Dure-Mansoor - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
اے ایمان والو ! تم لفظ راعنا نہ کہو اور لفظ انظرنا کہو اور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے
(1) ابن المبارک نے الزہد میں اور ابو عبید نے فضائل میں، سعید بن منصور نے سنن میں، احمد نے الزہد میں، ابن ابی حاتم، ابو نعیم نے الحلیہ میں اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور آپ نے اس کو فرمایا میرے ساتھ عہد کر فرمایا جب تو اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنے لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ تو غور سے سن کیونکہ یا تو وہ خیر ہوگا جس کا حکم ہو رہا ہے یا وہ شر ہوگا جس سے روکا جا رہا ہے۔ (2) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابو نعیم نے الحلیہ میں خیثمہ ؓ سے روایت کیا کہ جو قرآن میں تم لوگ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ پڑھتے ہو وہ تورات میں ” یایھا المسکین “ ہے۔ (3) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے خثیمہ ؓ سے روایت کیا کہ جو قرآن میں لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ ہے وہ تورات اور انجیل میں ” یایھا المسکین “ ہے۔ (4) امام ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ” راعنا “ (کا لفظ) یہود کی زبان میں بری گالی ہے۔ یہودی رسول اللہ ﷺ کے لیے خفیہ طور پر ایسا کہتے تھے۔ جب آپ کے صحابہ ؓ کو یہود نے یہ الفاظ بولتے ہوئے سنا تو وہ اعلانیہ طور پر کہنے لگے یہود یہ الفاظ استعمال کرتے تھے پھر آپس میں سنتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (5) امام ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا لفظ آیت ” لا تقولوا راعنا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ (لفظ) یہود کی زبان میں گالی تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” انظرنا “ کہا کرو جس کا معنی ہے ” اسمعنا “ یعنی ہمیں اپنی بات سنائیے پھر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ایمان والوں سے کہتے تھے کہ جس شخص کو تم یہ الفاظ بولتے ہوئے سنو تو اس کی گردن اڑا دو اس کے بعد یہود باز آگئے۔ (6) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” لا تقولوا راعنا “ کے تحت روایت کیا کہ وہ لوگ (یعنی صحابہ کرام) نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ” ارعنا سمعک “ کہتے تھے۔ یعنی ہمارے لئے رعایت فرمائیے جیسے تم کہتے ہو ” اعطنا “ ہم کو عطا فرمائیے۔ (7) امام ابن جریر، ابن المنذر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ یہود میں دو آدمیوں مالک بن صیف اور رفاعہ بن زید جب نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کرتے تھے تو (یوں) کہتے تھے ” راعنا سمعک واسمع غیر مستمع “ (یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے ہماری بات سنیئے اور کبھی نہ سنو مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ یہ کوئی ایسا جملہ ہے جس سے اہل کتاب اپنے انبیاء کی تعظیم کرتے ہیں تو انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ کو یہ (الفاظ) کہہ دئیے اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا تقولوا راعنا “ (اے ایمان والوں ! راعنا نہ کہو) ۔ (8) امام ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے ابو صحر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لے جاتے مؤمنین میں سے جس کو کوئی حاجت ہوتی تھی وہ آپ کو پکار کر کہتا ” ارعنا سمعک “ (یعنی ہماری رعایت فرمائیے اور میری طرف توجہ فرمائیے) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے یہ بھی کہنا پسند نہ فرمایا اور ان کو حکم فرمایا کہ ” انظرنا “ کہا کرو تاکہ وہ ان الفاظ کے ساتھ اس کے رسول کی عزت کریں اور اس کا احترام کریں۔ یہود کی شرارت سے حفاظت (9) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو نعیم نے دلائل میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقولوا راعنا “ میں ” راعنا “ یہودی بطور مذاق کے کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے اس کو ناپسند فرمایا کہ تم بھی ان کی طرح کہو۔ (10) ابن جریر اور ابو نعیم نے دلائل میں عطیہ (رح) سے لفظ آیت ” لا تقولوا راعنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہودیوں میں سے کچھ لوگ ” راعنا سمعک “ کہا کرتے تھے یہاں تک کہ مسلمانوں میں سے بھی کچھ لوگوں نے ایسا کہا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس بات کو ناپسند فرمایا جو یہودیوں نے کہا۔ (11) ابن جریر اور ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقولوا راعنا “ اور ” ارعنا سمعک “ (یعنی ہماری رعایت فرمائیے اور میری طرف توجہ فرمائیے) (12) عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقولوا راعنا “ یعنی ” خلافا “ یعنی خلاف نہ کہو۔ (13) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقولوا راعنا “ یعنی یہ نہ کہو کہ آپ ہماری بات سنیں ہم آپ کی بات سنتے ہیں بلکہ کہو ” انظرنا “ یعنی ہم کو سمجھائیے اور ہم کو بیان کیجئے۔ (14) امام ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ عرب کی مشرک جب ایک دوسرے سے بات کرتے تو کہتے تھے ” ارعنی سمعک “ (یعنی میری رعایت فرمائیے تو اس سے ان کو منع کردیا گیا۔ (15) عبد بن حمید، ابن جریرم البحاس نے اپنی ناسخ میں عطا (رح) سے ” لا تقولوا راعنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لغت زمانہ جاہلیت میں انصار میں تھی (پھر) اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسا کہنے سے منع فرما دیا اور فرمایا لفظ آیت ” قولوا انظرنا واسمعوا “ یعنی تم ” انظرنا “ اور ” واسمعوا “ کہو۔ (16) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” راعنا “ پڑھا اور فرمایا کہ ” الرعن “ ان کی مذاق والی بات میں سے ہے۔ (17) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” واسمعوا “ سے مراد ہے کہ سنو تم جو کچھ تمہارے لئے کہا جائے۔ (18) ابو نعیم نے الحلیہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آیت میں لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا “ نازل ہوا اس کی اصل میرے اوپر ہے۔ ابو نعیم (رح) (راوی حدیث) نے فرمایا کہ میں نے حدیث ابن ابی خثیمہ ؓ کے علاوہ باقی سب مرفوع احادیث لکھی ہیں جبکہ لوگ اس کو مرفوع جانتے ہیں۔
Top