Dure-Mansoor - Al-Baqara : 226
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍ١ۚ فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو يُؤْلُوْنَ : قسم کھاتے ہیں مِنْ : سے نِّسَآئِهِمْ : عورتیں اپنی تَرَبُّصُ : انتظار اَرْبَعَةِ : چار اَشْهُرٍ : مہینے فَاِنْ : پھر اگر فَآءُوْ : رجوع کرلیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے کے بارے میں قسم کھالیتے ہیں، ان کے لئے چار مہینہ کا انتظار ہے پھر اگر رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے
ایلاء کے احکام (1) عبد الرزاق، ابو عبید، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن الانباری نے المصاحف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” للذین یؤلون من نساءھم “ اور فرماتے تھے ایلاء قسم ہے اور قسم ایلاء ہے۔ ابن المنذر نے ابی بن کعب ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ (2) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں حماد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابی ؓ کے مصحف میں، میں نے (یوں) پڑھا لفظ آیت ” للذین یقسمون “ (3) شافعی، عبد بن حمید، عبد الرزاق، ابن المنذر، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایلاء یہ ہے کہ کوئی آدمی یہ قسم کھالے کہ وہ اپنی بیوی سے کبھی بھی جماع نہیں کرے گا۔ (4) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” للذین یؤلون “ سے مراد ہے کہ ایک شخص قسم اٹھاتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے جماع نہیں کرے گا۔ چار مہینے انتظار کرتا رہا۔ اگر وہ اس سے جماع کرے گا تو اپنی قسم کا کفارہ دے گا۔ اور اگر اس کے جماع کرنے سے پہلے چار مہینے گزر گئے تو بادشاہ اس کو اختیار دے گا کہ یا تو وہ لوٹ جائے یعنی اس سے رجوع کرلے۔ یا اس کو طلاق دیدے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا۔ (5) سعید بن منصور، عبد بن حمید، طبرانی، بیہقی اور خطیب نے تالی التلخیص میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ایلاء ایک سال اور دو سال کا ہوتا تھا اور اس سے زیادہ بھی ہوتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے چار ماہ کا وقت مقرر فرمایا دیا اگر اس کا ایلاء چار ماہ سے کم ہے تو وہ ایلاء نہیں ہے۔ (6) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” للذین یؤلون من نساءھم تربص اربعۃ اشھر “ اس آدمی کے بارے میں ہے کہ جو اپنی عورت سے ایلاء کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کی قسم میرا سر اور تیرا سر جمع نہیں ہوگا اور میں تیرے قریب نہیں آؤں گا اور میں تجھ سے جماع نہیں کروں گا پھر زمانہ جاہلیت والے اس کو طلاق شمار کرتے تھے پس اس کے لئے چار مہینے حد مقرر تھی۔ اگر اس مدت میں اس نے رجوع کرلیا تو اپنی قسم کا کفارہ دے اور عورت اس کی بیوی رہے گی۔ اور وہ اپنی ذات کی خود حق دار ہوگی اور اس کا پہلا خاوند بھی نکاح کا پیغام بھیج سکتا ہے۔ اور اس کا پہلا خاوند اس کی عدت میں بھی نکاح کا پیغام دے سکتا ہے۔ اور اس کے علاوہ کوئی اور آدمی عدت میں نکاح کا پیغام نہیں دے سکتا۔ اگر دوبارہ اس سے نکاح کرلے گا تو اسے دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ (7) عبد بن حمید، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہر قسم جو جماع سے روک دے وہ ایلاء ہے۔ عبد بن حمید نے ابراہیم اور شعبی رحمہا اللہ سے اسی طرح روایت کیا۔ (8) عبد بن حمید حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایلاء نہیں ہوتا مگر قسم کے ساتھ۔ (9) عبد بن حمید نے سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار رحمہا اللہ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ خالد بن سعید بن العاص (رح) نے اپنی بیوی کو ایک سال کے لئے چھوڑ دیا اور قسم نہیں (کھائی) تھی حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا کیا تو نے ایلاء والی آیت کو نہیں پڑھا ؟ تجھ کو یہ نہیں چاہئے تھا کہ تو اپنی بیوی کو چار ماہ سے زیادہ چھوڑ دے۔ (اور قریب نہ جائے) (10) عبد بن حمید نے قاسم بن محمد بن ابی بکر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کو سنا کہ وہ خالد بن عاص مخزومی (رح) کو اپنی بیوی سے طویل عرصہ کے لئے جدائی اختیار کرنے پر نصیحت کر رہی تھیں۔ اور فرما رہی تھیں اے خالد ! اپنی بیوی سے طویل جدائی اختیار کرنے سے بچ۔ بلاشبہ تو یہ سن چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کے مرنے پر کتنی مدت (یعنی عدت) مقرر فرمائی ہے۔ (یعنی) اللہ تعالیٰ نے چار ماہ کا انتظار کرنا مقرر فرمایا ہے۔ اور انہوں نے طویل جدائی اختیار کرلی تھی۔ محمد بن مسلم (رح) نے فرمایا ہم کو یہ بات نہیں پہنچی کہ اس طویل جدائی سے کسی ایک کو طلاق ہوگئی ہو لیکن حضرت عائشہ ؓ نے اسے ڈرایا اور یہ ارادہ فرمایا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے اور اس بات سے ڈرتی تھیں کہ یہ (طویل جدائی) ایلاء کا مشابہ نہ ہوجائے۔ (11) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایلاء غصہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ (12) عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ایلاء دو (قسم) ہیں (ایک) ایلاء غصہ میں ہوتا ہے۔ اور دوسرا اہلاء رضا میں ہوتا ہے۔ غصہ والا ایلاء میں جب چار ماہ گزر جائیں تو عورت اس سے جدا ہوجاتی ہے لیکن جو ایلاء رضا مندی میں ہوتا ہے تو اس ہر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ بیوی سے جدا رہنے کی قسم (13) عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے عطیہ بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ بچے کی ماں مرگئی اور اس کے اور میرے درمیان رشتہ داری تھی۔ میرے باپ نے قسم کھالی کہ میری ماں سے جماع نہیں کروں گا یہاں تک کہ وہ بچے کا دودھ چھڑا دے اس معاملہ کو چار ماہ گزر گئے۔ لوگوں نے کہا وہ عورت تجھ سے جدا ہوگئی۔ وہ حضرت علی ؓ کے پاس آئے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تو نے اس کو نقصان پہنچانے کی قسم اٹھائی تھی تو وہ تجھ سے جدا ہوگئی ورنہ نہیں۔ (14) عبد بن حمید نے ام عطیہ ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ بڑا موٹا اور اچھی صحت کا تھا لوگوں نے اس کے باپ سے کہا کہ تم اس لڑکے کو اچھی غذا دو ۔ تو اس نے کہا میں قسم کھاتا ہوں کہ اس کی ماں کے قریب میں نہ جاؤں گا جب تک کہ وہ اس کا دودھ نہ پھڑالے۔ تو (اس پر) لوگوں نے کہا اللہ کی قسم تیری عورت تجھ سے فارغ ہوگئی۔ دونوں (میاں بیوی) اپنا معاملہ حضرت علی ؓ کے پاس لے گئے۔ تو حضرت علی ؓ نے فرمایا تم نے اپنی طرف سے یہ قسم اٹھائی تھی یا اس پر غصہ کرتے ہوئے قسم کھائی تھی ؟ اس نے کہا نہیں بلکہ میں تو بچے کی اصلاح چاہتا تھا تو انہوں نے فرمایا اصلاح میں ایلاء نہیں ہوتا۔ (15) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی حضرت علی ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اپنی عورت کے پاس دو سال تک نہیں آؤں گا۔ تو انہوں نے فرمایا میں تجھ کو یہ خیال کرتا ہوں کہ تو نے ایلاء کرلیا تو اس نے کہا میں نے اس وجہ سے قسم کھائی ہے کہ میرے لڑکے کو اتنا عرصہ دودھ پلائے تو انہوں نے فرمایا تب تو ایلاء نہیں۔ (16) عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی عورت سے کہا تھا اللہ کی قسم ! میں تیرے قریب نہی آؤں گا یہاں تک تو اپنے لڑکے کا دودھ چھڑا دے۔ تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم ! یہ ایلاء نہیں ہے۔ (17) عبد بن حمید نے حماد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابراہیم (رح) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کے قریب نہیں جائے گا جب تک وہ بچے کو دودھ پلاتی رہے گی۔ ابراہیم (رح) نے فرمایا کہ میں ایلاء کو نہیں جانتا مگر غصہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فان فاؤوا فان اللہ غفور رحیم “ (یعنی اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ یعنی رجوع کرنا غصہ کے بعد ہوتا ہے ابراہیم نے فرمایا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہتا اور حماد نے بھی فرمایا کہ اس بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ (18) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے یزید بن اصم (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی میں حضرت ابن عباس ؓ سے ملا۔ میں نے بھلل بنت یزید سے شادی کی ہے۔ اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اس کے حلق میں کچھ تکلیف ہے۔ پھر کہا اللہ کی قسم میں باہر نکلا لیکن میں نے اس سے بات نہیں کی۔ انہوں نے فرمایا چار ماہ گزرنے سے پہلے تجھ پر اس سے مجامعت کرنا لازم ہے۔ (19) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے منصور (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابراہیم (رح) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے یہ قسم کھائی تھی کہ اپنی عورت سے بات نہیں کرے گا (پھر) اس سے جماع کرنے سے پہلے چار ماہ گزر گئے تو انہوں نے فرمایا بلاشبہ ایلاء جماع نہ کرنے کی قسم میں ہوتا ہے اور مجھے اس قسم کے ایلاء ہوجانے کا خوف ہے۔ (20) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب کوئی شخص ایک ماہ یا دو ماہ یا تین ماہ کے لئے ایلاء کرے تو وہ اپنی قسم سے بری ہوجائے گا اس پر ایلاء کا حکم جاری نہ ہوگا۔ (21) شافعی، عبد بن حمید، بیہقی نے طاؤس (رح) سے روایت کیا چار ماہ سے کم ایلاء نہیں ہے۔ (22) عبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ اگر بیوی سے ایک ماہ کا ایلاء کرے گا تو ایلاء ہوگا۔ (23) عبد بن حمید نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے ایک ماہ کا ایلاء کیا۔ پھر اس کو چھوڑے رکھا یہاں تک کہ چار ماہ گزر گئے نخعی (رح) نے فرمایا وہ ایلاء ہے اور وہ اس سے جدا ہوگئی۔ (24) عبد بن حمید نے وبرہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے دس دن کا ایلاء کیا پھر چار ماہ گزر گئے تو وہ حضرت عبد اللہ ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے اس کو ایلاء بنا دیا۔ (25) عبد بن حمید نے ابن ابی لیلی (رح) سے روایت کیا اگر ایک دن یا ایک رات کے لئے ایلاء کرلیا تو وہ بھی ایلاء ہے۔ (26) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی عورت سے کہا اللہ کی قسم میں تجھ سے روات کو جماع نہیں کروں گا۔ اس وجہ سے اس کو چھوڑ دیا (پھر فرمایا) اگر اس نے اس کو چھوڑے رکھا یہاں تک کہ چار ماہ گزر گئے تو وہ ایلاء ہے۔ (27) ابو عبیدہ نے فضائل میں، ابن المنذر نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کو اس طرح لفظ آیت ” فان فاؤوا فان اللہ غفور رحیم “ پڑھتے تھے۔ (28) عبد بن حمید نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا فئی سے مراد جماع ہے۔ (29) عبد الرزاق، عبد بن حمید، الفریابی، سعید بن منصور، ابن جریر ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ فئی سے مراد جماع ہے۔ (30) ابن المنذر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ فئی سے مراد جماع ہے۔ (31) ابن المنذر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ فئی سے مراد رضا ہے۔ (32) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ فئی سے مراد رضا ہے۔ (33) عبد بن حمید نے شبعی (رح) سے روایت کیا کہ مسروق (رح) نے فرمایا فئی سے مراد جماع ہے ان سے کہا گیا کیا آپ نے دوسرے علماء سے سوال نہیں کیا تھا جس سے وہ اس نے روایت کی تھی ؟ تو انہوں نے فرمایا ہاں میری نظر میں وہ اس سے بہت بلند ہیں۔ (34) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ فئی سے مراد اشہاد ہے یعنی گواہ بنانا ہے۔ (35) عبد الرزاق نے المصنف میں، عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ فئی سے مراد جماع ہے اور اگر اس کو کوئی عذر ہو مرض کی وجہ سے یا قید ہونے کی وجہ سے تو پھر رجوع کرے اپنی زبان سے۔ (36) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب اس کے اور اس عورت کے درمیان مرض یا سفر یا قید میں ہونا حائل ہو یا کوئی اور چیز کے ذریعہ عذر ہوسکتا ہو تو اس کا گواہ بنانا رجوع (کے حکم میں) ہے۔ (37) عبد بن حمید نے أبو الشعثاء (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے علقمہ (رح) سے ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی عورت سے ایلاء کرلیا تھا پھر وہ نفاس یا کسی دوسری وجہ سے وہ اس سے جماع نہیں کرسکتا (تو پھر رجوع کیسے ہوگا) تو انہوں نے فرمایا کہ رجوع کرلے اپنے دل سے، اپنی زبان سے اور اس سے راضی ہوجائے تو رجوع ہوگیا۔ (38) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے أبو الشعثاء (رح) سے روایت کیا کہ کافی ہوجائے گا اس کو (رجوع کرنا) یہاں تک کہ اپنی زبان سے بات کرلے۔ (39) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے ابو قلابہ (رح) سے روایت کیا کہ جب اپنے دل میں رجوع کرلے تو اس کو کافی ہوجائے گا۔ (40) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب کوئی آدمی اپنی عورت سے ایلاء کرلے پھر چار ماہ سے پہلے اس سے جماع کرلے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فان فاؤوا فان اللہ غفور رحیم “ یعنی اس قسم کو (بخشنے والا ہے) (41) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فان فاؤوا فان اللہ غفور رحیم “ میں یہ امید رکھتے تھے کہ اس کا کفارہ اس سے رجوع کرنا ہے۔ (42) عبد بن حمید نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ اس پر کفارہ ہے۔ (43) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر اس نے رجوع کرلیا تو کفارہ دے اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو ایک (طلاق) واقع ہوجائے گی اور اب وہ عورت اپنی ذات کی زیادہ حق دار ہوگی۔
Top