Dure-Mansoor - Al-Baqara : 222
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ١ؕ قُلْ هُوَ اَذًى١ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِ١ۙ وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَ١ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے (بارہ) الْمَحِيْضِ : حالتِ حیض قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ اَذًى : گندگی فَاعْتَزِلُوا : پس تم الگ رہو النِّسَآءَ : عورتیں فِي : میں الْمَحِيْضِ : حالت حیض وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ : اور نہ قریب جؤ ان کے حَتّٰى : یہانتک کہ يَطْهُرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاِذَا : پس جب تَطَهَّرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاْتُوْھُنَّ : تو آؤ ان کے پاس مِنْ حَيْثُ : جہاں سے اَمَرَكُمُ : حکم دیا تمہیں اللّٰهُ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے التَّوَّابِيْنَ : توبہ کرنے والے وَيُحِبُّ : اور دوست رکھتا ہے الْمُتَطَهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرمادیجئے کہ وہ گندگی ہے، سو تم علیحدہپ رہو عورتوں سے حیض کے زمانہ میں، اور ان کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں، پھر وہ جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جس جگہ سے اللہ نے تم کو حکم دیا ہے، بیشک اللہ پسند فرماتا ہے خوب توبہ کرنے والوں کو
حیض کے زمانے میں ہمبستری سے اجتناب کرنا (1) امام احمد، عبد بن حمید، دارمی، مسلم، ابو داؤد (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابو یعلی، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس نے الناسخ میں، ابن حبان اور بیہقی نے سنن میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ یہودیوں میں جب کوئی حائضہ ہوجاتی تھی تو وہ اس کو گھر سے نکال دیتے تھے نہ اس کو اپنے ساتھ کھلاتے تھے نہ اس کو اپنے ساتھ پلاتے تھے اور نہ اکٹھے رہتے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” یسئلونک عن المحیض، قل ھو اذی، فاعتزلوا النساء فی المحیض “ (الآیہ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کے ساتھ گھروں میں رہو ان کے ساتھ سوائے جماع کے ہر معاملہ کرو یہ بات یہودیوں کو پہنچی تو انہوں نے کہا یہ آدمی (یعنی رسول اللہ ﷺ کیا چاہتا ہے۔ ہمارے ہر کام میں یہ ہماری مخالفت کرتا ہے (یہ سن کر) اسید بن حضیر اور عباد بن بشیر ؓ خدمت عالی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہودیوں نے ایسا ایسا کہا کیا ہم ان کو اپنے ساتھ نہ رکھیں ؟ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ ان پر ناراض ہوگئے ہیں وہ دونوں باہر چلے گئے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف ہدیہ دودھ بھیجا گیا آپ نے ان کو بلوایا اور ان کو دودھ پلایا۔ دونوں نے اس بات کو پہچان (جان) لیا کہ آپ ﷺ ان پر ناراض نہیں ہیں۔ (2) نسائی اور البزار نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ویسئلونک عن المحیض “ کے بارے میں فرمایا کہ یہودیوں نے کہا جو اپنی بیوی کی دبر کی طرف سے قبل میں رمی کرے گا۔ اس کا لڑکا بھینگا ہوگا انصار کی عورتیں اپنے مردوں کو دبر (پچھلا حصہ) کی طرف قبل (یعنی فرج) میں وطی کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے کسی آدمی کے اپنی عورت کے پاس حیض کی حالت میں آنے کے بارے میں پوچھا تو اس پر اللہ تعالیٰ (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ویسئلونک عن المحیض، قل ھو اذی، فاعتزلوا النساء فی المحیض، ولا تقربوھن حتی یطھرن “ یعنی غسل کے ساتھ ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ (اور فرمایا) ” نساء کم حرث لکم “ یعنی حرث سے مراد بچے کے پیدا ہونے کی جگہ۔ حیض کے زمانے میں مخالطت جائز ہے (3) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قرآن حیض والی عورت کے بارے میں نازل ہوا۔ اور مسلمان بھی عجمی لوگوں کی طرح ان کو اپنے گھروں سے نکال دیتے تھے۔ تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری۔ لفظ آیت ” ویسئلونک عن المحیض، قل ھو اذی، فاعتزلوا النساء فی المحیض “ تو ایمان والوں نے گمان کیا کہ اعتزال سے مراد یہی ہے جیسے وہ اپنی عورتوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں۔ یہاں تکہ کہ آیت کا آخری حصہ پڑھا گیا۔ تو ایمان والوں نے سمجھ لیا کہ اعتزال کیا چیز ہے۔ جب الہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” لاتقربوھن حتی یطھرن “۔ (4) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ویسئلونک عن المحیض “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ وہ آیت ہے جس کے بارے میں ثابت بن وحداح ؓ نے سوال کیا تھا۔ (5) ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) ” ویسئلونک عن المحیض “ ثابت بن وحداح ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ (6) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی عورتوں کو گھر میں نہیں رہنے دیتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا بھی نہیں کھلاتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت اتاری۔ جس میں اس (یعنی عورت) کی فرج کو حرام کردیا گیا۔ جب تک وہ حیض کی حالت میں رہے اور اس کے علاوہ سب (کام) حلال کر دئیے گئے۔ (7) بخاوی و مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا جبکہ وہ حائضہ تھیں کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دیا ہے۔ (8) عبد الرزاق نے المصنف میں، سید بن منصور اور سعد نے اپنی مسند میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں مردوں کے ساتھ صف میں نماز پڑھتی تھیں (اور) وہ لکڑی کے قوالت بنواتی تھیں جن کے ساتھ ان کا قد بلند ہوجاتا تھا۔ یہ اس لئے کرتی تھیں تاکہ اپنے دوست کو دیکھ سکیں (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان پر حیض کو ڈال دیا اور ان کو مساجد سے روک دیا گیا۔ اور ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر حیض کو مسلط کردیا اور وہ پیچھے ہٹا دی گئیں۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا تم بھی ان کو پیچھے ہٹا دو جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پیچھے ہٹا دیا۔ (9) عبد الرزاق نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے لکڑی کے جوتے بنوائے اور ان کے ساتھ مردوں کے لئے مساجد میں بناؤ سنگار کرتی تھیں (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان پر مساجد میں آنا حرام فرما دیا اور ان پر حیض کو مسلط کردیا۔ (10) احمد اور بیہقی نے سنن میں یزید بن بانبوس (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ آپ عناک کے بارے میں کیا فرماتی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم اس سے حیض مراد لیتے ہو ہم نے عرض کیا ہاں ! فرمایا تم اس کا نام وہی رکھو جو اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رکھا۔ (11) طبرانی احمد دار قطنی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا حیض سے کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ (12) طبرانی نے الاوسط میں عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حائضہ عورت حیض کے شروع ہونے سے لے کر دس دن تک انتظار کرے اگر تو وہ طہر دیکھ لے تو وہ طاہر ہے۔ اگر (حیض کا خون) دس دن سے تجاوز کر جائے تو یہ مستخاصہ ہے (جو بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے) ۔ (13) ابو یعلی، دار قطنی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ حائضہ عورت انتظار کرے پانچ، سات، آٹھ، نو اور دس دنوں تک اگر دس دن سے خون آگے بڑھ جائے تو وہ مستخاصہ ہے۔ (14) دار قطنی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ حیض (کا خون) تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو اور دس دن تک ہوتا ہے۔ (15) دار قطنی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ حیض (کا خون) تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو اور دس دن تک ہوتا ہے۔ اگر اس سے زائد ہوجائے تو وہ استخاصہ ہے۔ (16) دار قطنی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ادنی حیض تین دن کا ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ (17) دارقطنی نے واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کم سے کم حیض، تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔ (18) دار قطنی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ حیض دس دنوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ (19) دار قطنی نے عطا بن أبی رباح (رح) سے روایت کیا انہوں نے فرمایا کہ أدنی حیض کا وقت ایک دن ہے۔ (20) دار قطنی نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ اکثر حیض پندہ دن ہے۔ (21) دار قطنی نے شریک اور حسین بن صالح (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا کہ اکثر حیض پندہ دن ہے۔ (22) طبرانی نے سریک (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے نزدیک ایک عورت کو مہینے کے پورے صحیح پندرہ دن حیض آتا ہے۔ (23) دار قطنی نے اوزاعی (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے پاس ایک عورت ہے جس کو صبح کو حیض آتا ہے اور شام کو وہ پاک ہوجاتی ہے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” قل ھو اذی، فاعتزلوا النساء فی المحیض “ (24) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” قل ھو اذی “ میں اذی سے مراد خون ہے۔ (25) عبد الرزاق اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” قل ھو اذی “ میں اذی سے مراد گندگی ہے۔ (26) ابن المنذر نے ابو اسحاق الطالقانی سے انہوں نے محمد بن حمید سے انہوں نے فلاں بن سری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حیض کی حالت میں عورتوں سے بچو کیونکہ جذام (کی بیماری) حیض کے دنوں کی اولاد سے ہوتی ہے۔ (27) ابو العباس السراج نے اپنی سند میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص حیض کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس آئے گا پھر اس کا بچہ جذام کے مرض میں مبتلا پیدا ہو۔ تو وہ اپنے نفس کو ملامت کرے۔ (28) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس نے الناسخ میں اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاعتزلوا النساء “ سے مراد ہے (حیض کی حالت میں) عورتوں کی شرم گاہوں سے الگ ہوجاؤ۔ (29) امام داؤد احمد ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی بعض ازواج مطہرات سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی حیض والی بیوی کا ارادہ فرماتے تھے تو اس کی شرم گاہ پر کپڑا ڈال دیتے تھے پھر آپ وہ کام کرتے تھے جس کا ارادہ فرماتے تھے۔ (30) عبد الرزاق، ابن جریر، النحاس نے الناسخ میں اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ مرد کے لئے عورت کس حد تک غلال ہے ؟ وہ حائضہ ہو تو انہوں نے فرمایا اسکی شرمگاہ کے علاوہ باقی سب حلال ہے۔ (31) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب ہم میں سے کوئی حائضہ ہوتی تھی اور نبی اکرم ﷺ اس سے مباشرت کا ارادہ فرماتے تھے تو اس کو حکم فرماتے کہ اپنی حیض کے نکلنے کی جگہ پر چادر باندھ لے پھر آپ اس سے مباشرت فرماتے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا جتنا رسول اللہ ﷺ کو اپنے نفس پر ضبط تھا تم میں اسے اتنا ضبط کس کو ہے۔ حالت حیض میں فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ (32) ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، بیہقی نے حضرت میمونہ ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ اپنی عورتوں میں سے کسی عورت کے ساتھ مباشرت کا ارادہ فرماتے تھے اور وہ حائضہ ہوتی تھی تو رسول اللہ ﷺ اسے کپڑا باندھے کا حکم فرماتے۔ (33) ابن ابی شیبہ ابو داؤد نسائی نے حضرت میمونہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی عورتوں میں سے کسی عورت کے ساتھ مباشرت کرنا چاہتے اور وہ حائضہ ہوتی تھی (تو اس حال میں مباشرت فرماتے تھے) کہ وہ آدمی رانوں تک یا آدھے گٹھنے تک چادر (باندھے ہوئے) ہوتی تھی اور اسے کپڑے سے وہ یہ حصہ چھپائے ہوئے ہوتی۔ (34) ابو داؤد، نسائی اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی کپڑے میں رات گزارتے تھے حالن کہ میں حائضہ ہوتی تھی۔ اگر آپ ﷺ کو میری طرف سے غلاظت لگ جاتی تو آپ اس جگہ کو دھو دیتے اور اسے شمار نہ کرتے اور اگر آپ کے کپڑے کو میری طرف سے کوئی چیز لگ جاتی تو آپ اس جگہ کو دھو لیتے تھے پھر اس کا کچھ شمار نہیں کرتے تھے اور اس میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ (35) ابو داؤد نے عمارہ بن غراب (رح) سے روایت کیا کہ ان کی پھوپھی نے ان کو بیان کیا کہ انہوں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی عورت حیض والی ہوتی ہے اور اس کا اور اس کے شوہر کا ایک ہی بسترہ ہوتا ہے۔ عائشہ ؓ نے فرمایا تو تم کو بتاؤں کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے ؟ فرمایا آپ ﷺ (گھر میں) داخل ہوئے پھر اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر تشریف لے گئے یہاں تک کہ میری آنکھ لگ گئی آپ ﷺ نے سردی محسوس کی۔ تو فرمایا میرے قریب ہوجا میں نے عرض کیا میں حیض سے ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا اپنی رانوں کو کھول دے تو میں نے اپنی رانوں کو کھول دیا آپ نے میری رانوں پر اپنے رخسار اور سینے کو رکھا اور میں آپ کے اوپر پیٹ گئی یہاں تک کہ آپ کا جسم گرم ہوا اور آپ سو گئے۔ (36) بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ نے حجرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب میں حائضہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺ مجھے چادر باندھنے کا حکم فرماتے پھر مجھ سے مباشرت فرماتے۔ (37) مالک نے ربیعہ بن ابی عبد الرحمن (رح) و سے روایت کیا کہ حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی کپڑے میں لیٹی ہوئی تھیں تو جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئیں رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تجھے کیا ہوا شاید کہ تجھ کو حیض آگیا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنے اوپر چادر مضبوطی سے باندھ لے پھر اپنے لیٹنے کی جگہ پر (میرے پاس) لوٹ آ۔ (38) بخاری، مسلم و نسائی نے حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے حیض آگیا۔ میں چپکے سے سرک گئی۔ اور اپنے حیض والے کپڑے پہن لئے۔ آپ نے فرمایا کیا تجھے حیض آگیا ؟ میں نے عرض کیا ہاں ! پھر آپ نے مجھے بلایا اور میں آپ کے ساتھ اپنی چادر میں لیٹ گئی۔ (39) ابن ماجہ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کے لحاف میں لیٹی ہوئی تھی تو مجھے حیض آگیا جیسے عورتوں کو آیا کرتا ہے۔ تو میں لحاف سے چپکے سے کھسک گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تجھے حیض آگیا ؟ میں نے عرض کیا مجھے حیض آگیا جیسے عورتوں کو آیا کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ وہ ہے جو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) آدم (علیہ السلام) کی بیٹیوں پر لکھ دیا گیا ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں چپکے سے کھسک گئی۔ اور (جب) میں نے اپنے حال کو ٹھیک کرلیا تو میں پھر آپ کے پاس واپس لوٹ آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے ساتھ لحاف میں داخل ہوجا۔ تو میں آپ جے ساتھ (لحاف میں) داخل ہوگئی۔ (40) ابن ماجہ نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت کیا کہ ام حبیبہ ؓ سے پوچھا کہ تم حیض کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم میں سے کسی کو حیض شروع ہوتا تو وہ اپنے اوپر آدھی رانوں تک چادر باندھ لیتی تھی۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لیٹ جاتی تھی۔ حیض کی حالت میں زیر ناف سے فائدہ حاصل نہ کرے (41) ابو داؤد، ابن ماجہ نے عبداللہ بن سعد انصاری ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا حیض کی حالت میں میری عورت میرے لئے کتنی حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا چادر سے اوپر جو حصہ ہے وہ تیرے لئے (حلال) ہے۔ (42) ترمذی نے عبد اللہ بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے حائضہ عورت کو ساتھ بٹھا کر کھلانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اس کو ساتھ بٹھا کر کھلاؤ۔ (43) امام احمد اور ابو داؤد نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ مرد کے لئے اپنی عورت کتنی حلال ہے جبکہ وہ حائضہ ہو تو آپ نے فرمایا وہ حصہ جو چادر سے اوپر ہے۔ اور اس سے بھی بچنا افضل ہے۔ (44) مالک اور بیہقی نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا میرے لئے عورت کتنی حلال ہے جبکہ وہ حائضہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کی چادر مضبوط باندھ لے پھر اس کے اوپر جو چاہے کرلے۔ (45) امام مالک اور شافعی، بیہقی نے نافع سے انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روات کیا کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک آدمی کو یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ کیا کوئی آدمی حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے مباشرت کرسکتا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے نیچے حصے پر چادر باندھ لے پھر مرد اس سے مباشرت کرے اگر چاہے۔ (46) بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا مرد کے لئے حیض والی عورت سے کتنا حصہ حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا چادر کا اوپر والا حصہ۔ (47) ابن ابی شیبہ، ابو یعلی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا مرد کے لئے حیض والی عورت کتنی حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا جو چادر سے اوپر ہے۔ (48) طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری عورت جب حائضہ ہو تو میرے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کی چادر (نیچے) باندھ دو پھر جو چاہو کرو۔ (49) طبرانی نے عبادہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا مرد کے لئے اپنی عورت کتنی حلال ہے جب وہ حائضہ ہو۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا جو چادر سے اوپر ہے اور چادر کے نیچے والا حصہ اس میں سے حرام ہے۔ (50) طبرانی نے الاوسط میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ تین دن تک خون کی تیزی کے وقت بچتے تھے۔ پھر اس کے بعد مباشرت فرماتے تھے۔ (51) ابن جریر نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ مرد کے لئے اس کے عورت سے کیا حلال ہے جبکہ وہ حائضہ ہو۔ تو انہوں نے فرمایا جماع کے علاوہ سب حلال ہے۔ (52) ابن ابی شیبہ نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ اس میں کچھ حرج نہیں کہ مرد اپنی عورت کے پیٹ اور اس کی دونوں رانوں کے درمیان کھیلے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” ولا تقربوھن حتی یطھرن “: (53) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس نے الناسخ میں اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقربوھن حتی یطھرن “ یعنی خون سے پاک ہوجائیں۔ (54) عبد الرزاق نے المصنف میں عبد بن حمید ابن جریر، ابن المنذر، النحاس نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقربوھن حتی یطھرن “ یعنی یہاں تک کہ خون (آنا) بند ہوجائے۔ (55) ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی حائضہ عورت کے پاس آیا (یعنی اس سے جماع کیا) یا اپنی عورت کے پیچھے سے جماع کیا یا کسی کا ہن (یعنی غیب کی خبریں بتانے والے) کے پاس جو اس نے اس (دین) کا انکار کیا جو محمد ﷺ پر اتارا گیا۔ (56) ابن ابی شیبہ، احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو آدمی حیض کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس آجائے (یعنی اس سے جماع کرے) تو اس کو چاہئے کہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے۔ (57) ابو داؤد، حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو آدمی (حیض کا) خون آنے کی حالت میں اپنی عورت سے جماع کرلے تو اس کو چاہئے کہ ایک دینار صدقہ کرے اور جو آدمی خون بند ہوجانے پر (اور غسل سے پہلے اپنی عورت سے جماع کرے) تو آدھا دینار صدقہ کرے۔ (58) ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اگر سرخ خون ہو اور جماع کرے تو ایک دینا صدقہ کرے اگر زیادہ خون ہو تو آدھا دینار صدقہ کرے۔ (59) ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے دنیا کے دو خمس صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ (60) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس نے الناسخ میں اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اپنی عورت سے حیض کی حالت میں جماع کر بیٹھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو ایک غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا اور ان دنوں غلام کی قیمت ایک دینار تھی۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” فاذا تظھرن “: (61) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس نے الناسخ میں اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فاذا تظھرن “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ پانی سے (غسل کرکے) پاک ہوجائیں۔ (62) سفیان بن عینیہ، عبد الرزاق نے المصنف میں ابن زید، ابن المنذر، النحاس نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذا تظھرن “ سے مراد ہے کہ جب وہ غسل کرلیں اور نہیں حلال ہوتی اپنے شوہر کے لئے یہاں تک کہ غسل کرلے۔ ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ (63) ابن جریر نے ایک دوسرے طریق سے طاؤس اور مجاہد (رح) دونوں حضرات سے روایت کیا کہ جب عورت پاک ہوجائے تو اس کو وضو کرنے کا حکم کرے پھر اس سے جماع کرے۔ (64) ابن المنذر نے ایک دوسرے طریق سے مجاہد اور عطا رحمہما اللہ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ عورت جب طہر کو دیکھے تو کچھ حرج نہیں کہ پانی کے ساتھ پاکیزگی حاصل کرے۔ اور مرد اس سے غسل کرنے سے پہلے اس کے پاس (جماع کے لئے) آجائے۔ (65) بیہقی نے سنن میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! ہم چار مہینے صحرائی علاقہ میں ہوں گے اور ہمارے درمیان نفاس والی اور حیض والی عورتیں اور جنبی مرد بھی ہوں گے۔ تو ہم کیا کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا تم پر مٹی سے تیمم کرنا لازم ہے۔ (66) بخاری، مسلم، نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے حیض کے بعد غسل کرنے کا طریقہ پوچھا آپ نے اس کو حکم فرمایا کہ خوشبو کی ایک ٹکیہ لے لے اور اس کے ساتھ پاکی حاصل کرلے۔ (یعنی خون نکلنے کی جگہ لگا دے) اس نے عرض کیا اس کے ساتھ کس طرح پاکی حاصل کروں آپ نے (پھر) فرمایا اس کے ساتھ پاکی حاصل کرلے اس (پھر) کہا کس طرح آپ نے فرمایا سبحان اللہ اس کے ساتھ پاکی حاصل کرلے۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جہاں خون کے نشانات ہیں وہاں خوشبو لگا دے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “: (67) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ کے بارے میں روایت کیا یعنی عورت کے قریب اس وقت آؤ جبکہ وہ پاک ہوں حائضہ نہ ہو۔ (68) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ سے مراد ہے کہ وہ (عورتیں) پاک ہوں حیض والی نہ ہوں۔ (69) دارمی، ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے تم کو ان سے علیحدہ ہونے کا حکم دیا تھا۔ (حیض کی حالت میں) ابن ابی شیبہ نے عکرمہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ مقام مخصوص کے علاوہ دوسری جگہ ہمبستری حرام ہے (70) ابن جریر، ابن المنذر، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ سے مراد ہے کہ فرج میں جماع کرو (اس کے علاوہ کسی طرح تجاوز نہ کرو) ۔ (71) امام وکیع، ابن ابی جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ سے مراد ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے تمہیں حیض کی حالت میں جماع سے منع کیا تھا یعنی فرج کی طرف سے بھی (حیض کی حالت میں نہ آؤ) (72) ابن ابی شیبہ نے ابو رزین (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ سے مراد ہے کہ طہر سے پہلے نہ آؤ ان کے پاس حیض کی جانب سے بھی نہ آؤ (یعنی حیض کی حالت میں) (73) ابن ابی شیبہ نے ابن الحنفیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ سے مراد ہے کہ شادی سے پہلے اور حلال ہونے سے پہلے (عورت کے پاس نہ آؤ) ۔ (74) عبد الرزاق نے المصنف میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ سے مراد ہے کہ اس جہاں سے خون نکلتا ہے وہاں جماع کرو اگر وہاں نہیں کرے گا جہاں حکم کیا گیا تو وہ نہ تو اس میں ہوگا اور نہ ” متطھرون “ میں سے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین “ (222): (75) امام وکیع، عبد ابن حمید، ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان اللہ یحب التوابین “ یعنی گناہوں سے (توبہ کرنے والے) (اور) ” یحب المتطھرین “ یعنی پانی سے (پاکی حاصل کرنے والے) (76) ابن ابی حاتم نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین “ سے مراد ہے گناہوں سے توبہ کرنے والے اور شرک سے پاک لوگ۔ (77) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جو آدمی اپنی عورت کے پچھلے حصہ میں آیا وہ پاکی حاصل کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔ (78) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کو وضو کرتے ہوئے دیکھا جب وہ فارغ ہوا تو اس نے یہ دعا پڑھی۔ لفظ آیت ” اللہم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین “ ابو العالیہ نے فرمایا پانی سے پاکی حاصل کرنا اچھا ہے لیکن ” متطھرین “ سے گناہوں سے پاس لوگ مراد ہیں۔ (79) ترمذی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا۔ پھر یوں کہا : اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ اللہم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین : تو اس کے لئے جنت کے آٹھ دروازے کھول دئیے جاتے ہیں جس دروزے سے چاہے داخل ہوجائے۔ (80) ابن ابی شیبہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ جب وہ وضو سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ اللہم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین۔ (81) ابن ابی شیبہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ حضرت حذیفہ ؓ جب وضو فرماتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ اللہم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین۔ گناہ سے توبہ کرنے والا (82) الطستی نے الرسالہ میں اور ابن النجار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا اس نے گناہ کیا ہی نہیں جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو پسند فرماتے ہیں تو اس کا گناہ کوئی نقصان نہیں دیتا۔ پھر (یہ آیت) تلاوت فرمائی لفظ آیت ” ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین “ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! توبہ کی نشانی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا (گناہوں پر) نادم ہونا۔ (83) امام وکیع، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم، بیہقی نے الشعب میں شعبی (رح) روایت کیا کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین “ (84) ابن ابی شیبہ، ترمذی، ابو المنذر، بیہقی نے الشعب میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا باہر آدم کا بیٹا خطا کار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔ (85) احمد نے الذھد میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے ایک نبی کے پاس اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی۔ اگر آدم کا بیٹا خطا کرنے والا ہے تو بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔ (86) ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا کیا میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں احرام کی حالت میں آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں لفظ آیت ” ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین “
Top