Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 176
وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ١ۚ اِنَّهُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَلَّا یَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَلَا : اور نہ يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي الْكُفْرِ : کفر میں اِنَّھُمْ : یقیناً وہ لَنْ يَّضُرُّوا : ہرگز نہ بگاڑ سکیں گے اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَلَّا : کہ نہ يَجْعَلَ : دے لَھُمْ : ان کو حَظًّا : کوئی حصہ فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اور (اے نبی ﷺ یہ لوگ آپ کے لیے باعث غم نہ بنیں جو کفر کے معاملے میں اس قدر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اللہ چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لیے تو بڑا عذاب ہے
آیت 176 وَلاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ ج مدینہ کے یہود اور مکہ کے مشرکین مسلمانوں کے خلاف ساز باز میں مصروف رہتے۔ کبھی یہودیوں کا کوئی وفد سرداران مکہ کے پاس جاکر کہتا کہ تم مسلمانوں پر چڑھائی کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ کبھی قریش یہودیوں سے رابطہ کرتے۔ گویا آج کل کی اصطلاح میں بڑی Diplomatic Activity ‘ ہو رہی تھی۔ ان حالات میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی وساطت سے اہل ایمان کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے رنجیدہ نہ ہوں ‘ ان کی ساری ریشہ دوانیوں کی حیثیت سیلاب کے اوپر آجانے والے جھاگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا ط یُرِیْدُ اللّٰہُ اَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ ج یہ گویا اللہ کے اس فیصلے کا ظہور ہے کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔
Top