Dure-Mansoor - Al-Hajj : 35
الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَصَابَهُمْ وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوةِ١ۙ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : اللہ کا نام لیا جائے وَجِلَتْ : ڈر جاتے ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَالصّٰبِرِيْنَ : اور صبر کرنے والے عَلٰي : پر مَآ اَصَابَهُمْ : جو انہیں پہنچے وَالْمُقِيْمِي : اور قائم کرنے والے الصَّلٰوةِ : نماز وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جن کا یہ حال ہے کہ اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور وہ مصیبتوں پر صبر کرنے والے ہیں اور نمازیں قائم کرنے والے ہیں اور ہم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
1۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ آیت الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبہم، وہ اللہ کے ذکر کے وقت ان کے دل اللہ کی عظمت کی وجہ سے کانپتے ہیں اور آیت ” والصبرین علی ما آصابہم) (صبر کرنے والے) بلاؤں پر اور مصیبتوں پر آیت ” والمقیمی الصلوۃ “ یعنی وہ نمازوں کو اللہ کے حکم کے مطابق صحیح صحیح ادا کرتے ہیں۔ 2۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” والبدن “ کو تخفیف کے ساتھ پڑھا۔ 3۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ” والبدن “ سے مراد اونٹ اور گائیں ہیں۔ 4۔ ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ” والبدن “ سے مراد کھر والے جانور ہیں۔ 5۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ” البدن “ سے مراد ہے بدن والے جانور یعنی اونٹ اور گائے۔ 6۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” البدن “ سے مراد ہے اونٹ۔ 7۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عبدالکریم (رح) سے روایت کیا کہ عطا اور حکم (رح) نے اختلاف کیا۔ عطا (رح) نے کہا بدنہ اونٹ اور گائے سے ہے اور حکم (رح) نے کہا کہ بدنہ صرف اونٹ کے لیے ہے۔ 8۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ البدن سے مراد اونٹ اور گائے ہے۔ 9۔ ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ البدن سے مراد گائیں ہیں۔ 10۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے یعقوب الریاحی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی کو ایک بدنہ کی وصیت کی۔ میں ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور میں نے ان سے عرض کیا کہ ایک آدمی نے مجھے بدنہ کی وصیت کی ہے کیا میری طرف سے ایک گائے کافی ہوگی ؟ انہوں نے فرمایا تمہارا ساتھی کن لوگوں میں ؟ میں نے عرض کیا بنو ریاح میں سے فرمایا تو کون سے جانور پالتا ہے۔ کہا بنو ریاح نے گائے سے اونٹ تک پالے ہیں اور وہ تمہارا ساتھی ہے۔ گائے تو اسد اور عبدالقیس کے لیے ہے۔ 11۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بدنہ کو اس کے موٹا ہونے کی وجہ سے بدنہ کہتے ہیں۔ 12۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے ورایت کیا آیت ” لکم فیہا خیر “ ھا ضمیر سے بدنہ مراد ہے۔ اگر محتاج ہوجائے پیٹھ کی طرف (یعنی اس پر سوار ہونے کی ضرورت پڑجائے) تو سوار ہوجائے یا دودھ کی ضرورت پڑجائے تو تمہارے لیے ان میں خیر ہے۔ 13۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لکم فیہا خیر “ سے مراد ہے کہ تمہارے لیے اجر ہے۔ اور (دوسرے) منافع ہیں بدنہ میں۔ قربانی کا اجر عظیم 14۔ احمد وعبد بن حمید وابن ماجہ والطبرانی والحاکم وصححہ اور بیہقی نے شعب میں زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ پھر پوچھا یا رسول اللہ ! اس میں ہمارے لیے کیا اجر ہے ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا اون کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ 15۔ ابن عدی والدارقطنی والطبرانی اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عید کے دن قربانی سے افضل کسی چیز میں پیسے خرچ کرنا نہیں ہے۔ 16۔ ترمذی وحسنہ وابن ماجہ والحاکم وصححہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قربانی کے دن (جانور) کا خون بہادینے سے ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک محبوب نہیں اور بلا شبہ وہ قربانی کا جانور البتہ قیامت کے آئے گا اپنے سینگون اپنے کھروں اور اپنے بالوں کے ساتھ اور خون زمین پر واقع ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں پہنچتا ہے۔ پس قربانیاں خوش دلی سے کرو۔ 17۔ ابن ماجہ والحاکم وصححہ اور بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش پاتا ہے (پھر بھی) وہ قربانی نہ کرے تو ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے مالک بن انس (رح) سے روایت کیا کہ سعید بن المسیب نے حج کیا اور ان کے ساتھ حرملہ (رح) نے بھی حج کیا۔ سعید (رح) نے ایک دنبہ خریدا اور اس کی قربانی کی اور ابن حرملہ (رح) نے ایک بدنہ چھ دینار میں خریدا اور اس کو نحر کردیا۔ سعید (رح) نے ان سے پوچھا کیا تیرے لیے ہماری سنت کافی نہ تھی۔ انہوں نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا آیت ” والبدن جعلنا ہا لکم من شعائر اللہ لکم فیہا خیر “ تو میں نے یہ پسند کیا کہ میں اس خیر کو حاصل کروں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے دلالت فرمائی۔ تو ابن المسیب اس بات سے بہت خوش ہوئے اور ان کی طرف سے یہ بات بیان کرتے تھے۔ 19۔ ابو نعیم نے ابن عیینہ (رح) سے روایت کیا کہ صفوان بن سلیم (رح) نے حج کیا۔ اور ان کے پاس سات دینار تھے۔ ان پیسوں سے انہوں نے ایک بدنہ خریدا۔ ان سے کہا گیا آپ کے پاس صرف سات دینار تھے کہ کہ جس سے آپ نے ایک بدنہ خرید لیا تو انہوں نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا آیت لکم فیہاخیر، 20۔ قاسم بن اصبغ وابن عبدالبر نے تمہید میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ اے لوگو ! قربانی کرو اور خوش دلی سے کرو۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کوئی بندہ اپنی قربانی کو قبلہ کی طرف متوجہ کرتا ہے تو اس کا خون، اس کے سینگ اور اس کا اون سب میزان میں ہوں گی قیامت کے دن بلاشبہ خون اگر مٹی میں واقع ہوجائے تو وہ اللہ کی محفوظ پناہ گاہ میں واقع ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھوڑا عمل کرو تو زیادہ بدلہ دئیے جاؤ گے۔ 21۔ احمد نے ابوالاشد السلمی (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے والد اور دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ افضل قربانی وہ ہے جو مہنگی ہو اور موٹی ہو۔ 22۔ ابن ابی شیبہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ قربانی کے دن لوگوں کے خون بہانے سے زیادہ اجر کے لحاظ سے کوئی خرچ کرنا نہیں مگر وہ خرچ جو صلہ رحمی پر کیا۔ 23۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لکم فیہا خیر “ کے بارے میں فرمایا کہ اگر محتاج ہو دودھ کی طرف تو اس کا دودھ پی لے۔ اگر محتاج ہو سواری کی طرف تو سوار ہوجائے۔ اگر محتاج ہواون کا (یعنی اون کی ضرورت پڑجائے) تو اس کو لے لے۔ 24۔ ابن ابی شیبہ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کیا کوئی آدمی بدنہ پر سوار ہوجائے بغیر بوجھ کے فرمایا اس کا دودھ لے لو بغیر مشقت کے۔ 25۔ ابن ابی شیبہ نے علی ؓ نے فرمایا آدمی سوار ہوجائے اپنے بدنہ پر معروف طریقے سے۔ 26 ابن ابی شیبہ نے جابر ؓ سے رایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اجازت فرمائی کہ وہ اس قربانی کے جانور پر سوار ہوجائیں جب اس کی ضرورت ہو۔ 27۔ ابن شیبہ نے عطاء رحمۃ اللہ علی سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے اجازت فرمائی کہ وہ اس قربانی کے جانور پر سوار ہوجائیں جب اس کی ضرورت ہو۔ 28۔ مالک وابن ابی شیبہ والبخاری ومسلم ابو داوٗد والنسائی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو بدنہ کو ہانک رہا تھا آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجا۔ اس نے کہا یہ بدنہ ہے آپ نے پھر فرمایا اس پر سوار ہوجا تیرے لیے ہلاکت ہو۔ 29۔ ابن ابی شیبہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو بدنہ یا ہدی کا جانور ہانکتے ہوئے دیکھا آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجا اس نے کہا یہ بدنہ ہے یا ہدی کا جانور ہے۔ آپ نے فرمایا اگرچہ بدنہ ہے سوار ہوجا۔ 30۔ عبد بن حمید وابن ابی الدنیا نے الاضاحی میں اور ابن ابی حاتم والحاکم وصححہ اور بیہقی نے سنن میں ابو ظبیان (رح) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا جب تو ارادہ کرے کہ بدنہ کو ذبح کرے۔ تو اس کو تین پاؤ پر کھڑا کر بلکہ اس کا ایک ہاتھ بندھا ہو پھر کہہ، بسم اللہ واللہ اکبر الہم منک ولک۔ 31۔ الفریابی وابوعبید و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وعبد بن حمدی وابن المنذر وابن ابی حاتم نے کئی طرق سے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ” صواف سے مراد ہے باندھے ہوئے کھڑا ہونا۔ 32۔ سعید بن منصور وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک بدنہ کو نحر کیا جبکہ وہ کھڑا تھا اور اس کا ایک ہاتھ باندھا ہوا تھا۔ اور فرمایا ” صواف “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ 33۔ ابن ابی شیہ والبکاری مسلم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور وہ اس کو نحر کرنا چاہتا تھا تو اس سے فرمایا اس کو کھڑا کر اور اس کا ہاتھ باندھ دے یہ طرقہ ہے محمد ﷺ کا۔ 34۔ ابن ابی شیبہ نے اببن سابط (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکمر ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی الہ عنہم بدنہ کی بائیں ٹانگ باندھ دیتے تھے اور اس کی باقی تین ٹانگوں پر کھڑا کر کے نحر کرتے تھے۔ 35۔ ابن ابی شیبہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ بدنہ کو نحر کرتے کہ اس کی داہنی ٹانگ بندھی ہوئی ہوتی تھی۔ 36۔ ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ بدنہ کو کس طرح ذبح کیا جائے تو انہوں نے فرمایا اس کی بائیں ٹانگ باندھ دے اور داہنے ہاتھ کی طرف سے اس کو نحر کر۔ 37۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) اس کے بائیں ہاتھ کو باندھ دیتے تھے۔ جب اس کو نحر کرنے کا ارادہ فرماتے تھے۔ 38۔ ابن ابی شیبہ نے عطاء (رح) نے فرمایا کہ دونوں ہاتھوں میں جو چاہو باندھ دو ۔ 39۔ ابن الانباری نے مصاحف میں اور ضیاء نے مختارہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے۔ آیت فاذکرواسم اللہ علیہا صواف۔ 40۔ ابن الانباری نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ” صوافن “ سے مراد ہے تین ٹانگیں بندھی ہوئی۔ 41۔ عبدالرزاق وعبد بن حمدی وابن الانباری نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ اس کو یوں پڑھتے تھے۔ آیت فاذکر اسم اللہ علیہا صواف۔ اس سے مراد ہے باندھے ہوئے کھرے ہوئے۔ صواف کے بارے میں تفسیری اقوال 42۔ عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے ” صوفن “ پھر فرمایا نے ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ اپنے دبنہ کو ذبح کر رہے تھے کہ وہ اپنی تینوں ٹانگوں پر کھڑا ہوا تھا اور چوتھی ٹانگ بندھی ہوئی تھی۔ 43۔ عبدالرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جس نے اس کو ” صوافن “ پڑھا اس سے مراد ہے بندھا ہوا اور جس نے اس کو ” صواف “ پڑھا یعنی اس کے سامنے کے سامنے ہاتھ بندھے ہوں اور عبدبن حمید کے لفظ یہ ہیں کہ جس نے اس کو ” صواف “ پڑھا یعنی وہ جانور کھڑا ہوا ہے اس حال میں اس کی ٹانگیں بندی ہوئی ہوں اور جس نے اس کو صوافن پڑھا یعنی کھڑا ہونا اور بدنھا ہوا ہونا اور ابن ابی شیبہ (رح) کے لفظ یوں ہیں یعنی کھڑا ہونا چار ٹانگوں پر اور ” صوافن “ یعنی تین ٹانگوں پر کھڑا ہوا۔ 44۔ عبد الرزاق وابوعبید وعبد بن حمید وابن المنذر وابن الانباری نے مصاحف میں اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے ” صواف “ یعنی خالص اللہ تعالیٰ کے لیے اس لیے فرمایا کہ وہ لوگ اپنے بتوں کے لیے ذبح کرتے تھے۔ 45۔ ابو عبید وابن ابی حاتم نے زید بن اسلام رحمۃ اللہ عیہ سے روایت کیا کہ وہ آیت فاذکرو اسم اللہ علیہا صواف۔ یا منصوبہ کے ساتھ پڑھتے تھے اور فرمایا اس کا مطلب یہ ہے خالص اللہ کے لیے جس میں شرک نہ ہو یہ اسلیے فرمایا کہ وہ جاہلیت میں شرک کرتے تھے جب وہ جانور کو ذبح کرتے تھے۔ 46۔ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فاذا وجبت، سے مراد ہے کہ جب وہ گرپڑے اپنے پہلو پر۔ 47۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فاذا وجبت یعنی جب وہ نحر کردی جائے۔ 48۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت فاذا وجبت جنوبہا سے مراد ہے کہ جب وہ زمین پر گرپڑے۔ 49۔ ابو داوٗد والنسائی والحاکم وصححہ وابو نعیم نے دلائل میں عبداللہ بن قرط (رح) سے روایت کیا کہ پانچ یا چھا ونٹ رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے (قربانی کے لیے) وہ خود بخود آپ کی طرف جھک گئے جس سے آپ چاہیں ذبح کرنا شروع کریں۔ جب وہ اپنے پہلوؤں پر گرگئے تو آپ نے فرمایا جو چاہے ان کا گوشت کاٹ لے۔ 50۔ ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ اپنے اونٹ میں سے (دوسروں کو) (کھلاتے تھے خود کھانے سے پہلے اور فرماتے تھے کہ آیت فکلو منہا واطعموا، یعنی خود بھی اس میں سے کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ۔ دونوں کام برابر ہیں۔ 51۔ ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ صحابہ کرام ؓ جس چیز کو اللہ کے لیے کردیتے تھے اس کو خود نہیں کھاتے تھے۔ پھر ان کے لیے اجازت دے دی گئی۔ کہ ہدی اور قربانی اور اس قسم کے دوسرے جانوروں میں سے کھائیں۔ 52۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ نذر کے جانور میں سے نہ کھایا جائے اور شکار کے جرمانے میں جو جانور ذبح کیا جائے اس میں سے بھی نہ کھایا جائے اور نہ اس جانور میں سے جو مساکین کے لیے ذبح کیا جائے۔ اس میں سے بھی نہ کھایا جائے اور نہ اس جانور میں سے جو مساکین کے لیے ذبح کیا جائے۔ 53۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ نذر کے جانور میں سے نہ کھایا جائے اور نہ کفارے کے جانور میں سے اور نہ اس جانور میں سے جو مسکین کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔۔ 54۔ ابن ابی شیبہ نے معاذ ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم فرمایا کہ ہم قربانیوں میں سے پڑواسی کو سوال کرنے والے کو اور سوال سے بچنے والے کو کھلائیں۔ 55۔ ابن ابی شیبہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ” القانع “ سے مراد ہے سوال سے بچنے والا اور ” معتر “ سے مراد ہے سوال کرنے والا۔ 57۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” قانع “ وہ شخص ہے جو اس کو مل جائے اس پر قناعت کرے۔ اور ” معتر “ وہ شخص ہے جو سامنے آتا ہے مگر سوال نہیں کرتا۔ 58۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” قانع “ وہ شخص ہے جو اپنے گھر میں بیٹا رہتا ہے۔ 59۔ طستی نے مسائل میں حضرت ابن عباس رضی الہ عنہما سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ” القانع والمعتر “ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے فرمایا قانع سے مراد ہے وہ شخص جو اس چیز پر قناعت کرے جو اس کو مل جائے اور معتر وہ شخص ہے جو دروازوں پر مانگا ہے پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں فرمایا کیا تو نے شاعر کا قول نہیں سنا وہ کہتا ہے علی مکثریہم حق من یعتربہم وعند لمقلین السماحۃ والبذل ترجمہ : ان کے بہت مالداروں پر حق ہے ان کا جو ان سے مانگتے پھرتے ہیں۔ اور تھوڑے مال والوں کے پاس درگزر کرنا اور خرچ کرنا ہے۔ 60۔ عبد بن حمید وابن المنذر والبیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آنپ نے فرمایا قانع وہ ہے کہ اس کی طرف اسے کے گھر میں مال بھیجا جائے۔ اور معتر وہ ہے جو تجھ سے سوال کیلے آئے۔ 61۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قانع وہ ہے جو سوال کرتا ہے اور معتر وہ ہے جو سامنے آتا ہے مگر سوال نہیں کرتا۔ 62۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ قانع سے مراد ہے سوال کرنے والا جو سوال کرتا ہے پھر شاعر کا یہ قول پڑھا۔ لمال المرء یصلحہ فیبقی معاقرہ اعف من القنوع ترجمہ : انسان کا مال اصلاح کرتا ہے اور اس کی دہشت کو باقی رکھتا ہے تو سائل سے درگزر کر 63۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ قانع وہ ہے جو سوال کرتا ہے اس کا جو تیرے ہاتھ میں ہے اور معتر وہ ہے جو تیرے سامنے آئے تاکہ تو اس کو کھلائے ابن ابی شیبہ (رح) کے الفاظ میں یوں ہے کہ معتر وہ ہے جو تیرے سامنے آئے مگر تجھ سے سوال نہیں کرے۔ 65۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ قانع وہ ہے جو سوال کرتا ہے اور اپنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور معتر وہ ہے جو مانگتا ہے اور چکر لگاتا رہتا ہے۔ 66۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ قانع سے مراد ہیں مکہ والے اور معتر سے مراد ہیں دوسرے سارے لوگ۔ 67۔ مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے اسی طرح روایت کیا قانع سے مراد ہے سوال کرنے والا اور معتر سے مراد ہے خالی بدن (یعنی ننگے بدن والا) 68۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ” البائس “ سے مراد وہ شخص ہے جو سوال کرتا ہے تو اپنے ہاتھ کو پھیلاتا ہے اور قانع سے مراد ہے طمع رکھنے والا جو تیرے پڑوس میں سے تیری قربانی کے گوشت کی طمع رکھتا ہے۔ اور معتر وہ ہے جو خود لوگوں کے سامنے آتا ہے اور سوال نہیں کرتا۔ 69۔ عبد بن حمید نے قاسم بن ابی بزہ (رح) سے روایت کیا کہ ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو کھانے والا ہے اور جو دیتا ہے مانگنے والے کو اور نہ مانگنے والے کو فرمایا میں اس کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ پوچھا گیا قانع کون ہے ؟ فرمایا جو تیرے اردگرد ہو۔ پوچھا گیا اگرچہ وہ زبح کرے فرمایا اگرچہ وہ ذبح کرے اور معتر وہ ہے جو تیرے پاس آتا ہے اور سوال کرتا ہے۔ 70۔ ابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین جب جانوروں کو ذبح کرتے تھے تو خون کے ساتھ کعبہ کی ط رف رخ کرتے تھے۔ پھر اس کو کعبہ پر مل دیتے تھے۔ مسلمانوں نے ایسے کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت لن ینال اللہ لحومہا ولا دماء ھا۔ 71۔ ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت والے بیت اللہ پر اونٹوں کے گوشت اور اس کا خون ملتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے اصحاب نے کہا ہم خون اور گوشت کو بیت اللہ پر ملنے کے زیادہ حق دار ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت لن ینال اللہ لحومہا ولا دماء ھا۔ 72۔ ابن جیر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے ورایت کیا کہ ” النصب “ بت نہیں ہیں بت وہ ہوتا ہے جس کی تصویر بنائی جاتی ہے اور اس پر نقش ونگار کیا جاتا ہے۔ اور یہ تین و ساٹھ پتھر نصب کیے گئے تھے۔ جب یہ لوگ ذبح کرتے تھے تو بیت اللہ کے سامنے والی دیوار میں جو بت ہوتے تھے ان پر خون چھڑکتے تھے اور گوشت کاٹ کر ان پتھروں پر رکھتے تھے تو مسلمانوں یہ دیکھ کر کہا یا رسول اللہ ! کہ زمانہ جاہلیت والے بیت اللہ کی خون کے ساتھ عزت واکرام کرتے ہیں اور ہم اس کی عزت کرنے کے زیادہ حق دار ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے ان کی بات کو پسند نہ فرمایا تو یہ آیت نال ہوئی۔ آیت لن ینال اللہ لحومہا ولا دماء ھا۔ 73۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ آیت لن ینال اللہ یعنی ہرگز اللہ کے تعالیٰ کے ہاں نہیں پہنچتے۔ آیت لحومہا ولا دماء ھا ولکن۔ یعنی اس کا گوشت اور اس کا خون لیکن بدنہ کو نحر کرنا اللہ کے خوف اور اس کی اطاعت کی وجہ سے ہے فرماتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہاری طرف سے نیک اعمال اور تقوی پہنچتا ہے۔ 74۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولکن ینالہ التقوی منکم۔ یعنی جن اعمال سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی طلب کی گئی ہو وہ اللہ کے ہاں پہنچتے ہیں۔ 75۔ ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولکن ینالہ التقوی منکم، یعنی اگر تمہارا عمل پاکیزہ ہوگا اور تم خود بھی پاک ہوگے تو تمہارا عمل تمہارے نیک اعمال کی طرف پہنچے گا اور اس کو قبول کیا جائے گا۔ 76۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت لتکبروا اللہ علی ماھداکم۔ یعنی اپنے ذبائح پر ان دنوں میں اللہ کا نام لو۔ 77۔ الحاکم وابن مردویہ نے شعب میں حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم فرمایا کہ بہترین لباس پہنیں عمدہ خوشبو لگائیں جو ہم پائیں اور موٹی قربانی کریں جو ہم پائیں اور فرمایا گائے سات آدمیوں کی طرف سے ہے اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے ہے اور ہم اعلانیہ تکبیر کہی اور ہم پر وقار اور سکون ہو۔
Top