Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 68
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے حَرِّقُوْهُ : تم اسے جلا ڈالو وَانْصُرُوْٓا : اور تم مدد کرو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے معبودوں کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : تم ہو کرنے والے (کچھ کرنا ہے)
کہنے لگے اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔
1:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے یہ آیت عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس تلاوت کی تو انہوں نے فرمایا اے مجاہد کیا تو جانتا ہے اس شخص کو جس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ کے ساتھ جلانے کا مشورہ دیا میں نے کہا نہیں پھر انہوں نے فرمایا فارس کے دیہاتیوں میں سے ایک آدمی تھا یعنی اکراد۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے جمع کی گئی (لکڑی) اور ان کو آگ میں ڈالا گیا تو بارش کے فرشتے نے یہ کہنا شروع کیا کہ مجھے کب حکم ہوگا کہ میں بارش برساوں اور اللہ کا حکم بہت جلدی پہنچنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” کونی برداوسلما “ تو زمین میں کوئی آگ باقی نہ رہی مگر وہ بجھ گئی۔ چھپکلی مارنا اجر وثواب کا کام ہے : 3:۔ احمد، طبرانی، ابویعلی اور ابن ابی حاتم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو کوئی جانور زمین میں ایسا نہ تھا سوائے چھپکلی کے کہ وہ ان سے آگ کو بجھا رہا تھا کیونکہ وہ چھپکلی پھونک مار رہی تھی ابراہیم (علیہ السلام) پر تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قتل کا حکم فرمایا۔ 4:۔ ابن مردویہ نے ام شریک ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ چھپکلیوں کے مارنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ کو بھڑکاتی تھی۔ 5:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں معمر سے روایت کیا اور انہوں نے قتادہ ؓ سے اور قتادہ ؓ اپنے بعض سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مینڈک ابراہیم (علیہ السلام) سے آگ کو بجھا رہا تھا اور چھپکلی ان پر آگ کو پھونک رہی تھی اس لئے مینڈک کے قتل سے منع فرمایا اور اس (چھپکلی) کے قتل کا حکم دیا۔ 6:۔ ابن منذر نے روایت کیا کہ پس کہا ہمیں ابوسعید الشامی نے ابان سے بیان کیا اور ابان نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مینڈک کو برا بھلا مت کہو کیونکہ اس کی آواز تسبیح تقدیس اور تکبیر ہوتی ہے جانوروں نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے آگ کو بجھائیں تو مینڈک کو اجازت دے دی گئی پس آگ جب آپ پر تہہ بہ تہہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آگ کے سمندر کو پانی کی ٹھنڈک میں بدل دیا۔ 7:۔ ابویعلی، ابو نعیم، خطیب اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو فرمایا اے اللہ بلاشبہ آپ آسمان میں اکیلے ہیں اور میں زمین میں اکیلا ہوں جو آپ کی عبادت کرتا ہوں۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور ابن منذر نے ابن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں ڈالے جانے کے وقت سب سے پہلے یہ کلمہ کہا (آیت) ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ (ہم کو اللہ کافی ہے اور بہترین کارساز ہے ) ۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور ابن جریر نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ سوائے رسی کے آگ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی کسی چیز کو نہیں جلایا جس سے آپ کو باندھا گیا تھا ،۔ آگ میں ڈالے جانے کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر : 10:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے منہال بن عمرورحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ مجھے یہ خبر دی گئی کہ ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو آپ کی عمر پچاس یاچالیس سال تھی پھر (فرمایا) میری زندگی کے حسین اور عمدہ دن اسی عمر کے تھے جب میں چالیس اور پچاس کے درمیان تھا میں خواہش کرتا تھا کہ میری ساری زندگی اسی طرح ہو۔ 11:۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم خلیل الرحمن کو آگ میں ڈالا گیا تو بارش کے فرشتہ نے عرض کیا اے میرے رب ! بلاشبہ تیرا خلیل امید رکھتا ہے کہ اس کے لئے بارش برسانے کی اجازت دی جائے گی تو میں بارش بھیج دوں گا اور اللہ کا حکم اس سے جلدی نافذ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ینارکونی برداوسلما علی ابرھیم “ تو زمین پر کوئی آگ باقی نہ بچی مگر وہ بجھا دی گئی۔ 12:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے شعیب جبائی (رح) سے روایت کیا کہ جس شخص نے کہا تھا اس کو جلاد و تو وہ ھبون تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور اس میں قیامت کے دن تک دھنستا ہی رہے گا۔ 13:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” قلنا ینارکونی “ یعنی یہ کہنے والا جبرائیل (علیہ السلام) تھا۔ 14:۔ فریابی، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ بردا “ کے بعد ” وسلاما “ نہ فرماتے تو ابراہیم اس کی ٹھنڈ کی کی وجہ سے وصال کرجاتے اور اس دن زمین پر کوئی آگ نہ رہی مگر یہ کہ وہ بجھ گئی ہر آگ نے گمان کیا کہ مجھے حکم ہورہا ہے۔ 15:۔ فریابی ابن ابی شیبہ احمد نے زہد میں عبد بن حمید اور ابن منذر نے علی ؓ سے (آیت) ” قلنا ینارکونی بردا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر (آیت) ” وسلم ا “ یعنی سلامتی والی نہ فرماتے تو اس کی ٹھنڈک ہی ان کو مار ڈالتی۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے شمر بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ جب ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا تو بارش کے فرشتے نے عرض کیا اے میرے رب تیرا خلیل امید کرتا ہے کہ اس کے لئے بارش برسانے کی اجازت دی جائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ینارکونی برداوسلما علی ابرھیم “ پس اس دن زمین میں کوئی آگ باقی نہیں رہی مگر ٹھنڈی کردی گئی۔ 17:۔ احمد نے زہد میں اور عبد بن حمید نے ابوھلال کے طریق سے بکر بن عبداللہ مزنی (رح) سے روایت کیا کہ جب ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالیں عام مخلوق حاضر ہوئی اور کہنے لگی اے ہمارے رب ! تیرا خلیل آگ میں ڈالا جارہا ہے ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس سے آگ کو بجھا دیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ میرا خلیل ہے اس کے علاوہ زمین میں میرا کوئی خلیل نہیں اور میں اور میں اس کا معبود ہوں میرے علاوہ اس کا کوئی معبود نہیں اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو تم اس کی ضرور مدد کرنا ورنہ اس کو میرے بھروسہ پر چھوڑ دو بارش کا فرشتہ آیا اور کہا اے میرے رب آپ کا خلیل آگ میں ڈالا جارہا ہے آپ اجازت فرمائیں تو میں اس (آگ) کو بارش سے بجھا دوں فرمایا وہ میرا خلیل ہے اس کے علاوہ زمین میں میرا کوئی خلیل نہیں اور میں اس کا معبود ہوں میرا علاوہ اس کا کوئی معبود نہیں اگر وہ تجھ سے مدد مانگے تو اس کی مدد کرو ورنہ اس کو چھوڑدو جب آگ میں ڈالے گئے تو انہوں نے دعا مانگی ابوہلال اس کو بھول گئے اللہ عزوجل نے فرمایا (آیت) ” ینارکونی برداوسلما علی ابرھیم “ راوی نے کہا کہ مشرق اور مغرب میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور اس دن کوئی آگ کسی جگہ میں نہ جلی۔ نمرود کی آگ اور ابراہیم (علیہ السلام) کی سلامتی : 18۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ کعب ؓ نے فرمایا زمین والوں میں سے اس دن کسی نے آگ سے نفع نہیں اٹھایا اور اس دن کسی چیز کو آگ نے نہیں جلایا سوائے ابراہیم (علیہ السلام) کی رسی کے جس سے ان کو باندھا گیا تھا اور قتادہ ؓ سے فرمایا کہ اس دن آگ بجھانے کے لئے ہر جانور آیا سوائے چھپکلی کے (کہ اس نے آگ کو بھڑکایا ) 19:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لوگ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) آگ میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تھے کہ آپ سے پسینہ پونچھ رہے تھے۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ اس میں بیٹھ گئے تو لوگوں نے اپنے بادشاہ کی طرف پیغام بھیجا وہ آیا اور تعجب کے ساتھ دیکھنے لگا آگ میں سے ایک چنگاری اڑی اور اس کے پاوں کے انگوٹھے پر گری تو وہ اس طرح جل گیا جس طرح اونی کپڑا جلتا ہے۔ 21:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں سے (اس حال میں) نکلے کہ ان کو پسینہ آرہا تھا آگ نے نہیں جلایا مگر ان کی رسی کو لوگوں نے ان میں سے ایک بوڑھے کو پکڑا اس کو آگ میں ڈال دیا تو وہ جل گیا۔ 22:۔ عبد بن حمید نے سلیمان بن صردرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو پایا تھا کہ ابراہیم کو جب انہوں نے آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے لکڑیوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا تو ایک بوڑھی عورت بھی اپنی پیٹھ پر لکڑیاں اٹھا کر لاتی تھی اس سے پوچھا جاتا تو کہاں کا ارادہ رکھتی ہے (یعنی یہ لکڑیاں کہاں لے جاری ہے) تو اس نے کہا میں اس آدمی کی طرف جارہی ہوں (یعنی اس کو جلانے کے لئے) جو ہماری خدا وں کو برابھلا کہتا ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کے لئے کر چلے تو فرمایا (آیت) ” انی ذاھب الی ربی سیھدین “ (الصافات آیت : 99) جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا تو فرمایا (حسبنا اللہ ونعم الوکیل) مجھے اللہ کافی ہے اور بہترین کارساز ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ینارکونی برداوسلما علی ابرھیم “ لوط (علیہ السلام) کے والد نے کہا اور وہ ان کے چچا تھے کہ میری قرابت کی وجہ سے ان کو آگ نے نہیں جلایا اللہ تعالیٰ نے آگ میں سے ایک گردن کو بھیجا جس نے اس کو جلا کر خاکستر کردیا 23:۔ فریابی، ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے علی بن ابی طالب ؓ نے (آیت) ” قلنا ینارکونی بردا “ کے بارے میں روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا ہونے کا حکم دیا تو وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی یہاں تک کہ قریب تھا کہ ان کو تکلیف دیتی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” وسلم ا “ یعنی ان کو تکلیف نہ دینا (تو ان کی تکلیف ختم ہوگئی ) ۔ 24:۔ فریابی اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کہ اگر ” وسلم ا “ نہ کہا ہوتا تو ان کو ٹھنڈک مار دیتی۔ س 25:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ سب سے اچھی بات جو ابراہیم (علیہ السلام) کے والدنے اس وقت کہی جب آپ سے طبق اٹھایا (اور وہ اس منظر کو دیکھ رہے تھے) جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں تھے اور ان کو (اس حال میں) پایا کہ آپ اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کررہے تھے اس وقت انہوں نے کہا ٰ ” انعم الرب ربک یا ابراھیم “ کیا ہی اچھا رب ہے تیرا اے ابراہیم۔ 26:۔ ابن جریر نے شعیب جبائی (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا اس وقت آپ کی عمر سولہ سال تھی اور اسحاق (علیہ السلام) کو ذبح کیا گیا اور وہ سات سال کے تھے۔ 27:۔ ابن جریر نے معتمر بن سلیمان تیمی (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے بعض اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اس حال میں آئے کہ وہ آگ میں ڈالنے کے لئے رسی سے بندھے ہوئے تھے فرمایا اے ابراہیم کیا آپ کو کوئی حاجت ہے ؟ فرمایا اگر تیری طرف سے ہے تو کوئی ضرورت نہیں۔ 28:۔ ابن جریر نے ارقم (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو جب انہوں نے باندھنا شروع کیا آگ میں ڈالنے کے لئے تو انہوں نے (یہ کلمات) کہے : ” لا الہ الا انت سبحان رب العلمین لک الحمد ولک الملک لا شریک لک “ 29:۔ ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے (آیت) ” قلنا ینارکونی برداوسلما “ کے بارے میں فرمایا روایت کیا کہ اس سے مراد ہے ایسی سلامتی کی اس کی ٹھنڈک سے تکلیف نہ پہنچے اگر ’‘’ وسلم ا “ نہ فرماتے تو ٹھنڈک گرمی سے زیادہ تکلیف دینے والی بن جاتی۔ 30:۔ ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے (آیت) ” وارادوا بہ کیدا فجعلنہم الاخسرین “ کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے ان میں سے ایک بوڑھے کو آگ میں ڈال دیا تاکہ اس کی نجات کو دیکھ لیں (یعنی اس کو بھی آگ نہیں جلائے گی) جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کو نجات مل گئی (اور آگ نے نہ جلایا) مگر اس کو آگ نے جلادیا۔ 31:۔ ابن ابی شیبہ نے ابومالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الی الارض التی برکنا فیھا للعلمین “ سے مراد شام کی سرزمین ہے۔ 32:۔ ابن ابی حاتم نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الی الارض التی برکنا فیھا للعلمین “ سے شام کی سرزمین مراد ہے میٹھا پانی اس چٹان سے نکلتا ہے جو بیت المقدس میں ہے آسمان سے پانی اس چٹان کی طرف اترتا پھر زمین میں پھیل جاتا ہے۔ 33:۔ ابن عساکر نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ شام میں سترہ سو انبیاء کی قبریں ہیں اور دمشق لوگوں کی پناہ گاہ ہوگی لڑائیوں سے آخری زمانے میں۔ 34:۔ حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) میرے بھائی کے بیٹے تھے۔ 35:۔ ابن سعد نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ثی (مقام) سے بھاگے اور آگ سے نکل آئے تو ان دونوں آپ کی زبان سریانی تھی جب حران سے دریا فرات کو عبور کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان کو تبدیل فرمایا دیا اور عبرانی زبان میں بدل دیا جب آپ نے فرات کو عبور کیا نمرود نے ان کی تلاش میں لوگوں کو بھیجا اور کہا کسی کو نہ چھوڑو جو سریانی زبان بولتا ہو مگر اس کو میرے پاس (پکڑ کر) لے آو وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) سے ملے تو آپ عبرانی میں بات کرتے تھے تو انہوں نے آپ کو چھوڑ دیا اور آپ کی زبان کو نہ سمجھ سکے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) سے جنگ : 36:۔ ابن عساکر نے حسان بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ نبط کے بادشاہ نے لوط (علیہ السلام) پر دھاوا بولا (یعنی اچانک حملہ کیا) ان کو اور ان کے اہل و عیال کو قیدی بنالیا یہ بات ابراہیم (علیہ السلام) کو پہنچی تو اہل بدر کی تعداد برابر تین سوتیرہ آدمیوں کے ساتھ لوط (علیہ السلام) کی تلاش میں نکلے صحراء معفور میں نبطیوں سے مقابلہ ہوا ابراہیم (علیہ السلام) نے (اپنے لشکر) کو میمنہ میسرہ اور قلب (کی صورت میں) ترتیب دیا سب سے پہلے جنگ میں لشکر کی یہ ترتیب آپ نے دی ان سے لڑائی کی اور ان کو شکست دی ابراہیم (علیہ السلام) نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے اہل و عیال کو خلاصی دلوائی۔ 37:۔ عبد بن حمید نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ونجینہ “ سے ابراہیم (علیہ السلام) مراد ہیں (آیت) ” ولوط الی الارض التی برکنا فیھا للعلمین “ سے وہ مقدس زمین مراد ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے تمام جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں کیونکہ ہر میٹھا پانی زمین میں اسی زمین سے آتا ہے یعنی اس چٹان کی جڑ سے جو بیت المقدس میں ہے پانی آسمان سے اس چٹان کی طرف اترتا ہے پھر زمین میں پھیل جاتا ہے۔ 38:۔ عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ونجینہ ولوطا “ سے مراد ہے کہ دونوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) عراق کی سرزمین میں تھے پھر وہ شام کی زمین کی طرف چلے گئے اور شام کو عماد دارالہجرہ کہا جاتا ہے جو کچھ زمین میں سے کم ہوتا ہے شام میں زیادہ کردیا جاتا ہے اور جو شام میں سے کم ہوتا ہے وہ فلسطین میں زیادہ کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا تھا کہ شام محشر کی زمین ہے اور اسی میں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے اور اسی میں اللہ تعالیٰ گمراہی کے سردار دجال کو ہلاک کریں گے۔ 39:۔ ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الی الارض التی برکنا فیھا “ سے شام کی سرزمین مراد ہے۔ 40:۔ ابن ابی حاتم نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الی الارض التی برکنا فیھا “ سے حران کا علاقہ مراد ہے۔ 41:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ووھبنا لہ اسحق “ یعنی ہم نے ان کو بیٹا اسحاق عطا فرمایا (آیت) ” و یعقوب نافلۃ “ اور یعقوب پوتاعطا فرمایا۔ 42:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ووھبنا لہ اسحق “ سے مراد ہے کہ میں نے اس کو اسحاق عطا کیا (آیت) ” و یعقوب نافلۃ “ میں نافلہ سے عطیہ مراد ہے۔ 43:۔ عبدالرزاق اور ابن منذر نے کلبی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ان کی دعا قبول کی گئی اور مزید یعقوب عطا فرمائے گئے۔ 44:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” نافلۃ “ سے مراد ہے بیٹے کا بیٹا یعنی پوتا۔ 45:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلنہم ائمۃ یھدون “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مقتدی بنایا کہ ان کی اقتداء کی جاتی ہے اللہ کے حکم سے۔
Top