل واضح ہوجائے اور تفسیر میں بار بار اس موضوع پر تفصیل کی ضرورت نہ رہے۔ لہٰذا غور سے دیکھ لیں۔ (ا) : جزئیات اصلاح و افساد اور ان کے آثار و علامات۔ قرآن کریم نے ان جزئیات کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن یہاں اختصار کے ساتھ چنداقتباسات پر اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ اصل مقصود تفہیم ہے۔ 1: ایک چور چوری کرتا ہے۔ ایک کا گھر برباد ہوا ؟ لیکن خود چور کا گھر آباد ہوگیا۔ اس لئے یہ فساد بھی ایک دوسری صورت میں اصلاح ہے گویا اصلاح و فساد مخلوط ہوگئے بایں ہمہ اس کو اس چور کے سوا ہر شخص فساد کہتا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ چوری درحقیقت فساد ہے اصلاح نہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں پر جب مصر میں پیمانہ کی چوری کا لزام لگایا گیا تو انہوں نے کہا : ” اللہ کی قسم ، تم لوگ جانتے ہو کہ ہم اس لئے یہاں نہیں آئے کہ زمین میں فساد کریں اور ہم چور نہیں۔ مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْاَرْضِ (یوسف 12 : 73) 2: ایک شخص اس سے بھی ترقی کرتا ہے اور محدود چوری کی جگہ ڈاکہ ڈالتا ہے۔ اس سے اگرچہ لٹنے والے بالکل لٹ جاتے ہیں لوٹنے والوں کے گھر مال و دولت کی کان بن جاتے ہیں ۔ ایک شخص غیر فطری طریقوں سے لذت نفسانی حاصل کرتا ہے اور اس کو اپنے نفس کی بھلائی اس میں نظر آتی ہے وہ اس کو فلسفہ عیش و آرام کے لقب سے یاد کرتا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ کیسا مفسدانہ فلسفہ عیش و آرام ہے جو حفظ صحت کو ، نسل کو ، مال و دولت کو اور انسان کے قوائے طبعی کو یکسر برباد کردیتا ہے ان دونوں بیماروں کا ذکر قرآن میں اسی طرح ہے۔ ” تم وہ لوگ ہو کہ خلاف و ضع کے مرتکب ہوتے ہو ، ڈاکے ڈالتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بداخلاقیوں کے کام کرتے ہو۔ “ (العنکبوت 29 : 28) انہی نتائج مہلکہ کے لحاظ سے اللہ کا رسول ﷺ بےاختیار ہو کر اللہ سے التجا کرتا ہے ” اے اللہ ! اے میرے رب ! مجھ کو فساد برپا کرنے والے لوگوں پر نصرت عطا فرما : رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْن 0030 (العنکبوت 29 : 29) 3: ایک حکومت ایک قوم کی حریت و آزادی سلب کرلیتی ہے ۔ اس سے غلاموں کی طرح خدمت لیتی ہے۔ اس کی قوتوں کو فنا کردیتی ہے ۔ اس حکومت کا یہ عمل باطل اور یک قلم سر چشمہ فساد ہے ۔ لیکن وہ کہتی ہے کہ میں اپنی قوم کی اصلاح کر رہی ہوں اور اس کی اصلاح اپنے عروج کے لئے دوسری قوم کو اپنا غلام بنانا ہے ۔ جو شخص اس حکومت کے خلاف جہاد کرتا ہے وہ اس کو مفسد قرار دیتی ہے ۔ لیکن تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ اس کو کیا کہتا ہے۔ ” فرعون نے مصر میں سرکشی کا بڑا ہی سر بلند کیا تھا اس نے رعایا کو کمزور کرنے کے لئے گروہوں میں تقسیم کردیا۔ وہ ان میں سے ایک گروہ کو زیادہ ہی کمزور کرنا چاہتا تھا وہ ان کے بچوں کو ذبح کرتا ، ان کی عورتوں کو بےعصمتی کے لئے چھوڑ دیتا ۔ بلاشبہ وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا : اِنَّهٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ 004 (القصص 28 : 4) قرآن کریم نے مفسیدین کی کوئی خاص دنیوی علامت نہیں بتائی جو ان کے اعمال کی عکسی تصویرہو لیکن چونکہ مفسیدین منافقین ہی کے گروہ کے افراد ہوتے ہیں اس لئے وہ صرف اپنے اعمال ہی سے شناخت کئے جاسکتے ہیں۔ فساد دراصل تیرگی خالص کا نام ہے اور تاریکی میں صرف تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ اب اصلاح کی بعض امثلہ و نظائر ملاحظہ کریں۔ 1: قرآن کریم کہتا ہے کہ ارباب اصلاح جو کام کرتے ہیں صرف اپنے نور ایمان کی ہدایت سے کرتے ہیں ان کو کسی طرح کی ترغیبات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : ” جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اصلاح عمل اختیار کرتے ہیں تو اللہ ان کے ایمان کی روشنی کو ان کے لئے شمع ہدایت بنا دیتا ہے ان کے لئے نعمتوں سے بھری ہوئی جنت ہے اور اس کی نہروں کی روانی کا نظارہ بھی۔ “ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ . (یونس 10 : 9) 2: مصلحین میں ہمیشہ باہم محبت و یگانگت ہوتی ہے باہمی پھوٹ اور نفاق صاحب اصلاح گروہ میں نہیں ہو سکتا ۔ اس وقت کے علمائے امت کو بھی اس روشنی میں اپنا مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ کس گروہ کے افراد ہیں اور کیا کر رہے ہیں اصلاح یا فساد ؟ ارشاد ہوتا ہے۔ ” جو لوگ ایمان لائے اور اعمال اصلاح کر کے پکے مسلمان بن گئے ، عن قریب اللہ جو نہایت ہی رحم کرنے والا ہے ان کے لئے محبت کے دروازے کھول دے گا یعنی وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ “ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا (مریم 19 : 96) 3: عمل صالح انسان کے دل کو سنوارتا ہے اس لئے پچھلے گناہوں کا جو داغ دل میں ہوتا ہے اس کو بھی مٹا دیتا ہے ۔ ارشاد الٰہی ہوتا ہے : ” اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں ، اعمال صالح کرتے ہیں اور قرآن کریم پر جو ان کے رب کی طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ کے دل پر نازل کیا گیا اور ان کے لیے حق کا پیغام ہے ، یقین لاتے ہیں سو وہ اچھی طرح جان لیں ان کے تمام گناہ مٹ گئے اور ان کے دلوں کو سنوار دیا گیا۔ “ (محمد 47 : 2) ان مثالوں سے واضح ہوگیا کہ اعمال صالح کی حالت اعمال مفسدہ سے بالکل مختلف ہے۔ وہ زندگی ، طاقت اور صحت ہیں اس لئے زندگی ہی کے نتائج کا ان سے ظہور ہوتا ہے وہ روشنی ہیں اس لئے روشنی ہی کے تمام آثار و علامات اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ (ب) : اصلاح و فساد یا خیر و شر دنیا میں مخلوط ہیں اور ان کے سرے آپس میں ملے ہوئے ہیں لیکن تاہم اصلاح فساد پر ، خیر ، شر پر کمیت و کیفیت کے لحاظ سے غالب ہے یعنی بلحاظ حقیقت کے بھی ، بلحاظ وجود کے بھی اور بلحاظ نتائج کے بھی۔ مفسیدین و مصلحین کی صفیں تمہارے سامنے ہیں۔ تم نے اصلاح کو فساد سے ، نور کو ظلمت سے اور پھلوں کو کانٹوں سے الگ کر کے دیکھ لیا لیکن یہ بالکل ظاہر ہے کہ کاغذ کے صفحات پر تو ان کو الگ لاگ کیا جاسکتا ہے صفحہ ارض پر ان کی بزم آرائی نہیں ہو سکتی۔ ایک ایسی حالت کو بیان کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فرشتوں نے خلقت آدم پر اعتراض کیا اور بظاہر آدم (علیہ السلام) نے جنت ہی میں ان کے اعتراض کی تصدیق بھی کردی۔ لیکن تم کو صرف آدم (علیہ السلام) کے اس عمل ہی کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس کا دوسرا عمل بھی بصیرت میں رہنا چاہئے جس کے نتیجہ کا اعلان بھی ساتھ ہی کردیا گیا ۔ صحیح ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے بھول ہوگئی جس کے نتیجہ میں اس کا بنا بنایا گھر اجڑ گیا لیکن تم نے دیکھا اس فساد کی اصلاح اس نے کتنی جلدی کی اور اس تخریب نے کیا تعمیر کیا ؟ ہاں ! ایک بہت بڑا عالم کھڑا کردیا جس میں اس کی اولاد چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ کیا آدم (علیہ السلام) کا یہ گناہ یعنی نسیان بذات ِخود فرشتوں کے اعتراض کی تصدیق نہیں کرتا بلکہ یہ اس کا عملی جواب ہے۔ اللہ نے ان کو دکھا دیا کہ وہ فساد فساد نہیں ہوتا جس کا فاعل اپنے فساد کو تسلیم کرنے کے لیے کمر ہمت باندھ لے۔ (ج) : اصلاح و فساد کے درمیان ایک حد فاصل ہے جو ایک کو دوسرے سے بالکل جدا جدا کردیتی ہے ۔ تاہم مفسد نے کبھی اپنے فساد کا اقرار نہیں کیا بلکہ مفسد کہتے ہی اس کو ہیں جو فساد کو اصلاح کا نام دے کر اصلاح اصلاح کا شور مچائے تاکہ لوگ اس کے دام تزویر میں پھنس جائیں کیونکہ وہ اصلاح کا شور مچا رہا ہے۔
Top