Bayan-ul-Quran - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : تم اللہ سے ڈرو وَلْتَنْظُرْ : اور چاہیے کہ دیکھے نَفْسٌ : ہر شخص مَّا قَدَّمَتْ : کیا اس نے آگے بھیجا لِغَدٍ ۚ : کل کے لئے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌۢ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے اہل ِایمان ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقینا تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے
اب ہم اس سورت کے تیسرے اور آخری رکوع کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں جو بہت اہم آیات پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ جب قرآن مجید کے کسی مقام یا کسی آیت کی خصوصی اہمیت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے اس مقام یا آیت کا کوئی خاص پہلو یا خاص موضوع مراد ہوتا ہے ‘ ورنہ قرآن مجید کا تو ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اہم ہے۔ مثلاً قرآن مجید کے بعض مقامات فلسفہ و حکمت کے اعتبار سے اہم ہیں تو بعض دوسرے مقامات سائنسی حوالے سے لائق توجہ ہیں۔ بعض آیات روح دین سے بحث کرتی ہیں تو بعض ایمان کی ماہیت واضح کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر آیت اور ہر مقام کی اہمیت اپنے موضوع اور مضمون کے اعتبار سے ہے۔ چناچہ سورة الحشر کے آخری رکوع کی اہمیت فلسفہ اور تصوف کے موضوع کی وجہ سے بھی ہے اور اسمائے حسنیٰ کے اس عظیم الشان گلدستے کے اعتبار سے بھی جو پورے قرآن میں بالکل یکتا اور منفرد ہے۔ اس سورت کی آخری تین آیات اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے ذکر کے حوالے سے سورة الحدید کی ابتدائی چھ آیات کے ہم وزن ہیں۔ ان تین آیات میں ایک ساتھ سولہ اسمائے حسنیٰ آئے ہیں اور ان میں سے آٹھ اسمائے حسنیٰ تو ایک ہی آیت میں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اسمائے حسنیٰ کے ایک مقام پر اکٹھے ہونے کی اور کوئی مثال قرآن مجید میں نہیں ملتی۔ آیت 18{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج } ”اے اہل ِایمان ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان کو دیکھتے رہنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے !“ ظاہر ہے یہ اس کل کے دن کی بات ہے جو بعث بعد الموت کے بعد آنے والا ہے ‘ جس دن ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا۔ اس دن کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہر اہل ایمان اپنی زندگی اللہ کے تقویٰ کے سائے میں گزارنے کا اہتمام کرے اور اپنے اعمال کا مسلسل جائزہ لیتا رہے کہ اس نے آخرت کے حوالے سے اب تک کیا کمائی کی ہے اور کائناتی حکومت کے امپیریل بینک میں اپنے کل کے لیے اب تک کتنا سرمایہ جمع کرایا ہے۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْـرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔ } ”اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ‘ یقینا تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“ اس آیت میں بنیادی طور پر دو باتوں پرز ور دیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کا تقویٰ اور فکر آخرت۔ بلکہ اِتَّقُوا اللّٰہَ کا حکم یہاں خصوصی تاکید کے طور پر دو مرتبہ آیا ہے۔ تقویٰ سے عام طور پر اللہ کا خوف اور ڈر مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں یہ اہم نکتہ ضرور مدنظر رہنا چاہیے کہ اس خوف میں شیر یا سانپ کے خوف کی طرح دہشت کا عنصر بالکل نہیں ‘ بلکہ اس کی مثال ایسے خوف کی سی ہے جیسا خوف اولاد اپنے والد سے محسوس کرتی ہے۔ اس خوف میں محبت اور احتیاط کے جذبات غالب ہوتے ہیں کہ ہمارے والد ہم سے ناراض نہ ہوجائیں اور ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ہمارے والد کے جذبات و احساسات مجروح ہوں۔ چناچہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے دل میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ڈر رہے۔۔۔۔ تقویٰ کے لغوی معنی بچنے کے ہیں ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ بچ کر زندگی گزارنا۔
Top