Bayan-ul-Quran - At-Taghaabun : 11
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : مگر اللہ کے اذن سے وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو کوئی ایمان لاتا ہے بِاللّٰهِ : اللہ پر يَهْدِ قَلْبَهٗ : وہ رہنمائی کرتا ہے اس کے دل کی وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔ اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے۔ اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔
؎ دوسرے رکوع کی پہلی پانچ آیات میں ثمراتِ ایمانی کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلا ثمرہ یہ ہے : آیت 1 1{ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ } ”نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔“ { وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ } ”اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے ‘ وہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے۔ اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔“ ایمان حقیقی کی بدولت انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ایک پتا ّتک جنبش نہیں کرسکتا۔ اس لیے اگر اس پر کوئی مصیبت بھی آجاتی ہے تو اس کا دل مطمئن رہتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے ہی آئی ہے اور یہ کہ میری بہتری اسی میں ہے : { وَعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّــکُمْج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّــکُمْط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ۔ } البقرۃ ”اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے“۔ چناچہ اپنے اس ایمان اور یقین کی وجہ سے ایک بندئہ مومن بڑی سے بڑی تکلیف اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہ تو دل میں شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی حرفِ شکایت زبان پر لاتا ہے ‘ بلکہ وہ ہر حال میں پیکر تسلیم و رضا بنا رہتا ہے کہ اے اللہ ! میری بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے : بِیَدِکَ الْخَیْر ! تیری طرف سے میرے لیے خوشی آئے یا غم ‘ مجھے قبول ہے ‘ تیری جو بھی رضا ہو اس کے سامنے میرا سر تسلیم خم ہے ! بقول غالب ؔ: ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے بے نیازی تری عادت ہی سہی ! ظاہر ہے اس مقام خاص تک صرف سچے اور مخلص اہل ایمان ہی پہنچ پاتے ہیں۔ ایمانِ حقیقی سے محروم دلوں کے نصیب میں تسلیم و رضا کی حلاوت کہاں : ؎ نہ شود نصیب ِدشمن کہ شود ہلاک تیغت سر ِدوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی ! علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں مقام تسلیم و رضا کی برکات کا ذکر بڑے پرشکوہ انداز میں کیا ہے : ؎ بروں کشید زپیچاکِ ہست و بود مرا چہ عقدہ ہا کہ مقام رضا کشود مرا ! اس مقامِ رضا نے میرے کیسے کیسے عقدے حل کردیے ہیں اور مجھے دنیا کی کیسی کیسی پریشانیوں سے نجات دلا دی ہے۔ خوئے تسلیم و رضا کی وجہ سے انسان اپنا بڑے سے بڑا مسئلہ بھی اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہوجاتا ہے اور جو انسان اس یقین سے محروم ہے وہ دن رات اسی پیچ و تاب میں پڑا رہتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوگیا ؟ آخر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ؟ اگر میں اس وقت ایسا کرلیتا تو اس نقصان سے بچ جاتا ! اگر میرا فلاں دوست عین وقت پر ایسا نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا ! کاش میں یوں کرلیتا ! کاش ‘ اے کاش ! …گویا انسان اگر مقام تسلیم و رضا سے ناآشنا ہو تو چھوٹے چھوٹے واقعات بھی اس کے دل کا روگ بن جاتے ہیں اور اس کے پچھتاوے کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ سورۃ الصف ‘ سورة الجمعہ ‘ سورة المنافقون اور سورة التغابن ‘ یہ چاروں سورتیں ہمارے ”مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب“ میں شامل ہیں ‘ جس کے مفصل دروس کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور ہر سختی یا تکلیف کو اس کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرلینے کا تعلق انسان کے ایمان اور دل سے ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی جرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں یا اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کا بدلہ نہ لیں۔ بہرحال ایمان کے ثمرات میں سے پہلاثمرہ یہ ہے کہ حقیقی ایمان انسان کو مقام تسلیم و رضا سے آشنا کرتا ہے۔ لیکن اس کا تعلق چونکہ انسان کے احساسات سے ہے اس لیے یوں کہہ لیجیے کہ یہ وہ پھول ہے جو ایک بندئہ مومن کے دل کے اندر کھلتا ہے ‘ باہر سے نظر نہیں آتا۔ باہر سے نظر آنے والے بڑے پھول کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
Top