Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 36
فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ١۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
فَاَزَلَّهُمَا
: پھر ان دونوں کو پھسلایا
الشَّيْطَانُ
: شیطان
عَنْهَا
: اس سے
فَاَخْرَجَهُمَا
: پھر انہیں نکلوا دیا
مِمَّا ۔ کَانَا
: سے جو۔ وہ تھے
فِیْهِ
: اس میں
وَقُلْنَا
: اور ہم نے کہا
اهْبِطُوْا
: تم اتر جاؤ
بَعْضُكُمْ
: تمہارے بعض
لِبَعْضٍ
: بعض کے
عَدُوْ
: دشمن
وَلَكُمْ
: اور تمہارے لیے
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
مُسْتَقَرٌّ
: ٹھکانہ
وَمَتَاعٌ
: اور سامان
اِلٰى۔ حِیْنٍ
: تک۔ وقت
سو شیطان نے ان دونوں کو درخت کے ذریعہ سے لغزش دی۔ سو ان دونوں کو اس سے نکال دیا جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا کہ اتر جاؤ تم سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔ اور تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا ہے اور ایک زمانہ تک نفع حاصل کرنا ہے
(1) امام ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فازلہما “ سے مراد ہے۔ ” فاغواھما “ پس ان کو اغوا کرلیا۔ (یعنی سیدھے راستے سے ہٹا دیا) ۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے عاصم بن بہدلہ (رح) سے روایت کیا کہ ” فازلہما “ سے مراد ہے فتحاھما یعنی ان سے ان دونوں کو ہٹا دیا۔ (3) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ ہماری قرأت میں سورة بقرہ میں ” فازلہما “ کی جگہ فوسوس ہے۔ یعنی وسوسہ ڈالا۔ ابلیس نے وسوسہ کیسے ڈالا (4) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود اور دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا لفظ آیت ” اسکن وزوجک الجنۃ “ تو ابلیس نے ارادہ کیا کہ (کسی طرح) ان دونوں کے پاس جنت میں داخل ہوجائے۔ ایک سانپ کے پاس آیا اور وہ ایسا جانور تھا کہ چار ٹانگیں تھیں گویا کہ ہ اونٹ ہے اور وہ تمام جانوروں سے خوبصورت تھا۔ ابلیس نے اس سے بات کی کہ وہ اس کو اپنے منہ میں داخل کرلے یہاں تک کہ اسے آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچا دے۔ اس سانپ نے اس کو اپنے منہ میں داخل کرلیا۔ وہ سانپ جنت کے چوکیداروں کے پاس سے گزر گیا۔ اور اندر داخل ہوگیا۔ (اور) فرشتے نہیں جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرما لیا تھا۔ ابلیس نے سانپ کے منہ سے آدم (علیہ السلام) سے بات کی انہوں نے اس کی بات کی کوئی پرواہ نہ کی۔ پھر ابلیس آدم (علیہ السلام) کی طرف باہر نکلا اور کہنے لگا لفظ آیت ” ہل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لا یبلی “ اور ان دونوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی کہ لفظ آیت ” انی لکما لمن النصحین “ (کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں) آدم (علیہ السلام) نے اس میں سے کھانے کا نکار کیا۔ حوا بیٹھ گئی وہ دانہ کھالیا پھر کہنے لگی اے آدم کھالے میں نے کھالیا ہے تو مجھے تکلیف نہیں پہنچی۔ جب انہوں نے بھی کھالیا تو لفظ آیت ” بدت لھما سواتھما یخصفن علیہما من ورق الجنۃ “ (تو ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوگئیں اور جنت کے پتے لپیٹنے لگے) ۔ (5) امام عبد الرازق اور ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ کے دشمن ابلیس نے اپنے آپ کو زمین کے جانوروں پر پیش کیا کہ وہ اس کو اٹھالیں یہاں تک کہ وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے اور آدم (علیہ السلام) سے بات کرے۔ ہر جانور نے اس سے انکار کیا یہاں تک کہ اس نے سانپ سے بات کی اور اس سے کہا میں تجھ کو اولاد آدم سے بچاؤں گا بلاشبہ تو میری ذمہ داری میں ہے اگر تو مجھ کو جنت میں داخل کرے۔ اس (سانپ) نے اس کو اپنی دونوں کیچلیوں کے درمیان اٹھا لیا۔ حتی کہ اس کو ساتھ لے کر (جنت میں) داخل ہوگیا۔ سانپ کے منہ سے شیطان نے بات کی اور یہ (سانپ) کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اپنی چار ٹانگوں پر چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ننگا کردیا۔ اور اس کو اپنے پیٹ کے بل چلنے پر مجبور کردیا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس کو مار ڈالو جہاں اس کو تم پاؤ۔ اور اللہ کے دشمن کے ذمہ کو اس کے متعلق توڑ ڈالو۔ (6) امام سفیان بن عینیہ، عبد الرزاق، ابن المنذر اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے رو وایت کیا کہ جس درخت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور اس کی بیوی کو منع فرمایا تھا وہ گندم کا دانہ تھا لفظ آیت ” فلما اکلا منھا بدت لھما سواتھما “ اور وہ لباس جو ان کی شرم گاہوں سے اتر گیا تھا وہ ان کے ناخوں (والا) تھا۔ لفظ آیت ” وطفقا یخصفن علیہما من ورق الجنۃ “ یعنی انجیر کے پتے ایک دوسرے پر چمٹانے لگے۔ آدم (علیہ السلام) جنت میں پیٹھ پھیر کر چلنے لگے تو جنت کے درختوں میں سے ایک درخت نے ان کا سر پکڑ لیا کہ آدم کیا تو مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں لیکن میں اے رب ! آپ سے شرم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے تجھے جنت عطا نہیں کی تھی اور اس درخت کے علاوہ سب درخت تیرے لئے حلال نہیں کئے تھے ؟ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب ! کیوں نہیں۔ لیکن تیری عزت کی قسم میں نے گمان نہیں کیا اس بات کا کہ کوئی شخص آپ کی ذات کے ساتھ جھوٹی قسم کھائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری عزت کی قسم میں ضرور تجھ کو زمین کی طرف اتاروں گا۔ پھر تو سخت زندگی گزارے گا۔ (پھر) دونوں جنت سے اتارے گئے حالانکہ وہ جنت میں جو چاہتے کھاتے تھے۔ پھر وہ غیر لذیز کھانے کھانے اور پینے کی طرف اتارے گئے۔ پھر انہوں نے لوہے کی کاریگری کا جان لیا اور ان کو کاشت کرنے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے کاشت کی اور بیج ڈالا پھر اس کو پانی پلایا ! یہاں تک کہ وہ پک کر تیار ہوئی (پھر) اس کو کاٹا (پھر) اس کو گاہا۔ پھر غلے کو بھوسہ سے صاف کیا۔ پھر اس کو پیسا (پھر) اس کا آٹا گوندھا پھر اس کی روٹی پکائی پھر اس کو کھایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو پیغام پہنچایا تھا پہنچا دیا کہ وہ پہنچیں (اتنا ہی پہنچے) ۔ اور آدم (علیہ السلام) جب جنت سے اتارے گئے اتنا روئے کہ کوئی اتنا نہیں رویا۔ اگر داؤد (علیہ السلام) کا اپنی غلطی پر رونے کو اور یعقوب (علیہ السلام) کا اپنے بیٹے (کی جدائی) پر رونے کو اور آدم (علیہ السلام) کے بیٹے کا اپنے بھائی پر رونے کو (جب اس کو قتل کیا) پھر زمین والوں کے رونے کو ایک ترازو میں رکھا جائے اور دوسرے ترازو میں آدم (علیہ السلام) کے رونے کو رکھا جائے جب آپ زمین پر اترتے تھے تو وہ رونا مل کر بھی آدم (علیہ السلام) کے رونے کے برابر نہیں ہوگا۔ (7) ابن عساکر نے عبد العزیز بن عمیرہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تو میرے پڑوس سے نکل جا اور میری عزت کی قسم میرے گھر میں وہ شخص میرا پڑوسی نہیں بن سکتا جو میری نافرمانی کرے اے جبرئیل اس کو نکال دو بغیر سختی کے۔ (اس حکم پر) انہوں نے آدم (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑا اور ان کو نکال دیا۔ آدم (علیہ السلام) کا قد ساٹھ گز (8) امام ابن اسحاق نے المبتدا میں، ابن سعد، احمد بن حمید اور ابن ابی الدنیا نے التوبہ میں، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے البعث والنشور میں ابی کعب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) لمبی کھجور کی طرح ساٹھ ہاتھ لمبے تھے۔ سر کے بالے بہت تھے۔ جب ان سے غلطی ہوئی تو ان کی شرم گاہ ظاہر ہوگئی اور اس سے پہلے انہوں نے اپنی شرم گاہ نہیں دیکھی تھی (پھر) جنت میں بھاگنے لگے ایک درخت کے ساتھ اٹک گئے اور اس درخت نے ان کے پیشانی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ انہوں نے اس (درخت) سے فرمایا مجھے چھوڑ دے اس نے کہا میں تجھ کو نہیں چھوڑوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آواز دی اے آدم کیا تو مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اے میرے رب ! مجھے آپ سے شرم آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم میرے پڑوس میں سے کل جا۔ میری عزت کی قسم جو میری نافرمانی کرے میں اس کو نہیں ٹھہراتا۔ اگر میں زمین بھر کر تیری جیسی مخلوق پیدا کر دوں پھر وہ میری نافرمانی کرے تو میں ان کو نافرمانوں کے گھروں میں ٹھہراؤں گا انہوں نے عرض کیا آپ مجھے بتائیے اگر میں توبہ کرلوں اور (گناہ سے) واپس لوٹ آؤں تو کیا آپ میری توبہ قبول فرما لیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں اے آدم (تیری توبہ قبول کرلوں گا) ۔ (1/8) ابن عساکر نے انس ؓ کی حدیث سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (9) امام ابن منیع اور ابن ابی الدنیا نے کتاب البکاء میں، ابن المنذر، ابو الشیخ نے العظمہ میں، حاکم، بیہقی نے الشعب میں اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا اے آدم تجھے کس چیز نے اس درخت میں سے کھانے پر آمادہ کیا جس سے میں نے تجھ کو منع کیا تھا ؟ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب حوا نے (باتیں بنا کر) میرے لئے اس درخت کا (کھانا) خوشمنا بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے (حوا سے) فرمایا میں اس کو یہ سزا دیتا ہوں کہ وہ تکلیف کے ساتھ حاملہ ہوگی اور بچہ کو تکلیف کے ساتھ جنے گی اور اس کو ہر مہنیے دو مرتبہ خون آئے گا۔ (یہ سن کر) حضرت حوا رونے لگیں اس سے کہا گیا تجھ پر رونا ہے اور تیری بیٹیوں پر بھی (رونا ہے) ۔ (10) امام دار قطنی نے الافراد میں اور ابن عساکر نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو حضرت حوا کے پاس بھیجا جب ان کو حیض کا خون آگیا۔ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو خون آگیا ہے میں اس کو نہیں پہچانتی (کہ یہ کیا چیز ہے) ۔ (پھر) اس کو آواز دی میں ضرور تجھ کو اور تیری اولاد کو خون میں ملوث کروں گا۔ اور میں خون کو تیرے لئے اور تیری اولاد کے لئے گناہوں کا کفارہ اور پاکیزگی (کا ذریعہ) بناؤں گا۔ (11) بخاری اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت بدبودار نہ ہوتا اور اگر حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند کی خٰانت نہ کرتی۔ (12) امام بیہقی نے الدلائل میں الخطیب نے التاریخ میں، الدیلمی نے مسند الفردوس میں اور ابن عساکر نے ایک کمزور سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ سے مرفاعا روایت کیا ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا) مجھے آدم (علیہ السلام) پر دو خصلتوں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے۔. میرا شیطان کافر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگیا۔ اور میری بیویاں میرے لئے مددرگار تھیں اور آدم (علیہ السلام) کا شیطان کافر تھا اور ان کی بیوی ان کی خطا پر مدد کرنے والی تھی۔ ابن عساکر نے ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے مرفاعا اسی طرح روایت کیا۔ (13) امام ابن عساکر نے عبد الرحمن بن زید (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا (مجھ سے) افضل، اونٹ والا میرا وہ بیٹا ہے جس کو مجھ پر فضیلت دی گئی۔ کیونکہ اس کی بیوی اس کے دین پر اس کی مدد کرنے والی ہوگی اور میری بیوی میری خطا پر مدد کرنے والی تھی۔ (14) امام بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم، الاجری (فی الشریعۃ) اور بیہقی نے الاسماء اوالصفات میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدم اور موسیٰ (علیہما السلام) نے آپس میں مناظرہ کیا تو آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ وہ آدم ہیں جنہوں نے (ممنوع درخت کھا کر) لوگوں کو اغوا کیا۔ اور ان کو جنت سے نکلوا دیا۔ آدم (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا۔ تو وہ موسیٰ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر چیز عطا فرمائی اور اس کو اپنی رسالت کے ساتھ چن لیا۔ انہوں نے فرمایا ہاں ! (پھر) آدم (علیہ السلام) نے فرمایا پس تو مجھے ایسے کام پر ملامت کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے پیدا کرنے سے پہلے مجھ پر مقدر کردیا تھا۔ (15) حضرت عبد بن حمید نے اپنی مسند میں اور ابن مردویہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم اور موسیٰ (علیہما السلام) نے (آپس میں) مناظرہ کیا، اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (آدم (علیہ السلام) سے) فرمایا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا۔ اور آپ کو اپنی جنت میں ٹھہرایا۔ اور اپنے فرشتوں کو تیرے سامنے سجدہ کا حکم دیا۔ (پھر) آپ نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا اور تو نے ان کو مشقت میں ڈالا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا آپ وہی موسیٰ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام اور اپنی رسالت کے ساتھ چن لیا۔ مجھے ایسے معاملہ میں ملامت کرتا ہے جس کے متعلق تجھے علم ہے کہ وہ میری پیدائش سے پہلے مقدر ہوچکا تھا۔ پس آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ (16) امام ابو داؤد، الآجری نے اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میرے رب مجھے آدم (علیہ السلام) کو دکھائیے جس نے ہم کو اور اپنے آپ کو جنت سے نکالا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو آدم (علیہ السلام) دکھا دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا آپ ہمارے باپ آدم ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہاں۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا۔ آپ وہ ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح کو پھونکا۔ اور آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم فرمایا تو سب فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں (تو نے سچ کہا) پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ کو کس چیز نے اس بات پر آمادہ کیا کہ ہم کو جنت سے نکالیں۔ آدم (علیہ السلام) نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا موسیٰ ہوں حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا آپ نے بنی اسرائیل سے وہ نبی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے پردہ کے پیچھے کلام فرمایا۔ تیرے اور اپنے درمیان کسی پیغام پہنچانے والے کو حائل نہیں کیا۔ انہوں نے عرض کیا ہاں (میں وہی موسیٰ ہوں) ۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تو نے اس بات کو نہیں پایا جو میرے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھ کو ایسے معاملہ میں کیوں ملامت کرتے ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے فیصلہ ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس بات پر غالب آگئے آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر (پھر فرمایا) آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ (17) امام نسائی، ابو یعلی، طبرانی اور الآجری نے جندب البجلی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (آپس میں) مناظرہ کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے آدم تو وہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور تجھ میں اپنی روح کو پھونکا اور تیرے لئے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا۔ اور تجھے اپنی جنت میں ٹھہرایا اور تو نے وہ کام کیا کہ تو نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا۔ تو وہ موسیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو اپنی رسالت کے ساتھ بھیجا اور تجھ سے کلام فرمایا۔ او تجھے تورات دی اور سرگوشی کرتے ہوئے تجھے اپنے قریب کیا (اچھا بتا) میں پہلے پیدا ہوا یا یہ معاملہ پہلے سے طے ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ موسیٰ پر غالب آگئے۔ آدم اور موسیٰ (علیہما السلام) کا مناظرہ (18) امام ابوبکر الشافعی نے الغیلانیات میں ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حضرت آدم و حضرت موسیٰ (علیہما السلام) نے (آپس میں) گفتگو کی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ وہ آدم ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور آپ کے لئے فرشتوں سے سجدہ کرایا۔ (پھر) آپنے ایسی خطا کی جس کی وجہ سے آپ کو جنت سے نکالا گیا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا آپ موسیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا۔ اور آپ پر توراۃ کو نازل فرمایا اور آپ سے کلام فرمایا۔ کتنی (مدت) میری لغزش میری پیدائش سے سبقت لے گئی۔ (یعنی میری پیدائش سے کتنی مدت پہلے یہ لکھ دیا گیا تھا کہ مجھ سے یہ غلطی ہوگی۔ اس لئے یہ تو ایسا ہونا ہی تھا۔ رسول اللہ ﷺ موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ (19) ابن النجار نے اپنی تاریخ میں حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حضرت آدم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے دونوں کی (آپس میں) ملاقات ہوئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ وہ آدم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور آپ کے لئے فرشتوں سے سجدہ کرایا اور آپ کو اپنی جنت میں داخل فرمایا پھر آپ نے ہم کو جنت سے نکلوا دیا۔ آدم (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا آپ موسیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا۔ اپنا قرب خاص عطا فرمایا۔ اور آپ کو توارۃ عطا فرمائی۔ میں تجھ سے اس کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس نے سب کچھ آپ کو عطا فرمایا یہ سب کچھ کتنا عرصہ میری پیدائش سے پہلے مقدر تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تورات سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ تیرے اور تیری پیدائش سے دو ہزار سال پہلے مقدد ہوچکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے۔ اما قولہ تعالیٰ : ” وقلنا اھبطوا “ الآیۃ۔ (20) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدو “ (اور ہم نے کہا کہ اتر جاؤ تمہارا بعض بعض کا دشمن ہوگا) سے مراد آدم حوا اور ابلیس و سانپ ہیں۔ (آپس میں دشمن ہوں گے) لفظ آیت ” ولکم فی الارض مستقر “ سے مراد ہے قبور (میں ٹھہرنا ہے) اور لفظ آیت ” ومتاع الی حین “ سے مراد ہے الحیاۃ یعنی زندگی (تک تم کو فائدہ اٹھانا ہے) ۔ (21) حضرت ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدوا “ سے مراد ہے کہ جن کو اترنے کا حکم ملا تھا۔ وہ آدم، سانپ اور شیطان تھے (آپس میں دشمن ہوں گے) ۔ (22) ابو الشیخ نے قتادہ سے انہوں نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ ” اھبطوا “ کا حکم آدم، حوا اور سانپ کو تھا (ان کو حکم ہوا کہ نیچے زمین پر اتر جاؤ) ۔ (23) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ” اھبطوا “ کا حکم آدم، حوا اور ابلیس کو تھا۔ (24) امام ابن جریر نے حضرت ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سانپ کے قتل کردینے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ پیدا کئے گئے اور یہ اور انسان ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ کوئی دیکھے تو یہ اس کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ اور اگر یہ انسان کو ڈس لے تو اسے تکلیف پہنچاتے ہیں پس ان کو قتل کردو جہاں ان کو پاؤ۔ (25) حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولکم فی الارض مستقرا “ سے مراد ہے زمین کے اوپر تم نے ٹھہرنا ہے اور زمین کے نیچے تم کو ٹھہرنا ہے اور لفظ آیت ” ومتاع الی حین “ سے مراد ہے (اور ایک وقت تک نفع اٹھانا ہے) یہاں تک کہ تم پہنچ جاؤ گے جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف۔ (26) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) ایسی زمین کی طرف اترے جس کو دجنا کہا جاتا تھا جو مکہ اور طائف کے درمیان تھی۔ (27) امام ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو صفا (پہاڑی) پر اور حوا (علیہما السلام) مروہ (پہاڑی) پر اتارا گیا۔ (28) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو جس زمین پر اتارا وہ ہندوستان کی زمین تھی۔ اور دوسرے لفظ میں دجنا کے علاقے ہندوستان میں اتارا گیا۔ (29) امام ابن جریر، حاکم اور بیہقی نے البعث میں اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ سے فرمایا بہترین آب و ہوا ہندوستان کی سرزمین ہے۔ آدم (علیہ السلام) اسی زمین پر اتارے گئے۔ اس کی ہوا کو جنت کے درخت سے متعلق کیا گیا۔ (30) امام ابن سع اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کو ہندوستان میں اور حوا کو جدہ میں اتارا گیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) ان کی طلب میں نکلے یہاں تک کہ وہ مزدلفہ میں جمع ہوئے۔ حضرت حوا ان سے قریب ہوئیں اس لئے اس کو مزدلفہ کہا جاتا ہے اور دونوں اس میدان میں جمع ہوئے اسی لئے اس کو جمع بھی کہا جاتا ہے۔ (31) امام ابن ابی حاتم نے رجا بن ابی سلمہ (رح) سے روایت کیا کہ فرماتے ہیں حضرت آدم (علیہ السلام) اترے تو وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے ہوئے اور اپنے سر کو جھکائے ہوئے تھے۔ اور ابلیس اترا تو وہ اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالے ہوئے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھا ہوئے تھا۔ (32) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں حمید بن حلال (رح) سے روایت کیا کہ فرماتے ہیں کہ نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ ابلیس اپنے ہاتھوں کو کمر پر رکھے ہوئے زمین پر اتارا گیا تھا۔ (33) امام طبرانی، ابو نعیم نے الحلیہ میں اور ابن عساکر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں اترے تو وحشت محسوس کی پھر جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور اذان دی۔ اللہ اکبر۔ اشھد ان لا الہ اللہ دو مرتبہ، اشھد ان محمد الرسول اللہ دو مرتبہ، آدم (علیہ السلام) نے پوچھا یہ محمد کون ہیں۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ہوں گے۔ (34) حضرت ابن ابی الدنیا نے مکاید الشیطان میں ابن المنذر اور ابن عساکر نے حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب آدم (علیہ السلام) کو زمین کی طرف اتارا گیا تو وہ ہندوستان میں اترے اور ان کا سر آسمان کو چھو رہا تھا۔ زمین نے اپنے رب سے آدم (علیہ السلام) کے بھاری ہونے کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے اپا ہاتھ ان کے سر پر رکھا تو وہ اس میں سے ستر ہاتھ نیچے ہوگئے۔ اور ان کے ساتھ عجوہ (کھجور) اور سنگترہ اور کیلا بھی نیچے اتر گئے۔ جب (آدم علیہ السلام) نیچے اتار دئیے گئے تو انہوں نے عرض کیا اس بندے رب ! یہ بندہ (یعنی شیطان) کہ پرے اور اس کے درمیان آپ نے عداوت ڈال دی ہے۔ اگر آپ نے اس پر میری مدد نہ فرمائی تو میں اس پر قوت حاصل نہ کرسکوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیری کوئی اولاد نہ ہوگی مگر میں اس پر ایک فرشتہ مقرر کر دوں گا۔ عرض کیا اے میرے رب اور زیادہ کیجئے فرمایا میں نے اجازت دی ہے کہ ایک برائی کے بدلے ایک سزا دوں گا اور ایک نیکی کے بدلے دس نیکیاں دوں گا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب اور زیادہ (اضافہ) فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا توبہ کا دروازہ اس کے لئے کھلا رہے گا۔ جب تک کہ روح اس کے جسم میں رہے گی۔ ابلیس نے کہا اے اس بندے کے رب یہ بندہ جس کا آپ نے اکرام فرمایا اگر تو میری اس کے خلاف مدد نہ کرے گا تو میں اس پر قادر نہ ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کوئی اولاد بھی اس کی پیدا نہیں ہوگی مگر تیرے لئے بھی اولاد پیدا ہوگی۔ اس نے کہا : اے میرے رب اور زیادہ فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کے اندر خون کی طرح گردش کرے گا۔ اور ان کے دلوں میں تو گھر بنائے گا۔ اس نے کہا : اے میرے رب اور زیادہ فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لفظ آیت ” واجلب علیہم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم “ (یعنی لے آ ان پر اپنے سوار اور پیادہ۔ اور ساجھا کر ان سے مال اور اولاد میں) ۔ (35) امام ابن سعد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو ان کا سر آسمان کو چھو رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا سر زمین کی طرف کردیا یہاں تک کہ وہ ساٹھ ہاتھ ہوگئے لمبائی میں اور سات ہاتھ چوڑائی میں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں اتارے گئے (36) امام طبرانی نے حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو نیچے اتارا تو وہ ہندوستان کی زمین پر اترے اور ان کے ساتھ جنت کے درخت بھی تھے جن کو (زمین میں) بودیا اور ان کا سر آسمان میں تھا اور ان کے پاؤں زمین میں تھے۔ اور وہ فرشتوں کی باتوں کو سنتے تھے اور ان پر تنہائی بھاری گزری۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) ان کے سر کو جھکا کر ستر ہاتھ کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ میں تجھ کو اپنے گھر میں اتارنے والے ہوں کہ اس کے گرد طواف کیا جائے گا جیسے فرشتے میرے عرش کے گرد طواف کرتے ہیں اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی جیسے فرشتے میرے عرش کے گرد نماز پڑھتے ہیں (آدم علیہ السلام) اللہ کے گھر کی طرف متوجہ ہوئے تو ان کے ہر قدم کی جگہ پر ایک شہر تھا اور ان کے قدموں کے درمیان جنگل تھا۔ یہاں تک کہ وہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور باب صفا سے داخ ہوئے۔ اللہ کے گھر کا طواف کیا۔ اور اس کے پاس نماز پڑھی پھر وہ شام کی طرف چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔ (37) حضرت ابو الشیخ نے العظمہ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین کی طرف اتارا تو وحشی جانور اور جو کوئی (مخلوق) زمین میں تھی ان کی لمبائی سے سب ڈر گئی تو (اللہ تعالیٰ نے) ان کو ستر ہاتھ کم کردیا۔ (38) امام سعید بن جریر نے اپنی تاریخ میں بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جب جنت سے نکلے تو جس کسی چیز پر گزرتے تھے تو اسے تکلیف ہوتی تھی۔ (پھر) فرشتوں سے کہا گیا ان کو چھوڑ دو اور زمین سے جو چاہے زادراہ لے لیں جب وہ اترے تو ہندوستان میں اترے اور انہوں نے پیدل چالیس حج کئے۔ (39) امام سعید بن منصور نے عطا بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) ہندوستان کی زمین پر اترے اور ان کے ساتھ جنت کی لکڑیوں میں سے چار لکڑیاں تھیں اور یہ وہ تھیں جس سے لوگ خوشبو حاصل کرتے تھے۔ اور انہوں نے بیل پر (سوار ہوکر) بیت اللہ کا حج کیا۔ (40) امام ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت سے نویں یا دسویں گھڑی نکلے اور اپنے ساتھ جنت کے درخت کی دو ٹہنیاں بھی لائے اور ان کے سر پر جنت کا تاج تھا۔ (41) امام ابن حاتم اور ابن عساکر نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں اتارے گئے اور حوا جدہ میں اتاری گئیں اور ابلیس کو دست بیسان میں اتارا گیا جو بصرہ سے چند میل پر ہے۔ اور سانپ کو اصبہان میں اترا گیا۔ (41) امام ابن جریر نے اپنی تاریخ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی اور وہ ہندوستان کے شہروں میں تھے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے گھر کا حج کریں تو انہوں نے حج کیا (حج کے سفر میں) جب بھی وہ کوئی قدم رکھتے تھے تو وہ شہر بن جاتا اور ان کے دونوں قدموں کے درمیان جنگل بن گیا یہاں تک کہ وہ اللہ کے گھر تک پہنچ گئے۔ انہوں نے اس کا طواف کیا اور حج کے تمام احکام پورے کئے۔ پھر واپس لوٹنے کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ مقام مازمین پر تھے تو فرشتوں نے ان سے ملاقات کی اور کہنے لگے اے آدم آپ کا حج قبول ہے۔ اور ان کے دل میں کچھ بڑائی آئی۔ جب فرشتوں نے آپ کے چہرہ پر بڑائی کے آثار دیکھے تو کہنے لگے اے آدم ہم نے تیرے پیدا ہونے سے دو ہزار سال پہلے یہ حج کیا تھا۔ انہوں نے ان کی طرف عاجزی کا اظہار کیا۔ (43) امام شافعی نے الام میں، بیہقی نے دلائل میں، اصبہانی نے الترغیب میں محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) نے حج کیا ان کو فرشتے ملے اور کہنے لگے اے آدم تیری عبادت قبول ہے ہم نے تجھ سے دو ہزار سال پہلے حج کیا تھا۔ (44) امام الخطیب نے التاریخ میں ایک ایسی سند سے یحییٰ بن اکثم (رح) سے روایت کیا جس میں ایک غیر معروف راوی ہے یحییٰ بن اکثم نے فرمایا کہ انہوں نے واثق کی مجلس میں پوچھا کہ آدم (علیہ السلام) کا سر کس نے مونڈا تھا جب انہوں نے حج کیا تھا۔ تو اس کے جواب سے سب فقہاء عاجز ہوگئے۔ واثق نے کہا میں ایسے شخص کو بلاتا ہوں جو تم کو اس کا جواب دے گا۔ تو انہوں نے علی بن محمد بن جعفر بن علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ؓ کو بلایا اور ان سے پوچھا تو انہپوں نے فرمایا مجھ سے میرے باپ نے میرے جدامجد اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جبرئیل (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ جنت سے یا قوت کو لے کر اترے تو وہ لے کر اتر تو وہ لے کر اترے اور اس کے ساتھ انہوں نے آدم (علیہ السلام) کے سر کو چھوا تو اس سے ان کے بال گرگئے اور جہاں تک اس (یاقوت) کا نور پہنچا تو وہ حصہ حرم بن گیا۔ (45) امام بزار، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب آدم (علیہ السلام) کو جنت سے اتارا تو ان کو جنت کے پھلوں میں سے توشہ دیا اور ان کو ہر چیز کی کاریگری سکھائی (اور فرمایا) کہ تمہارے پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں سوائے اس کے یہ (دنیا کے پھل) خراب ہوجاتے ہیں اور وہ (جنت کے پھل) خراب نہیں ہوتے۔ ابو موسیٰ اشعری ؓ نے موقوفا روایت کیا۔ (46) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ تیس قسم کے جنت کے پھل اتارے گئے۔ اس میں سے بعض وہ تھے جس کا اندرونی بیرونی حصہ کھایا جاتا تھا اور اس میں سے وہ بھی تھے جس کا اندرونی حصہ تو کھایا جاتا تھا اور بیرونی حصہ پھینک دیا جاتا تھا۔ اور اس میں سے وہ بھی تھے جس کا بیرونی حصہ کا ھایا جاتا تھا اور اندرونی حصہ پھینک دیا جاتا تھا۔ (47) ابن ابی الدنیا نے کتاب البکا میں علی بن ابی طلحہ ؓ سے روایت کیا کہ جب انہوں نے پاخانہ کرنے کا ارادہ کیا تو ان کو اتنی تکلیف ہوئی جس طرح عورت کو بچہ جتنے وقت ہوتی ہے۔ پھر مشرق اور مغرب کی طرف گئے۔ نہیں جانتے تھے کیا کریں یہاں تک کہپ جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے تو آدم (علیہ السلام) کو نیچے بٹھایا تو غلاظت باہر نکل آئی۔ جب اس کی بدبو کو پایا تو اس پر ستر برس تک روتے رہے۔ (48) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تین چیزیں آدم (علیہ السلام) کے ساتھ اتریں۔ لوہے کوٹنے کی سل، زنبور اور ہتھوڑا۔ (49) جعفر بن عدی ابن عساکر نے التاریخ میں ضعیف سند کے ساتھ سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب آدم (علیہ السلام) زمین کی طرف اترے تو ان کے ساتھ لوہا کی سل، زنبور اور ہتھوڑا بھی تھا اور حضرت حوا (علیہما السلام) جدہ میں اتریں۔ (50) ابن عساکر (رح) نے جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب دنیا کو پیدا فرمایا تو اس میں سونا اور چاندی کو پیدا نہیں فرمایا پھر جب آدم اور حوا (علیہما السلام) کو (زمین پر) اتارا تو ان کے ساتھ سونا اور چاندی کو بھی اتارا۔ اور زمین میں چشمے بھی جاری فرما دئیے تاکہ ان کی اولاد نفع حاصل کرتی رہے اور اس (سونے چاندی) کو آدم (علیہ السلام) کا مہر بنا دیا حوا کے لئے اب کسی کو بغیر مہر (مقرر) کئے شادی نہیں کرنی چاہئے۔ (51) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) (زمین پر) اترے تو ان کے ساتھ آٹھ چیزیں اتریں۔ اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کا جوڑا جوڑا (یعنی نر اور مادہ) اور ان کے ساتھ صفت کاری کے آلات اتارے جن میں تخم اور انگور کی بیل اور نیازبو (یعنی خوشبودار پودے) بھی اتارے گئے۔ اور ہاسنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان سے مراد صنعت کاری کے آلات ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ اس سے کھیتی کرنے کے لئے ہل کی پھال مراد ہتے اور یہ محض عربی لفظ نہیں ہے۔ (52) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے العظمہ میں سری بن یحییٰ (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت سے اترے تو ان کے ساتھ (ہر قسم کے کھیتی ترکاری کے) بیج بھی تھے۔ تو ان پر ابلیس نے اپنے ہاتھ کو رکھ دیا۔ جن پر اس کا ہاتھ پہنچ گیا تو ان کا نفع ختم ہوگیا۔ جنتی لباس اترنے کے بعد کا لباس (53) امام ابن عساکر نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آدم اور حوا (علیہما السلام) (دونوں) ننگے (زمین پر) اترے ان دونوں پر جنت کے پتے تھے۔ آدم (علیہ السلام) کو گرمی لگی تو رونے لگے اور حوا سے فرمایا اے حوا مجھے گرمی سے تکلیف ہو رہی ہے۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) روئی لے کر آئے اور حوا کو اس کے کاتنے کا حکم دیا اور اس کا کاتنا سکھایا۔ اور آدم (علیہ السلام) کو اس کے بننے کا حکم دیا اور ان کو بننا سکھایا۔ اور انہوں نے اپنی عورت (یعنی حوا) سے جماع نہیں کیا تھا یہاں تک کہ جنت سے اتر گئے۔ اور ہر ایک ان میں سے اپنی علیحدہ جگہ پر سوتا تھا۔ یہاں تک کہ جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور ان کو اپنی بیوی کے پاس آنے کا حکم دیا اور ان کو سکھایا کہ کس طرح اس کے پاس آئیں (یعنی کسی طرح جماع کریں) جب آدم اور حوا ہمبستر ہوئے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کیسے پایا انہوں نے جواب دیا کہ اس کا صالحہ پایا۔ (54) حضرت دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت انس ؓ سے فرموعا روایت کیا ہے کہ سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) نے کپڑا بننے کا کام کیا تھا۔ (55) امام ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کھیتی باڑی کرنے والے تھے۔ ادریس (علیہ السلام) درزی تھے۔ نوح (علیہ السلام) لکڑی کا کام کرتے تھے۔ ہود (علیہ السلام) تاجر تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) بکریاں چراتے تھے۔ داؤد (علیہ السلام) زرہ بنانے والے تھے۔ سلیمان (علیہ السلام) کھجور کے پتوں کو فروخت کرنے والے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) مزدوری کرنے والے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) سیاحت کرنے والے اور حضرت محمد ﷺ شجاع تھے آپ کا رزق آپ کے نیزوں کے نیچے رکھا تھا۔ (56) امام حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی سے فرمایا جو ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ میرے قریب ہوجاؤ میں تم کو ان انبیاء کے بارے میں بیان کروں گا جن کا ذکر کتاب اللہ میں ہوا ہے۔ میں تجھ کو بیان کرتا ہوں آدم (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ کھیتی باڑے کرنے والے تھے۔ اور نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ لکڑی کا کام کرنے والے تھے۔ اور داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں وہ زرہیں بنانے والے تھے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ بکریاں چرانے والے تھے۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ بیج بکھیرنے والے اور بڑے مہمان نواز تھے۔ شعب (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ بکریاں چرانے والے تھے۔ لوط (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ بھی کھیتی باڑی کرنے والے تھے۔ صالح (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ تاجر تھے۔ سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں کہ وہ ملک کے بادشاہ تھے اور ہر ماہ کے شروع میں چھ دن کے روزے اور اس کے درمیان میں تین دن کے روزے اور اس کے آخر میں تین دن کے روزے رکھتے تھے۔ اور ان کے نو سو فوج کے دستے تھے اور تین سو تیز رفتار اونٹ تھے۔ اور (فرمایا) میں تجھ سے ابن عذر ابتول عیسیٰ کے بارے میں بیان کرتا ہوں وہ کل کے لئے کوئی چیز چھپا کر نہ رکھتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ جس ذات نے مجھے صبح کو کھلا دیا ہے وہ مجھے شام کو بھی کھلائے گا۔ ساری رات اللہ کی عبادت کرتے تھے اور سارا دن (اللہ کی) تسبیح بیان کرتے تھے اور ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اور ساری رات قیام کرتے تھے۔ (57) ابو الشیخ، بیہقی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت سے حجراسود کو ساتھ لے کر آئے اس کے ساتھ وہ اپنے آنسو پونچھتے تھے۔ اور آدم (علیہ السلام) کے آنسو نہیں خشک ہوئے جب سے وہ جنت سے نکالے گئے یہاں تک کہ وہ (موت کے بعد دوبارہ) جنت کی طرف لوٹ گئے۔ (58) امام ابو الشیخ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) زمین کی طرف اتارے گئے تو انہوں نے اپنے رب سے تنہائی کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے گھر کے سامنے دیکھو میرے فرشتے طواف کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ سو تم بھی ایک گھر (زمین پر) بناؤ اور اس کا طواف کرو جیسے تو نے میرے فرشتوں کا اس کا طواف کرتے دیکھا ہے اور ان کے آگے جنگل تھے اور ان کے قدموں کے درمیان نہریں اور چشمے تھے۔ (59) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں اترے (ان کی زمین پر آنے کی وجہ سے) ایک پاکیزہ درخت اگ آیا۔ اماں حوا جدہ میں اتاری گئی (60) امام ابن سعد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) دو نمازوں ظہر اور عصر کے درمیان جنت سے نکلے اور زمین پر اترے اور جنت میں وہ آخرت کے دنوں میں سے آدھا دن ٹھہرے تھے۔ اور وہ پانچ سو سال بنتے ہیں اس دن کے حساب سے کہ جس (کے وقت) کی مقدار بارہ گھنٹے ہوتی ہے۔ اور (آخرت کا) ایک دن ہزار سال کا ہوتا ہے جس کو اہل دنیا شمار کرتے ہیں۔ آدم (علیہ السلام) ہندوستان کے پہاڑ پر اترے جس کو نود کہا جاتا تھا اور حضرت حوا (علیہما السلام) کو جدہ میں اتارا گیا۔ جب آدم (علیہ السلام) اترے تو ان کے ساتھ جنت کی خوشبو تھی۔ اور وہ درختوں اور وادیوں کو چمٹ گئی وہ تمام جگہ خوشبو سے بھر گئی۔ پھر آدم (علیہ السلام) کی خوشبو کو لایا گیا تو فرشتوں نے کہا ان پر جنت کی خوشبو بھی اتاری گئی ہے۔ اور آدم (علیہ السلام) کے ساتھ حجر اسود کو بھی اتارا گیا۔ جو برف سے زیادہ سفید تھا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا جنت کی آس لکڑی سے تھا۔ اس کی لمبائی موسیٰ (علیہ السلام) کے قد کے مطابق دس ہاتھ تھی۔ اور مر اور لبان بھی (اتارا گیا) پھر ان پر ابرن یعنی کوٹنے کی سل اور زنبور اور وہ ہتھوڑے بھی اتارے گئے جب آدم (علیہ السلام) پہاڑ اترے تو انہوں نے لوہے کی ایک سالخ دیکھی جو پہاڑ پر اٹھی ہوئی تھی۔ تو کہنے لگے یہ لوہا اسی لوہے میں سے ہے۔ اور درختوں کو ہتھوڑے سے توڑنا شروع کیا جو پرانے اور خشک ہوچکے تھے۔ پھر انہوں نے لوہے کی سلاخ پر آگ جلائی یہاں تک کہ وہ پگھل گئی۔ اور انہوں نے سب سے پہلے اس سے چھری بنائی جس کے ساتھ وہ کام کرتے تھے پھر تنور بنایا اور یہ وہی ہے جس کے وارث حضرت نوح (علیہ السلام) ہوئے اور یہ وہی تنور ہے جو ہند میں عذاب کے ساتھ اہل رہا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے حج کیا تو حجر اسود کو ابو قبیس (پہاڑ) پر رکھ دیا۔ اور وہ اندھیری راتوں میں اہل مکہ کو روشنی دیتا تھا جیسے چاند روشنی دیتا ہے۔ جب اسلام سے چار سال پہلے کا زمانہ تھا تو حیض والی عورتیں اور جنبی مرد اس کو ہاتھ لگاتے تھے اس لئے (یہ پتھر) کا لا ہوگیا۔ پھر (اس کے بعد) قریش نے ابو قبیس سے اس کو نیچے اتارا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ہندوستان سے آکر پیدال چالیس حج کئے۔ آدم (علیہ السلام) جب اتارے گئے تو (ان کا قد اتنا لمبا تھا) کہ ان کا سر آسمان کو چھوتا تھا۔ اس وجہ سے وہ گنجے ہوگئے (اب) ان کی اولاد بھی گنجی ہوجاتی ہے۔ ان کی لمبائی کی وجہ سے خشکی کے جانور ان سے بھاگ گئے اور اسی دن سے وہ وحشی ہوگئے۔ آدم (علیہ السلام) اسی پہاڑ پر کھڑے ہو کر فرشتوں کی آواز سنتے تھے جنت کی خوشبو پاتے تھے پھر ان کی لمبائی گھٹا کر ساٹھ ہاتھ کردی گئی اور مرنے تک اسی لمبائی پر رہے۔ ان کی اولاد میں سے یوسف (علیہ السلام) کے علاوہ کسی بھی آدم (علیہ السلام) کا حسن جمع نہیں ہوا اور آدم (علیہ السلام) نے کہنا شروع کیا اے میرے رب میں آپ کے گھر میں آپ کا پڑوسی تھا آپ کے سوا میرا کوئی رب نہیں۔ اور آپ کے سوا مرا کوئی نگہبان نہیں۔ میں (جنت میں) جو چاہتا تھا اور جہاں چاہتا رہتا تھا۔ پھر آپ نے مجھے اس مقدس پہاڑ پر اتار دیا میں فرشتوں کی آوازیں سنتا تھا اور ان کو دیکھتا تھا کہ کس طرح وہ آپ کے عرش کو گھیرے رکھتے تھے۔ اور میں جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو کو پاتا تھا پھر آپ نے مجھے زمین پر اتار دیا اور میرا قد ساٹح ہاتھ کردیا اب مجھ سے (فرشتوں کی) آواز اور ان کا دیکھنا منقطع ہوگیا ہے اور مجھ سے جنت کی خوشبو بھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (جواب میں) فرمایا اے آدم تیری نافرمانی کی وجہ سے میں نے تیرے ساتھ ایسا کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آد م علیہ اسلام کو ننگا دیکھا تو آدم (علیہ السلام) کو ایک دنبہ ان آٹھ جوڑوں میں سے ذبح کرنے کا حکم فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں سے نازل فرمائے ہیں۔ آدم (علیہ السلام) نے دنبہ کو پکڑا اور اس کا ذبح کر ڈالا۔ پھر اس کی اون کو لیا حضرت حوا نے اس کو کاتا اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس کو بنا۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے لئے اون سے جبہ تیار کیا اور حوا کے لئے قمیص اور اوڑھنی بنائی جن کو انہوں نے پہن لیا۔ اور دونوں مزدلفہ میں جمع ہوگئے۔ تو اس لئے اس جگہ کو جمع کہا جاتا ہے۔ اور دونوں نے ایک دوسرے کو عرفہ کے مقام پر پہنچانا تو اس کا نام عرفہ رکھ دیا گیا اور دونوں (جنت کی نعمتیں) چھوٹ جانے پر سو سال تک روتے رہے اور چالیس دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ پھر دونوں نے کھایا اور پیا اور دونوں اس دن پہاڑ کے جھکے ہوئے حصہ پر تھے جس پر آدم (علیہ السلام) اترے تھے۔ اور حضرت حوا (علیہ السلام) کے قریب سو سال تک نہیں گئے تھے۔ (61) ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی زبان جنت میں عربی تھی جب انہوں نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان سلب کرلی اور وہ سریابی زبان میں بات کرتے تھے۔ پھر جب تو بہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عربی زبان دوبارہ لوٹا دی۔ آدم (علیہ السلام) کی توبہ کے الفاظ (62) امام ابو نعیم اور ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو حکم فرمایا کہ آدم و حوا (علیہما السلام) کو میرے پڑوس میں سے نکال دو کیونکہ انہوں نے میری نافرمانی کی ہے۔ آدم (علیہ السلام) حوا کی طرف روتے ہوئے متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے پڑوس سے نکلنے کے لئے تیار ہوجاؤ، یہ گناہ کی پہلی نحوست تھی۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کے سر سے تاج اتار دیا اور میکائیل (علیہ السلام) نے ھی ان کی پیشانی سے جواہر سے مرصع عمامہ کو اتار دیا اور (اس کی جگہ) ایک ٹہنی لٹکا دی۔ آدم (علیہ السلام) نے خیال کیا کہ ان کے ساتھ سزا دینے میں جلدی کی جا رہی ہے تو انہوں نے سر جھکا لیا۔ اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرنے لگے العفو، العفو (درگذر فرمائیے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تو مجھ سے بھاگنے کی وجہ سے یہ کہہ رہا ہے ؟ عرض کیا (نہیں) بلکہ تجھ سے حیا کی وجہ سے (ایسا کر رہا ہوں اور درگذر کی درخواست کر رہا ہوں) اے میرے آقا۔ (63) اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جب جنت سے اتارے گئے تو بیت اللہ کی ایک جگہ میں سجدہ میں گرپڑے اور (اسی حال میں) چالیس سال پڑے رہے اپنے سر کو نہ اٹھایا۔ (64) امام ابن عساکر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین کی طرف اتارا تو ان سے کہا گیا کہ آپ تیل کے ساتھ ہرگز روٹی نہیں کھائی گے یہاں تک کہ آپ موت کی طرح عمل کریں۔ (65) ابن عساکر نے عبد الملک بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) اور ابلیس کو اتارا گیا تو ابلیس نے نوحہ کیا یہاں تک کہ آدم (علیہ السلام) بھی رو پڑے پھر اس نے بلند آواز سے گانا گایا اور پھر ہنسنے لگا۔ (66) ابن عساکر نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا وہ فرماتے ہیں کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے غلطی کرنے سے پہلے ان کی موت ان کی آنکھوں کے درمیان رہتی تھی (یعنی موت کا ہر وقت استحضار رہتا تھا) اور ان کی آرزو (یعنی آئندہ کی امیدیں) ان کے پیچھے تھی۔ جب وہ غلطی کر بیٹھے (یعنی بھول کر گندم کا دانہ کھالیا) تو اللہ تعالیٰ نے ان کی امید کو ان کی آنکھوں کے درمیان کردیا (یعنی ہر وقت امیدیں پوری کرنے کی فکر میں رہنے لگے) اور ان کی موت کو ان کے پیچھے کردیا (یعنی موت کا فکر جاتا رہا) اور وہ برابر موت آنے تک امیدیں کرتے رہے۔ (67) امام وکیع اور احمد نے الزہد میں حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) غلطی کرنے سے پہلے موت ان کی آنکھوں کے درمیان رہتی تھی اور ان کی امید ان کے پیٹھ پیچھے رہتی تھی۔ جب وہ غلطی کر بیٹھے تو (حالت) تبدیل ہوگئی ان کی امید ان کی آنکھوں کے درمیان آگئی اور ان کی موت ان کی پیٹھ پیچھے چلی گئی (یعنی امیدیں پوری ہونے کی فکر لگ گئی اور موت کا فکر جاتا رہا) ۔ (68) ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کی عقل ان کی ساری اولاد کی طرح تھی۔ (69) امام ابن عساکر حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) زمین کی طرف اترے تو ان کے پیٹ نے حرکت کی تو اس وجہ سے ان کو غم نے پکڑ لیا (یعنی پیشاب پاخانہ کی حاجت ہوگئی) وہ نہیں جانتے تھے کہ کیسے کریں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ نیچے بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گئے جب وہ اپنی حاجت پوری کرچکے تو بدبو کو پایا (جس سے) گھبرائے اور رونے لگے اور اپنی انگلیوں کے پورے کاٹنے لگے اور برابر ہزار سال تک انگلیوں کو کاٹتے رہے۔ (70) امام ابن عساکر نے حضرت ابن ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جب جنت سے اتارے گئے تو اتنا روئے کہ کوئی بھی اتنا نہیں رویا۔ اگر آدم (علیہ السلام) کی ساری اولاد اور داؤد (علیہ السلام) کا اپنی غلطی پر رونے کو ایک پلڑے میں رکھا جائے تو آدم (علیہ السلام) کے رونے کے برابر نہ ہوگا جب وہ جنت سے نکالے گئے تھے۔ اور چالیس سال تک اس حال میں رہے کہ آسمان کی طرف اپنا سر نہیں اٹھایا۔ (71) امام طبرانی نے الاوسط میں، ابن عدی نے الکامل میں بیہقی نے شعب الایمان میں، الخطیب اور ابن عساکر نے التاریخ میں حضرت بریدہ ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر داؤد (علیہ السلام) کے اور تمام زمین والوں کے رونے کا آدم (علیہ السلام) کے رونے سے موازنہ کیا جائے تو وہ آدم (علیہ السلام) کے رونے کے برابر نہ ہوگا۔ اور بیہقی کے الفاظ اس طرح سے ہیں کہ اگر آدم (علیہ السلام) کے آنسوؤں کا ان کی ساری اولاد کے آنسوؤں سے وزن کیا جائے تو آدم (علیہ السلام) کے آنسوں ان کی ساری اولاد کے آنسوؤں پر بڑھ جائیں۔ (72) امام ابن سعد نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت (کے چھوٹ جانے) پر تین سو سال روتے رہے۔ (73) امام ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم اور حوا (علیہما السلام) کو (زمین پر) اتارا تو (ان سے) فرمایا تم زمین کی طرف اتر جاؤ سو موت کے لئے بچے پیدا کرو اور خراب ہونے کے لئے تعمیر کرو۔ (74) امام ابن المبارک نے الزہد میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) کو زمین کی طرف اتارا گیا تو ان سے ان کے رب عزوجل نے فرمایا خراب ہونے کے لئے تعمیر کرو اور فنا ہونے کے لئے بچے جنو۔ (75) امام ابو نعیم نے الحلیہ میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) زمین کی طرف اترے تو اس میں ایک گدھ بھی تھا اور دریا میں مچھلی تھی۔ اور ان دونوں کے علاوہ کوئی چیز زمین میں نہ تھی۔ جب گدھ نے آدم (علیہ السلام) کو دیکھا اور وہ مچھلی کے پاس پناہ لیتی اور اسی کے پاس ہر رات گزارتی کہنے لگی اے مچھلی ! آج زمین پر ایک ایسی چیز اتاری گئی ہے جو اپنی ٹانگوں پر چلتی ہے اور اپنے ہاتھ سے پکڑتی ہے تو اس سے مچھلی نے کہا اگر تو سچ کہتی ہے نہ میرے لئے سمندر میں نجات ہے اور نہ تیرے لئے خشکی میں نجات ہے۔
Top