Dure-Mansoor - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم جس آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو ہم اس سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آتے ہیں کیا تو نے نہیں جانا کہ بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) امام ابن ابی حاتم، حاکم (فی الکنی) ابن عدی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان (آیات) میں سے جو نبی اکرم ﷺ پر رات کو نازل ہوئیں پھر دن کے وقت بھلا دی گئیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت نازل) فرمائی لفظ آیت ” ما ننسخ من ایۃ او ننسھا نأت بخیر منھا او مثلہا “۔ (2) امام طبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انصار میں سے دو آدمیوں نے ایک سورت پڑھی جس کو رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی تھی اور یہ دونوں حضرات اس (سورت) کو پڑھا کرتے تھے ایک رات یہ دونوں نماز پڑھنے کھڑے ہوئے اور اس سورت کو پڑھنا چاہا تو ایک حرف پڑھنے پر بھی قادر نہ ہوئے۔ صبح سویرے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ سورت ان سورتوں میں سے ہے جو منسوخ کردی گئیں یا بھلا دی گئیں پس وہ اس کو بھول گئے زہری اس آیت کو (یوں) پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” ما ننسخ من ایۃ اوننسھا “ نون خفیفہ ضمہ کے ساتھ۔ (3) امام بخاری، نسائی، ابن الانباری نے المصاحف میں حاکم اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہم میں سے سب سے زیادہ قاری ابی ؓ ہیں اور بہتر فیصلہ کرنے والے علی ؓ ہیں۔ اور ہم ابی ؓ کی قرأت میں سے کوئی چیز چھوڑتے ہیں اور یہ اس وجہ سے کہ ابی ؓ کہتے ہیں کہ کسی چیز کو نہ چھوڑوں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ما ننسخ من ایۃ اوننسھا “ (جو آیت ہم منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں) ۔ (4) امام عبد الرزاق، سعید بن منصور، ابو داؤد نے اپنی الناسخ میں، ان کے بیٹے نے المصاحف میں، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر اور حاکم نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ اوننسھا “ پڑھتے تھے ان سے کہا گیا کہ سعید بن المسیب نے ” ننسھا “ پڑھا ہے تو حضرت سود نے فرمایا کہ قرآن مسیب یا آل مسیب پر نازل نہیں ہوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” سنقرئک فلا تنسی “ (ہم خود آیت کو پڑھوائیں گے) پس آپ نہ بھولیں گے ” واذکر ربک اذا نسیت “ (یاد کرو اپنے رب کو جب تو بھول جائے) ۔ قرآن میں نسخے کا ذکر (5) امام ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کہ لفظ آیت ” ما ننسخ من ایۃ اوننسھا “ کا معنی ہے ہم جو آیت تبدیل کردیتے ہیں یا اس کو چھوڑ دیتے ہیں (اور) ہم اس کو نہیں بدلتے ” نأت بخیر او مثلہا “ یعنی ہم ایسی آیت لائیں گے جس میں تمہارے لئے زیادہ نفع ہوگا اور اس میں تمہارے لئے نرمی ہوگی۔ (6) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لفظ آیت ” ما ننسخ من ایۃ اوننسھا “ یعنی ہم اس کو مؤخر کردیتے ہیں۔ (7) امام ابن الانباری نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” اوننسھا “ پڑھا۔ (8) امام ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابی ؓ کی قرأۃ میں لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ او نسک “ ہے۔ (9) آدم بن ابی ایاس، ابو داؤد نے الناسخ میں، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اور انہوں نے عبد اللہ بن مسعود ؓ کے اصحاب سے روایت کیا کہ (اس آیت) لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ “ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے خد کو ثابت رکھتے ہیں اور ہم اس کے حکم کو بدل دیتے ہیں ” اوننسھا “ یعنی ہم اپنے پاس اس کو روک لیتے ہیں۔ (10) حضرت آدم، ابن جریر اور بیہقی نے عبید بن عمر اللیثی (رح) سے لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ او ننسھا “ کا یہ معنی مروی ہیں کہ ہم اس کو چھوڑ دیتے ہیں (اور) ہم اس آیت کو ان کے پاس سے اوپر اٹھا لیتے ہیں۔ (11) عبد بن حمید اور ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ اوننسخھا “۔ (12) عبد بن حمید ابو داؤد، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آیت دوسری آیت کو منسوخ کرتی تھی اللہ کا نبی ایک آیت اور سورت اور سورت کا وہ حصہ جو اللہ تعالیٰ چاہتے تھے پھر وہ اٹھالی جاتی تھی اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو (وہ سورت) بھلا دیتے تھے اسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر بیان فرمایا لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ او ننسھا نأت بخیر منھا او مثلہا “ یعنی اس آیت میں تخفیف بھی ہے رخصت بھی ہے۔ امر ہے اور نہی بھی ہے۔ (13) ابو داؤد نے ناسخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ اوننسھا نأت بخیر منھا اور مثلہا الم تعلم ان اللہ علی کل شیء قدر “ پھر فرمایا ” واذ بدلنا ایۃ مکان ایۃ (النحل 10) (جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ) اور فرمایا ” یمحوا اللہ ما یشاء ویثبت “ (الرعد آیت 39) (اللہ تعالیٰ مٹاتا ہے جو چاہتا ہے اور باقی رکھتا ہے جو چاہتا ہے) ۔ (14) ابو داؤد اور ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ماننسخ من ایۃ اوننسھا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ امور قرآن مجید میں اتارتا ہے پھر ان کو اٹھا لیتا ہے اور فرمایا ” تات بخیر منھا او مثلہا “ (یعنی ہم اس سے بہتر یا اس کے مثل دوسرا حکم لے آتے ہیں) (15) ابن جریر نے حسن ؓ سے ” اوننسھا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہارے نبی ﷺ کو قرآن پڑھاتا ہوں پھر میں ان کو بھلا دیتا ہوں۔ سو (اب کوئی) چیز قرآن میں ایسی نہیں ہے جس کو منسوخ کردیا گیا ہو اور تم اس کو پڑھتے ہو۔ (16) ابو داؤد نے اپنی کتاب الناسخ میں ابن المنذر ابن الانباری نے المصاحف میں، ابوذر البردوی نے فضائل میں ابو امامہ بن سہل بن حنیف ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی کو ایک سورت یاد تھی وہ رات کو تہجد میں اس کو پڑھنے لگا تو اس پر قادر نہ ہوا (یعنی اس سورت کو نہ پڑھ سکا) پھر دوسرا آدمی اس سورت کو پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا تو وہ بھی قادر نہ ہوا اور پھر تیسرا آدمی کھڑا ہوا وہ بھی نہ پڑھ سکا صبح سویرے یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صورت حال بیان کی اور ان کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا گزشتہ رات وہ سورت منسوخ کردی گئی۔ (17) امام ابو داؤد نے الناسخ میں، بیہقی نے دلائل میں ایک دوسرے طریق سے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ انصار میں سے ایک جماعت جو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے ان کو بتایا کہ ایک آدمی آدھی رات کو تہجد کے لیے کھڑا ہوا اور اس نے ایک سورة کو پڑھنے کا ارادہ کیا جو اس نے یاد کر رکھی تھی مگر وہ سوائے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے کچھ بھی پڑھنے پر قادر نہ ہوا اسی طرح دوسرے صحابہ کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا۔ وہ لوگ صبح سویرے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس سورة کے بارے میں پوچھنے کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ کچھ دیر خاموش رہے ان کو کوئی جواب نہ دیا پھر فرمایا گزشتہ رات (وہ سورت) منسوخ کردی گئی اور ان کے سینوں سے بھی منسوخ کردی گئی اور ہر اس چیز سے مٹا دی گئی جس میں وہ لکھی ہوئی تھی۔ (18) امام ابن سعد، احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد (فی الناسخ) ابن الضریس، ابن جریر، ابن المنذر، ابن حیان اور بیہقی نے دلائل میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں قرآن میں نازل فرمایا جو بئر معونہ کے مقام پر شہید کر دئیے گئے جس کی ہم تلاوت کرتے تھے۔ یہ ان تک کہ (یہ آیت) بعد میں منسوخ کردی گئی اور وہ یہ آیت تھی ” ان بلغو قومنا انا فدلقینا عنا وارضانا “ (کہ ہماری قوم کو یہ بات پہنچا دو ہم نے اپنے رب سے ملاقات کرلی اور ہم سے راضی ہوگئے اور ہم اس سے۔ (19) امام مسلم، ابن مردویہ، ابو نعیم نے الحلبیہ میں اور بیہقی نے دلائل میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ ہم ایسی سورة پڑھا کرتے تھے کہ ہم اس کو لمبائی اور شدت میں (سورۃ) برأۃ کے مشابہ قرار دیتے تھے پھر میں اس کو بھول گیا سوائے اس حصہ کہ جس کو میں نے اس میں سے یاد کرلیا تھا (اور وہ یہ تھا) اگر ابن آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کی تلاش کرے گا۔ اور اس کا پیٹ نہیں بھرے گا مگر مٹی سے۔ اور ہم ایک ایسی سورة پڑھتے تھے جس کو ہم مسبحات میں سے ایک سورة کے مشابہ قرار دیتے تھے (المسبحات وہ سورتیں ہیں جن کے شروع میں سن یا فسخ آتا ہے۔ جس کا اول یوں تھا ” سبح للہ ما فی السموت “ مگر ہم وہ بھول گئے۔ سوائے اس کے جس کو میں نے اس سے یاد کرلیا تھا۔ (اور وہ یہ تھا) ” یایھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون “ سو (اس بات کی) گواہی تمہاری گردنوں میں لکھی جائے گی اور تم سے قیامت کے دن اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (20) ابو عبید نے فضائل میں اور ابن الضر یس نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ سورة برأت کی طرح ایک سخت سورة نازل ہوئی پھر وہ اٹھالی گئی اور میں نے اس میں سے یاد کرلیا تھا (جو یہ تھا) ” ان اللہ مؤید ھذا الذین باقوام لا خلاف لہم “ (بلاشبہ اللہ تعالیٰ عنقریب اس دین کی ایسی قوم سے مدد فرمائے گا کہ جن کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا۔ (یعنی آخرت میں) اور ابن ضریس (رح) سے یہ الفاظ منقول ہیں ” لیؤیدون اللہ ھذا الذین برجال ما لہم فی الاخرۃ من خلاق ولو ان لابن آدم وادیین من مال لتمنی وادیا ثالثا ولا یملا ضوف ابن آدم الا التراب الامن تاب فیتوب الہ علیہ واللہ غفور الرحیم “ (ضرور ضرور اللہ تعالیٰ اس دین کی ایسے آدمیوں سے مدد لیں گے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور اگر ابن آدم کے پاس دو وادیاں مال کی ہوں تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہیں) (21) امام ابو عبید احمد الطبرانی نے الاوسط میں اور بیہقی نے الشعب میں ابو واقد اللیثمی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف جب وحی آتی تھی تو ہم آپ کے پاس آتے تھے اور ہم وہ سیکھ لیتے جو آپ کی طرف وحی آتی تھی۔ ایک دن میں آپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے مال کو نازل کیا نماز کو قائم کرنے کے لیے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے۔ اور اگر ابن آدم کے پاس ایک وادی (مال کی) ہو تو وہ اس بات کو محبوب رکھے گا کہ اس کے ساتھ دوسری وادی بھی ہو اور اگر اس کے پاس دو وادیاں (مال کی) ہوں تو وہ اس بات کو محبوب رکھے گا کہ ان کے ساتھ تیسری وادی بھی ہو۔ ابن آدم کا پیٹ نہیں بھرے گا مگر مٹی سے اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں اس شخص کی جو توبہ کرتا ہے۔ (22) ابو داؤد، احمد، ابو یعلی اور طبرانی نے زید بن ارقم ؓ سے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یوں پڑھا کرتے تھے کہ اگر ابن آدم کے پاس دو دوایاں سونے اور چاندی کی ہوں تو وہ تیسری (وادی) کو طلب کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ نہیں بھرے گا مگر مٹی سے اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں اس شخص کی جو توبہ کرتا ہے۔ (23) ابو عبید اور احد نے جابر بن عبد اللہ ؓ سء روایت کیا کہ ہم یوں پڑھتے تھے۔ اگر ابن آدم کو ایک وادی مال سے بھری ہوئی مل جائے تو وہ اس بات کو محبوب رکھے گا کہ اسی طرح کی ایک اور وادی بھی مل جائے۔ اور ابن آدم کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ مگر مٹی سے اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں اس شخص کی جو توبہ کرتا ہے۔ حرص کی مذمت (24) ابو عبید بخاری، مسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اگر ابن آدم کے پاس ایک وادی مال کی بھری ہوئی ہو تو وہ اس بات کو محبوب رکھے گا کہ اسی طرح کی ایک اور وادی بھی مل جائے۔ ابن آدم کی آنکھ نہیں بھرے گی مگر مٹی سے اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں اس شخص کی جو توبہ کرتا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ یہ بات قرآن میں سے ہے یا نہیں۔ (25) البزار اور ابن الضریس نے حضرت بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو نماز میں یہ پڑھتے ہوئے سنا (جس کا ترجمہ یہ ہے) اگر ابن آدم کے لئے ایک وادی سونے کی ہو تو وہ دوسری وادی کو تلاش کرے گا اگر اس کو دوسری (وادی) بھی دے دی جائے تو وہ تیسری کو تلاش کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ مگر مٹی سے اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں اس شخص کی جو توبہ کرتا ہے۔ (26) ابن الانباری نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ ابن ابی کعب کی قرأۃ میں یوں منقول ہے (جس کا ترجمہ یہ ہے) اگر ابن آدم کو ایک وادی مال کی دے دی جائے تو وہ دوسری اور تیسری وادی کی تلاش کرے گا اگر اس کو دو وادیاں مال کی دے دی جائیں تو وہ تیسری کی تلاش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ نہیں بھرے گا مگر مٹی سے اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں اس شخص کی جو توبہ کرتا ہے۔ قرآن کریم میں رجم کا حکم (27) امام ابن الضریس نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم یوں پڑھا کرتے تھے ” لاترعبوا من اباء کم مانہ کفریکم وان کفرا بکم ان ترغبوا عن اباء کم “ (جس کا ترجمہ یہ ہے) اور اپنے آباء سے بےرغبت نہ ہوجاؤ کیونکہ یہ تمہارے لئے کفر ہے اگر تمہارا کفر یہ ہے کہ تم آباء سے اعراض کرو۔ (29) عبد الرزاق احمد اور ابن حبان نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب کو اتارا اور آیۃ الرجم بھی اس میں اتاری گئی۔ (اس وجہ سے) انہوں نے رجم کیا اور ہم نے بھی ان کے بعد رجم کیا پھر فرمایا ہم اس طرح پڑھا کرتے تھے (جس کا ترجمہ یہ ہے) اپنے آباء سے بےرغبت نہ ہوجانا کیونکہ یہ تمہارے لئے کفر ہے اور تمہارا کفر یہ ہے کہ تم اپنے آباء سے بےرغبت ہوجاؤ۔ (30) امام الطیالسی، ابو عبید اور طبرانی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ ہم پڑھا کرتے تھے کہ ” لا ترغبوا عن آباء کم فأنہ کفربکم “ کہ اپنے آباء سے بےرغبت نہ ہوجاؤ کیونکہ یہ تمہارے لئے کفر ہے پھر انہوں نے زید بن ثابت ؓ سے پوچھا کیا اسی طرح ہے اے زید انہوں نے فرمایا ہاں ! (31) امام ابن عبد اللہ نے التمہید میں عدی بن عدی میں میرین قزوہ اپنے دادا عمر بن قزوہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ؓ نے ابی ؓ سے فرمایا کیا ہم اللہ کی کتاب میں سے یہ آیت نہیں پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” ان انتفاء کم من ابائکم کفربکم “ (تمہارا والدین سے نفی کرنا کفر ہے) انہوں نے کہا ہاں ضرور پڑھا کرتے تھے پھر فرمایا کیا ہم یہ آیت نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ” الولد للفراش وللعاھر والحجر “ (بچہ صاحب فراش (شوہر، ماں باپ) کا ہے اروزانی کے لیے پتھر (رجم کی سزا) ہیں) یہ اس کتاب سے تھا جو ہم سے گم ہوچکی ہے۔ بی نے فرمایا کہا کیوں نہیں (واقعی یہ اس کتاب میں تھا) ۔ (32) ابو عبید ابن الضریس ابن الانباری نے مسور بن مخرمہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے پوچھا کیا تو نے اس (اللہ کی کتاب میں) یہ بھی پڑھا ہے۔ جو ہم پر اتارا گیا ” ان جاھدو کما جاھدتم اول مرۃ “ (تم اس طرح جہاد کرو جس طرح تم نے پہلی مرتبہ جہاد کیا تھا) ہم اس آیت کو نہیں پاتے۔ انہوں نے جواب دیا قرآن میں سے یہ حصہ ساقط کردیا گیا۔ (33) ابو عبید، ابن الضریس ابن الانباری نے المصاحف میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہرگز تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے سارا قرآن لے لیا اس کو کیا معلوم ہے کہ سارا قرآن کیا ہے ؟ اس میں سے بہت سارا قرآن منسوخ کردیا گیا لیکن یوں کہنا چاہئے کہ میں نے لے لیا جو کچھ اس میں سے ظاہر ہے۔ (34) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں ابن الانباری اور بیہقی نے دلائل میں عبیدہ سلیمانی (رح) سے روایت کیا کہ وہ قرأت جو رسول اللہ ﷺ آخری سال وصال میں پیش کی گئی یہ وہی قرأت ہے جس کو لوگ پڑھتے ہیں اور جس کو حضرت عثمان نے لوگوں کے لیے جمع فرمایا۔ (35) ابن الانباری، ابن اشتہ نے المصاحف میں ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال رمضان المبارک میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (قرآن مجید کا) دور فرمایا کرتے تھے۔ لیکن اس سال میں جس میں آپ کی وفات ہوئی دو مرتبہ دور فرمایا اور یہ کہ ہماری یہ قرأت اس آخری دور والی قرأت ہے۔ (36) ابن الانباری نے ابو ظبیان (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو ابن عباس ؓ نے فرمایا دو قرأتوں میں سے کون سی قرأت کو تم پہلی شمار کرتے ہو ہم نے کہا عبد اللہ ؓ کی قرأت اور ہمارے قرأت وہی آخری ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال رمضان میں ایک مرتبہ مجھ سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور آخری سال میں انہوں نے دو مرتبہ دور کیا۔ اور حضرت عبد اللہ ؓ نے اس کی گواہی دی جو منسوخ ہوئی اور جو بدل گیا۔ (37) ابن الانباری نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو ابن عباس ؓ نے فرمایا دو قرأتوں میں سے کون سی قرأت تم اول شمار کرتے ہو ہم نے کہا عبد اللہ کی قرأت انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ ایک مرتبہ قرأن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور آخری سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا اور عبد اللہ ؓ کی قرأت ان کی آخری قرأت ہے۔ (38) ابن الانباری نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) سال میں ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے اور آخری سال میں انہوں نے دو مرتبہ دور کیا سو میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس ان سے قرآن کو لیا تھا (یعنی قرآن سیکھا تھا) (39) ابن الانباری نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اگر میں جانتا کہ کوئی شخص اس آخری مرتبہ سننے میں مجھ سے تاخیر والا ہے۔ تو میں اس کی طرف سفر کرتا۔ (40) حاتم نے حضرت سمرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید تین مرتبہ پیش کیا گیا۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ ہماری یہ قرأت آخری مرتبہ پیش کرنے والی قرأت کے مطابق ہے۔ ناسخ و منسوخ کا علم ضروری ہے (41) ابو جعفر النحاس نے اپنی کتاب الناسخ میں ابو البختری (رح) سے روایت کیا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ ایک مسجد میں داخل ہوئے وہاں ایک آدمی (لوگوں کو) ڈرا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ایک آدمی لوگوں کو وعظ و نصیحت کر رہا ہے آپ نے فرمایا یہ آدمی لوگوں کو وعظ و نصیحت نہیں کر رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں فلاں فلاں ہوں سو مجھ کو پہچان لو حضرت علی نے اس کو بلایا پھر اس سے پوچھا کیا تو ناسخ اور منسوخ کو جانتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں ! آپ ؓ نے فرمایا ہماری مسجد سے نکل جا اور اس میں وعظ و نصیحت نہ کر۔ (42) ابو داؤد البحاس و المنصور میں اور بیہقی نے السنن میں ابو عبید الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ ایک مرتبہ ایک آدمی کے قریب سے گزرے جو وعظ و نصیحت کر رہا تھا حضرت علی ؓ نے پوچھا کیا تو ناسخ اور منسوخ کے احکام کو جانتا ہے 1 اس نے کہا نہیں حضرت علی ؓ نے فرمایا تو خود بھی ہلاک ہوا اور دوسروں کا بھی تو نے ہلاک کیا۔ (43) البحاس طبرانی نے ضحاک بن مزاحم (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو واقعات بیان کر رہا تھا آپ نے اس کو اپنے پاؤں سے ٹھوکر ماری اور فرمایا کیا تو ناسخ و منسوخ کو جانتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ نے (اس سے) فرمایا تو خود بھی ہلاک ہوا اور دوسروں کو بھی تو نے ہلاک کیا۔ (44) دارمی نے اپنی سنن میں اور النحاس نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ تین آدمیوں میں سے ایک آدمی کو فتوی دینا چاہئے ایک وہ آدمی جو قرآن کے ناسخ اور منسوخ کو جانتا ہو اور وہ حضرت عمر ؓ ہیں۔ دوسرا وہ قاضی جس کو قضا سے چھٹکارا نہ ہو تیسرا احمق معکف میں پہلے دو آدمیوں میں سے نہیں ہوں اور میں اس کا ناپسند کرتا ہوں کہ تیسرا ہوجاؤں۔
Top