Dure-Mansoor - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ : اور طلاق یافتہ عورتیں يَتَرَبَّصْنَ : انتظار کریں بِاَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں ثَلٰثَةَ : تین قُرُوْٓءٍ : مدت حیض وَلَا يَحِلُّ : اور جائز نہیں لَهُنَّ : ان کے لیے اَنْ يَّكْتُمْنَ : وہ چھپائیں مَا : جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَرْحَامِهِنَّ : ان کے رحم (جمع) اِنْ : اگر كُنَّ يُؤْمِنَّ : ایمان رکھتی ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ : اور خاوند ان کے اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِرَدِّھِنَّ : واپسی ان کی فِيْ ذٰلِكَ : اس میں اِنْ : اگر اَرَادُوْٓا : وہ چاہیں اِصْلَاحًا : بہتری (سلوک) وَلَهُنَّ : اور عورتوں کے لیے مِثْلُ : جیسے الَّذِيْ : جو عَلَيْهِنَّ : عورتوں پر (فرض) بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَلِلرِّجَالِ : اور مردوں کے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر دَرَجَةٌ : ایک درجہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنی جانوں کو روکے رکھیں تین حیض آنے تک، اور ان کے لئے یہ بات حلال نہیں کہ جو کچھ اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا فرمایا ہے اسے چھپائیں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور یوم آخرت پر، اور ان کے شوہر ان کے لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں اس مدت کے اندر اگر اصلاح کا ارادہ کریں، اور عورتوں کے لئے اس جیسا حق ہے جو ان کے اوپر ہے اچھے طریقے پر، اور مردوں کو ان کے مقابلہ میں درجہ بڑھا ہوا ہے اور اللہ زبردست ہے حکمت والا ہے
(1) ابو داؤد، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں، میں طلاق دی گئی اور (اس آیت) مطلقہ کے لئے کوئی عدت نہیں تھی جب میں طلاق دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کے لئے عدت (کا حکم) نازل فرمایا لفظ آیت ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “ یہ پہلا حکم تھا جس میں طلاق کے لئے عدت نازل کیا گیا۔ طلاق کی عدت کے مسائل (2) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “ کے بارے میں روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی طلاق دیتا تھا تو اس کے لئے عدت نہیں ہوتی تھی۔ (3) ابو داؤد، نسائی، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “ (اور) ” وللائی یئسن من المحیص من نساء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ اشھر “ (الطلاق آیت 4) یہ آیت نازل ہوئیں تو ان میں عدت کا ذکر تھا پھر غیر مدخول تھا عورتوں کو عدت سے استثنا فرما دیا۔ اور فرمایا لفظ آیت ” طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا “ (الاحزاب آیت 49) (پھر تم ان کو طلاق دو اس سے پہلے کہ تم ان کو ہاتھ لگاؤ پس تمہارے لئے ان پر عدت گزرانا ضروری نہیں ہے جیسے تم شمار کرو۔ (4) امام مالک، شافعی، عبد الرزاق، عبد بن بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس، دار قطنی، بیہقی نے سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ اقراء سے مراد اظہار ہیں۔ (5) مالک شافعی، بیہقی نے ابن شہاب سے انہوں نے عروہ سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ حضرت حفصہ بنت عبد الرحمن (شوہر کے گھر سے) منتقل ہوگئیں جب وہ تیسرے حیض کے خون میں داخل ہوئیں ابن شہاب نے فرمایا کہ میں نے یہ بات عمروہ بنت عبد الرحمن کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ عروہ نے سچ کہا لیکن اس بات میں لوگوں نے اس سے جھگڑا کیا اور کہنے لگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” ثلثۃ قروء “ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تم نے سچ کہا کیا تم جانتے ہو اقراء کیا ہیں (پھر فرمایا) اقراء سے مراد اطہار ہیں ابن شہاب نے کہا کہ میں نے ابوبکر بن عبد الرحمن کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک فقیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہی مراد ہے جو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ہے۔ (6) عبد الرزاق، ابن جریر، بیہقی نے ابن عمر اور زید بن ثابت ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ اقراء سے مراد اطہار ہیں۔ (7) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر، بیہقی نے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا اور وہ صحابہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اقراء سے مراد حیض ہیں۔ (8) ابن جریر، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ثلثۃ قروء “ سے مراد تین حیض ہیں۔ (9) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “ میں قروء سے مراد حیض ہیں۔ (10) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء “ اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت تین حیض مقرر فرمائی ہے۔ پھر اس میں اس مطلقہ کو منسوخ کردیا گیا جس کے ساتھ اس کے خاوند نے دخول نہیں کیا۔ جس کو سورة احزاب میں فرمایا لفظ آیت ” یایھا الذین امنو اذا نکحتم المومنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیہن من عدۃ تعتدونھا “ سو یہ عورت اگر چاہے تو اسی (طلاق والے) دن (دوسرے مرد سے) نکاح کرسکتی ہے۔ پھر ان تینوں حیضوں سے (حکم کو) منسوخ کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” واتی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم “ اس سے مراد وہ بوڑھی عورت ہے جس کو حیض نہیں آیا اور وہ عورت جس کو (بیماری کی وجہ سے) حیض نہیں آتا سو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور ان تینوں میں سے حامل عورت کے حیض کو بھی منسوخ کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” اجلہن ان تضعن حملھن “ کہ اس کی عدت بچہ جننے پر ہے۔ عدت کے متعلق اختلاف ائمہ (11) امام مالک، شافعی، عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے عمرہ اور عروہ کے طریق سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب عورت طلاق کے بعد تیسرے حیض میں داخل ہوجائے تو اس کے خاوند سے اس کا نکاح ٹوٹ گیا اور دوسرے شوہروں کے لئے حلال ہوگئی عمرہ (رح) نے فرمایا کہ حضرت عائشہ ؓ یوں فرماتی تھیں کہ قرء سے مراد طہر ہے حیض نہیں ہے۔ (12) مالک شافعی، عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ جب مطلقہ عورت تیسرے حیض میں داخل ہوجائے تو اس کے خاوند سے اس کا نکاح ٹوٹ گیا اور دوسرے شوہروں کے لئے حلال ہوگئی (کہ اس کو نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں) (13) مالک، شافعی، بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب مرد اپنی عورت کو طلاق دیدے اور وہ تیسرے حیض کے خون میں داخل ہوگئی تو وہ عورت اپنے خاوند سے بری ہوگئی۔ اور خاوند اپنی عورت سے بری ہوگیا۔ وہ اس کی وارث نہ ہوگی اور نہ وہ اس کا وارث ہوگا۔ (14) عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے علقمہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک مرد نے اپنی عورت کو طلاق دی پھر اس کو چھوڑے رکھا یہاں تک کہ جب دو حیض گزر گئے اور تیسرا حیض آیا تو وہ اس عورت کے پاس آیا اور وہ عورت اپنے نہانے کی جگہ میں بیٹھ چکی تھی تاکہ تیسرے حیض سے غسل کرلے۔ اس کے پاس اس کا خاوند آیا اس سے تین مرتبہ کہا میں نے تجھ سے رجوع کیا۔ دونوں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس آئے حضرت عمر ؓ نے ابن مسعود ؓ سے فرمایا جو ان کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے تم اس بارے میں کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے فرمایا میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اس کا خاوند زیادہ حق دار ہے جب تک کہ وہ تیسرے حیض سے غسل نہ کرے۔ اور اس کے لئے نماز حلال نہ ہوجائے۔ حضرت عمر نے فرمایا میں بھی ایسا ہی خیال کرتا ہوں۔ (15) شافعی، عبد الرزاق، عبد بن حمید، بیہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ خاوند کے لئے رجوع کرنا حلال ہے جب تک تیسرے حیض کا غسل نہ کرے (اگر اس نے تیسرے حیض کا غسل کرلیا) تو دوسرے مردوں کے لئے حلال ہوجائے گی۔ (16) عبد الرزاق، بیہقی نے أبو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اپنی ؓ کے پاس ایسے مرد کے بارے میں مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا جس نے اپنی عورت کو طلاق دیدی پھر اس سے رجوع کیا جبکہ وہ عورت تیسرے حیض میں داخل ہوچکی تھی۔ ابی ؓ نے فرمایا منافق کیسے فتویٰ دیگا ؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں کہ آپ منافق ہوجائیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں کہ آپ سے اسلام کے زمانہ میں ایسا عمل سرزد ہوجائے پھر آپ مرجائیں اور آپ اس مسئلہ کو بیان بھی نہ کریں پھر ابی ؓ نے فرمایا میرا خیال ہے کہ خاوند زیادہ حقدار ہے جب تک کہ عورت تیسرے حیض میں غسل نہ کرے اور اس کے لئے نماز حلال نہ ہوجائے۔ (17) بیہقی نے حسن کے طریق سے حضرت عمرو عبد اللہ اور ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ یہ تینوں حضرات اس مرد کے بارے میں فرماتے ہیں جس نے اپنی عورت کو طلاق دی اور اس کو تین حیض آچکے پھر مرد اس کے غسل کرنے سے پہلے طلاق دے دے تو غسل سے پہلے مرد اپنی بیوی کا زیادہ حق دار ہے۔ (18) وکیع نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ عورت اپنی عدت حیض سے شمار کرے گی اگرچہ اس کو سال میں ایک حیض آتا ہو۔ دو بیواؤں کی میراث (19) امام مالک اور شافعی نے محمد بن یحییٰ بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ ان کے دادا کے نکاح میں دو عورتیں تھیں ایک ہاشمی اور ایک انصاری عورت کو انہوں نے اس حال میں طلاق دیدی جبکہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ جب ایک سال گزر گیا تو میرے دادا کی وفات ہوگئی اور اس عورت کو کوئی حیض نہ آیا تو وہ عورت کہنے لگی میں میراث لوں گی کیونکہ مجھے حیض نہیں آیا۔ حضرت عثمان ؓ کے پاس مقدمہ لے جایا گیا تو انہوں نے انصاری کی میراث کا فیصلہ فرمادیا اس پر ہاشمی عورت نے حضرت عثمان کو ملامت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تیرے چچا کے بیٹے کا عمل ہے حضرت عثمان ؓ کا ارشادہ علی بن ابی طالب ؓ کی طرف تھا۔ (20) بیہقی نے حجرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دی جائے تو وہ حیض عدت میں شمار نہ ہوگا۔ (21) عبد الرزاق نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اقراء سے مراد حیض ہے نہ کہ طہر (جیسے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فطلقوھن لعدتھن “ لقروءھن نہیں فرمایا۔ (22) شافعی نے عبد الرحمن بن ابی بکر (رح) سے روایت کیا کہ انصار میں سے ایک آدمی جس کو حیان بن منقذ کہا جاتا تھا اس نے صحت کی حالت میں عورت کو طلاق دیدی جبکہ وہ اپنے بچی کو دودھ پلا رہی تھی۔ اس حال میں وہ سترہ مہینے رہی کہ اس کو حیض نہ آیا دودھ پلانے کی وجہ سے اس کا حیض رک گیا۔ پھر حیان بیمار ہوگیا تو میں نے اس سے کہا تیری بیوی تیرے مال کا وارث بننے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھے حضرت عثمان ؓ کے پاس لے چلو تو وہ اس کو اٹھا کرلے گئے اس نے اپنی عورت کا حال بیان کیا ان کے پاس علی بن ابی طالب اور زید بن ثابت ؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عثمان نے ان دونوں سے پوچھا تم اس بارے میں کیا کہتے ہو ان دونوں نے فرمایا ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر یہ مرگیا تو یہ عورت وارث ہوگی اور اگر یہ عورت مرگئی تو یہ مرد وارث ہوگا۔ کیونکہ وہ عورت اس ضابطہ میں نہیں ہے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہو اور نہ اس کنواری عورتوں میں سے جو ابھی حیض کی عمر کو پہنچتی ہے۔ اس لئے یہ عورت اپنے حیض کی عدت میں ہے حیض تھوڑا ہو یا زیادہ ہو تو اس پر حیان نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا اور اپنے بیٹی کو لے لیا جب اس کا دودھ پلانا ختم ہوا تو ایک حیض آیا پھر دوسرا حیض آیا پھر (اس کا خاوند) حیان مرگیا تیرے حیض آنے سے پہلے تو اس نے اپنے خاوند کے مرنے کی عدت گزاری اور اس کے مال کی وارث بنی۔ (23) ابو داؤد، ترمذی ابن ماجہ، دار قطنی، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا لونڈی کی طلاق دو طلاقیں ہیں (یعنی دو طلاقوں سے ہو مغلظہ ہوجاتی ہے) اور اس کی عدت دو حیض ہیں (یعنی اس کی عدت دو حیضوں کے بعد ختم ہوجاتی ہے) اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ اس کی عدت دو حیض ہیں۔ ابن ماجہ اور بیہقی نے ابن عمر ؓ کی حدیث سے اس کی مثل مرفوع حدیث روایت کی ہے۔ (24) عبد الرزاق اور بیہقی نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ طلاق مردوں کے اعتبار سے اور عدت عورتوں کے اعتبار سے ہے۔ (25) عبد الرزاق، بیہقی نے حضرت علی، ابن مسعود اور ابن عباس ؓ سے روایت کیا تینوں حضرات نے فرمایا کہ طلاق مردوں کے اعتبار سے ہوگی اور عدت عورتوں کے اعتبار سے ہوگی۔ (26) مالک بیہقی نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ طلاق مردوں کے لئے ہے اور عدت عورتوں کے لئے ہے۔ (27) مالک نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ مستحاضہ عورت کی عدت ایک سال ہے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “ (28) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر سے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “ سے مراد ہے کہ (زمانہ جاہلیت میں) عورت اپنے حمل کو چھپاتی تھیں یہاں تک کہ اس کو دوسرے خاوند کے لئے کردیتی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا۔ (29) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ عورتیں حملوں کو چھپاتی ہیں اور دوسرے خاوند کی طرف سے منسوب کرتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے منع فرمایا۔ (30) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “ سے مراد حمل اور حیض ہے۔ کسی عورت کے لئے یہ حلال نہیں اگر وہ حاملہ ہے تو اپنے حمل کو چھپائے۔ اور کسی عورت کے لئے یہ حلال نہیں اگر وہ حیض والی ہے تو اپنے حیض کو چھپائے۔ (31) عبد الرزاق، سعید بن منصور، عبد بن حمید، بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “ سے مراد حیض اور بچہ ہے۔ کسی مطلقہ کے لئے یہ حلال نہیں وہ یہ کہے کہ میں حائضہ ہوں اور (حقیقت میں) وہ حائضہ نہ ہو۔ اور نہ حلال ہے کہ میں حمل سے ہوں اور وہ حمل والی نہ ہو۔ اور یہ کہے کہ میں حمل سے نہیں ہوں اور وہ حمل والی ہو۔ (32) ابن جریر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “ کے بارے میں ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ اس سے مراد وہ حمل ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحموں میں پیدا فرمایا اور ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ اس سے مراد حیض ہے۔ (33) سعید بن منصور، عبد بن حمید، بیہقی نے ابراہیم (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس آیت سے مراد حیض ہے (34) سعید بن منصور، بیہقی نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اس سے مراد حیض ہے۔ أما قولہ تعالیٰ : ” وبعولتھن احق بردھن فی ذلک “ (35) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبعولتھن احق بردھن “ سے مراد ہے کہ جب مرد اپنی عورت کو ایک یا دو طلاقیں دیدے اور وہ حامل ہو تو اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے جب تک کہ بچہ پیدا نہ ہو۔ اور اس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے حمل کو چھپائے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولا تحل لھن ان تکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “ عدت کے دوران رجوع کرنا (36) ابن المنذر نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبعولتھن احق بردھن فی ذلک “ سے مراد عدت میں رجوع کرنا۔ یہ آیت غفار (قبیلہ) کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس نے اپنی عورت کو طلاق دی مگر اس کے حاملہ ہونے کا اس کو علم نہ تھا (جب اس کو اس کے حاملہ ہونے کا پتہ چلا تو) اس سے رجوع کرتے ہوئے اس کو اپنے گھر لے آیا اس نے بچہ جنا اور مرگئی پھر اس کا بچہ بھی مرگیا۔ تو اس کے تھوڑے دونوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لفظ آیت ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ نازل ہوئی۔ اور وہ آیت منسوخ کردی گئی۔ جو اس سے پہلے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لئے یہ بیان فرمایا کہ کس طرح عورتوں کو طلاق دیں گے اور کس طرح عورتوں نے انتظار کرنا ہے۔ (37) وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر، بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبعولتھن احق بردھن فی ذلک “ سے مراد ہے کہ تین حیضوں کے اندر مرد کو رجوع کرنے کا حق ہے۔ (38) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبعولتھن احق بردھن فی ذلک “ سے مراد ہے کہ عدت کے اندر مرد رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔ (39) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبعولتھن احق بردھن فی ذلک “ سے مراد ہے کہ عدت کے اندر (رجوع کرسکتا ہے) جب تین طلاقیں نہ دی ہوں۔ أما قولی تعالیٰ : ” ولھن مثل الذی علیہن بالمعروف “ (40) ابن جریر نے ضحاک (رح) سیروایت کیا کہ لفظ آیت ” ولہن مثل الذی علیہن “ سے مراد ہے کہ جب عورتیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اپنے خاوند کی اطاعت کریں تو خاوند پر لازم ہے کہ حسن و سلوک سے پیں آئے اور اس کو تکلیف دینے سے رک جائے۔ اور اپنی وسعت کے مطابق اس پر خرچ کرے۔ میاں بیوی کے حقوق کا ذکر (41) ترمذی (انہوں نے اسے صھیح کہا ہے) نسائی۔ ابن ماجہ نے عمر بن احوص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبردار ! تمہاری عورتوں پر تمہارا حق ہے اور تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارا حق تمہاری عورتوں پر یہ ہے کہ تمہارے بستروں پر ان کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور تمہارے گھروں میں ان کو آنے کی اجازت نہ دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو مگر ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ان کے پہنانے میں اور ان کے کھلانے میں۔ (42) امام احمد، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، حاتم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) بیہقی نے معاذ بن حیدہ القشیری ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ عورت کا حق مرد پر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جب تو کھائے تو اس کو بھی کھلائے جب تو پہنے تو اس کو بھی پہنائے اور چہرہ پر نہ مار۔ اس کو برا بھلا نہ کہو اور اس سے علیحدہ نہ ہو مگر گھر میں۔ (43) ابن عدی نے قیس بن طلق (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی بھی اپنی بیوی سے جماع کرے تو جلدی نہ کرے یہاں تک کہ عورت بھی اپنی خواہش کو پوری کرے۔ جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنی حاجت پوری کرنا پسند کرتا ہے۔ (44) عبد الرزاق، ابو یعلی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی تم میں سے اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس کو چاہئے کہ اس کی تصدیق کرے اگر عورت سے پہلے فارغ ہوجائے تو جلدی نہ کرے۔ اور عبد الرزاق کے الفاظ یہ ہیں اگر اپنی حاجت پوری کرے اور ابھی عورت نے حاجت پوری نہیں کی تو جلدی نہ کرے۔ (45) وکیع، سفیان بن عینیہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں اپنی بیوی کے لئے بن ٹھن کر رہوں جیسا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ بیوی بھی میرے لئے بن ٹھن کر رہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ولہن مثل الذین علیھن بالمعروف “ اور میں اس بات کو بھی پسند کرتا ہوں کہ میں اس سے اپنے تمام حقوق حاصل کرلوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وللرجال علیھن درجۃ “ (46) ابن ماجہ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نورہ (بال دور کرنے کے لئے ایک دا) لگایا اور زیر ناف بالوں کو اپنے ہاتھ سے دور فرمایا۔ (47) الخرائطی نے مساوی الاخلاق میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی شخص نورہ لگاتا تھا۔ جب وہ پیٹ کے نیچے حصہ تک پہنچتا تو پھر آپ لگاتے تھے۔ (48) الخرائطی نے محمد بن زیاد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ثوبان ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلان تھے وہ میرے ہمسایہ تھے۔ وہ حمام میں داخل ہوئے تھے۔ (بالوں کو دور کرنے کے لئے) میں نے ان سے کہا آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ہیں اور پھر (بالوں کو دور کرنے کے لئے) حمام میں داخل ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ بھی حمام میں داخل ہوتے تھے اور پھر نورہ لگاتے تھے۔ (49) ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ہر ماہ نورہ لگاتے تھے اور ہر پندرہ دنوں کے بعد اپنے ناخن تراشتے تھے۔ (50) مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ان سے سوال کیا گیا کہ جب نبی اکرم ﷺ گھر میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہا مسواک فرماتے تھے۔ قولہ تعالیٰ : ” وللرجال علیھن درجۃ “ (51) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وللرجال علیہن درجۃ “ میں درجہ سے مراد فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جہاد سے فضیلت دی اور مرد کو عورت پر میراث میں بھی فضیلت حاصل ہے۔ اور دوسری تمام چیزوں میں عورت پر مرد کو فضیلت عطا فرمائی۔ (52) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے ابو مالک ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وللرجال علیہن درجۃ “ سے مراد ہے کہ مردوں کو عورت پر یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ مرد عورت کو طلاق دیدے تو عورت کے لئے اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ (53) وکیع، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وللرجال علیہن درجۃ “ کہ اس آیت میں درجہ سے امارت مراد ہے۔
Top