Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 13
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ
قَالَ : فرمایا فَاهْبِطْ : پس تو اتر جا مِنْهَا : اس سے فَمَا : تو نہیں يَكُوْنُ : ہے لَكَ : تیرے لیے اَنْ : کہ تَتَكَبَّرَ : تو تکبر کرے فِيْهَا : اس میں (یہاں) فَاخْرُجْ : پس نکل جا اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الصّٰغِرِيْنَ : ذلیل (جمع)
فرمایا ، ”اچھا، تو یہاں سے نیچے اُتر۔ تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے۔ نکل جا کہ درحقیقت تُو اُن لوگوں میں سے ہے جو اپنی ذلّت چاہتے ہیں۔“11
سورة الْاَعْرَاف 11 اصل میں لفظ صاغیرین استعمال ہوا ہے۔ صاغر کے معنی ہیں الراضی بالذُّل، یعنی وہ جو ذلت اور صغار اور چھوٹی حیثیت کو خود اختیار کرے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بندہ اور مخلوق ہونے کے باوجود تیرا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا اور اپنے رب کے حکم سے اس بنا پر سرتابی کرنا کہ اپنی عزّت و برتری کا جو تصوّر تو نے خود قائم کرلیا ہے اس کے لحاظ سے وہ حکم تجھے اپنے لیے موجب توہین نظر آتا ہے، یہ دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ تو خود اپنی ذلت چاہتا ہے۔ بڑائی کا جھوٹا پندار، عزت کا بےبنیاد ادعا، اور کسی ذاتی استحقاق کے بغیر اپنے آپ کو خواہ مخواہ بزرگی کے منصب پر فائز سمجھ بیٹھنا، تجھے بڑا اور ذی عزت اور بزرگ نہیں بنا سکتا بلکہ یہ تجھے چھوٹا اور ذلیل اور پست ہی بنائے گا اور اپنی اس ذلّت و خواری کا سبب تو آپ ہی ہوگا۔
Top