Dure-Mansoor - Hud : 89
وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ١ؕ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم لَا يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہیں نہ کمواواے ( آمادہ نہ کرے) شِقَاقِيْٓ : میری ضد اَنْ : کہ يُّصِيْبَكُمْ : تمہیں پہنچے مِّثْلُ : اس جیسا مَآ اَصَابَ : جو پہنچا قَوْمَ نُوْحٍ : قوم نوح اَوْ : یا قَوْمَ هُوْدٍ : قوم ہود اَوْ : یا قَوْمَ صٰلِحٍ : قوم صالح وَمَا : اور نہیں قَوْمُ لُوْطٍ : قوم لوط مِّنْكُمْ : تم سے بِبَعِيْدٍ : کچھ دور
اور اے میری قوم تمہیں میری مخالفت اس پر آمادہ نہ کردے کہ تمہیں اس طرح کا عذاب پہنچ جائے جو قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح کو پہنچا۔ اور قوم لوط تم سے دور نہیں ہے۔
1:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویقوم لا یجرمنکم شقاقی “ یعنی تم کو نہ آمادہ کرے میری جدائی۔ 2:۔ ابن منذر (رح) نے مجاہد رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ (آیت) ” شقاقی “ سے مراد ہے میری دشمنی۔ 3:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر (رح) نے جوہر کے راستہ سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم ! یاد کروتم قوم نوح کو قوم عاد کو اور قوم ثمود کو (آیت) ” وما قوم لوط منکم ببعید “ اور لوط کی قوم ان سے زیادہ قریب تھی شعیب تک اور ان کا ہلاکت کا زمانہ ان سے زیادہ قریب تھا۔ (آیت) ” واستغفروا ربکم ثم تو بوا الیہ ان ربی رحیم “ میرا رب اس کے لئے بڑا مہربان ہے جس نے اس کی طرف رجوع کیا گناہ سے توبہ کرتے ہوئے (آیت) ” ودود “ یعنی وہ اس سے محبت کرتا ہے پھر اس کی محبت کو اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے پس تم اس کی طرف لوٹ جاؤ (آیت) ” قالوا یشعیب مانفقہ کثیرا مما تقول وانا لنراک فیناضعیفا “ اور ہم تجھ کو دیکھتے ہیں کہ تو اندھا ہے (آیت ) ” ولولا رھطک “ یعنی اگر تیرے اس خاندان کا لحاظ نہ ہوتا جس میں تو رہتا ہے (آیت) ” لرجمنک “ یعنی البتہ ہم تجھ کو قتل کردیتے ” (آیت) واما انت علینا بعزیز “ (تو ہم پر غالب نہیں ہے) (آیت) ” قال یقوم ارھطی اعز علیکم من اللہ “ (کیا میرا کنبہ زیادہ عزت والا ہے اللہ سے) انہوں نے کہا بلکہ اللہ تعالیٰ تو آپ نے فرمایا تم نے اللہ کو اپنے پیٹھ پیچھے ڈال دیا ہے (آیت) ” ظھریا “ یعنی تم نے اس کے حکم کو ترک کردیا اور تم نے اس کے نبی کو جھٹلادیا ہے مگر میرے رب کا علم تم کو گھیرے ہوئے ہے (آیت) ” ان ربی بما تعملون محیط “ ابن عباس ؓ نے فرمایا شرک کے بعد ان کے بڑے گناہوں میں سے ناپ تول میں کمی کرنا تھا اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں کم کرنا تھا اس کے ساتھ ساتھ (دوسرے) گناہ تھے جو وہ کرتے تھے شعیب (علیہ السلام) نے ان کو اللہ کی عبادت کی طرف بلایا اور ظلم سے روکا اور اس کے علاوہ جو کچھ تھا اسے چھوڑ دیا۔ 4:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے خلف بن جوشب (رح) سے روایت کیا کہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہلاک ہوئی ایک ایک جو کے سبب پیمانہ یعنی (ترازو) کو بوجھل کرتے ہوئے لیتے تھے اور ہلکا کرتے ہوئے دیتے تھے (یعنی لیتے وقت ترازو خوب بھر کرلیتے اور دیتے وقت ترازو کو ہلکا رکھتے تھے) 5:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ویقوم لایجرمنکم شقاقی “ کے بارے میں فرمایا کہ میری دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم جھک جاؤ گمراہی اور کفر میں اور (پھر) تم کو وہ عذاب پہنچ جائے جو ان کو پہنچا۔ 6:۔ عبدالرزاق وابن جریر رحمہما نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وما قوم لوط منکم ببعید “ کے بارے میں فرمایا کہ قوم لوط کا زمانہ میری اس گفتگو (کے زمانہ) سے زیادہ قریب ہے قوم نوح اور ثمود کے بعد۔ 7:۔ ابن ابی شیبہ وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابو یعلی الکندی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کو اوپر سے دیکھا اپنے گھر میں سے کہ انہوں نے ان کو احاطہ کیا ہوا تھا تو فرمایا (آیت) ” ویقوم لایجرمنکم شقاقی ان یصیبکم مثل ما اصاب قوم نوح اور قوم ھود اور قوم صلح وما قوم لوط منکم ببعید “ اے میری قوم مجھے قتل نہ کرو اگر تم نے مجھے قتل کیا تو تمہارے ساتھ بھی اسی طرح ہوگا اور انہوں نے اپنی انگیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔ 8:۔ ابوالشیخ وابن عساکر رحمہما اللہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وانا لنرک فینا ضعیفا “ کے بارے میں فرمایا کہ (شعیب (علیہ السلام) نابینا تھے اور وہ اللہ کی محبت میں رونے کی وجہ سے نابینا ہوگئے تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا اللہ کی محبت میں رونا : 9:۔ ابواحدی وابن عساکر (رح) نے شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا کہ رسول ﷺ فرمایا شعیب (علیہ السلام) کی محبت میں اتنا روئے کہ نابینا ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کی نظر کو لوٹا دیا اور ان کی طرف وحی فرمائی اے شعیب ! یہ کیا رونا ہے جنت کی طرف شوق کرتے ہوئے یا آگ سے ڈرتے ہوئے فرمایا نہیں لیکن آپ کو محبت میرے دل میں پختہ ہوگئی ہے۔ جب میں آپ کی طرف دیکھ لوں گا تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ تو میرے ساتھ کیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے انکی طرف وحی بھیجی اے شعیب (علیہ السلام) ! اگر یہ حق ہے تو تجھے میری ملاقات مبارک ہو (پھر فرمایا) اے شعیب اس وجہ سے میں نے تیری خدمت کے لئے موسیٰ بن عمران کلیمی کو مقرر کیا ہے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم والحاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا والخطیب وابن عساکر رحمہم اللہ نے چند طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وانا لنرک فینا ضعیفا “ میں ضعیف سے مراد ہے کہ آپ کی بصارت کمزور ہے۔ 11:۔ ابو الشیخ (رح) نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وانا لنرک فینا ضعیفا “ کے بار میں فرمایا کہ ” ضعیفا “ سے مراد اندھا ہے۔ اور ان کے لئے کہا گیا کہ وہ انبیاء (علیہ السلام) کے خطیب تھے۔ 12:۔ ابوالشیخ (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وانا لنرک فینا ضعیفا “ کے بارے میں فرمایا کہ بلاشبہ تو اکیلا ہے (اور کوئی بھی تیرے ساتھ نہیں ہے اس لئے ہم تمہیں کمزور سمجھتے ہیں) 13:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” وانا لنرک فینا ضعیفا “ کے بارے میں فرمایا کہ اگر تیری قوم اور تیرے کنبہ کا لحاظ نہ کرتے تو ہم تجھ کو پتھر مار مار کر قتل کردیتے۔ 14:۔ سعید بن منصور (رح) نے زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ شعیب (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح اگر لوط (علیہ السلام) کے ساتھی ہوتے تو وہ یقینا ان کی مدد سے اپنی قوم سے جہاد کرتے۔ 15:۔ ابوالشیخ (رح) نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ آیت (آیت) ” وانا لنرک فینا ضعیفا “ شعیب کے بارے میں تلاوت فرمائی (پھر فرمایا) وہ نابینا تھے اس لئے ان لوگوں نے ان کو کمزوری کی طرف منسوب کیا اور کہا (آیت) ” ولولارھلک لرجمناک “ حضرت علی ؓ نے فرمایا اس اللہ تعالیٰ کی قسم ! کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ نہیں ڈرے رب تعالیٰ کے جلال سے (لیکن) وہ ڈر رہے تھے کنبے سے (یعنی شعیب (علیہ السلام) کے خاندان سے ) ۔ 16:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) نے فرمایا (آیت) ” واتحذتموہ ورآء کم ظھریا “ یعنی تم نے اس کے حکم کو پھینک دیا۔ 17:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واتحذتموہ ورآء کم ظھریا “ یعنی یہ ایک فیصلہ ہے جس کا فیصلہ کیا گیا (تمہاری طرف سے) 18:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واتحذتموہ ورآء کم ظھریا “ کے بارے میں فرمایا کہ تم اس سے نہیں ڈرتے ہو۔ 19:۔ ابن ابی حاتم ابوالشیخ رحمہما اللہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واتحذتموہ ورآء کم ظھریا “ کے بارے میں فرمایا کہ تم نے اسے (یعنی اللہ کی ذات) کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے ڈال دیا ہے کہ تم نے نہ تو اس کی اطاعت کی اور نہ تم اس سے ڈرے۔ 20:۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واتحذتموہ ورآء کم ظھریا “ کے بارے میں فرمایا کہ تم نے اس کے بارے میں سستی کی (اس لئے تم اس سے نہیں ڈرتے ہو) 21:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واتحذتموہ ورآء کم ظھریا “ کے بارے میں فرمایا کہ (آیت) ” ظھریا ‘ سے مراد ہے فالتو (ضرورت ہے زائد) مثلا اونٹ والے کو اپنجے ساتھ ایک فالتو اونٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس پر کوئی چیز نہیں لادتا مگر یہ کہ اس کی طرف اگر اس کی ضرورت پڑجائے پھر وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ تمہارا رب تمہارے نزدیک اسی طرح ہے اگر تم کو اس کی ضرورت ہو (یعنی اس کی طرف محتاج ہوتے ہو تو اس کا حکم مان لیتے ہو) اور اگر تم کو ضرورت نہ ہو تو وہ (پھر) کوئی چیز نہیں۔ (یعنی پھر تم اللہ تعالیٰ کی کوئی چیز نہیں سمجھتے ہو )
Top