Dure-Mansoor - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِیْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِیْنَ : اور جو لوگ هَادُوْا : یہودی ہوئے وَالنَّصَارَىٰ : اور نصرانی وَالصَّابِئِیْنَ : اور صابی مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰہِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْآخِرِ : اور روز آخرت پر وَعَمِلَ صَالِحًا : اور نیک عمل کرے فَلَهُمْ : تو ان کے لیے اَجْرُهُمْ : ان کا اجر ہے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے پاس وَلَا خَوْفٌ : اور نہ کوئی خوف ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ هُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے یہودیت اختیار کی، اور نصاری اور صابئین، ان میں سے جو بھی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے سو ان کے لئے اجر ہے ان کے رب کے پاس اور ان لوگوں پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
سلمان نیشابوری کا واقعہ (1) حضرت ابن ابی عمر العدنی نے اپنی سند میں اور ابن ابی حاتم نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے ان دین والوں کے بارے میں پوچھا اور جن کے ساتھ میرا تعلق تھا پھر ان کی نماز اور ان کی عبادت کا بھی ذکر کیا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” ان الذین امنوا والذین ھادوا “ (الآیہ) (2) حضرت الدارمی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب سلمان ؓ نے اپنے ساتھیوں کا قصہ رسول اللہ ﷺ کو بیان فرمایا تو آپ نے فرمایا وہ دوزخ میں ہیں۔ سلمان نے کہا مجھ پر زمین تاریک ہوگئی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ان الذین امنوا والذین ھادوا “ الی قولہ ” یحزنون “ فرمایا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میری رسی کھل گئی۔ (3) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم نے سدی (رح) نے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ان الذین امنوا والذین ھادوا “ (الآیہ) کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت سلمان ؓ کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور سلمان نیشاپور کے لشکر کے ایک آدمی تھے اور ان کے سرداروں میں سے تھے اور بادشاہ کا لڑکا اس کا دوست تھا اور بھائی بنا ہوا تھا اس میں سے کوئی بھی اپنے دوست کو چھوڑ کر فیصلہ نہیں کرتا تھا اور دونوں شکار کے لئے اکٹھے سواری پر آتے تھے ایک مرتبہ دونوں شکار پر تھے اچانک دور سے ان کو ایک خیمہ دکھائی دیا دھاری دار کمبل سے بنا ہوا تھا۔ وہ دونوں اس میں آئے کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں ایک آدمی مصحف میں پڑھ رہا ہے جو اس کے آگے رکھا ہوا ہے اور وہ رہ بھی رہا ہے ہم دونوں نے اس سے پوچھا یہ کیا ہوا اس نے کہا کہ جو آدمی اس کے سیکھنے کا ارادہ کرتا ہے وہ تمہاری طرح کھڑا نہیں رہتا اگر تم دونوں اس کے سیکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو اپنی سواریوں سے اتر آؤ تاکہ میں تم کو سکھاؤں وہ دونوں اس کے پاس اتر آئے اس آدمی نے ان سے کہا کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے۔ اس میں اس نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اپنی نافرمانی سے روکا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ چوری نہ کرو زنا نہ کرو اور لوگوں کے اموال کو ناجائز طریقہ سے نہ لو پھر اس نے ان کو دوسرے احکام بھی بتائے اس میں سے کہ انجیل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی یہ باتیں ان کے دلوں میں بیٹھ گئیں اور انہوں نے توبہ کی اور اسلام لے آئے اس آدمی نے ان سے یہ بھی کہا کہ تمہاری قوم کا ذبیحہ تم پر حرام ہے۔ دو دونوں لگاتار اس سے علم حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ بادشاہ کی عید (کا دن) آگیا اس نے کھانا جمع کیا پھر (عام) لوگوں اور سرداروں کو جمع کیا۔ بادشاہ نے بادشاہ کے بیٹے کی طرف بھی پیغام بھیجا اور اسے بھی دعوت پر مدعو کیا تاکہ لوگوں کے ساتھ کھانا کھائے اس نوجوان نے دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کیہ میں تجھ سے اعراض کرنے والا ہوں تو (خود) کھا اور تیرے ساتھی جب اس پر قاصد زیادہ ہوگئے (بلانے کے لیے) تو اس نے ان کو بتایا کہ وہ ان کے کھانے میں سے نہیں کھائے گا تب بادشاہ نے اپنے بیٹے کی طرف (قاصد) بھیجا اور اس کو بلوایا اور اس سے پوچھا کہ اس (دعوت کے بارے میں) تیرا کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا ہم تمہارے ذبح کئے ہوئے میں سے نہیں کھاتے۔ تم کافر ہو اس لئے تمہارا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ کس نے تجھے اس بات کا حکم دیا ہے ؟ اس نے بتایا کہ (فلاں) راہب نے مجھے یہ بتایا ہے۔ بادشاہ نے اس راہب کو بلوایا اور کہا کہ میرا بیٹا کیا کہتا ہے ؟ راہب نے کہا کہ تیرا بیٹا سچ کہتا ہے۔ بادشاہ نے کہا اگر تیرا خون ہمارے مذہب میں برا نہ ہوتا تو میں ضرور تجھ کو قتل کردیتا۔ لیکن تو ہماری زمین سے نکل جا اس نے ایک مدت کے لیے اسے اپنے ملک سے بدر کردیا سلمان (رح) فرماتے ہیں کہ ہم وہیں کھڑے ہو کر اس (کی جلاوطنی) پر رونے لگے بادشاہ نے ان دونوں سے کہا اگر تم دونوں سچے ہو تو ہمارا موصل شہر میں ایک گرجا گھر ہے ہم ساٹھ آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں تم (بھی) اس میں پہنچ جاؤ وہ راہب چل پڑا اور سلمان اور بادشاہ کا بیٹا پیچھے رہ گئے۔ سلمان نے بادشاہ کے بیٹے کو کہنا شروع کیا کہ تو (بھی) ہمارے ساتھ چل بادشاہ کے بیٹے نے کہا ہاں (چلتا ہوں) اور اس نے اپنا سامان بیچ کر تیاری شروع کردی جب اس نے (چلنے میں) دیر لگائی تو سلمان خود چل نکلا اور ان (عبادت کرنے والوں) کے پاس پہنچ گیا۔ وہ اپنے ساتھی کے پاس ٹھہرا جو گر جا گھر کا مالک تھا اس گرجاگھر کے رہنے والے راہبوں سے مرتبہ میں افضل تھا۔ سلمان اس کے ساتھ عبادت میں مشغول ہوگیا اور وہ اپنے آپ کو تھکا دیتا تھا۔ سلمان نے اس سے کہا کہ مجھ کو بتا کر جو تو مجھ کو حکم کرتا ہے وہ افضل ہے یا وہ جو (خود سے) کرتا ہوں وہ افضل ہے۔ اس نے کہا لیکن جو تو (خود سے عبادت) کرتا ہے (وہ افضل ہے) سلمان نے کہا میرا رشتہ چھوڑ دے۔ پھر اس نے گرجا گھر کے مالک نے بلایا اور کہا کیا تو جانتا ہے یہ گر جا میرا ہے اور میں لوگوں سے اس کا زیادہ حق دار ہوں اگر تو یہاں سے نکلنا چاہتا ہے تو یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے لیکن میں ان لوگوں کی عبادت سے کمزور آدمی ہوں اور میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں اس گرجا سے دوسرے گرجا کی طرف منتقل ہوجاؤں جہاں اس کی نسبت عبادت آسان ہے۔ اگر تو یہیں ٹھہرنا چاہے تو ٹھہر جا اور اگر تو میرے ساتھ چلنا چاہے تو میرے ساتھ چل۔ سلمان نے اس سے پوچھا ان دونوں گرجا گھر میں سے رہنے والوں کے لحاظ سے کون سا بہتر ہے اس نے کہا یہی سلمان نے کہا تو میں اسی میں رہوں گا سلمان اسی میں ٹھہر گئے اور گرجا گھر کے مالک نے سلمان کو وصیت کی کہ ان کے ساتھ عبادت کرتا رہے۔ پھر اس عالم شیخ نے بیت المقدس جانے کا ارادہ کیا تو اس نے سلمان کو بلایا اور کہا میں بیت المقدس جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اگر تو میرے ساتھ چلنا چاہے تو چل اور اگر تو یہاں رہنا چاہے تو رہ جا۔ سلمان نے اس سے پوچھا دونوں (جگہوں) میں سے کون سی افضل ہے۔ میں تیرے ساتھ چلوں یا یہیں ٹھہرارہوں ؟ اس نے کہا نہیں بلکہ تم میرے ساتھ چلو۔ سلمان ان کے ساتھ چل پڑے۔ یہ (دونو) راستے میں بیٹھے ہوئے ایک اپاہج کے پاس سے گزرے جب اس نے ان دونوں کو دیکھا تو پکارا اے راہبوں کے سردار ! مجھ پر رحم فرما اللہ تجھ پر رحم کرے۔ شیخ نے اس سے نہ کوئی بات کی اور نہ اس کی طرف دیکھا اور ہم دونوں چلتے رہے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچ گئے شیخ نے سلمان سے کہا جاؤ اور علم کو حاصل کرو کیونکہ اس مسجد میں زمین کے علامء حاضر ہوتے ہیں سلمان ان کے سننے کے لیے نکلے ایک دن غمگین واپس آئے تو شیخ نے کہا اے سلمان تجھ کو کیا ہوا سلمان نے کہا خیر ساری کی ساری انبیاء اور ان کے تابعداری کرنے والے لے گئے ہیں شیخ نے کہا غمگین مت ہو کیونکہ ایک نبی باقی ہے کہ اس سے کوئی نبی افضل نہیں اور یہ اس کا زمانہ ہے جس میں وہ نکلے گا اور میں اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ اس سے کوئی نبی افضل نہیں اور یہ اس کا زمانہ ہے جس میں وہ نکلے گا اور میں اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ اس کو پالوں (کیونکہ میں بوڑھا ہوں) اور تو نوجوان ہے شاید کہ تو اس کو پالے اور وہ عرب کی سرزمین میں نکلے گا اگر اس کو تو پالے تو اس پر ایمان لے آنا اور اس کی تابعداری کرنا۔ سلمان نے اس سے کہا مجھے اس کی علامات میں سے کچھ بتائیے اس نے کہا ہاں اور وہ اپنی پیٹھ میں مہر والے ہوں گے مہر نبوت کے ساتھ اور وہ ہدیہ (کا مال) کھائیں گے اور صدقہ (کا مال) نہیں کھائیں گے پھر یہ دونوں وہاں سے لوٹے حتیٰ کہ اس اپاہج شخص کے پاس پہنچے اس نے دونوں کو آواز دی اور کہا اے راہبوں کے سردار مجھ پر رحم فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے گا۔ شیخ نے اپنا گدھا اس کی طرف موڑ دیا پھر اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اس کو اوپر اٹھایا پھر زمین پر ڈال دیا اور اس کے لیے دعا کی اور اس سے کہا اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا وہ صحت مند ہو کر کھڑا ہوگیا اور چلنے لگا سلمان تعجب کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگا راہب چلا گیا اور سلمان سے غائب ہوگیا سلمان کو اس کے متعلق کوئی علم نہ تھا۔ پھر سلمان راہب کی تلاش میں نکل پڑا عرب کے قبیلہ کلب میں سے اس کو دو آدمی ملے۔ ان دونوں سے اس نے پوچھا کیا تم نے راہب کو دیکھا ہے ؟ ان میں سے ایک آدمی نے اپنی سواری کو بٹھا دیا اور کہنے لگا ہاں اس اونٹوں کو چرانے والا یہ ہے اس نے سلمان کو سوار کرلیا اور اس کو مدینہ لے آیا۔ سلمان نے کہا مجھے ایسا غم پہنچا کہ اس طرح کا غم کبھی نہیں پہنچا اس نے (مدینہ پہنچ کر) قبیلہ جہینیہ کی عورت کا ہاتھ مجھے بیچ دیا میں اور اس عورت کا ایک اور غلام تھا ہم دونوں باری باری اس عورت کی بکریاں چراتے تھے۔ سلمان دراھم جمع کرتا تھا اور محمد ﷺ کے نکلنے کے انتظار میں تھا اس درمیان کہ ایک دن وہ بکریاں چرا رہا تھا اس کا ساتھی اچانک اس کے پیچھے سے آیا اور کہنے لگا کیا تو جانتا ہے کہ آج ایک آدمی مدینہ منورہ میں آیا ہے جو کہتا ہے کہ میں نبی ہوں سلمان نے اپنے ساتھی سے کہا کہ تو بکریوں میں ٹھہرجا اور میں ابھی آتا ہوں۔ سلمان مدینہ منورہ پہنچا نبی اکرم ﷺ کی طرف دیکھا اور اس کے گرد گھومنے لگا جب آپ نے اس کو دیکھا تو جان لیا کہ یہ کیا چاہتا ہتے آپ نے (پیٹھ سے) اپنے کپڑے کو اٹھالیا یہاں تک مہر مبارک ظاہر ہوگئی۔ جب سلمان نے اس کو دیکھا تو آپ کے قریب آئے اور آپ سے بات کی پھر چلے گئے اور کچھ دیناروں کے ساتھ ایک نکری دیدی اس کو بھونا اور کچھ دیناروں کے ساتھ روٹیاں خریدیں اور بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے آپ نے پوچھا یہ کیا ہے۔ سلمان نے کہا یہ صدقہ ہے آپ نے فرمایا مجھے اس کو کوئی حاجت نہیں اسے لے جاؤ تاکہ اس کو دوسرے مسلمان کھالیں۔ پھر (سلمان) چلا گیا اور دوسرے دینار سے روٹی اور گوشت خریدا پھر نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا آپ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ عرض کیا یہ ہدیہ ہے فرمایا بیٹھ جا اور کھا سلمان بیٹھ گئے اور اس میں سے اور انہوں نے آپ ﷺ نے مل کر کھانا کھایا اس درمیان وہ (سلمان) آپ سے گفتگو کر رہے تھے جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کا ذکر کیا اور ان کو بتایا کہ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے روزے رکھتے تھے اور آپ پر ایمان رکھتے تھے اور گواہی دیتے تھے کہ بلاشبہ آپ عنقریب نبی بن کر آنے والے ہیں جب سلمان ان (ساتھیوں) کی تعریف سے فارغ ہوئے نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا اے سلمان وہ دوزخ والوں میں سے ہیں۔ یہ بات سلمان کو بھاری ہوئی اور سلمان یہ کہہ چکا تھا اگر وہ لوگ آپ کو پالیتے تو آپ کی تصدیق کرتے اور آپ کا اتباع کرتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” ان الذین امنوا والذین ھادوا والنصری واصبین من امن باللہ والیوم الاخر “۔ (4) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ سلمان فارسی ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے ان انصار کے بارے میں پوچھا، ان کے اعمال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اسلام پر نہیں مرے۔ سلمان نے کہا تو مجھ پر زمین تاریک ہوگئی اور میں نے ان کی عبادت میں محنت کا ذکر کیا (کہ وہ لوگ اللہ کی عبادت میں کتنی محنت کرتے تھے) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ” ان الذین امنوا والذین ھادوا “ آپ نے سلمان کو بلایا اور فرمایا کہ یہ آیت تیرے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی پھر فرمایا جو آدمی میرے بارے میں سننے سے پہلے دین عیسیٰ پر مرگیا تو وہ خیر پر ہے اور جس آدمی نے میری نبوت کے بارے میں سن لیا اور مجھ پر ایمان نہیں لایا تو وہ ہلاک ہوگیا۔ (5) امام ابو داؤد نے الناسخ والمنسوخ میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت ” ان الذین امنوا والذین ھادوا “ کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ، وھو فی الاخرۃ من الخسرین “ (آل عمران آیت 3) (6) امام ابن جریر و ابن ابی حاتم نے عبد اللہ ابن نجی کے طریق سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا کہ ان کا نام یہود کو اس لئے یہود کہا جاتا ہے ” انا ھدنا الیک “ (الاعراف 15) کہنے کی وجہ سے۔ (7) امام ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہم لوگوں میں سے زیادہ جاننے والے ہیں یہود کو یہودی کیوں کہ کہا جاتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ کلمہ کہنے کی وجہ سے ” انا ھدنا الیک “ (ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں) اور نصاری کو نصاری اس لئے کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس کلمہ کی وجہ سے جو انہوں نے فرمایا تھا ” کونوا انصار اللہ “۔ (8) امام ابو الشیخ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لوگوں میں سے ہم زیادہ جاننے والے ہیں یہود کو۔ یہودی اور نصاری کو نصرانی کیوں کہا جاتا ہے۔ یہود کا نام یہودی اس کلمہ کی وجہ سے رکھا گیا کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا ” انا ھدنا الیک “ جب موسیٰ (علیہ السلام) وفات پا گئے تو ان کو یہ کلمہ بہت پسند آیا تو وہ اپنے آپ کو یہودی کہنے لگے اور نصاری کا نام نصرانی اس کلمہ کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ جس کو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا لفظ آیت ” من انصاری الی اللہ “ حواریوں نے کہا ” نحن انصار اللہ “ اس لئے وہ اپنے آپ کو نصرانی کہنے لگے۔ نصاری کو نصاریٰ کیوں کہا جاتا ہے ؟ (9) امام ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک بستی کی وجہ سے نصاری نام رکھا گیا جس کو ناصرہ کہا جاتا تھا اسی میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اترے تھے مدینہ نام انہوں نے خود رکھا۔ اور اس کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا۔ (10) ابن سعد نے طبقات میں اور ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نصاری اس لئے نام رکھا گیا کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بستی کا نام ناصرہ تھا۔ (11) وکیع، عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ صائبون یہود، مجوس اور نصاری کے درمیان ایک قوم تھی ان کا کوئی دین نہ تھا۔ (12) ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ صائبون، نہ یہود تھے نہ نصاری تھے وہ مشرکین میں سے ایک قوم تھی جس کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔ (13) امام عبد الرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے صائبین کے بارے میں پوچھا گیا انہوں نے فرمایا کہ وہ یہود نصاری اور مجوس کے درمیان ایک قوم تھی ان کے ذبائح حلال نہیں ہیں اور نہ (ان کے ساتھ) نکاح حلال ہے۔ (14) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ صائبون، نصاری اور مجوس کے درمیان ایک منزل ہے اور ابن ابی حاتم کے الفاظ یوں ہیں کہ یہود اور نصاری کے درمیان ایک منزل ہے۔ (15) امام عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ صائبون یہود کے پاس گئے اور ان سے کہا تمہارا کیا دین ہے ؟ انہوں نے کہا ہمارے نبی موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے پاس یہ احکام لے کر آئے اور ہم کو ان ان چیزوں سے منع کیا۔ یہ ہماری کتاب تورات ہے جو ہماری تابعداری کرلے گا وہ جنت میں داخل ہوگا پھر وہ نصاری کے پاس آئے انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا جو یہود نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا تھا اور کہنے لگے یہ انجیل ہماری کتاب ہے۔ جو ہماری تابعدادی کرے گا جنت میں داخل ہوگا صابی کہنے لگے یہ لوگ (یعنی نصاری) کہتے ہیں کہ ہم ہی (حق پر) ہیں اور جو شخص ہماری تابعداری کرے گا جنت میں جائے گا اور یہود کہتے ہیں کہ ہم ہی (حق پر) ہیں اور جو شخص ہماری تابعداری کرے گا جنت میں جائے گا۔ اور ہم کوئی دین قبول نہیں کرتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام صائبین رکھ دیا۔ (16) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ صائبون اہل کتاب میں سے ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتا تھا۔ (17) امام وکیع نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ صائبون اہل کتاب میں سے ایک گروہ ہے۔ (18) امام عبد الرزاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ صائبون ایک ایسی قوم ہے جو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں اور زبور شریف کی تلاوت کرتے ہیں۔ (19) امام ابن ابی حاتم نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ صابی وہ ہے جو ایک خدا کو پہچانتا ہے اور اس کی کوئی شریعت نہیں جس پر عمل کرے اور وہ کفر کی بات نہیں کرتا۔ (20) امام ابن ابی حاتم نے ابو زنار (رح) سے روایت کیا کہ صائبون ان قوموں سے ہے جو عراق کے پاس رہتی ہے اور وہ کو ثی میں رہتے ہیں (جو) سارے نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ (21) امام عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ لوگ کہتے ہیں ” الصائمون وما الصابؤن الصابؤن “ یعنی کیا میں صائبون کہتے ہیں ” الخاطؤن وما الخاطؤن الخاطؤن “ کیا میں (خاطؤن) یعنی خطا کرنے والے۔
Top