Dure-Mansoor - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور پسند فرماتا ہے خوب پاکیزگی اختیار کرانے والوں کو، تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، سو تم اپنی کھیتی میں آجاؤ جس طرف سے ہو کر چاہو اور تم اپنی جانوں کے لئے آگے بھیج دو ، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ بلاشبہ تم اس سے ملاقات کرنے والے ہو، اور مؤمنین کو خوشخبری سنا دو
(1) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، بخاری، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ابن ماجہ، ان جریر، ابو نعیم نے حلیہ میں اور بیہقی نے سنن میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ یہودی کہتے تھے جب کوئی آدمی اپنی عورت کے پاس اس کے پیچھے (ہوکر) اس کے اگلے حصہ (یعنی فرج) میں آئے گا (یعنی اس طرح جماع کرے گا) پھر اس کا حمل ہوگیا تو بچہ بھینگا پیدا ہوگا تو (اس پر یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ اگر وثی فرج میں ہو تو آگے کی طرف سے یا پیچھے کی طرف سے (جائز ہے) (2) سعید بن منصور، دارمی، ابن المنذر ابن ابی حاتم نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا جو آدمی اپنی عورت سے پیچھے کی طرف سے فرج میں وطی کرتا ہے۔ تو اس کا بیٹا بھینگا پیدا ہوگا۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آگے کی طرف سے پیچھے کی طرف سے جب کہ وطی فرج میں ہو۔ فرج میں ہر طرح سے ہمبستری جائز ہے (3) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں، عبد بن حمید، ابن جریر نے مرۃ ہمدانی (رح) سے روایت کیا کہ ایک یہودی ایک مسلمان سے ملا اور اس سے کہا تم اپنی عورتوں کے پاس ان کے پیٹھ کی طرف سے آتے ہو گریا انہوں نے اس کیفیت کو ناپسند کیا۔ یہ بات انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی۔ تو (یہ آیت) نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ (الآیہ) ۔ تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اجازت دیدی کہ عورتوں سے ان کے فرعج میں جماع کریں جیسے چاہیں اور جس طرح چاہیں۔ ان کے سامنے سے یا ان کے پیچھے سے۔ (4) ابن ابی شیبہ نے مرہ (رح) سے روایت کیا کہ یہودی مسلمانوں سے مذاق کرتے تھے ان کی عورتوں کے ساتھ پیچھے کی طرف سے ہو کر فرج میں جماع کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ (الآیہ) (5) ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ انصار اپنی عورتوں کے ساتھ جماع کرتے تھے جبکہ وہ پہلوں کے بل لیٹی ہوئی تھیں اور قریش چت لٹا کر جماع کرتے تھے قریش کے ایک مرد نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی تو اس نے اپنے طریقے سے جماع کرنے کا ارادہ کیا۔ تو عورت نے کہا میرے قریب نہ آ مگر جیسے وہ (یعنی انصاری لوگ) کرتے ہیں۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ یعنی کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے اور لیٹے ہوئے بعد اس کے کہ (جماع) ایک ہی سوراخ (یعنی فرج) میں ہو۔ (6) ابن جریر نے سعید بن ابی ہلال (رح) سے روایت کیا کہ ان کو عبد اللہ بن علی (رح) نے بیان فرمایا کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ ایک دن بیٹھے ہوئے تھے اور ایک آدمی یہود میں سے ان سے قریب (بیٹھ گیا) ان میں سے بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ میں اپنی عورت کے پاس اس حال میں آتا ہوں کہ وہ پہلو کے بل لیٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اور دوسرے نے کہا اور میں اپنی عورت کے پاس آتا ہوں کہ وہ کھڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اور تیسرے نے کہا میں اپنی عورت کے پاس آتا ہوں کہ وہ بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہودی نے کہا تم جماع نہیں کرتے مگر جانوروں کی طرح مگر ہم ایک ہی طریقے پر آتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ (الآیہ) (7) وکیع، ابن ابی شیبہ، دارمی نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ یہودی پرواہ نہیں کرتے تھے جو کچھ مسلمان پر (کوئی حکم) سخت ہوتا تھا۔ وہ کہتے تھے اے اصحاب محمد ﷺ کی قسم تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ نہ آؤ تم عورتوں کے ساتھ مگر ایک ہی طریقے سے۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ تو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں اور ان کی ضرورت کے درمیان راستہ چھوڑ دیا (یعنی جس طرح چاہو جماع کرو) یہود کی قسم کی تکذیب (8) عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ یہودی حسد کرنے والی قوم تھی۔ انہوں نے کہا کہ اے اصحاب محمد ﷺ اللہ کی قسم۔ نہیں حلال ہے تمہارے لئے کہ تم اپنی عورتوں کے پاس آؤ مگر ایک ہی طریقہ کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلایا اور یہ آیت اتاری۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ تو اللہ تعالیٰ نے اجازت فرما دی اپنی بیوی سے جیسے چاہے لطف اندوز ہو۔ اگر مرد چاہے تو اپنی عورت کے پاس آئے اس کے آگے کی طرف۔ اگر وہ چاہے تو اس کے پیچھے کی طرف سے سوائے اس کے کہ راستہ ایک ہی ہو (یعنی فرج میں خواہش پوری کرے) (9) عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا تم اپنی عورتوں کے پاس جانوروں کی طرح آتے ہو اونٹ کی طرح ان کو بٹھاتے ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ اور کچھ حرج نہیں کہ مرد اپنی عورت کو ڈھاک لے جس طرح چاہے اگر وہ اس کی فرج میں جماع کرے۔ (10) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہودی مسلمانوں کو ان کی عورتوں کے بارے میں ان کو عار دلاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور یہودی کو جھوٹا قرار دیا اور مسلمانوں کو اپنی عورتوں کے پاس آنے کی ہر طرح کی رخصت دی جائے۔ (11) ابن عساکر نے محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ عبد اللہ ؓ نے ہم کو بیان فرمایا کہ عورتوں کے قبل (یعنی فرج میں) جماع کیا جاتا تھا (اس حال میں) کہ وہ الٹی ہوئی ہوتی تھیں۔ یہودیوں نے کہا کہ جو آدمی اپنی عورت کے پاس (اس حال میں) آیا کہ وہ الٹی ہوتی ہے تو اس کا لڑکا بھینگا پیدا ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ (12) عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے الشعب میں صفیہ بنت شیبہ حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنی عورتوں سے پیچھے کے راستہ سے ہو کر ان کے فروج میں جماع کریں تو ان عورتوں نے انکار کردیا تو وہ عورتیں ام سلمہ ؓ کے پاس آئیں اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تم اپنی کھیتی میں جیسے چاہو آؤ لیکن راستہ ایک ہو۔ (13) ابن ابی شیبہ، دارمی، احمد، عبد بن حمید نے اور ترمذی (انہوں نے اس کو حسن کہا ہے) ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں عبد الرحمن بن سابط (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حفصہ بنت عبد الرحمن سے پوچھا کہ میں آپ سے ایک چیز کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں آپ سے سوال کرنے میں شرماتا ہوں تو انہوں نے فرمایا میرے بھائی کے بیٹے پوچھ لے جو تو چاہے۔ تو پھر انہوں نے کہا کہ میں آپ سے عورتوں کے پیچھے کی جانب سے ہو کر فرج میں جماع کرنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے ام سلمہ ؓ نے بیان فرمایا کہ انصار کے پیچھے کے راستہ سے جماع نہ کرتے تھے اور مہاجرین پیچھے کے راستہ سے جماع کرلیتے تھے۔ اور یہود کہتے تھے کہ جو آدمی پیچھے کے راستے سے فرج میں اپنی عورت سے جماع کرے گا تو اس کا بچہ بھینگا ہوگا۔ جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آتے اور انصار کی عورتوں سے نکاح کیا تو انہوں نے ان سے پیچھے کے راستہ سے فرج میں جماع کرنا چاہا تو عورت نے شوہر کا کہنا ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگی ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گئی۔ یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیں تو وہ عورت ام سلمہ کے پاس آئیں اور اس بارے میں سوال کیا ام سلمہ ؓ نے فرمایا بیٹھ جا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئیں۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو انصاری عورت سوال کرنے سے شرمانے لگی اور باہر نکل گئی تو پھر ام سلمہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا میرے پاس اس کو بلاؤ وہ بلائی گئی تو آپ نے اس پر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ یعنی اور فرمایا راستہ ایک ہے (یعنی فرج میں جس طرح چاہیں جماع کرسکتے ہیں) راوی نے فرمایا کہ صمام سے مراد ایک ہی راستہ (یعنی فرج ہے) (14) امام مسند ابی حنیفہ نے حضرت حفصہ ام المؤمنین ؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی میرا شوہر مجھ سے پیچھے ہو کر آگے کی طرف جماع کرتے ہیں۔ اور میں اس کو ناپسند کرتی ہوں۔ یہ بات نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا کچھ حرج نہیں اگر راستہ ایک ہو (یعنی فرج) میں جماع ہوتا ہے۔ (15) امام احمد، ابن ابی حمید، ترمذی (انہوں نے اس کو حسن کہا ہے) نسائی، ابو یعلی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، طبرانی الخرائطی نے مساوی الاخلاق میں بیہقی نے سنن میں اور الضیاء نے المختارہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ہلاک ہوگیا آپ نے فرمایا کس چیز نے تجھے ہلاک کردیا ؟ عرض کیا، رات کو میں نے اپنی بیوی سے دبر کی طرف سے فرج میں جماع کیا اور اس کا میں نے ارادہ نہیں کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف یہ آیت وحی (کے ذریعہ) بھیجی۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ یہ فرمایا کہ آگے سے یا پیچھے (جس طرح چاہو جماع کرو) مگر دبر سے اور حیض سے بچو۔ (16) ا حمدنے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ انصار کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے اور ان سے سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی عورتوں سے جماع کرو جس حال میں چاہو اگر وہ فرج میں ہو۔ (17) ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور الخرائطی نے حضت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حمیر (قبیلہ) کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے انہوں نے کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھا ایک آدمی نے آپ سے پوچھا کہ میں عورتوں سے محبت کرتا ہوں اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں اپنی عورت سے پیچھے کے راستہ (فرج) میں جماع کروں اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کی یہ آیت ان کے سوالوں کے جواب میں نازل فرمائی یعنی لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ (الآیہ) (پھر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی عورت سے جماع کرو آگے سے یا پیچھے سے اگر وہ فرج میں ہو۔ (18) ابن راویہ۔ دارمی، ابو داؤد، ابن جریر، ابن المنذر، طبرانی، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) بیہقی نے سنن میں مجاہد سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا ان کی مغفرت فرمائے نے خیال کیا کہ یہ وہ لوگ انصار کے قبیلہ میں سے ہیں اور یہ بت پرست ہیں اور ان کے ساتھ یہود کا قبیلہ ہے اور وہ (یہود) اہل کتاب ہیں ان کو علم کی وجہ سے فضیلت والا خیال کیا جاتا تھا اور لوگ اکثر ان کا کاموں کی اقتداء کرتے تھے اور اہل کتاب کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنی عورتوں کے پاس ایک طریقہ سے آتے اور یہ عورت کے لئے زیادہ پوشیدگی تھی۔ اور انصار کے قبیلہ نے ان سے اس طریقہ کو اپنا لیا اور قریش کا یہ قبیلہ چت لٹا کر جماع کرتے اور ان سے لذت حاصل کرتے تھے جبکہ وہ سیدھی یا الٹی یا چت لیٹی ہوئی تھی۔ جب مہاجرین مدینہ منورہ میں آئے ان میں سے ایک آدمی نے انصار کی عورت سے نکاح کردیا اور کہا کہ ہم تو ایک طریقہ پر آتے ہیں تو اسی طرح کرو رنہ مجھ سے دور ہوجا۔ یہ بات (جب) رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ تو فرمایا گیا الٹی ہوں یا سیدھی ہوں اگر وہ فرج میں ہو تو (جائز ہے) اور وہ (جماع) ہوتا ہے۔ دیر کے راستہ سے قبل میں طبرانی نے زیادہ کیا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ابن عمر ؓ نے کہا کہ اس کی دبر میں (جماع کرنا) تو ابن عمر ؓ نے (اس بارے میں) وہم کیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے اور بیشک حدیث اسی طرح نقل کی ہے۔ (19) عبد بن حمید، دارمی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حیض کی حالت میں لوگ عورتوں سے پرہیز کرتے تھے ان کے پیچھے کے راستہ سے آتے تھے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی “ الی قولہ ” من حیث امرکم اللہ “ یعنی فرج میں اور اس سے (آگے) نہ بڑھو۔ (20) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ میں اور مجاہد (رح) سعید بن جبیر (رح) حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھے تھے اچانک ایک آدمی آیا کہنے لگا کیا آپ مجھے حیض کی آیت کے بارے میں مطمئن کرسکتے ہیں۔ فرمایا ہاں (پھر) اس نے یہ آیت تلاوت کی لفظ آیت ” ویسئلونک عن المحیض “ الی قولہ ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ نے تم کو اس جگہ وطی کرنے کا حکم دیا جہاں سے خون آتا ہے تم کو ان کے پاس آنے کا حکم ہے۔ اس نے کہا اس آیت کا مطلب کیا ہے۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتو حرثکم انی شئتم “ فرمایا افسوس ہے تجھ پر کیا دبر حرث میں سے ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا جسے تو کہتا ہے تو حیض کا حکم منسوخ ہوجاتا ہے۔ جب فرج میں حیض آتا ہے تو دبر میں وطی کرلیا۔ لیکن ” انی شئتم “ کا مطلب یہ ہے کہ رات میں یا دن میں جس وقت چاہو۔ (21) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ کا مطلب یہ ہے کہ پیٹ کی طرف سے پیٹھ کی طرف جیسے چاہو (جماع کر) مگر دبر اور حالت حیض میں نہ ہو۔ (22) ابن ابی شیبہ نے أبو صالح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ سے مراد ہے کہ اگر تو چاہے تو اس کے پاس چت لیٹ کر۔ اور اگر تو چاہے تو اس کے پاس آجا جبکہ وہ الٹی لیٹی ہو اگر تو چاہے تو گھٹنوں اور ہاتھوں پر ٹیک لگائے ہوئے ہو۔ (23) ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ سے مراد ہے کہ تو آئے عورت کے پاس اس کے آگے سے اس کے پیچھے سے جب تک وطی دبر میں نہ ہو۔ (24) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ سے مراد ہے کہ اپنی عورتوں کے پاس ان کے آگے سے آؤ ہر طریقے پر۔ (25) عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور کہا میں اپنی عورت سے اس کے پیچھے سے جماع کرتا تھا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول سنا لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم فاتوا احرثکم انی شئتم “ اور میں نے یہ خیال کیا کہ میرے لئے ایسا کرنا حلا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا اے کمینے ” انی شئتم “ کا مطلب یہ ہے جیست تم چاہو وہ کھڑی ہو بیٹھی ہو۔ چت لیٹی ہو یا الٹی لیٹی ہو۔ لیکن فرج میں ہو اس کے علاوہ کسی دوسرے (راستہ) کی طرف نہ بڑھو۔ (26) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فاتوا حرثکم “ سے مراد ہے بچہ پیدا ہونے کی جگہ۔ (27) سعید بن منصور، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اپنی کھیتی میں آ۔ جہاں سے کچھ اگتا ہے۔ (28) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ سے مراد ہے کہ تو اپنی عورت کے پاس آ جس طرح چاہے جب تک کہ تو اس پر دبر میں یا حیض (کی حالت) میں نہ آئے۔ (29) ابن جریر، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ میں حرث سے مراد فرج ہے۔ اور فرمایا تم جیسے چاہو وہ چت لیٹی ہو الٹی لیٹی ہو جیسے تم چاہو لیکن فرج سے کسی دوسری طرف تجاوز نہ ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” من حیث امرکم اللہ “ کا یہی مطلب ہے۔ دبر میں ہمبستری حرام ہے (30) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ تو اپنی بیوی سے اس کی دبر میں جماع کرے۔ اور فرماتے تھے حرث سیمراد قبل یعنی فرج سے ہے جس سے نسل ہوتی ہے اور حیض آتا ہے۔ اور فرماتے تھے کہ یہ آیت لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ نازل ہوئی (یعنی جس جانب سے تم چاہو آؤ۔ (31) دارمی، الخرائطی نے مساوی الاخلاق میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ کہ آؤ اس کے پاس وہ بیٹھی ہو یا کھڑی ہو اس کے آگے سے اس کے پیچھے سے اور جس طرح چاہو بعد اس کے کہ ہو اس کی جگہ میں (یعنی فرج میں) (32) بیہقی نے سنن (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے اس آیت لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس جگہ سے آؤ جہاں حیض (کا خون) آتا ہے اور بچہ (پیدا) ہوتا ہے (33) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس کے فرج میں آتے جب وہ چت لیٹی ہو یا الٹی لیٹی ہو۔ (34) ابن ابی شیبہ نے خرائطی نے مساوی الاخلاق میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اپنی بیوی کے پاس آؤ جس طرح چاہو کھڑے ہو کر یا پیٹھ کر اور ہر حالت میں لیکن اس کی دبر میں نہ ہو (فرج میں ہو) (35) سعید بن منصور، عبد بن حمید، دارمی اور بیہقی نے ابو الققاع حرمی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا میں اپنی عورت کے پاس جس طرح چاہوں آؤں فرمایا ہاں پھر اس نے کہا جہاں سے چاہوں آؤں ؟ فرمایا ہاں پھر کہا جیسے میں چاہوں فرمایا ہاں (اس کی اس گفتگو کو) ایک آدمی نے سمجھ لیا اور اس نے کہا کہ یہ آدمی اپنی عورت کی مقعد میں آنے کا ارادہ کرتا ہے تو حضرت نے فرمایا نہیں عورت کی دبر تم پر حرام ہے۔ (36) امام احمد، عبد بن حمید، ابو داؤد اور نسائی نے بہز بن حکیم (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ہم اپنی عورتیں کے کس حصہ میں آئیں اور کیا یہ چھوڑ دیں۔ آپ نے فرمایا تمہاری کھیتیاں ہیں اپنی کھیتی کے پاس جب چاہو آجاؤ سوائے اس کے اس کے چہرہ کو نہ مارو اور نہ ان کو برا بھلا کہو اور ان سے علیحدگی اختیار نہ کرو مگر گھر میں اور کھلا اس کو جب تو کھائے اور پہنا اس کو جب تو پہنے اور یہ کیسے نہ ہو۔ کہ تم ایک دوسرے سے علیحدگی میں مل چکے ہو۔ مگر جو اس پر حلال ہو۔ ہمبستری کے اور ایک طریقہ (37) شافعی نے الام میں ابن شیبہ اور نسائی۔ ابن ماجہ، ابن المنذر، بیہقی نے سنن میں خزیمہ بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ ایک سائل نے رسول اللہ ﷺ سے عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کے بارے میں پوچھا آپنے فرمایا حلال ہے یا فرمایا کچھ حرج نہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا تو آپ نے اس کو پھر بلایا اور فرمایا تو نے کیسے کہا اس کے پیچھے سے ہو کر اس کے اگلے حصے میں اس نے کہا ہاں لیکن اس کی دبر سے دبر میں جماع کرنا حلال نہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتے۔ تم اپنی عورتوں کی دبر میں وطی نہ کرو۔ (38) حسن بن عرفہ نے اپنے جزع میں اور ابن عدی اور دار قطنی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم حیا کرو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے حیا نہیں فرماتے عورتوں کی دبر میں وطی حلال نہیں ہے۔ (39) ابن عدی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عورتوں کی دبر میں وطی کرنے سے بچو۔ (40) ابن ابی شیبہ، ترمذی (انہوں نے اس کو حسن کہا ہے) نسائی اور ابن حابن نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے مرد کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتے جو کسی مرد یا عورت کی دبر میں جماع کرتا ہے۔ (41) ابو داؤد، الطیالسی، احمد، بیہقی نے سنن میں عمرو بن شعیب سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی عورت کے پاس اس کی دبر میں وطی کرتا ہے۔ تو یہ چھوٹی لواطت ہے۔ (42) نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ حق ہے اس سے حیا کرنے کا، تم عورتوں سے ان کی دبر میں جماع نہ کرو۔ (43) امام احمد، ابو داؤد، نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص ملعون ہے جو اپنی عورت سے اس کی دبر میں جماع کرتا ہے۔ (44) ابن عدی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مرد یا عورت کے دبر میں لواطت کی۔ تو اس نے کفر کیا۔ (45) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، نسائی، بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ عورتوں اور مردوں کی دبر میں جماع کرنا کفر ہے۔ (46) وکیع اور البزار نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتے عورتوں کی دبر میں جماع نہ کرو۔ (47) نسائی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ سے شرم کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بات سے نہیں شرماتے۔ عورتوں کی دبر میں جماع نہ کرو۔ (48) ابن عدی نے الکامل میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کی دبر میں جماع نہ کرو۔ (49) وھب اور ابن عدی نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص ملعون ہے جو عورتوں کے پاس ان کے پاخانے کی جگہوں میں آتا ہے۔ (50) احمد نے یزید بن طلق ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتے تم اپنی عورتوں کی دبر میں وطی نہ کرو۔ (51) ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ تم عورتوں کی دبر میں وطی کرو۔ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات (کہنے) سے نہیں شرماتے۔ (52) ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی (انہوں نے اسے حسن کہا ہے) اور بیہقی نے علی بن طلق ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم عورتوں کی دبر میں وطی نہ کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ حق بات (کہنے) سے نہیں شرماتے۔ (53) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، أبو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اپنی عورت کی دبر میں جماع کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر نہیں فرمائے گا۔ (54) عبد الرزاق، عبد بن حمید، نسائی، بیہقی نے الشعب میں طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس شخص کی بارے میں پوچھا گیا جو اپنی عورت کے دبر میں وطی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ مجھ سے کفر کے بارے میں سوال کر رہا ہے۔ (گویا یہ کفر کا کام ہے) (55) عبد الرزاق اور بیہقی نے الشعب میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک آدمی کو ایسا کرنے پر سزا دی تھی۔ (56) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید بیہقی نے حضرت ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ ان سے عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کے بارے میں پوچھا گیا انہوں نے فرمایا یہ کام کافر کے سوا کوئی نہیں کرتا۔ (57) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ اس نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ جو اپنی بیوی کی دبر میں وطی کرتا ہے فرمایا یہ چھوٹی لواطت ہے۔ (58) عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن المسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن (رح) سے سوال کیا تو ان دونوں نے اس کو ناپسند کیا اور اس سے منع فرمایا۔ (59) عبد اللہ بن احمد، بیہقی نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آپ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی عورت سے دبر میں وطی کرتا ہے۔ تو انہوں نے کہا مجھ سے عقبہ بن شاح نے بیان فرمایا کہ ابو درداء ؓ نے بیان فرمایا اس کام کو کافر کے سوا کوئی نہیں کرتا پھر فرمایا مجھ سے عمرو بن شعیب ؓ نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ چھوٹی لواطت ہے۔ لواطت بیوی کے ساتھ بھی حرام ہے (60) بیہقی نے الشعب میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ کچھ چیزیں قیامت کے قریب اس امت کے آخر میں ہوں گے۔ ان میں ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی یا اپنی باندی کی دبر میں لواطت کرے گا اور یہ ان چیزون میں سے ہے جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا اور اس پر اللہ اور اس کے رسول سخت ناراض ہوتے ہیں ایک یہ ہے کہ عورت عورت سے لواطت کرے گی اور یہ ان چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔ ان لوگوں کی نماز ہی نہیں جب تک یہ اس کام پر قائم رہیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف پکی توبہ کرلیں۔ زر (رح) نے کہا کہ میں ابی بن کعب ؓ سے پوچھا پکی توبہ کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے پوچھی گئی۔ آپ نے فرمایا وہ گناہ پر ندامت ہے اور اپنی ندامت کے ساتھ اپنی برائی کو چھوڑے ہوئے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے پھر اس گناہ کی طرف کبھی نہ لوٹے۔ (61) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جو آدمی اپنی عورت کی دبر میں وطی کرتا ہے سو وہ عورت سے ایسا کام کرے گا جیسے مرد سے بدفعلی کرتا ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت کی لفظ آیت ” ویسئلونک عن المحیض “ الی قولہ : لفظ آیت ” فاتوھن من حیث امرکم اللہ “ یعنی ان کو چھوڑ دو حیض کی حالت میں فروج میں (جماع کرنے سے) پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ فرمایا (جماع کرو) اگر تو چاہے عورت کے کھڑے ہونے کی حالت میں بیٹھنے کی حالت میں سیدھے لیٹنے کی حالت میں الٹے لیٹنے کی حالت میں لیکن فرج میں ہو۔ (62) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ طاؤس (رح) سے عورتوں کے دبر میں وطی کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ کفر ہے یہ عمل قوم لوط کا ہے جو اپنی عورتوں کی دبر میں وطی کرتے تھے اور مرد مردوں کے ساتھ لواطت کرتے تھے۔ (63) ابو عبد الاشرم نے سنن میں اور ابو بشیر ذوی نے الکنی میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا عورتوں کی دبر تم پر حرام ہے۔ (64) ابن ابی شیبہ، دارمی، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ عورتوں کی دبر تم پر حرام ہے۔ ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ روایت موقوف ہے اور صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا اس بات میں تمام مرفوعہ احادیث اور ان کی گنتی بیس کے قریب ہے سب کی سب ضعیف ہیں۔ اس میں سے کوئی بھی صحیح نہیں اور اس میں سے موقوف روایت صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس بارے میں فرمایا منکر ہے کسی طریق سے بھی نہیں جیسے کہ بخاری (رح) نے اپنی بات کی تصریح فرمائی۔ اور بزار اور نسائی اور سب نے اس کی تصریح فرمائی۔ (65) نسائی، طبرانی، ابن مردویہ نے ابو النصر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے نافع جو ابن عمر ؓ کے آزاد کرد غلام تھے۔ سے فرمایا کہ تیرے متعلق یہ مشہور ہے کہ تم اکثر کہتے ہو کہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے عورتوں کی دبر میں وطی کرنے کا فتوی دیا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ لوگوں نے مجھ پر جھوٹ بولا۔ لیکن عنقریب میں تجھ سے بیان کروں گا کہ یہ معاملہ کس طرح ہوا۔ (واقعہ یوں ہوا) کہ ایک دن ابن عمر ؓ قرآن مجید پڑھ رہے تھے اور میں ان کے پاس تھا یہاں تک کہ جب اس آیت لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ پر پہنچے تو فرمایا اے نافع ! کیا تو اس آیت کے بارے میں جانتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں پھر فرمایا ہم قریش لوگ عورتوں کی دبر کی طرف سے قبل میں وطی کرتے تھے جب ہم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہم نے انصاری عورتوں سے نکاح کیا اور ہم نے ان سے اس طریقے پر جماع کرنے کا ارادہ کیا تو ان عورتوں نے اس طریقہ کو ناپسند کیا اور اس کا انکار کیا اور انصار کی عورتوں نے یہودیوں کا طریقہ اختیار کیا ہوا تھا کہ پہلو کے بل ان سے وطی کی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ (66) دارمی نے سعید بن یسار أبو الحباب (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے عرض کیا۔ آپ باندیوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ تحمیض کرلیں انہوں نے فرمایا تحمیض کیا چیز ہے ؟ تو اس نے دبر کا ذکر کیا (یعنی دبر میں جماع کرنا) تو انہوں نے فرمایا کہ مسلمان میں سے کوئی ایسا کام کرسکتا ہے ؟ (67) بیہقی نے سنن میں، عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ دبر میں جماع کرنے کو سخت عیب شمار کرتے تھے۔ (68) الواحدی نے الکلبی سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ مدینہ منورہ آئے تو انہوں نے انصار اور یہود کے درمیان عورتوں کے آگے اور پیچھے کی طرف وطی کرنے کا ذکر کیا۔ جبکہ وطی فرج میں ہو یہود نے پیچھے کی طرف آنے کو معیوب کہا انہوں نے کہا یہ صرف آگے کی طرف سے ہی جائز ہے یہود نے کہا ہم اپنی کتاب میں پڑھتے ہیں کہ جو اپنی عورتوں کے ساتھ ایسی حالت میں وطی کرتے ہیں جبکہ وہ چت لیٹی ہوئی ہوتی۔ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ گندے ہیں۔ اور اس وجہ سے بھینگا پن اور اعضاء کی خرابی ہے۔ اس بات کو مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا اور ان سے عرض کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں اور اسلام لانے کے بعد بھی عورتوں کے پاس جس طرح چاہتے تھے آتے تھے۔ لیکن یہودی ہم پر عیب لگاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی بات کو جھوٹا قرار دیا اور (یہ آیت) نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ فرمایا کہ فرج اولاد (پیدا کرنے کی) کھیتی ہے۔ سو تم آؤ اپنی کھیتی کو جس طرح اس کے آگے سے اس کے پیچھے لیکن فرج میں ہو۔ اس آیت کے بارے میں دوسرے قول کا ذکر (1) اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند اور تفسیر میں بخاری اور ابن جریر نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ایک دن میں نے (یہ آیت) لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ پڑھی حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے کس بارے میں یہ آیت ہوئی۔ میں نے عرض کیا نہیں فرمایا یہ آیت عورتوں سے ان کے پیچھے کی طرف سے جماع کرنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ (2) بخاری، ابن جریر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ سے مراد ہے دبر میں (جماع کرو) (3) الخطیب نے روائی ماک میں نصر بن عبد اللہ الازدی کے طریق سے انہوں نے مطرف سے انہوں نے مالک سے انہوں نے نافع سے حضرت ابن عمر ؓ سے لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر چاہو تو اس کے آگے کے راستہ میں جماع کرو اور اگر چاہو تو اس کے پیچھے کے راستہ میں جماع کرو۔ (4) حسن بن سفیان نے اپنی سند میں، طبرانی نے الادب میں، حاکم اور ابو نعیم نے مستخرج میں حسن سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ (الآیہ) تو اس میں دبر میں جماع کرنے کی رخصت ہے۔ (5) ابن جریر، طبرانی نے الاوسط میں، ابن مردویہ اور ابن النجار نے حسن سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک آدمی نے اپنی عورت سے اس کے دبر میں جماع کیا تو اس کام کو لوگوں نے ناپسند کیا اور کہنے لگے اس کے لنگوٹ کر دو ۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ نازل ہوئی۔ (6) الخطیب نے رواۃ مالک میں، احمد بن الحکم العبدی کے طریق سے انہوں نے حضرت مالک سے انہوں نے نافع سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انصار میں سے ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی تو اپنے خاوند کی شکایت کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ (7) نسائی، ابن جریر نے زہد بن اسلم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی عورت سے اس کی دبر میں جماع کیا پھر اس کو بڑا دکھ ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ (8) دار قطنی نے غرائب مالک میں اور بشر الدیلوی کے طریق سے روایت کیا کہ نافع (رح) سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ نے مجھ سے فرمایا اے نافع مصحف (یعنی قرآن مجید میرے سامنے پڑھو) ۔ انہوں نے قرآن پڑھا اور جب اس آیت لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ پر پہنچے تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ یہ آیت کیوں نازل ہوئی۔ میں نے عرض کیا نہیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ایک انصاری مرد کے بارے میں نازل ہوئی جس نے اپنی عورت سے اس کی دبر میں جماع کیا تھا۔ تو اس کام کو لوگوں نے بہت برا خیال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ میں نے عرض کیا کیا دبر کی طرف سے قبل میں اس میں وطی کی تھی ؟ فرمایا نہیں بلکہ صرف دبر میں۔ الرفاع نے تخریج دار قطنی کے فوائد میں فرمایا کہ ہم کو ابو احمد بن عبد دس نے خبر دی اور ہم کو علی بن الجعد نے خبر دی اور ہم کو ابو ذئب نے خبر دی کہ نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عورت سے اس کی دبر میں جماع کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ راوی نے کہا کہ میں نے ابن ابی ذئب سے پوچھا کہ آپ اس قول کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا اس کے بعد میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ (9) طبرانی، ابن مردویہ، احمد بن اسامہ التحسین نے اپنے فوائد میں نافع (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ سورتیں پڑھیں جب اس آیت سے گزرے لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ تو فرمایا کیا تو جانتا ہے یہ کیوں نازل ہوئی۔ میں نے عرض کیا نہیں تو فرمایا ان مردوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرتے ہیں۔ (10) دارقطنی، دعلج دونوں نے غرائب مالک میں ابو المصعب اور اسحاق بن محمد الفروری کے طریق سے نافع (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے (مجھ سے) فرمایا اے نافع ! کیا تو جانتا ہے یہ آیت کیوں نازل ہوئی۔ میں نے عرض کیا نہیں فرمایا کہ یہ آیت انصار کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس نے اپنی عورت سے اس کی دبر میں جماع کیا تھا۔ پھر اپنے دل میں اس کام کو برا جانا اور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ امام دار قطنی کہتے ہیں یہ حدیث امام مالک (رح) سے ثابت ہے ابن عبد البر کہتے ہیں اس معنی کی ابن عمر ؓ سے روایت صحیح معروف اور مشہور ہے۔ (11) ابن راہویہ، ابو یعلی، ابن جریر الطحاوی مشکل الاثار میں اور میں مردویہ، حسن سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی عورت سے اس کی دبر میں جماع کیا تو لوگوں نے اس کام کو ناپسند کیا تو اس پر یہ آیت اتاری گئی۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ (12) نسائی، طحاوی، ابن جریر نے دار قطنی نے عبد الرحمن بن قاسم سے مالک بن انس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا اے ابو عبید اللہ (جو ان کی کنیت ہے لوگ سالم بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ العبد نے العلج نے میرے باپ پر جھوٹ بولا۔ تو مالک نے فرمایا کہ میں یزید ابن رومان پر گواہی دیتا ہوں انہوں نے مجھے سالم بن عبد اللہ کی طرف سے خبر دی کہ حضرت ابن عمر ؓ نے ایسے ہی فرمایا جیسے نافع نے فرمایا ان سے کہا گیا کہ حارث بن یعقوب (رح) سے ابو الحباب سعید بن یسار سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عمر سے (یہ) سوال کیا کہ ہم لونڈیاں خریدتے ہیں کیا ہم اس سے محیض کرلیا کریں ؟ ابن عمر نے پوچھا تمحیض کیا ہے ؟ تو انہوں نے دبر میں وطی کا ذکر کیا۔ تو حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا اف اف مؤمن کیا یہ کام کرسکتا ہے ؟ یا یہ فرمایا کہ مسلمان (کیا یہ کام کرسکتا ہے) مالک نے فرمایا کہ میں ربیعہ یہ گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ابو الحباب سے ابن عمر کی طرف سے ایسے ہی خبر دی جیسا کہ نافع نے فرمایا دار قطنی نے کہا یہ حدیث محفوظ ہے مالک کی طرف سے جو صحیح ہے۔ (13) نسائی نے یزید بن رومان کے طریق سے عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ مرد کا اپنی عورت کی دبر میں جماع کرنے کو کوئی حرج نہیں جانتے تھے۔ (14) بیہقی نے سنن میں محمد بن علی (رح) سے روایت کیا کہ میں محمد بن کعب قرظی (رح) کے پاس تھا ایک آدمی آیا اور کہا کہ عورت کی دبر میں جماع کرنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں تو انہوں نے فرمایا یہ شیخ ہیں قریش میں سے ان سے سوال کیا یعنی عبد اللہ بن علی بن سائب سے تو انہوں نے فرمایا یہ غلیظ اور گندہ فعل ہے۔ اگرچہ حلال ہے۔ (15) ابن جریر نے در اور دی (رح) سے روایت کیا کہ زید بن اسلم (رح) سے کہا گیا کہ محمد بن المنکدر عورتوں سے ان کی دبر میں جماع کرنے سے منع کرتے تھے تو زید نے فرمایا میں محمد (ابن المنکدر) پر گواہی دیتا ہوں انہوں نے خود مجھے بتایا کہ وہ ایسا کرتے تھے۔ (16) ابن جریر ابن ابی ملکیہ سے روایت کرتے ہیں ان سے عورت کی دبر میں وطی سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے گذشتہ رات اپنی باندی کی دبر میں وطی کا ارادہ کیا تو اس نے منع کردیا میں نے تیل کی مدد حاصل کی۔ (17) الخطیب نے رواۃ مالک میں ابو سلیمان بن جرجانی (رح) سے روایت کیا کہ ان سے باندیوں کے دبر میں جماع کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس کی دبر میں جماع کرنے کی وجہ سے ابھی ابھی میں نے اس فعل سے غسل کیا ہے۔ (18) ابن جریر نے کتاب النکاح میں ابن وھب کے طریق سے مالک (رح) سے روایت کیا کہ یہ عمل مباح ہے۔ (19) طحاوی نے اصغ بن الفرج سے عبد اللہ بن قاسم (رح) سے روایت کیا کہ میں نے دین میں کسی مقتدی شخص کو نہیں پایا جو عورت کی دبر میں وطی کے حلال ہونے میں شک کرتا ہو۔ پھر انہوں نے بطور دلیل کے یہ آیت پڑھی۔ لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم “ پھر فرمایا کون سی چیز اس سے زیادہ واضح ہے۔ (20) طحاوی حاکم نے مناقب الشافعی میں اور خطیب نے محمد بن عبد اللہ عبد الحکیم سے روایت کیا ہے امام شافعی (رح) سے روایت کیا کہ اس بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا نبی اکرم ﷺ سے اس کے حلال ہونے اور اس کے حرام ہونے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں اور قیاس یہ ہے کہ یہ حلال ہے۔ (21) حاکم نے ابن عبد الحکیم (رح) سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) شافعی (رح) نے محمد بن حسن (رح) سے اس بارے میں مناظرہ کیا تو اس پر ابن الحسن نے یہ دلیل پکڑی کہ (آیت میں) حرث صرف فرج میں ہے امام شافعی (رح) نے ان سے فرمایا پھر تو فرج کے علاوہ پورا جسم حرام ہوگا۔ تو جواب دیتے ہوئے فرمایا آپ مجھے بتائیے اگر کوئی آدمی اپنی عورت سے اس کی پنڈلی کے درمیان یا اس کے پیٹ کی سلوٹ کے درمیان وطی کرے۔ کیا یہ بھی حرث ہوگی تو انہوں نے فرمایا نہیں امام شافعی نے فرمایا یہ عمل حرام ہوگا امام محمد نے کہا نہیں پھر امام شافعی نے کہا آپ کس طرح دلیل پکڑتے ہیں جس کو آپ نہیں کہتے حاکم نے کہا شاید کہ امام شافعی کا پہلا قول ہو جو وہ فرمایا کرتے تھے لیکن دوسرے قول میں دبر میں وطی صراحتہ حرام ہے۔ اس آیت کے بارے میں تیسرے قول کا ذکر (1) وکیع بن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم طبرانی، حاکم ابن مردویہ الضیاء نے المختارہ میں (2) وکیع بن ابی شیبہ نے ابو ذراع (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عمر ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اگر تو چاہے تو عزل کرے اور اگر چاہے تو عزل نہ کر۔ (3) ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے سعید بن المسیب (رح) سے اس قول لفظ آیت ” نساؤکم حرث لکم، فاتوا حرثکم انی شئتم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر تو چاہے تو عزل کرلے اور چاہے تو عزل نہ کر۔ (4) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن نازل ہوتا تھا یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے ہم کو اس سے منع نہیں فرمایا۔ (5) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داؤد، بیہقی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا میری ایک باندی ہے میں اس سے جماع کرتا ہوں مگر میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ اس کو حمل ہوجائے آپ نے فرمایا اس سے عزل کرلے اگر تو چاہے۔ مگر جو اس کے لئے مقدر کیا گیا وہ عنقریب اس کے پاس آئے گا وہ آدمی چلا گیا اور تھوڑے دن ٹھہرنے کے بعد آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میری باندی حاملہ ہوگئی ہے آپ نے فرمایا میں نے تجھ کو بتادیا تھا کہ عنقریب اس کے پاس آئے گا جو اس کے لئے مقدر کیا گیا۔ (6) امام مالک، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے عزل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ تم ایسا کرتے ہو ؟ تم پر ایسا نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بلاشبہ وہ تقدیر ہے جو روح قیامت تک پیدا ہونے والی ہے۔ وہ پیدا ہو کر رہے گی۔ (7) مسلم، بیہقی نے أبو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے عزل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ہر پانی (یعنی منی) سے بچہ (پیدا) نہیں ہوتا اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا پیدا کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو کوئی چیز اس کو روک نہیں سکتی۔ (8) عبد الرزاق، ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم عزل کیا کرتے تھے تو یہودیوں نے یہ گمان کیا کہ یہ چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا یہودیوں نے جھوٹ کہا جب اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتے ہیں کسی (بچہ) کو پیدا کرنے کا۔ تو اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ (9) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، بیہقی نے أبو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری ایک باندی ہے اور میں اس سے عزل کرلیتا ہوں اور میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہوجائے۔ اور میں وہی ارادہ رکھتا ہوں جو اور لوگ ارادہ رکھتے ہیں۔ اور یہودی یہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا یہودی جھوٹ کہتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ اس کے پیدا کرنے کا ارادہ فرماتے تو کبھی اس کو نہ روک سکتا۔ عزل کرنا ضرورت کے وقت جائز ہے (10) البزار اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے عزل کے بارے میں پوچھا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ یہودی اس کو چھوٹا زندہ درگور کرنا کہتے ہیں آپ نے فرمایا یہودیوں نے جھوٹ کہا۔ (11) امام مالک، عبد الرزاق، بیہقی نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ ان سے عزل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا وہ تیری کھیتی ہے اگر چاہے تو اس کو پانی پلا دے اگر چاہے تو اس کو پیاسا رکھے۔ (12) عبد الرزاق اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے عزل کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا آدم کے بیٹے کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس جان کو قتل کر دے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنے کا فیصلہ فرما لیا ہو۔ (پھر فرمایا) وہ تیری کھیتی ہے اگر تو چاہے تو اس کو پیاسا رکھ اور اگر تو چاہے تو سیراب کر۔ (13) ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آزاد عورت سے عزل کرنے کو منع فرمایا مگر اس کی اجازت سے (عزل کرسکتا ہے) ۔ (14) بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ باندی سے عزل کیا جائے گا اور آزاد عورت سے مشورہ لیا جائے گا۔ (15) عبد الرزاق، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آزاد عورت سے عزل کرنے میں اس سے مشورہ کیا جائے گا اور باندی سے مشورہ نہیں کیا جائے گا۔ (16) احمد، داؤد، نسائی، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ دس کاموں کو ناپسند فرماتے تھے۔ سونے کی انگوٹھی پہننے کو چادر کو ٹکنے سے نیچے لٹکانے کو رزد رنگ کی خوشبو کو بڑھاپے کے بدلنے کو اور جھاڑ چھونک کرنے کو مگر معوذات کے ساتھ (کہ وہ جائز ہے) تعویز گنڈوں میں گرہ لگانے کو۔ چوسر کھیلنے کو اور غیر محل میں عورت کا بناؤ سنکگار اور آزاد عورت سے عزل کرنے کا اور بچہ کو بگاڑنا۔ اس آیت کے بارے میں چوتھے قول کا ذکر (1) عبد بن حمید نے ابن الحنیفہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوا حرثکم انی شئتم “ سے مراد ہے جب تم چاہو۔ (2) ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقدموا لاانفسکم “ اس سے بچہ مراد ہے۔ (3) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقدموا لاانفسکم “ سے مراد ہے جماع کے وقت بسم اللہ پڑھنا۔ (4) عبد الرزاق نے المصنف میں ابن ابی شیبہ۔ احمد، مسلم، ترمذی، ابو داؤد و نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس (جماع کے لئے) آئے تو یوں کہے : بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطن وجنب الشیطن ما رزقتنا ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ (میں یہ کام کرتا ہوں) اے اللہ ! ہمیں شیطان سے بچا اور جو اولاد تو ہم کو دے اس سے بھی شیطان کو دور رکھ۔ اگر ان کے درمیان بچہ (پیدا ہونے کا) فیصلہ کیا گیا تو شیطان اسے کبھی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ (5) عبد الرزاق، العقیلی نے الضعاء میں سلمان ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو میرے دوست ابو القاسم ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم سامان نہ بنائیں مگر جیسے مسافر کا سامان ہوتا ہے۔ اور قیدی نہ بنائیں مگر جن سے خود نکاح کریں یا ان کا کسی سے نکاح کردیں اور ہم کو حکم دیا گیا جب ہم میں سے کوئی اپنے گھر والوں کے پاس جائے تو نماز پڑھے یا اپنی اہلیہ کو حکم کرے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھیں اور وہ دعا کرے اور اہلیہ کو حکم دے کہ وہ آمین کہے۔ (6) عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے ابو وائل (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پاس آیا اور ان سے کہا میں نے ایک کنواری لڑکی سے شادی کی ہے۔ اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھ سے لڑائی جھگڑا نہ کرے حضرت عبد اللہ نے فرمایا کہ محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جھگڑا شیطان کی طرف سے ہے وہ ناپسند کرتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے حلال فرما دیا ہے۔ جب وہ تیرے پاس آجائے تو اس کو اپنے پیچھے دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم کر اور یوں دعا کر۔ اللہم بارک فی اہلی وبارک لہم فی وارزقنی منہم وارزقھم منی، اللہم اجمع بیننا ما جمعت وفرق بیننا اذا فرقت الی خیر۔ ترجمہ : اے اللہ میرے اہل میں برکت عطا فرما اور میرے بارے میں ان کے لئے بھی برکت عطا فرما۔ اور مجھ کو ان سے رزق عطا فرما اور ان کو مجھ سے رزق عطا فرما اے اللہ ہمارے درمیان (ہمارے دلوں کو) جمع کر دے (یعنی ملا دے) جو آپ جمع فرمائیں اور ہمارے درمیان جدائی ڈال دے جب تو جدائی ڈالے خیر کی طرف۔ (7) عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے ابو سعید مولیٰ اسد سے روایت کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی اور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کو دعوت دی ان میں ابوذر اور ابن مسعود ؓ میں تھے۔ انہوں نے مجھ کو سکھایا اور فرمایا کہ جب تیرے پاس تیری بیوی آئے تو دو رکعت نماز پڑھ اور اس کو حکم کر کہ وہ تیرے پیچھے نماز پڑھے اور اس کی پیشانی کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کر اور اس کے شر سے پناہ مانگ پھر اپنے حقوق پورے کر۔ (8) عبد الرزاق نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ یہ بات بتائی کہ جب آدمی اپنی بیوی کے پاس آئے تو یوں کہے۔ بسم اللہ اللہم بارک لنا فیما رزقتنا ولا تجعل للشیطن نصیبا فیما رزقتنا ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ (شروع کرتا ہوں) اے اللہ ہمارے لئے برکت عطا فرما جو تو ہم کو عطا فرمائے اور اس میں شیطان کے لئے کوئی حصہ نہ بنا جو تو ہم کو عطا فرمائے۔ (پھر) فرمایا اس بات کی امید رکھے کہ اگر اس کو حمل ہوگیا تو (ان شاء اللہ) نیک لڑکا ہوگا۔ (9) ابو وائل (رح) سے روایت کیا کہ دو موقعوں میں بندہ اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کرتا جب اپنی بیوی کے پاس آتا ہے تو اللہ کا نام لے کر شروع کرے اور جب بیت الخلاء ہو تو (اللہ کا نام لے کر جائے) ۔ (10) ابن ابی شیبہ، الخرائطی نے مکارم اخلاق میں علقمہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن مسعود ؓ جب اپنی بیوی سے جماع کرتے تھے اور انزال ہوتا تھا تو یوں فرماتے تھے۔ اللہم لاتجعل للشیطان فیما رزقتنا نصیبا ترجمہ : اے اللہ جو تو ہم کو عطا فرمائے اس میں شیطان کے لئے حصہ نہ بنا۔ (11) الخرائطی نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقدموا لانفسکم “ سے مراد ہے کہ جماع کے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا۔
Top