Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى
: پھر حاصل کرلیے
اٰدَمُ
: آدم
مِنْ رَّبِهٖ
: اپنے رب سے
کَلِمَاتٍ
: کچھ کلمے
فَتَابَ
: پھر اس نے توبہ قبول کی
عَلَيْهِ
: اس کی
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
التَّوَّابُ
: توبہ قبول کرنے والا
الرَّحِیْمُ
: رحم کرنے والا
اس کے بعد آدم نے اپنے رب سے چند کلمات حاصل کر لئے۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بیشک وہ خوب زیادہ توبہ قبول فرمانے والا ہے بڑا مہربان ہے
(1) امام طبرانی المعجم الصغیر میں حاکم، ابو نعیم اور بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب آدم (علیہ السلام) نے وہ غلطی کی جو ان سے ہوگئی (تو) انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کیا میں آپ سے محمد ﷺ کے طفیل سوال کرتا ہوں کہ مجھے بخش دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ محمد ﷺ کون ہیں ؟ تو انہوں نے عرض کیا (اے اللہ) آپ کا نام برکت والا ہے جب آپ نے مجھے پیدا فرمایا تو میں نے آپ کے عرش کی طرف سر اٹھایا تو اس میں لا الہ اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا تو میں نے یہ سمجھ لیا کہ آپ کے نزدیک قدرومنزلت میں ان سے بڑا کوئی نہیں۔ کہ جس کا نام آپ نے اپنے نام کے ساتھ کردیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے آدم یہ تیری اولاد میں سے آخری نبی ہوں گے اگر یہ نہ ہوتے تو میں تجھ کو پیدا نہ کرتا۔ (2) امام الفریابی، عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا نے التوبہ میں ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے عرض کیا اے میرے رب کیا آپ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں۔ پھر عرض کیا اے میرے رب کیا آپ نے میرے اندر اپنی روح میں سے نہیں پھونکا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں۔ پھر عرض کیا اے میرے رب کیا آپ کی رحمت آپ غضب سے سبقت نہیں لے گئی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں۔ پھر عرض کیا اے میرے رب ! آپ مجھے بتائیے اگر میں توبہ کرلوں اور اپنی اصلاح کرلوں تو کیا آپ مجھے جنت کی طرف (دوبارہ) لوٹا دیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں۔ (3) امام طبرانی نے الاوسط میں اور ابن عساکر نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو وہ کھڑے ہوئے اور کعبہ شریف پر آئے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے (اس مقام پر) ان کو یہ دعا الہام فرمائی۔ اللہم انک تعلم سری وعلانیتی فاقبل معذرتی، و تعلم حاجتی فاعطنی سؤالی، و تعلم ما فی نفسی فاغفرلی ذنبی، اللہم انی اسئلک ایمانا یباشرنی قلبی، ویقیناً صادقا حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ما کتبت لی، وازضنی بما قسمت لی۔ اے اللہ ! تو میرے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے سو میری معذرت قبول فرما اور تو میری حاجت کو جانتا ہے سو مجھے عطا فرما جو میں نے سوال کیا اور تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے سو میرے گناہ بخش دے۔ اے اللہ میں تجھ سے ایسے ایمان کا طالب ہوں جو میرے قلب میں جاگزیں ہو اور یقین صادق کا طلب گار ہوں حتی کہ میں جان لوں کہ جو کچھ مجھے پہنچتا ہے وہ وہی ہے جو تو نے میری تقدیر میں لکھ دیا اور میں اس پر ہر طرح سے راضی ہوں جو تو نے میرے لئے تقسیم فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی۔ اے آدم میں نے تیری توبہ قبول کرلی اور تیرے گناہ کو معاف کردیا۔ اور جو کوئی یہ دعا کرے گا تو اس کے گناہ ضرور معاف کروں گا اور میں اس کی ضرورت اور معاملہ میں کفایت کروں گا اور اس سے شیطان کو روک دوں گا اور اس کے لئے ہر تاجر سے آگے تجارت کروں گا اور دنیا کو اس کی طرف متوجہ کروں گا۔ اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی۔ اگرچہ وہ انسان دنیا کا ارادہ نہیں کرے گا۔ (4) جندی، طبرانی اور ابن عساکر نے فضائل مکہ میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان کی اجازت فرمائی اور انہوں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور بیت اللہ اس دن سرخ ٹیلہ کی مانند تھا۔ جب انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں تو پھر بیت اللہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے اور یہ دعا کی۔ اللہم انک تعلم سر یرتی وعلانیتی فاقبل معذرتی سؤ الی و تعلم ما فی نفس فاغفرلی ذنوبی اللہم انی اسئلک ایمانا یباشر قلبی ویقیناً صادقا حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ما کتبت لی۔ اے اللہ ! بلاشبہ تو جانتا ہے میرے باطن اور ظاہر کو سو میری معذرت قبول فرمائیے اور مجھ کو عطا فرمائیے جو میں نے سوال کیا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے سو میرے گناہوں کو بخش دیجئے اے اللہ میں آپ سے ایسے ایمان کا سوال کرتا ہوں جو میرے قلب میں جاگزیں ہو اور یقین صادق کا طلب گار ہوں حتی کہ میں یہ جان لو کہ جو کچھ مجھ کو (تکلیف) پہنچی ہے وہ وہی ہے جو آپ نے میری تقدیر میں لکھ دی ہے اور میں ہر طرح سے راضی ہوں جو آپ نے میرے لئے تقسیم فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ میں نے تیرے گناہوں کو بخش دیا ہے اور تیری اولاد میں سے جو کوئی اس طرح دعا کرے گا تو اس کے گناہوں کو معاف کردوں گا اور اس کے غم اور پریشانیوں کو دور کروں گا اور اس کی آنکھوں کے درمیان فقر کو مٹا دوں گا اور ہر تاجر سے بلند میں اس کے لیے تجارت کروں گا اور ہر تاجر اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی اگرچہ وہ اس کا ارادہ نہ کرتا ہوگا۔ (5) حضرت بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو انہوں نے ایک ہفتہ اللہ کے گھر کا طواف کیا اور بیت اللہ کے سامنے دو رکعتیں پڑھیں پھر یہ دعا فرمائی۔ اللہم انت تعلیم سری وعلانیتی فاقبل معذرتی و تعلم حاجتی فاعطنی سؤالی و تعلم ما عندی فاغفرلی ذنوبی واسئلک ایمانا یباہی قلبی ویقیناً صادقا حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ما کتب لی ورضی بقضائک۔ اے اللہ تو جانتا ہے میرے باطن کو اور ظاہر کو سو میری معذرت قبول فرمائیے اور آپ میری حاجت کو جانتے ہیں اس لئے مجھے عطا فرمائیے جو میں نے سوال کیا ہے اور آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے پاس ہے سو میرے گناہوں کو بخش دیجئے میں آپ سے ایسے ایمان کا سوال کرتا ہوں جو قلب میں جا گزین ہوجائے اور یقین صادق کا طلبگار ہوں حتی کہ میں جان لوں کہ جو کچھ مجھ کو (تکلیف) پہنچتی ہے وہ وہی ہے جو آپ نے میرے مقدر میں لکھ دی ہے اور مجھے اپنے فیصلے پر راضی کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی اے آدم تو نے مجھ سے ایسی دعا کہ ہے جس کو میں نے تیرے لئے قبول کرلیا ہے۔ اور تیری اولاد میں سے جو بھی یہ دعا کرلے گا تو اس کو قبول کروں گا اور اس کے گناہ معاف کر دوں گا اور اس کی پریشانی اور غم کو دور کر دوں گا اور ہر تاجر سے آپ کے اس کے لئے تجارت کروں گا اور دنیا کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی اگرچہ اس نے اس کا ارادہ نہ کیا ہوگا۔ (6) امام وکیع عبد بن حمید، ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو نعیم نے الحلیہ میں عبید بن عمیر اللیثی (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے (اللہ تعالیٰ سے) عرض کیا اے میرے رب کیا میں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جو آپ نے میری تقدیر میں پہلے میرے متعلق لکھ دیا تھا کہ میں نے خود اپنی طرف سے یہ کام کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے یہ کام تیری تقدیر میں پہلے لکھ دیا تھا عرض کیا یا میرے رب جس طرح تو نے یہ کام ہونا میرے متعلق لکھ دیا تھا اسی طرح اس کو معاف بھی فرما دیجئے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ فتاب علیہ۔ انہ ھو التواب الرحیم (37) “ (پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے پھر اس کی توجہ قبول فرمائی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے) ۔ (7) امام عبد بن حمید، ابن المنذر اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت فتاب علیہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ بتایا گیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے (اللہ تعالیٰ سے) یہ عرض کیا اے میرے رب آپ مجھ کو بتائیے اگر میں توبہ کرلوں اور اہنی اصلاح کرلوں کیا تو مجھے جنت میں لوٹا دے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تجھ کو جنت میں لوٹا دوں گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تجھ کو جنت میں لوٹا دوں گا (اس پر آدم (علیہ السلام) نے یہ کلمات فرمائے) لفظ آیت ” قالا ربنا ظلمنا انفسنا، وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین “ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے استغفار کیا اور ان کی طرف توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی لیکن اللہ کے دشمن ابلیس نے اللہ کی قسم وہ اپنے گناہوں سے باز نہ آیا اور نہ تو بہ کا سوال کیا جب وہ اس گناہ میں واقع ہوا لیکن اس نے قیامت کے دن تک مہلت مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو ان میں سے وہ چیز دے دی جس کا اس نے سوال کیا تھا۔ (8) حضرت ثعلبی نے عکرمہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ کلمات تھے لفظ آیت ” قالا ربنا ظلمنا انفسنا، وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین “ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر آپ ہم کو نہ بخسیں گے تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (9) حضرت ابن المنذر نے ابن جریر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ یہ کلمات تھے لفظ آیت ” ربنا ظلمنا انفسنا “ الخ۔ (10) امام عبد ابن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے ابن جریر ابن ابی حاتم اور بیہقی نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ کلمات یہ ہیں لفظ آیت ” ربنا ظلمنا انفسنا “ (الآیہ) اور اگر اللہ تعالیٰ ان (کلمات) کے بارے میں خاموش رہتے اور ہم کو اس بارے میں نہ بتاتے تو البتہ لوگ ضرور جستجو کرتے یہاں تک کہ وہ جان لیتے کہ وہ کیا کلمات ہیں (یعنی علماء اپنی تحقیق کے ذریعہ جان لیتے) ۔ (11) حضرت وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ سے مراد یہ کلمات ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” ربنا ظلمنا انفسنا، وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخسرین “ عبد بن حمید نے حسن سے اور ضحاک (رح) سے اسی کی مثل روایت کیا۔ (12) عبد بن حمید، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے ابن اسحاق تمیمی (رح) سے روایت کیا کہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ کون سے کلمات تھے جو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سکھائے تو انہوں نے فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ نے ان کو) حج کی شان اور طریقہ سکھایا اور کلمات سے یہی مراد ہے۔ (13) امام عبد بن حمید نے عبد اللہ بن زید (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ کلمات یہ تھے۔ لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب عملت سوء وظلمت نفسی فاغفرلی انک انت خیر الفاخرین لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب عملت سوء وظلمت نفسی فاغفرلی انک انت ارحم الراحمین لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب عملت سوء وظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم۔ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ کی ذات پاک ہے اور حمد آپ کے لئے اے میرے رب ! میں نے برے کام کئے اور اپنے نفس پر ظلم کیا مجھ کو بخش دیجئے بلاشبہ آپ بہترین مغفرت کرنے والے ہیں آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ کی ذات پاک ہے آپ کے لئے حمد ہے۔ اے میرے رب میں نے برے کام کئے اور اپنے نفس پر ظلم کیا سو مجھ پر رحم فرمائیے بلاشبہ آپ سب رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ کی ذات پاک ہے اور آپ کے لیے حمد ہے اے میرے رب میں نے برے کام کئے اور اپنے نفس پر ظلم کیا سو میری توبہ قبول فرمائیے بلاشبہ آپ توبہ قبول کرنے والے رحم کرنے والے ہیں۔ (4) امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے حضرت انس ؓ سے لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ کلمات یہ تھے۔ سبحانک اللہم وبحمدک عملت سوء وظلمت نفسی فاغفرلی انک انت خیر الغافرین لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک عملت سوء وظلمت نفسی فاغفرلی انک انت ارحم الراحمین لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک عملت سوء وظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم۔ ترجمہ : آپ کی ذات پاک ہے اور آپ کے لئے حمد ہے۔ میں نے برے کام کئے اپنے نفس پر ظلم کیا سو مجھے بخش دیجئے بلاشبہ آپ بہترین مغفرت فرمانے والے ہیں آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ کی ذات پاک ہے اور آپ کے لئے حمد ہے میں نے برے کام کئے اور اپنے نفس پر ظلم کیا سو مجھ پر رحم فرمائیے بلاشبہ آپ سب رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ کی ذات پاک ہے اور حمد آپ کے لئے ہے میں نے برے کام کئے اور اپنے نفس پر ظلم کیا سو میری توبہ قبول فرمائیے بلاشبہ آپ توبہ قبول کرنے والے رحم کرنے والے ہیں۔ اور یہ بھی ذکر کیا کہ یہ بات نبی کریم ﷺ کی طرف سے ہے لیکن اس بات میں شک کیا۔ (15) امام ہناد نے الزہد میں حضرت سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) سے غلطی ہوئی تو کلمہ اخلاص کی طرف جلدی کی اور یہ دعا فرمائی۔ لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک عملت سوء وظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم۔ ترجمہ : آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ کی ذات پاک ہے اور حمد آپ کے لئے ہے اے میرے رب میں نے برے کام کئے اور اپنے نفس پر ظلم کیا سو میری توبہ قبول فرمائیے بلاشبہ آپ توبہ قبول کرنے والے رحم کرنے والے ہیں۔ (16) امام ابن عساکر نے جویبر سے ضحاک سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے توبہ کو دو سو سال تک طلب فرمایا یہاں تک کہ ان کو اللہ نے یہ کلمات عطا فرمائے اور ان کو خاص طور پر تلقین فرمائے۔ پھر فرمایا اس دوران کہ آدم (علیہ السلام) بیٹھے رو رہے تھے اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھا ہوا تھا اچانک ان کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور ان کو سلام کیا آدم (علیہ السلام) رونے لگے اور ان کے رونے کی وجہ سے جبرئیل (علیہ السلام) بھی رونے لگے جبرئیل (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اے آدم یہ کون سی مصیبت ہے جس نے آپ کو ہر مصیبت سے بےپرواہ کردیا ہے۔ اور یہ رونا کیا ہے ؟ حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا اے جبرئیل میں کس طرح نہ روؤں کہ میرے رب نے مجھے آسمان کی بادشاہی سے زمین کی پستی کی طرف اتار دیا ہے اور ہمیشہ رہنے والے گھر سے کوچ کرنے والے اور زائل ہوجانے والے گھر کی طرف اور نعمتوں والے گھر سے تکلیف اور سختی والے گھر کی طرف اور ہمیشہ رہنے والے گھر سے فنا ہونے والے گھر کی طرف اتار دیا ہے اے جبرئیل اس مصیبت کو میں کس طرح شمار کروں ؟ جبرئیل (علیہ السلام) اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو آدم (علیہ السلام) کی گفتگو کے بارے میں بتایا اللہ جل شانہ نے فرمایا اے جبرئیل آدم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ اور اس کو (میری طرف سے) کہو اے آدم کیا میں نے تجھ کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں فرمایا ؟ عرض کیا کیوں نہیں اے میرے رب پھر فرمایا کیا میں نے تیرے اندر اپنی روح نہیں پھونکی ؟ عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا کیا تیرے لئے میں نے اپنے فرشتوں سے سجدہ نہیں کرایا عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا میں نے تجھے اپنی جنت میں نہیں ٹھہرایا عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا کیا میں نے تجھ کو (درخت کے نہ کھانے کا) حکم نہیں دیا تھا پھر تو نے میری نافرمانی کی۔ عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا قسم ہے میری عزت اور میرے جلال اور علو قرینہ کی اگر تیری طرح زمین بھر کر لوگ ہوتے اور وہ میری نافرمانی کریں تو میں ان کو گناہ کرنے والوں کی جگہ اتارتا۔ سوائے اس کے اے آدم میری رحمت میرے غضب پر سبقت کرچکی ہے میں نے تیری آواز کو اور آہ وزاری کو سن لیا میں نے تیرے رونے پر رحم کیا اور تیری لغزش کو کم کردیا (یعنی معاف کردیا) سو تو (یہ کلام) کہہ لے۔ لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک عملت سوء وظلمت نفسی فارحمنی انک انت خیر الرحمین۔ ترجمہ : تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے اور سب تعریف تیرے ہی لئے ہے میں نے برا کام کیا اور اپنے نفس پر ظلم کیا سو مجھ پر رحم فرمائیے بلاشبہ آپ سب رحم کرنے والوں میں زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک عملت سوء وظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم۔ ترجمہ : تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے اور سب تعریف تیرے ہی لئے ہے میں نے برا کام کیا اور اپنے نفس پر ظلم کیا میری توبہ قبول فرمالیجئے بلاشبہ آپ توبہ قبول کرنے والے رحم کرنے والے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت “ میں کلمات سے یہی الفاظ مراد ہیں۔ (17) امام ابن المنذر نے محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) سے غلطی ہوئی تو اس کا آپ کو بہت رنج ہوا اور ندا مت ہوئی تو جبرئیل (علیہ السلام) ان کے پاس تشریف لائے اور کہا اے آدم میں تجھ کو توبہ کا دروازہ نہ بتاؤں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کی توبہ قبول فرمالیں گے آدم (علیہ السلام) نے فرمایا اے جبرئیل ضرور بتائیے انہوں نے کہا تم اپنی جگہ سے اٹھو اور اپنے رب سے سرگوشی کرو سو اس ذات کی عظمت بیان کرو اور اس کی تعریف کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس کی تعریف سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں پوچھا اے جبرئیل میں اس کی مدح کیسے کروں ؟ جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ کلمات پڑھئیے۔ لا الہ الا ھو وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وھو حی لایموت بیدہ الخیر کلہ وھو علی کل شیء قدیر۔ ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریف ہے وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے جو نہ مرے گا اسی کے ہاتھ میں ساری خیر ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ پھر اپنی غلطی کا اقرار کرو اور یوں کہو : سبحانک اللہم وبحمدک لا الہ الا انت رب انی ظلمت نفسی وعملت سوء فاغفرلی انہ لا یغفر الذبوب الا انت۔ ترجمہ : اے اللہ تیری ذات پاک ہے اور تیرے لئے سب تعریفیں ہیں تیرے سوا کوئی معبود نہیں اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور برا کام کیا مجھ کو بخش دیجئے کیونکہ آپ کے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔ اللہم انی اسئلک بجاہ محمد عندک وکرامتہ علیک ان تغفرلی خطیئتی۔ ترجمہ : اے اللہ میں آپ سے محمد ﷺ کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں جو آپ کے بندے ہیں اور آپ کے نزدیک ان کی عزت ہے کہ میری غلطی کو معاف فرما دیجئے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے یہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کس نے تجھ کو یہ (دعا) سکھائی تو انہوں نے عرض کیا اے میرے رب بلاشبہ جب آپ نے میرے اندر اپنی روح کو پھونکا تو میں پورا انسان بن کر کھڑا ہوگیا میں سنتا تھا دیکھتا تھا اور سمجھتا تھا میں نے آپ کے عرش کی پاؤں پر یہ لکھا ہوا دیکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ محمد رسول اللہ جب میں نے آپ کے نام کے کسی مقرب فرشتے اور کسی نبی مرسل کا نام نہیں دیکھا سوائے اس (یعنی محمد) کے نام کے تو میں نے جان لیا کہ وہ آپ کے نزدیک مخلوق میں سب سے زیادہ عزت والے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو نے سچ کہا میں نے تیری توبہ قبول کرلی اور تیری غلطی کو معاف کردیا تو اس پر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی تعریف بیان فرمائی اور اس کا شکر ادا کیا اور بڑی خوشی کے ساتھ واپس لوٹ گئے۔ کوئی بندہ اپنے رب سے (اس قدر) خوشی کے ساتھ نہیں لوٹا۔ اور آدم (علیہ السلام) کا لباس نور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ینزع عنھما لباسھما لیریہما سواتھما “ ان کا نورانی لباس اتار لیا گیا راوی فرماتے ہیں کہ پھر فرشتے فوج در فوج اسن کے پاس مبارک بادی کے لیے آئے اور کہتے تھے ہم تجھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ قبول ہوجانے کی مبارک باد دیتے ہیں اے محمد ﷺ کے باپ۔ (18) امام احمد نے الزہد میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی وہ عاشوراء کا دن تھا شیطان بیسان کے مقام پر اتارا گیا (19) امام دیلمی نے مسند الفردوس میں ایک کمزور سند کے ساتھ حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت فتاب علیہ “ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ہندوستان میں اتارا حوا کو جدہ میں ابلیس کو بیسان میں اور سانپ کو اصبہان میں اتارا اور سانپ کے اونٹ کی طرح پاؤں تھے۔ آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں سو سال اپنی غلطی پر روتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے آدم کیا میں نے تجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں فرمایا ؟ کیا تیرے اندر اپنی روح کو نہیں پھونکا ؟ کیا تیرے لئے اپنے فرشتوں کو سجدہ نہیں کرایا ؟ کیا تیری شادی حوا سے نہیں کی ؟ عرض کیا کیوں نہیں فرمایا تو پھر یہ رونا کیسا ہے ؟ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا میں اس لئے روتا ہوں کہ رحمن کے پڑوس سے مجھے نکال دیا گیا۔ فرمایا ان کلمات کو لازم پکڑو بلاشہ اللہ تعالیٰ تیری توبہ قبول کرنے والے ہیں اور تیرے گناہ کو بخشنے والے ہیں (یہ کلمات) پڑھئے۔ اللہم انی اسئلک بحق محمد وال محمد سبحانک لا الہ الا انت عملت سوء او ظلمت نفسی فاغفرلی انک انت الغفور الرحیم۔ ترجمہ : اے اللہ میں آپ سے محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ کے طفیل سوال کرتا ہوں آپ کی ذات پاک ہے آپ کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے برا کام کیا اور اپنی جان پر ظلم کیا مجھے بخش دیجئے بلاشبہ آپ بخشنے والے مہربان ہیں۔ اللہم انی اسئلک بحق محمد وال محمد سبحانک لا الہ الا انت عملت سوء او ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم۔ ترجمہ : اے اللہ ! میں آپ سے محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ کے طفیل سوال کرتا ہوں آپ کی ذات پاک ہے آپ کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے برا کام کیا اور اپنی جان پر ظلم کیا میری توبہ قبول فرمائیے بلاشبہ آپ توبہ قبول کرنے والے رحم کرنے والے ہیں۔ یہ کلمات تھے جو آدم (علیہ السلام) کو تلقین کئے گئے۔ (20) ابن النجار نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ان کلمات کے بارے میں پوچھا جو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سکھائے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو فرمایا انہوں نے محمد ﷺ حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین ؓ کے واسطہ سے سوال کیا تھا کہ میری توبہ قبول کیجئے تو اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول فرمائی۔ (21) الخطیب نے مالی میں اور ابن عساکر نے اسی سند کے ساتھ ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا آدم (علیہ السلام) نے جب (ممنوعہ) درخت میں سے کھالیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے پڑوسی سے اور میری عزت (والی جگہ) سے نیچے اترجا۔ جو شخص میری نافرمانی کرے میں اس کو اپنا پڑوسی نہیں بناتا آدم (علیہ السلام) اس حال میں رہے اور ان کا رنگ سیاہ ہوچکا تھا (ان کے اترنے پر) زمین روئی اور اس نے چیخ و پکار کیا پھر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ اے آدم آج تیرا تاریخ کو میرے لئے روزہ رکھو انہوں نے روزہ رکھا تو (دو ثلث) سفید ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ آج کے دن پندرہویں (تاریخ) کو میرے لئے روزہ رکھو۔ انہوں نے روزہ رکھا تو پورا چہرہ سفید ہوگیا۔ اسی لئے ان دونوں کو ایام بیض (یعنی سفیدی کے دن) کہا جاتا ہے۔ (22) امام ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے زمین کی طرف اتارا تو اس سے فرمایا اے آدم چار چیزوں کی حفاظت کرنا پہلی چیز جو میرے لئے تیرے پاس ہے اور دوسری چیز جو تیرے لئے میرے پاس ہے تیسری چیز کو میرے اور تیرے درمیان ہے۔ اور چوتھی چیز تیرے اور لوگوں کے درمیان ہے۔ پہلی چیز جو میرے لئے ہے تیرے پاس وہ یہ ہے کہ تو میری عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر۔ دوسری چیز جو تیرے لئے ہے۔ میرے پاس وہ یہ ہے کہ میں تیرے عمل کا تجھ کو پورا پورا بدلہ دوں گا اور ذرہ برابر بھی کمی نہ کروں گا۔ تیسری چیز جو میرے اور تیرے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ جو مجھ سے دعا کرے گا تو میں تیری دعا کو قبول کروں گا چوتھی وہ چیز جو تیرے اور لوگوں کے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ تو لوگوں کے پاس وہ چیز لینا پسند کر جو تو پسند کرتا ہے کہ وہ تیرے پاس لے کر آئیں۔ (23) امام احمد نے الزہد میں بیہقی نے الاسماء والصفات میں سلمان (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو ان سے فرمایا اے آدم ! ایک چیز میرے لئے ہے اور ایک چیز تیرے لئے ہے اور ایک چیز میرے اور تیرے درمیان ہے وہ چیز جو تیرے لئے ہے وہ یہ ہے کہ تو میری عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور جو چیز تیرے لئے ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی (نیک) عمل کرے گا میں تجھ کو اس کا بدلہ دوں گا بدلہ اس طرح ہے کہ میں تیری مغفرت کر دوں گا بلاشبہ میں بخشنے والا ہوں اور رحم کرنے والا ہوں اور جو چیز میرے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ تیری طرف سے سوال کرنا اور دعا کرنا ہے۔ اور میری طرف سے قبول کرنا اور عطا کرنا ہے۔ امام بیہقی نے ایک دوسرے طریق سے سلمان سے اسی طرح مرفوع روایت کی۔ (24) حضرت الخطیب اور ابن عساکر نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین کی طرف اتارا۔ اور وہ زمین میں رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ رہیں پھر ان کے بیٹوں نے ان سے کہا اے ہمارے والد محترم کچھ فرمائیں (یعنی ہم کو نصیحت فرمائیں) تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے چالیس ہزار کے مجمع میں خطبہ دیا جو آپ کی اولاد میں سے اور اولاد کی اولاد میں سے تھے۔ پھر فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم فرمایا اے آدم اپنی بات کو کم کرو تو میرے پڑوس کی طرف لوٹ آؤ گے۔ (25) حضرت خطیب اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو ان کی اولاد بہت ہوگئی اور بڑھ گئی ایک دن انکی اولاد اور اولاد ان کے پاس جمع ہوئے اور ان کے اردگرد بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے مگر آدم (علیہ السلام) خاموش رہے اور کوئی بات نہ کی تو انہوں نے کہا اے ہمارے باپ آپ ہم سے بات کیوں نہیں کرتے آپ خاموش کیوں ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا اے میرے بیٹے ! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اپنے پڑوس سے زمین کی طرف اتارا تھا تو مجھ سے عہد لیا تھا اور فرمایا تھا کہ اے آدم ! کلام تھوڑا کر یہاں تک کہ میرے پڑوس کی طرف جنت میں لوٹ آئے گا۔ (26) امام ابن عساکر نے فضالہ بن عبید ؓ سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) بوڑھے ہوگئے تو ان کے پوتے سن سے ہنسی کھیل کرتے تھے ان سے کہا جاتا کیا آپ اپنے پوتوں کو اس بات سے منع نہیں کرتے کہ آپ سے ہنسی مذاق نہ کریں تو انہوں نے فرمایا بلاشبہ میں نے وہ چیز دیکھی ہے جو انہوں نے نہیں دیکھی اور میں نے ایسی بات سنی ہے جو انہوں نے نہیں سنی اور میں جنت میں تھا (اللہ تعالیٰ کی) بات کو سنتا تھا اور میرے رب نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا کہ اگر میں نے اپنے منہ کو بند رکھا تو وہ مجھے جنت میں داخل فرما دیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کے کلمات (27) حضرت ابن الصلاح نے امالی میں محمد بن نصر (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب تو نے مجھے اپنے ہاتھ کی کمائی میں مشغول کردیا ہے۔ اور مجھ کو ایسی چیز سکھا دیجئے جو حمد اور تسبیح کو جامع ہو تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اے آدم ! جب تو صبح کرے تو تین مرتبہ کہے لے اور جب تو شام کرلے تو تین مرتبہ کہہ لے لفظ آیت ” الحمدللہ رب العالمین حمدا یوافی نعمہ الکافی مزیدہ “ (سب تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے ایسی تعریف جو اس کی نعمتوں کو پورا کر دے اور جو اس کو مزید (نعمتوں) کو کافی ہوجائے) یہ کلمات حمد اور تسبیح کے جامع ہیں۔ (28) ابو الشیخ نے العظمہ میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) بادل کا اپنی پیتے تھے۔ (29) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں کعب (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے دینار اور درہم آدم (علیہ السلام) نے بنائے۔ (30) امام ابی عساکر نے معاویہ بن یحییٰ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) نے دینار اور درہم بنائے اور ان دونوں کے بغیر معیشت (زندگی) درست نہیں ہوئی۔ (31) امام ابن ابی شیبہ نے حسن سے روایت کیا کہ سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) نے وفات پائی۔ (32) امام ابن سعد، حاکم، اور مردویہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب آدم (علیہ السلام) کی موت قریب آئی تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا میرے لئے جنت کے پھلوں میں سے چن کر لاؤ وہ پھل لینے کے لیے نکلے تو راستے میں ان کو فرشتے ملے انہوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو ؟ بیٹوں نے کہا ہمارے باپ نے ہم کو بھیجا ہے تاکہ ہم اس کے لئے جنت کے پھلوں میں سے پھل توڑ لائیں فرشتوں نے کہا واپس لوٹ جاؤ بس تمہارے لئے یہی کافی ہے وہ ان کے ساتھ واپس لوٹ آئے یہاں تک کہ آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئے۔ جب حوا نے ان فرشتوں کو دیکھا تو ڈر گئیں اور آدم (علیہ السلام) کے قریب آنا شروع کیا اور ان سے لپٹ گئیں۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا میرے پاس سے دور ہوجا۔ میرے پاس سے دور ہوجا میرے اور میرے رب کے فرشتوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ ان فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی روح کو قبض کرلیا پھر ان کو غسل دیا۔ ان کو لوبان کی دھونی دی اور ان کو کفن دیا۔ پھر ان پر نماز پڑھی۔ پھر ان کے لیے قبر کھودی۔ اور ان کو دفن کردیا۔ پھر فرشتوں نے کہا اے آدم کی اولاد ! تمہارے مردوں کے بارے میں یہی تمہارا طریقہ ہے اسی طرح تم کیا کرو۔ ابن ابی شیبہ نے ابی ؓ سے موقوف روایت کی ہے۔ (33) ابن عساکر (رح) نے ابی سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب آدم (علیہ السلام) کی موت قریب ہوئی تو اللہ نے ان کی طرف کفن اور خوشبو جنت سے بھیجی جب حضرت حوا نے فرشتوں کو دیکھا تو بےصبری کرنے لگیں آدم (علیہ السلام) نے (ان سے) فرمایا میرے اور میرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتوں کے درمیان راستہ چھوڑ دے۔ جو بھی مجھے مشقت کرنا پڑی وہ تیری وجہ سے تھی اور نہیں ہے تجھ کو وہ مصیبت جو مجھ کو پہنچی ہے مگر تیری وجہ سے۔ (34) امام ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر۔ ان میں بڑا یغوث تھا۔ آدم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا اے میرے بیٹے جاؤ اگر فرشتوں میں سے کوئی تم کو ملے تو اس سے کہنا کہ جنت میں سے کھانا اور اس کی پینے کی چیزوں میں سے پینے کی چیز لے آئے۔ پس یغوث گیا تو کعبہ شریف کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) سے ملاقات ہوگئی اس نے اس بارے میں ان سے سوال کیا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا واپس لوٹ جاؤ کیونکہ تمہارا باپ فوت ہوگیا ہے۔ وہ لوٹے تو آدم (علیہ السلام) جان دے رہے تھے جبرئیل (علیہ السلام) سے ملے اور ان کے لیے کفن کا کپڑا خوشبو اور بیری کے پتے لے آئے پھر فرمایا اے آدم کے بیٹو ! کیا تم جانتے ہو میں نے تمہارے باپ کے ساتھ کیا کیا ہے۔ سو تم بھی اپنے مردوں کے ساتھ ایسی ہی کیا کرو پھر انہوں نے ان کو غسل دیا ان کو کفن دیا اور ان کو خوشبو لگائی۔ ان کو اٹھا کر کعبہ شریف کی طرف لے گئے ان پر چار تکبیریں پڑھیں اور ان کو دوسری قبروں کے قریب قبلہ کے متصل رکھ دیا اور ان کو مسجد خیف میں دفن کردیا۔ (35) امام دار قطنی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) پر نماز پڑھی اور ان پر چار تکبیریں کہیں اس دن جبرئیل (علیہ السلام) نے مسجد خیف میں فرشتوں کی امامت کرائی ان کو قبلہ کی جانب رکھا ان کے لئے لحد کھودی اور ان کے کوہان کی طرح بنایا۔ (36) امام ابو نعیم نے الحلیہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس جنازہ لایا گیا آپ نے اس پر نماز پڑھی اور چار تکبیریں کہیں اور فرمایا فرشتوں نے بھی آدم (علیہ السلام) پر چار تکبیریں کہی تھیں۔ (37) ابن عساکر (رح) نے ابی ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا آدم (علیہ السلام) کے لیے لحد بنائی گئی اور پانی کے ساتھ طاق مرتبہ غسل دیا گیا پھر فرشتوں نے کہا یہ طریقہ ہے آدم (علیہ السلام) کی اولاد کا اس کے بعد سے۔ (38) امام ابن عساکر نے عبد اللہ بن ابی خراس (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کی قبر مغارۃ میں ہے جو بیت المقدس اور مسجد ابراہیم کے درمیان ہے اور ان کے پاؤں چٹان کے پاس ہیں اور ان کے سر مسجد ابراہیم کے پاس ہیں اور ان دونوں کے درمیان اٹھارہ میل (کا فاصلہ) ہے۔ (39) ابن عساکر نے عطا خراسانی (رح) سے روایت کیا کہ تمام مخلوق آدم (علیہ السلام) کی وفات پر سات دن روتی رہی۔ (40) حضرت ابن عدی نے الکامل میں ابو الشیخ نے العظمہ میں ابن عساکر نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اہل جنت میں سے ہر ایک نام سے پکارا جائے گا سوائے آدم (علیہ السلام) کے کیونکہ ان کی کنیت ابو محمد ہے۔ اہل جنت میں سے ہر ایک بغیر بالوں کے بغیر داڑھی مونچھ کے ہوں گے سوائے موسیٰ بن عمران کے کیونکہ ان کی داڑھی ان کی ناف تک پہنچی ہوگی۔ (41) حضرت ابن عدی اور بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت والوں کے لیے کوئی کنیت نہیں ہے مگر آدم (علیہ السلام) کی کنیت ابو محمد رکھی گئی ہے (ان کی) عظمت اور عزت کی وجہ سے۔ (42) امام ابن عساکر نے حضرت کعب ؓ سے روایت کیا کہ جنت میں سے کسی کی داڑھی نہیں ہوگی سوائے آدم (علیہ السلام) کے ان کی ناف تک کالی داڑھی ہوگی اور یہ اس وجہ سے کہ دنیا میں ان کی داڑھی نہیں تھی۔ آدم (علیہ السلام) کے بعد داڑھیاں شروع ہوئیں اور جنت میں سے کسی کو کنیت نہیں ہوگی سوائے آدم (علیہ السلام) کے اس میں ان کی کنیت ابو محمد ہوگی۔ (43) امام ابو الشیخ نے بکر بن عبد اللہ مزنی ؓ سے روایت کیا کہ جنت میں کسی کی کنیت نہیں ہے۔ مگر آدم (علیہ السلام) کی کنیت ابو محمد ہوگی اس سے اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو عزت دی ہے۔ (44) امام ابن عساکر نے غالب بن عبد اللہ عقیلی (رح) سے روایت کیا وہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں آدم (علیہ السلام) کی کنیت ابو البشر تھی اور جنت میں ابو محمد ہوگی۔ (45) حضرت ابو الشیخ نے العظمہ میں خالد بن معدان (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں اترے پھر جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے بیٹوں میں سے ڈیڑھ سو آدمی ان کی بیت المقدس کی طرف اٹھا کرلے گئے ان کی لمبائی تیس میل تھی۔ انہوں نے ان کو وہاں دفن کردیا اور ان کا سر چٹان کے پاس رکھا اور ان کے پاؤں بیت المقدس سے تیس میل باہر تھے۔ (46) امام طبرانی نے ابو برزہ اسلمی ؓ سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) نیچے اتارے گئے تو فرشتوں سے کلام کرنے سے منع کر دئیے گئے حالانکہ وہ ان کے کلام سے مانوس ہوتے تھے وہ جنت سے نکلنے پر سو سال تک روتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اے آدم کس چیز نے تجھ کو غم میں ڈالا ؟ عرض کیا میں غم کیوں کہ کروں حالانکہ آپ نے مجھ کو جنت سے نیچے اتار دیا اور میں نہیں جانتا کہ جنت میں دوبارہ لوٹوں گا یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم یہ دعا پڑھ : اللہم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی عملت سوءا او ظلمت نفسی فاغفرلی انک انت خیر الغافرین۔ ترجمہ : اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں تیری ذات پاک ہے اور تعریف تیرے لئے ہیں اے میرے رب بیشک میں نے برا کام کیا اور اپنی جان پر ظلم کیا مجھے بخش دیجئے بلاشبہ آپ سب سے بہتر بخشنے والے ہیں۔ اور دوسری یہ دعا پڑھ : اللہم لا الہ الا انت وخدک لاشریک لک سبحانک وبحمدک رب انی عملت سوء وظلمت نفسی فاغفرلی انک انت ارحم الراحمین۔ ترجمہ : اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں تیری ذات پاک ہے اور تعریف تیرے لئے ہیں اے میرے رب میں نے برا کام کیا اور اپنی جان پر ظلم کیا مجھے بخش دیجئے بلاشبہ آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ اور تیسری یہ دعا پڑھ : اللہم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک لا شریک لک رب عملت سوءا وظلمت نفسی فاغفرلی انک انت التواب الرحیم۔ ترجمہ : اے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے اور سب تعریف تیرے لئے ہیں تیرا کوئی شریک نہیں اے میرے رب میں نے برا کام کیا اور اپنی جان پر ظلم کیا مجھے بخش دیجئے بلاشبہ آپ توبہ قبول کرنے والے بخشنے والے ہیں۔ یہ وہ کلمات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ پر نازل فرمائے (اور اسی کو فرمایا) لفظ آیت ” فتلقی ادم من ربہ کلمت فتاب علیہ، انہ ھو التواب الرحیم “ (پھر) فرمایا یہی کلمات تیری اولاد کے لیے ہیں آدم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا جس کو ھبۃ اللہ کہا جاتا ہے اور اہل تورات اور اہل انجیل ان کو شیت کہتے ہیں (فرمایا) کہ اپنے رب کی عبادت کرو اور اس سے سوال کر کیا وہ مجھے جنت میں لوٹائیں گے یا نہیں تو اس بیٹے نے عبادت کی اور سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ میں ان کو یعنی آدم (علیہ السلام) کو جنت کی طرف لوٹانے والا ہوں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے رب میں اس بات سے مطمئن نہیں کہ میرا باپ مجھ سے عنقریب نشانی طلب کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے (بطور نشانی کے) ان کی طرف حور کے کنگنوں میں سے ایک کنگن ڈال دیا۔ جب وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئے انہوں نے پوچھا کیا جواب ملا ہے عرض کیا آپ کو خوشخبری ہو عرض کیا مجھ کو یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کی طرف لو ٹا نے والا ہے آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تو نے کسی نشانی کا سوال نہ کیا تھا انہوں نے کنگن باہر نکال دیا انہوں نے جب اس کو دیکھا تو پہچان گئے آدم (علیہ السلام) سجدہ میں گرپڑے اور زارو قطار رونے لگے یہاں تک کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تہہ جاری ہوگئی اور اس کے آثار پندوستان میں پہچانے جاتے ہیں اور بتایا گیا کہ ہندوستان میں سونے کا خزانہ اسی کنگن سے پیدا ہوا ہے۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے فرمایا میرے لئے اپنے رب سے جنت کے پھلوں میں سے کھانا طلب کرو جب وہ آدم (علیہ السلام) کے پاس سے باہر نکلا تو آدم (علیہ السلام) فوت ہوگئے جبرئیل (علیہ السلام) ان کے (لڑکے) کے پاس آئے اور اس سے کہا تو کہاں جا رہا ہے اس نے کہا میرے والد نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اپنے رب سے اس کے لیے جنت کے پھلوں سے کھانا طلب کروں جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا بلاشبہ اس کے رب نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ وہ اس میں سے کچھ نہ کھائے گا یہاں تک کہ وہ جنت کی طرف لوٹ آئے گا تحقیق وہ مرچکا ہے فوراً واپس لوٹ جا جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کو غسل دیا۔ کفن دیا اور خوشبو لگائی اور ان پر نماز پڑھی پھر جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا اسی طرح تم اپنے مردوں کے ساتھ کیا کرو۔ (47) امام ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کی قبر مسجد حیف میں بنائی گئی اور حوا کی قبر جدہ میں۔ دنیا میں سب پہلی تاریخ (48) حضرت ابن ابی حنیفہ نے اپنی تاریخ میں ابن عساکر نے زہری اور شعبی (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) کو جنت سے اتارا گیا اور ان کی اولاد (زمین پر) پھیل گئی تو ان کے بیٹوں نے آدم (علیہ السلام) کے اترنے (والے دن) سے تاریخ مقرر کی یہ تاریخ رہی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو بھیج دیا تو لوگوں نے نوح (علیہ السلام) کی بعثت (والے دن) سے تاریخ چلتی رہی یہاں تک کہ غرق کا واقعہ پیش آیا پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ تک طوفان سے تاریخ چلتی رہی۔ (پھر) اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ سے تاریخ چلائی یوسف (علیہ السلام) کی بعثت تک اور یوسف (علیہ السلام) کی بعثت سے موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت تک (پھر) موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے ملک سلیمان تک پھر ملک سلیمان سے ملک عیسیٰ تک (پھر) عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے رسول اللہ ﷺ کی بعثت تک (یہی تاریخ اپنی اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بیٹوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ سے تاریخ چلائی بیت اللہ کی تعمیر تک جب کہ اس کو ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) نے بنایا اور یہ تاریخ بیت اللہ کی بنیاد سے پھر شروع ہوئی یہاں تک کہ قبیلہ معد متفرق ہوگیا پھر جب کبھی قوم تھامہ سے نکلتی تھی تو اپنے نکلنے (والے دن) سے تاریخ ڈالتے تھے یہاں تک کہ کعب بن ثوری کی وفات ہوگئی پھر اس کی موت (والے دن) سے تاریخ مقرر کی۔ واقعہ فیل تک پھر ہاتھی والا واقعہ پیش آیا پھر اس واقعہ سے تاریخ شروع ہوئی۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے (رسول اللہ ﷺ کی) ہجرت (کے دن) سے تاریخ مقرر فرمائی اور یہ سترواں یا اٹھارواں سال تھا۔ (49) امام ابی عساکر نے عبد العزیز بن عمران سے روایت کیا کہ لوگ ہمیشہ پہلے زمانہ میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے جنت سے اترنے (والے دن) سے تاریخ کو مقرر کرتے آئے۔ یہ (تاریخ) برابر (جاری) رہی یہاں تک کہ نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بھیج دیا پھر نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لیے بددعا کرنے (والے دن) سے تاریخ مقرر ہوئی پھر طوفان کے دن سے تاریک مقرر ہوئی پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ والے دن سے تاریخ مقرر ہوئی۔ پھر اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد نے بیت اللہ کی تعمیر (والے دن) سے تاریخ مقرر کی پھر کرب بن ثوری کی موت (والے دن) سے تاریخ مقرر ہوئی پھر ہاتھی والے سال سے تاریخ مقرر ہوئی پھر مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی ہجرت والے دن سے تاریخ کو مقرر کیا۔
Top