Dure-Mansoor - Al-Baqara : 233
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ١ؕ وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ١ۗ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ١ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا١ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَالْوَالِدٰتُ : اور مائیں يُرْضِعْنَ : دودھ پلائیں اَوْلَادَھُنَّ : اپنی اولاد حَوْلَيْنِ : دو سال كَامِلَيْنِ : پورے لِمَنْ : جو کوئی اَرَادَ : چاہے اَنْ يُّتِمَّ : کہ وہ پوری کرے الرَّضَاعَةَ : دودھ پلانے کی مدت وَعَلَي : اور پر الْمَوْلُوْدِ لَهٗ : جس کا بچہ (باپ) رِزْقُهُنَّ : ان کا کھانا وَكِسْوَتُهُنَّ : اور ان کا لباس بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق لَا تُكَلَّفُ : نہیں تکلیف دی جاتی نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت لَا تُضَآرَّ : نہ نقصان پہنچایا جائے وَالِدَةٌ : ماں بِوَلَدِھَا : اس کے بچہ کے سبب وَلَا : اور نہ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ : جس کا بچہ (باپ) بِوَلَدِهٖ : اس کے بچہ کے سبب وَعَلَي : اور پر الْوَارِثِ : وارث مِثْلُ : ایسا ذٰلِكَ : یہ۔ اس فَاِنْ : پھر اگر اَرَادَا : دونوں چاہیں فِصَالًا : دودھ چھڑانا عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی رضامندی سے مِّنْهُمَا : دونوں سے وَتَشَاوُرٍ : اور باہم مشورہ فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمْ : تم چاہو اَنْ : کہ تَسْتَرْضِعُوْٓا : تم دودھ پلاؤ اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد فَلَا جُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اِذَا : جب سَلَّمْتُمْ : تم حوالہ کرو مَّآ : جو اٰتَيْتُمْ : تم نے دیا تھا بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ بِمَا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور مائیں دودھ پلائیں اپنی اولاد کو دو سال پورے اس کے لئے دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے اور جس کی اولاد ہے اس کے ذمہ ماؤں کا کھانا اور کپڑا ہے قاعدہ کے مطابق، کسی جان کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اس کی برداشت کے مطابق، نہ تکلیف دی جائے والدہ کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ اس کو تکلیف دی جائے جس کا بچہ ہے اس کے بچہ کی وجہ سے، اور وارث کے ذمہ اسی طرح سے لازم ہے، سو اگر دونوں گناہ کی رضا مندی اور باہم مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کچھ گناہ نہیں ہے جبکہ تم سپرد کردو جو کچھ ان کو دینا طے کیا ہے قاعدہ کے موافق، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بلاشہ اللہ ان کاموں کا دیکھتا ہے جنہیں تم کرتے ہو
(1) امام وکیع، سفیان، عبد الرزاق، آدم، عبد بن حمید، أبو داؤد نے الناسخ میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے اپنی سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والو الدت یرضعن اولادھن “ سے مراد ہے طلاق والی عورتیں ” خولین “ یعنی دو سال لفظ آیت ” لا تضار والدۃ بولدھا “ یعنی عورت بچہ کو دودھ پلانے کا انکار نہ کرے۔ (بچہ کو) تکلیف پہنچاتے ہوئے تاکہ اس کا باپ مشقت میں نہ پڑے۔ لفظ آیت ” ولا مولودۃ بولدہ “ یعنی باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے ماں کو تکلیف نہ پہنچائے یعنی باپ ماں کو دودھ پلانے سے نہ روکے تاکہ ماں پریشان نہ ہو لفظ آیت ” وعلی الوارث “ یعنی (والد نہ ہونے کی صورت میں) ولی کے لئے بھی یہی حکم یعنی دستور کے مطابق خرچہ دینا۔ اس کی کفالت کرنا اور اس کو دودھ پلانا اگر بچہ کے پاس مال نہ ہو اور اس کی ماں کو تکلیف بھی نہ ہو لفظ آیت ” فان اراد فصالا عن تراض منھما وتشاور “ یعنی اگر میاں بیوی بچے کا دودھ چھڑانے پر آپس میں رضا مندی اور مشورہ سے ارادہ کریں جبکہ بچے کا نقصاد نہ ہو تو فرمایا لفظ آیت ” فلا جناح علیکم اذا سلمتم ما اتیتم بالمعروف “ یعنی تم ادا کرو جو دودھ پلانے والی کا معاوضہ تم نے مقرر کیا تھا مناسب طریقہ سے۔ (2) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “ یعنی وہ آدمی جو اپنی عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور اس میں اس کا ایک لڑکا ہے۔ تو وہ عورت اپنے بچے کی زیادہ حق دار ہے۔ اپنے علاوہ (دوسری عورت سے) سو عورتوں پر اس اولاد کو دودھ پلانا (لازم) ہے۔ لفظ آیت ” لمن اردان یتم الرضاعۃ “ یہ حکم اس کے لئے ہے جو مدت رضاعت پورا کرنا چاہتا ہے ” وعلی المولودلہ “ یعنی اس باپ پر جس کا وہ لڑکا ہے۔ لفظ آیت ” رزقھن “ یعنی ماں کا رزق (یعنی خرچہ) لفظ آیت ” لاتکلف نفس الا وسعھا “ یعنی اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو دودھ پلانے والی کے خرچہ میں تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت بقدر لفظ آیت ” لا تضار والدۃ بولدھا “ یعنی آدمی اپنی عورت کو تکلیف نہ پہنچائے کہ اس کا بچہ اس سے چھین لے اور وہ عورت نہ چاہتی ہو لفظ آیت ” ولا مولود لہ بولدہ “ یعنی عورت بھی ایسا نہ کرے جب اس کا شوہر اس کو طلاق دیدے تو عورت اس کو تکلیف دیدے کہ اس کو نقصان پہنچانے کے لئے بچہ اس کی طرف پھینک دے لفظ آیت ” فان ارادا فجضالا “ یعنی والدین اگر دو سال سے کم مدت میں بچہ کا دودھ چھڑانا چاہیں لفظ آیت ” عن تراض منھما “ یعنی دونوں اس پر اتفاق کرلیں۔ لفظ آیت ” وان اردتم ان تسترضعوا اولادکم فلا جناح علیکم “ یعنی انسان پر کوئی حرج نہیں کہ وہ کسی دائی سے دودھ پلوئے اور اس کو مزدوری اس کو دے دے۔ ” اذا سلمتم “ اللہ تعالیٰ کے حکم کو تسلیم کرلو یعنی دودھ پلانے والی کی اجرت کے بارے میں لفظ آیت ” ما اتیتم بالمعروف “ یعنی تم دائی کو اس کی مقرر مزدوری سے زائد دے دو ” واتقوا اللہ “ یعنی اس کی نافرمانی نہ کرو تم اس سے ڈرو (پھر) فرمایا لفظ آیت ” واعلموا ان اللہ بما تعملون بصیر “ یعنی جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ دیکھنے والا ہے۔ (3) حاکم نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا پھر مجھے وہ فرشتہ لے کر چلا میں نے عورتوں کو دیکھا جن کی چھاتیوں کو سانپ نوچ رہے تھے میں نے پوچھا ان عورتوں کو کیا ہوا ؟ مجھ سے کہا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتی تھیں۔ (4) ابو داؤد نے ناسخ میں زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والوالدات یرضعن اولادھن “ سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کو طلاق ہوجاتی ہے یا اس کا شوہر مرجاتا ہے۔ (5) سعید بن سفدر، ابن جریر، ابن المنذر، حاکم، بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو عورت چھ ماہ میں بچہ جنے تو وہ دو سال دودھ پلائے اور جب سات ماہ میں بچہ جنے تو تئیس مہینے دودھ پلائے تاکہ تیس مہینے پورے ہوجائیں اور جب نو ماہ میں بچہ جنے تو اکیس مہینے دودھ پلائے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” وحملۃ وفصالہ ثلاثون شھرا “ (6) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “ میں اللہ تعالیٰ نے دودھ پلانے کو پورے دو سال کردیا۔ لفظ آیت ” لمن ارادان یتم الرضاعۃ “ (یعنی جو ارادہ کرے دودھ پلانے کی مدت کو پورا کرنے کا) پھر فرمایا لفظ آیت ” فان اراد فصالا عن تراض “ یعنی کچھ حرج نہیں اس بات میں کہ اگر دونوں بچہ کا دودھ چھڑانے کا ارادہ کریں دو سال سے پہلے یا اس کے بعد۔ (7) ابن ابی حاتم، بیہقی نے ابو الاسود دیلمی نے حجرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس ایک عورت کو لایا گیا جس کا بچہ چھ ماہ میں پیدا ہوا انہوں نے اس کو رجم کرنے کا ارادہ کیا یہ بات حضرت علی ؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا اس پر رحم نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “ اور چھ مال حمل کے ہیں اور دو سال دودھ پلانے کے ہیں اور یہ کل تیس مہینے بنتے ہیں۔ (8) وکیع، عبد الرزاق ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عثمان ؓ کے پاس ایک ایسی عورت کو لایا گیا جس نے چھ مال میں بچہ جنا تھا انہوں نے اس کو رحم کرنے کا حکم فرمایا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا اگر وہ عورت آپ سے اللہ کی کتاب کے ساتھ جھگڑا کرے تو وہ آپ سے جھگڑا کرسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “ اور دوسری آیت میں فرمایا لفظ آیت ” وحملہ وفصالہ ثلاثون شھرا “ تو (اس آیت سے) اس نے چھ ماہ پیٹ میں اٹھائے رکھا پھر یہ اسے دو سال دودھ پلائے گی۔ حضرت عثمان ؓ نے اس عورت کو بلوایا اور اس کو رہا کردیا۔ (9) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر و ابن عباس ؓ سے دو سال کے بعد بچے کے دودھ پلانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “ ہم نہیں دیکھتے کہ کوئی چیز دو سال کے بعد دودھ پلانے کو حرام کرتی ہو۔ (10) ابن جریر نے ابو الضحیٰ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لفظ آیت ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “ سے مراد ہے کہ اس آیت کے مطابق ان دو سالوں میں ہی رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ (11) ترمذی نے ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا رضاعت سے حرمت ثابت نہیں ہوئی مگر اس صورت میں جب وہ آنتوں کو چیر دے۔ اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو۔ (12) ابن عدی، دارقطنی، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دودھ پلانا حرام نہیں کرتا جو دو سال میں ہو۔ (13) طیالسی، بیہقی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دودھ چھڑانے کے بعد رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور احتلام کے بعد یتیم نہیں ہے۔ بلوغت کے بعد یتیم نہیں (14) عبد الرزاق نے المصنف میں، ابن عدی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہے۔ اور رضاعت نہیں ہے دودھ چھڑانے کے بعد دن سے لے کر رات تک خاموشی نہیں ہے۔ اور روز خاص صورت حال نہیں ہے۔ گناہ (کے کام) کی نذر نہیں ہے۔ اور گناہ کے کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ قطع رحمی میں قسم کھانا (جائز) نہیں ہے۔ ہجرت کے بعد دار میں جانا (جائز) نہیں ہے۔ بچے کی قسم اٹھانا باپ کی اجازت کے بغیر (جائز) نہیں۔ غلام کی قسم آقا کی اجازت کے بغیر (جائز) نہیں۔ اور نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے۔ اور ملکیت سے پہلے غلام کو آزاد کرنا نہیں ہے۔ (15) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرأت میں یوں تھا لفظ آیت ” لمن ارادت ان تکمل الرضاعۃ “ (16) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف “ سے مراد ہے باپ پر ماؤں کا نفقہ اور لباس اس کی معاشی وسعت کے مطابق ہوگا۔ (17) ابو داؤد نے ناسخ میں اور ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تضار والدۃ بولدھا ولا مولود لہ بولدہ “ سے مراد ہے کہ عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنے بچے کو باپ پر ڈال دے جبکہ وہ دودھ پلانے والی کو نہ پائے۔ اور خاوند کے لئے بھی جائز نہیں کہ اس عورت کو تکلیف دینے کے لئے اس سے اس کا بچہ چھین لے جبکہ بچی کو دودھ پلانا پسند کرتی ہو لفظ آیت ” وعلی الورث “ یعنی میت کا ولی۔ (18) ابن ابی حاتم نے عطا ابراہیم اور شعبی رحم اللہ علیہ سے روایت کیا کہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ” وعلی الوارث “ سے مراد ہے بچہ کا وارث جو اس پر خرچ کرتا ہے۔ (19) عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الوارث مثل ذلک “ سے مراد ہے کہ وارث پر نفقہ لازم ہے اور دوسرے لفظ میں بچے کا نفقہ وارث پر ہے جب کہ بچے کا اپنا مال نہ ہو۔ (20) عبد الرزاق، عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الوارث مثل ذلک “ سے مراد ہے کہ بچہ کے وارث پر رضاعت کی اجرت واجب ہے۔ جبکہ بچہ کا مال نہ ہو جیسا کہ والد پر دودھ پلانے کی اجرت واجب تھی۔ (21) عبد بن حمید نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا (رح) سے کیا آپ کیا فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وعلی الوارث مثل ذلک “ کے بارے میں فرمایا کہ بچے کے وارث اس کی مثل ہے جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا میں نے پوچھا کیا مولود کے وارث کو مجبور کیا جائے گا اگر مولود دیجئے مال نہ ہو دودھ پلانے والی کی اجرت کے بدلہ میں اگرچہ وارث اس کو ناپسند کرے تو انہوں نے فرمایا کیا وہ اسے مرنے کے لئے چھوڑ دے گا۔ بچہ کے نان نفقہ کا مسئلہ (22) عبد الر زاق اور عبد بن حمید نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود (رح) کے پاس اپنے بچے کے نفقہ کے متعلق بچے کے وارث کے بارے میں جھگڑا لے کر آئی تو انہوں نے بچے کے مال میں سے نفقہ کا فیصلہ فرمایا اور اس کے وارث سے کہا کیا تو نے یہ فرمان نہیں سنا لفظ آیت ” وعلی الوارث مثل ذلک “ اگر بچے کا مال نہ ہوتا تو میں تجھ پر نفقہ کا حکم دیتا۔ (23) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ آدمی کو مجبور کیا جائے گا اس کے بھائی کے نفقہ پر جبکہ وہ مالدار ہو اور اس کا بھائی تنگدست ہو۔ (24) عبد بن حمید نے حماد (رح) سے روایت کیا کہ ہر ذی رحم محرم کو نادار کے خرچ پر مجبور کیا جائے گا (جبکہ وہ مالدار ہو) (25) سفیان، عبد الرزاق، ابو عبید نے الاموال میں، عبد بن حمید نے، ابن جریر، ابن ابی حاتم، النحاس نے الناسخ میں بیہقی نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے چچا کے بیٹے کو ایک نوزائیدہ لا وارث بچے کے نفقہ کے بارے میں قید کردیا جو اس پر تھا عاقلہ کی طرح۔ (عاقلہ باپ کی طرف سے رشتہ داروں کو کہتے ہیں) ۔ (26) سفیان بن عینیہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الوارث مثل ذلک “ سے مراد ہے بچہ کے وارث پر لازم ہے کہ وہ اس کو دودھ پلوئے جس طرح اسکے باپ پر لازم ہوتا ہے۔ (27) ابن جریر، نحاس نے قبیصہ بن ذوئب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الوارث “ سے بچہ مراد ہے۔ (28) وکیع نے عبد اللہ بن مغفل (رح) سے روایت کیا کہ بچہ کو دودھ پلانا اس کے (میراث کے) حصہ میں سے ہوگا۔ (29) ابن جریر، ابن المنذر نے عطاء الخراسان سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الوارث مثل ذلک “ سے مراد ہے کہ بچے کا نفقہ وارث پر لازم ہے۔ یہاں تک کہ اس کا دودھ چھڑا دیا جائے اگر اس کے باپ اور اس نے مال نہ چھوڑا ہو۔ (30) ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے مجاہد نے شعبی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلی الوارث مثل ذلک “ سے مراد ہے وارث پر لازم ہے کہ اس (بچہ) کو تکلیف نہ دے۔ (31) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان ارادا فصالا “ سے دودھ چھڑانا مراد ہے۔ (32) وکیع، سفیان، عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ دو سال سے کم مدت میں دودھ چھڑانے کا مشورہ ہے۔ عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ (بچہ کے والد کی) رضا مندی کے بغیر اس کا دودھ چھڑا دے۔ اور (اس طرح) والد کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ عورت کی رضا مندی کے بغیر اس کا دودھ چھڑا دے۔ (33) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان اردتم ان تسترضعوا اولادکم “ سے مراد اس بچہ کی ماں یا اس کے علاوہ دوسری دودھ پلانے والی عورت لفظ آیت ” فلا جناح علیکم اذا سلمتم “ یعنی جب تم کو کوئی حرج نہیں جب تم دودھ پلانے والی عورت کی اجرت اس کے سپرد کر دو ” ما اتیتم “ یعنی جو کچھ تم نے دنیا میں مقرر کیا تھا۔ (34) ابن ابی حاتم نے ابن شباب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان اردتم ان تسترضعوا اولادکم فلا جناح علیکم “ سے مراد ہے کہ جب یہ (دودھ پلانا) والد اور والدہ کی رضا مندی کے ساتھ ہو تو دایہ کو دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں۔
Top