Dure-Mansoor - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الْبَيْتَ : خانہ کعبہ مَثَابَةً : اجتماع کی جگہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے وَاَمْنًا : اور امن کی جگہ وَاتَّخِذُوْا : اور تم بناؤ مِنْ : سے مَقَامِ : مقام اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم مُصَلًّى : نماز کی جگہ وَعَهِدْنَا : اور ہم نے حکم دیا اِلٰى : کو اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل اَنْ طَهِّرَا : کہ پاک رکھیں بَيْتِيَ : وہ میرا گھر لِلطَّائِفِينَ : طواف کرنے والوں کیلئے وَالْعَاكِفِينَ : اور اعتکاف کرنے والے وَالرُّکَعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : اور سجدہ کرنے والے
اور جب ہم نے بنایا خانہ کعبہ کو لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ اور امن، اور بنا لو مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ اور ہم نے ابراہیم اور اسمعیل کو حکم بھیجا کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک کرو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے۔
(1) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذجعلنا البیت “ سے مراد کعبہ ہے۔ (2) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مثابۃ للناس “ سے مراد ہے کہ لوگ اس کی طرف اکھٹے ہوتے ہیں پھر لوٹ جاتے ہیں۔ (3) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے فرمایا کہ لفظ آیت ” مثابۃ لناس “ سے مراد ہے کہ ان کی اس کے متعلق کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی وہ حاضر ہوتے ہیں زیارت کرتے ہیں پھر گھر واپس جاتے ہیں پھر لوٹ آتے ہیں۔ (4) عبد بن حمید، ابن جریر نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذجعلنا البیت مثابۃ للناس “ سے مراد ہے کہ ہر جگہ سے اس کی طرف آتے ہیں۔ (5) سفیان بن عینیہ، عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور بیہقی نے الشعب میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مثابۃ للناس “ سے مراد ہے کہ اس کی طرف آتے ہیں اور اس سے کبھی کوئی حاجت پوری نہیں ہوتی وہ حج کرتے ہیں پھر لوٹ جاتے ہیں ” وامنا “ اور جو شخص اس میں داخل ہوتا ہے وہ کوئی خوف نہیں کرتا۔ (6) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وامنا “ سے مراد ہے کہ لوگوں کے لئے یہ ان کی جگہ ہے۔ بیت اللہ امن کی جگہ ہے (7) ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ یہ دشمنی سے امن کی جگہ ہے اس میں ہتھیار نہیں اٹھائے جاتے اور دور جاہلیت میں ان کے اردگرد لوگوں کو اچک لیا جاتا تھا جب کہ اس کے رہنے والے امن میں ہوتے تھے۔ أما قولہ تعالیٰ : واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی : (8) عبد بن حمید نے ابو اسحاق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ؓ کے اصحاب یوں پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ یعنی ان کو حکم دیا گیا کہ وہ (مقام ابراہیم کو مصلی) بنالیں۔ (9) عبد بن حمید نے عبد الملک بن ابی سلمان سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) کو پڑھتے سنا لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ خاء کے زیر کے ساتھ۔ (امر کا صیغہ پڑھا) ۔ (10) سعید بن منصور، احمد العدنی دارمی، بخاری، ترمذی نسائی، ابن ماجہ، ابن ابو داؤد نے المصاحف میں ابن المنذر، ابن مردویہ ابو نعیم نے الحلیۃ میں طحاوی، ابن حبان، دار قطنی نے افراد میں اور بیہقی نے سنن میں أنس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ میں نے تین مقامات پر اپنے رب کی موافقت کی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر آپ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیتے (تو اچھا تھا) تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ اور میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کہ بلاشبہ آپ کی عورتوں کے پاس اچھے اور برے آدمی آتے ہیں اس لئے آپ ان کو پردہ کا حکم دے دیں اس پر آیت حجاب نازل ہوئی اور آپ کی عورتیں رسول اللہ ﷺ کے پاس غربت کی بنا پر اکٹھی ہوئیں میں نے ان سے کہا لفظ آیت ” عسی ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن “ (تحریم آیت 5) آیت بھی اس طرح نازل ہوگئی۔ مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز (11) امام مسلم، ابن ابی داؤد، ابو نعیم نے الحلیہ میں اور بیہقی نے السنن میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے تین چکروں میں رمل (یعنی کندھے ہلاتے ہوئے تیز تیز قدم رکھا) فرمایا اور چار چکروں میں اپنی رفتار پر چلے۔ حتی کہ جب فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کی طرف جانے کا ارادہ فرمایا اور اس کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “۔ (12) ابن ماجہ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مقام ابراہیم کے پاس کھٹے ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہی وہ مقام ابراہیم ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ! ہاں۔ (13) طبرانی اور الخطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیتے (تو اچھا تھا) اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “۔ (14) عبد بن حمید اور ترمذی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! اگر ہم مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھ لیں (تو اچھا تھا) اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “۔ (15) ابن ابی داؤد نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مقام ابراہیم بیت اللہ سے ملا ہوا تھا۔ عمر بن خطاب ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر ہم اس کو بیت اللہ کی طرف ایک گوشے میں کرلیں تاکہ لوگ اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تو رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کرلیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “۔ (16) ابن ابی داؤد اور ابن مردویہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر ہم مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھ لیتے (تو اچھا تھا) اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ مقام ابراہیم کعبہ کے قریب تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو موجودہ جگہ میں منتقل فرما دیا (جہاں اب ہے) مجاہد (رح) نے فرمایا کہ حضرت عمر ؓ جو رائے دیتے تھے اسی کے مطابق قرآن نازل ہوتا تھا۔ (17) ابن مردویہ نے عمر بن میمون (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ مقام ابراہیم کے پاس سے گزرے اور عرض کیا کیا ہم اس کو نماز کی جگہ نہ بنا لیں ؟ ابھی تھوڑی ہی دیر ٹھہرے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “۔ (18) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں، دار قطنی نے الافراد میں ابو میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کہ یہ ہمارے رب کے خلیل کی جگہ ہے کیا ہم اس کو نماز کی جگہ نہ بنالیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “۔ (19) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مقام ابراہیم جس کا یہاں ذکر ہے وہ یہی ہے جو مسجد میں ہے کثرت کے بعد پورے حج کو مقام ابراہیم بنا دیا گیا۔ (20) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مقام ابراہیم سارا حرم ہے۔ (21) ابن سعد، ابن المنذر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ یہ مقام ابراہیم آسمان سے اتارا گیا۔ (22) ابن ابی حاتم اور عبد الرزاق نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ مقام جنت کے یاقوت میں سے ایک یاقوت تھا اس کے نور کو مٹا دیا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو آسمان و زمین کے درمیان ہر چیز روشن ہوجاتی اور رکن (یمانی) بھی اسی طرح ہے۔ (23) ترمذی، ابن حیان، حاکم بیہقی نے دلائل میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا رکن (یمانی) اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں سے دو یاقوت ہیں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے نور کو مٹا دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دونوں مشرق اور مغرب کے درمیان سب چیزوں کو روشن کردیتے۔ (24) امام حاکم نے حضرت أنس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رکن اور مقام (ابراہیم) جنت کے یاقوتوں سے دو یا قوت ہیں۔ (25) عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ مقام ابراہیم کے پتھر کو اللہ تعالیٰ نے نرم کردیا اور اس کو رحمت بنا دیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس پر کھڑے ہوئے تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پتھر اٹھا کر لاتے تھے۔ (26) امام بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ رکن اور مقام جنت کے یاقوت میں سے ہیں اگر بنی آدم کی خطائیں اس کو نہ چھوتیں تو یہ دونوں مشرق اور مغرب کے درمیان (سب چیزوں کو) روشن کردیتے۔ اور ان دونوں کو کبھی آفت رسید یا بیمار نے نہیں چھوا مگر اس کو شفا ہوگئی۔ (27) امام بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ اگر اس (مقا) کو جاہلیت کی بجاستیں نہ چھوتیں تو آفت زدہ اس سے شفا حاصل کرتا اور اس کے سوا زمین پر جنت میں سے کوئی چیز نہیں ہے۔ (28) امام الجندی نے فضائل مکہ میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ رکن اور مقام جنت کے پتھروں میں سے دو پتھر ہیں حجر اسود و مقام ابراہیم قیامت کے دن میں (29) الازرقی نے تاریخ مکہ میں اور الجندی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حجر اسود اور مقام ابراہیم ہر ایک کو قیامت کے دن احد پہاڑ کی طرف لایا جائے گا۔ ان دونوں کی دو آنکھیں اور دو ہونٹ ہوں گے دونوں اونچی آواز سے پکاریں گے اور دونوں اس شخص کے لیے گواہی دیں گے جس نے وفا کے ساتھ ان کی موافقت کی ہوگی۔ (30) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک قوم کو دیکھا وہ مقام ابراہیم کو چھو رہے ہیں آپ نے فرمایا تمہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ تمہیں اس کے پاس نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (31) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور الازرقی نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ سے مراد ہے کہ تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ تم اس کے پاس نماز پڑھو اور اس کو چھونے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اور اس امت نے ایسے تکلفات کئے ہیں جو پہلی امتوں نے نہیں کئے ہم کو بعض لوگوں نے بتایا جنہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی ایڑھی اور انگلیوں کے نشانات کو دیکھا پس اس امت نے اس کو ہاتھ لگا لگا کر نشانات مٹا دیے۔ (32) الازرقی نے نوفل بن معاویہ دیلمی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے مقام ابراہیم کو عبد المطلب کے زمانہ میں مھاۃ کی طرح دیکھا ہے ابو محمد خزاعی نے فرمایا کہ مھاۃ سفید موتی ہے۔ مقام ابراہیم پر پاؤں کا نشان (33) الازرقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عبد اللہ بن سلام ؓ سے اس نشان کے بارے میں پوچھا جو مقام ابراہیم پر تھا تو انہوں نے فرمایا یہ پتھر بھی اسی کیفیت میں تھا جیسا آج ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی بنانے کا ارادہ فرمایا پھر جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں میں حج کا اعلان کرنے کا حکم فرمایا تو آپ اس مقام پر کھڑے ہوگئے اور یہ مقام اوپر اٹھتا گیا یہاں تک کہ تمام پہاڑوں سے بلند ہوگیا اور فرمایا اے لوگو ! اپنے رب کا حکم قبول کرو تو لوگوں نے اس کو قبول کیا اور کہا لبیک اللہم لبیک (اے اللہ ہم حاضر ہیں) اور یہ اس میں ان کے پاؤں کا نشان تھا جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا اور وہ اپنے دائیں اور بائیں دیکھتے تھے کہ (اے لوگو) اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو۔ جب فارغ ہوئے تو اس مقام کے بارے میں حکم فرمایا اور آپ نے اس کو اپنے سامنے رکھا اور وہ دروازہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور آپ ان کا قبلہ رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی ان کے بعد اسی کعبہ کے دروازہ کی طرف اس کے سامنے نماز پڑھتے تھے پھر رسول اللہ ﷺ کو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا اور ہجرت سے پہلے اور بعد میں اسی کی طرف نماز پڑھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیا جائے جو اللہ کی ذات اور دوسرے انبیاء کا پسندیدہ تھا۔ اور آپ نے میزاب کی طرف نماز پڑھی اور آپ مدینہ منورہ میں تھے پھر آپ مکہ مکرمہ تشریف لائے اور مقام ابراہیم کی طرف نماز پڑھتے رہے جب تک مکہ میں رہے۔ (34) سعید بن منصور، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے مدعی۔ (35) الازرقی نے کثیر بن ابی کثیر بن المطلب بن ابی ابو وداعہ سہمی (رح) سے وہ اپنے باب دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سیلاب مسجد حرام میں بنی شیبہ کے دروازے سے داخل ہوتے تھے جبکہ حضرت عمر ؓ نے ابھی اونچا بند نہیں باندھا تھا۔ جب کوئی سیلاب آتا تو مقام کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتا اور بعض وقت اس کو کعبہ کے قریب کردیتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کی خلافت کے زمانہ میں جب ام نہشل کا سیلاب آیا تو وہ بھی مقام ابراہیم کو اپنی جگہ سے بہا کرلے گیا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کے نشیبی حصہ میں اس کو پایا گیا۔ اس کو لایا گیا اور کعبہ کے پردوں کے ساتھ اس کو باندھا گیا اور حضرت عمر ؓ کو اس بارے میں لکھا گیا آپ رمضان المبارک کے مہینہ میں گھبرائے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ مقام (جگہ سیلاب نے) مٹا دی تھی۔ حضرت عمر نے لوگوں کو بلایا اور فرمایا میں اللہ کی قسم دیتا ہوں اس بندے کو جو ان کی جگہ کو جانتا ہو مطلب بن ابی وداعہ ؓ نے عرض کیا اے امیر المؤمنین اس کی جگہ میں جانتا ہوں مجھے اس کے متعلق پہلے یہی خطرہ تھا میں نے پیمائش کی اس جگہ سے رکن یمانی تک اور اس کی جگہ سے باب حجر اسود تک اور اس جگہ سے زم زم تک ہیمانہ کے ساتھ پیمائش کی ہے اور وہ پیمائش میرے پاس گھر میں موجود ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میرے پاس بیٹھ جاؤ میں ان کے پاس بیٹھ گیا فرمایا اور کوئی دوسرا آدمی بھیج دے جو وہ پیمائش کو لے آئے جب وہ پیمائش لائی گئی تو وہ پیمائش اسی جگہ پوری ہوئی پھر عمر ؓ نے لوگوں سے پوچھا اور ان سے مشورہ کیا تو سب نے کہا ہاں یہی اس کی جگہ ہے۔ حضرت عمر ؓ کو جب یقین ہوگیا تو اسے نصب کرنے کا حکم دیا پہلے اس کی جگہ بیت اللہ کے قریب تھی پھر اسے تبدیل کردیا۔ اور وہ (اس دن سے) اسی جگہ پر ہے جہاں آج کے دن تک۔ (36) امام ازرقی نے سفیان بن عینیہ سے اور انہوں نے حبیب بن اسرس (رح) سے روایت کیا کہ ام نہشل کا سیلاب آیا تھا حضرت عمر ؓ کے مکہ کی اونچی جگہ پر بند باندھنے سے پہلے وہ (سیلاب) مقام ابراہیم کو اس کی جگہ سے لے گیا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کی جگہ کہاں ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ جب (مکہ مکرمہ) تشریف لائے تو آپ نے پوچھا کون اس کی جگہ کو جانتا ہے ؟ عبد المطلب بن ابی وداعہ نے عرض کیا اے امیر المؤمنین میں جانتا ہوں میں نے اس کا اندازہ لگایا ہے اور پیمانہ کے ساتھ اس کی پیمائش کی ہے۔ اس لئے میں نے حجر اسود سے مقام تک پھر رکن سے مقام تک اور کعبہ شریف کی طرف سے سب پیمائش کر رکھی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس پیمائش کو لے آؤ وہ پیمائش لے آیا تو اس کے مطابق مقام کو اپنی جگہ پر رکھا گیا اور حضرت عمر ؓ نے سیلاب کو روکنے کے لئے بند بھی باندھ دیا تھا اس بارے میں حضرت سفیان ؓ نے فرمایا کہ یہ وہ بات ہے جو ہم کو ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے بیان فرمائی کہ مقام ابراہیم پہلے بیت اللہ کے ایک گوشے میں تھا اور اسی جگہ پر رکھا گیا جس پر اب ہے۔ اور وہ جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں جگہ پر تھا یہ ٹھیک نہیں۔ (37) امام الارزقی نے ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ اس مقام ابراہیم کی جگہ وہی ہے جہاں وہ آج ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کی جگہ یہی تھی اور نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر ؓ کے عہد میں بھی یہی جگہ تھی مگر حضرت عمر ؓ کی خلافت کے زمانہ میں سیلاب اس کو لے گیا تھا اور لوگوں نے اس کو کعبہ کے ساتھ رکھ دیا پھر حضرت عمر ؓ نے لوگوں کی موجودگی میں اس کو اپنی گہ پر لوٹا دیا۔ مقام ابراہیم کو پیچھے ہٹانا (38) امام بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ مقام ابراہیم رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے زمانہ میں بیت اللہ کے ساتھ ملا ہوا تھا پھر حضرت عمر ؓ نے اس کو پیچھے ہٹا دیا۔ (39) ابن سعد نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے اعلان کیا کہ مقام ابراہیم کی جگہ کون جانتا ہے جہاں وہ تھا ابو وداعہ بن صبیرہ سہمی (رح) نے عرض کیا اے امیر المؤمنین میں اس کی جگہ کو جانتا ہوں میں نے اس کا اندازہ لگایا ہے دروازہ کی طرف سے اور میں نے اس کا اندازہ لگایا ہے رکن اور حجر اسود تک اور زم زم تک، حضرت عمر ؓ عنی نے فرمایا وہ پیمائش لے آؤ وہ لے آئے۔ پھر حضرت عمر نے اس کی پیمائش کے مطابق مقام ابراہیم کو اپنی جگہ پر رکھ دیا (یعنی اسی جگہ پر) جو ابو وداعہ نے بتائی تھی۔ (40) الحمید اور ابن نجار نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے بیت اللہ کے ساتھ چکر لگائے اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت پڑھے اور زم زم کا پانی پیے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں (چاہے) جتنی مقدار کو پہنچ جائیں۔ (41) الازرقی نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا کہ اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی (جب) بیت اللہ کے طواف کا ارادہ کرتا ہے تو گویا وہ اللہ کی رحمت میں گھس جاتا ہے اور جب (مطاف میں) داخل ہوتا ہے تو (اللہ کی رحمت) اس کو ڈھانپ لیتی ہے پھر وہ (جب طواف میں) کوئی قدم اٹھاتا ہے یا کوئی قدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے بدلہ میں پانچ سو نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اس سے پانچ سو برائیاں مٹا دیتے ہیں اور اس کے پانچ سو درجات بلند فرما دیتے ہیں۔ پھر جب وہ طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم پر آتا ہے اور دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے اس دن کی طرح جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔ اور اس کے لیے اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے دو غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے اور رکن یمانی پر ایک فرشتہ اس کا استقبال کرتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ جو تیری زندگی باقی ہے اس میں اب نئے سرے سے عمل کر، سابقہ گناہ تیرے معاف ہوگئے اور اپنے گھر والوں میں سے ستر آدمیوں کی سفارش کر۔ (42) ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی یعنی فتح مکہ کے دن۔ (43) ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے حجرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ ادا کرتے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی۔ (44) الازرقی نے طلق بن حبیب (رح) سے روایت کیا کہ ہم عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ کے ساتھ خطیم میں بیٹھے ہوئے تھے اچانک سایہ سمٹ گیا اور مجالس ختم ہوگئیں تو ہم نے ایک سانپ کی چمک دیکھی جو بنی شیبہ کے دروازے سے آیا تھا تو لوگوں کی آنکھیں اس کی طرف اٹھ گئیں اس نے اللہ کے گھر کے ساتھ چکر لگائے اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت پڑھیں پھر ہم اس کی طرف اٹھے اور ہم نے اس سے کہا کہ اے عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ نے تیری عبادت کو پورا کردیا اور کیونکہ ہماری زمین میں لڑکے بھی ہیں اور بیوقوف بھی ہیں۔ ہمیں ان کے متعلق تجھ سے خطرہ ہے۔ تو اس نے بطحاء کے ٹیلہ کی طرف اپنے سر کو اٹھا کر ٹیلا بنایا اور اپنی دن کو اس پر رکھا پھر آسمان کی طرف بلند ہوگیا یہاں تک کہ ہم نے اس کو نہیں دیکھا۔ وادی ذی طویٰ کے ایک جن کا واقعہ (45) الازرقی نے ابو الطفیل ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں جنوں کی ایک عورت وادی ذی طوی میں رہتی تھی اس کا ایک بیٹا تھا اور اس کے علاوہ اس کا کوئی اور بیٹا نہیں تھا، وہ اس سے سخت محبت کرتی تھی وہ اپنی قوم میں شریف تھا اس نے شادی کی اور اپنی بیوی کے پاس آیا۔ جب (اس کی شادی کو) ساتواں دن تھا تو اس نے اپنی ماں سے کہا اے میری ماں میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ میں دن کو اللہ کے گھر کے سات چکر لگاؤں اس کی ماں نے اس سے کہا اے میرے بیٹے مجھے تجھ پر قریش کے بیوقوف لوگوں کا خوف ہے۔ اس کی کہا سلامتی کی امید کرتا ہوں۔ اس کی ماں نے اجازت دے دی وہ سانپ کی صورت میں لوٹ گیا اور طواف کرنے لگا بیت اللہ کے ساتھ چکر لگائے اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت پڑھیں۔ پھر لوٹنے لگا تو قبیلہ بنی سہم کے ایک نوجوان نے اس کو قتل کردیا (اس کے بعد) مکہ میں اتنا غبار اڑا کہ یہاں تک کہ پہاڑ بھی نظر نہ آتے تھے۔ ابو الطفیل نے فرمایا کہ ہم کو یہ بات پہنچی کہ جنات میں سے کسی بڑے کی موت کے وقت یہ غبار اڑا کرتا ہے۔ پھر فرمایا کہ صبح کو بنی سہم نے اپنی زمین پر بہت سے مردے افراد دیکھے جن کو جنات نے قتل کیا تھا ان میں سے ستر بوڑھے گنجے سر والے تھے جو نوجوانوں کے علاوہ تھے۔ (46) الازرقی نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ میں کسی شہر کو نہیں جانتا کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو مگر مکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی “ کہا جاتا ہے مکہ مکرمہ میں پندرہ جگہ پر دعا قبول کی جاتی ہے ملتزم کے پاس، میزاب کے نیچے، رکن یمانی کے پاس، صفا اور مروہ کے درمیان، رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان، کعبہ شریف کے اندر، منیٰ میں، مزدلفہ میں، عرفات میں، اور تینوں جمرات کے پاس۔ قولہ تعالیٰ : وعھدنا الی ابراہیم : (47) ابن جریر نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعھدنا الی ابراہیم “ سے مراد ہے کہ ہم نے اس کو حکم فرمایا۔ (48) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان طھرا بیتی “ سے مراد ہے بتوں سے پاک کونا۔ یعنی میرے گھر کو بتوں سے پاک کرو۔ (49) ابن ابی حاتم نے مجاہد و سعید بن جبیر (رح) سے وایت کیا کہ لفظ آیت ” ان طھرا بیتی “ سے مراد ہے کہ میرے گھر کو پاک کرنا بتوں (کی عبادت) سے، شکوک و شبہات سے، جھوٹ بولنے سے اور گندگی سے۔ (50) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان طھرا بیتی “ سے مراد ہے کہ میرے گھر کو بتوں کی عبادت سے، شرک سے اور جھوٹ بولنے سے پاک کرو اور لفظ آیت ” والرکع السجود (125) “ سے مراد نمازی ہیں۔ (51) ابن ابی حاتم نے حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا جب بندہ کھڑا ہوتا ہے تو وہ طواف کرنے والوں میں سے ہوتا ہے۔ اور جب وہ بیٹھتا ہے تو وہ اعتکاب کرنے والوں میں ہوتا ہے اور اگر وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو وہ رکوع اور سجود کرنے والوں میں سے ہوتا ہے (52) عبد بن حمید نے سوید بن غفلہ (رح) سے روایت کیا انہوں نے فرمایا جو شخص مسجد میں بیٹھ گیا اور وہ باوضو ہے تو وہ معتکف ہے جب تک کہ وہ مسجد سے نکل نہ جائے۔ (53) عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے ثابت (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عبید اللہ بن عمیر ؓ سے عرض کیا کہ میں امیر سے بات کرکے مسجد حرام میں آرام کرنے والوں کو روکوں کیونکہ مسجد میں جنبی ہوتے ہیں اور بےوضو ہوجاتے ہیں عبد اللہ بن عبید نے فرمایا ایسا مت کر کیونکہ ابن عمر ؓ سے (ان لوگوں کے بارے میں) پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ اعتکاف کرنے والے ہیں۔ (54) ابن ابی شیبہ نے ابوبکر بن ابو موسیٰ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا کہ طواف افضل ہے یا نماز ؟ انہوں نے فرمایا کہ اہل مکہ کے لیے نماز افضل ہے اور باہر سے آنے والوں کے لیے طواف افضل ہے۔ (55) ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میرے نزدیک باہر سے آنے والوں کے لیے طواف زیادہ محبوب ہے نماز ہے۔ (56) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نماز اہل مکہ کے لیے افضل ہے اور طواف اہل عراق کے لیے افضل ہے۔ (57) ابن ابی شیبہ نے حجاج سے روایت کیا میں نے عطا (رح) سے پوچھا کہ (نماز افضل ہے یا طواف ؟ ) تو انہوں نے بتایا کہ تمہارے لئے طواف افضل ہے اور اہل مکہ کے لیے نماز افضل ہے۔ (58) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حج کے بعد عمرہ سے طواف افضل ہے اور دوسرے لفظ میں ہے کہ تیرا بیت اللہ کا طواف کرنا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے عمرہ کی طرف نکلنے سے۔
Top