Dure-Mansoor - Al-Muminoon : 50
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ۠   ۧ
وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا ابْنَ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے (عیسی) کو وَاُمَّهٗٓ : اور ان کی ماں اٰيَةً : ایک نشانی وَّاٰوَيْنٰهُمَآ : اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا اِلٰى : طرف رَبْوَةٍ : ایک بلند ٹیلہ ذَاتِ قَرَارٍ : ٹھہرنے کا مقام وَّمَعِيْنٍ : اور جاری پانی
اور ہم نے ابن مریم (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو ایک نشانی بنادیا اور ہم نے ان دونوں کو ایک ایسے ٹیلہ پر ٹھکانہ دیا جو ٹھہرنے کی اور پانی جاری ہونے کی جگہ تھی
1۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وجعلنا ابن مریم وامہ آیۃ “ سے مراد ہے کہ مریم (علیہا السلام) نے اس کو (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو) بغیر باپ کے جنا اور وہ ان کے بیٹے تھے۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وجعلناابن مریم وامہ آیۃ “ سے مراد ہے عبرت۔ 3۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما “ سے مراد عیسیٰ اور اس کی والدہ ہے۔ 4۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما “ سے مراد ہیں عیسیٰ اور ان کی والدہ (علیہا السلام) جب انہوں نے غوطہ (جو دمشق کے قریب ایک شہر کا نام ہے) اردگرد میں پناہ لی۔ 5۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ میں الربوۃ سے مراد ہے ہموار جگہ ” والمعین “ سے مراد ہے جاری پانی اور یہ وہ نہر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ” قد جعل ربک تحتک سریا “۔ 6۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ سے زمین میں سے ایک بلند جگہ مراد ہے اس میں نباتات اگتی ہے۔ آیت ” زات قرار “ سے مراد ہے سرسبزی والی زمین ” ومعین “ سے مراد ہے ظاہری پانی والی۔ 7۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) وسلم سے روایت کیا کہ آیت ” الی ربوۃ “ سے مراد ہے ہموار زمین آیت ” ذات قرار ومعین “ یعنی جاری پانی۔ 8۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن عساکر نے سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ آیت ” الی ربوۃ “ سے مراد ہے بلند جگہ اور وہ بیت المقدس۔ والمعین سے مراد ہے ظاہری پانی۔ 9۔ عبد بن حمید وعبدالرزاق وابن جریر وابن عساکر نے و قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم یہ بیان کرتے ہیں کہ ربوہ سے بیت المقدس مراد ہے آیت ” ذات قرار “ یعنی بہت پھل والی ” ومعین “ یعنی جاری پانی۔ 10۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن عساکر نے وہب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ سے مصر کی سرزمین مراد ہے۔ 11۔ ابن جریر وابن ابی حاتم ابن زید (رح) سے آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ ٹیلے صرف مصر میں ہیں اور پانی جب چھوڑا جاتا ہے تو بستیاں اوپر ہوتیں۔ اگر یہ بلند جگہ نہ ہوتی تو وہ بستیاں غرق ہوجاتیں۔ 12۔ ابن عساکر نے زید بن اسلم سے روایت کیا کہ آیت ” واینہما الی ربوۃ “ سے مراد ہے اسکندریہ عیسی (علیہ السلام) کی فصاحت وبلاغت 13۔ ابن عساکر نے (جوہر) کے طریق سے ضحاک سے روایت کیا اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) بچپن میں بات کرنے کے بعد بات کرنے سے رک گئے یہاں تک کہ اس عمر کو پہنچ گئے جس میں نوجوان پہنچتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت اور فصیح بیان کے ساتھ بولنا سکھایا جب سات سال کو پہنچے تو ان کی ماں نے ان کو ایک آدمی کے سپرد کردیا کہ وہ ان کو سکھائے جیسے وہ لڑکوں کو سکھاتا ہے۔ وہ آدمی ان کو کسی چیز کے بارے میں نہ بتاتا مگر اس کے بتانے سے پہلے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) اسے جانتے ہوتے معلم نے ابو جاد پڑھایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ابو جاد کیا ہے معلم نے کہا میں کچھ نہیں جانتا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تو مجھے کس طرح سکھائے گا جو تو نہیں جانتا معلم نے کہا تب تو آپ ہی مجھ کو پڑھائیے۔ عیسیٰ نے اس سے فرمایا اپنی مجلس سے اٹھ جا وہ کھڑا ہوا تو عیسیٰ اس کی جگہ پر بیٹھ گئے اور فرمایا مجھ سے سوال کر۔ معلم نے کہا ابوجاد سے کیا مراد ہے ؟ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا الف سے مراد ہے اللہ کی نعمتیں باء سے مراد ہے اللہ کا حسن جیم سے مراد ہے اللہ کی خوبصورتی و جمال۔ معلم نے بڑا تعجب کیا کہ عیسیٰ پہلے آدمی تھے جنہوں نے ابوجاد کی تفسیر کی اور عیسیٰ نے اپنے بچپن میں عجائب دیکھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کیے گئے تھے۔ یہ بات یہود میں پھیل گئی اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) دس سال سے زیادہ ہوئے تو بنی اسرائیل نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو ان پر والدہ نے خوف کیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ مصر کی زمین کی طرف چلی جائے ان کو لے کر اس وجہ سے فرمایا آیت ” وجعلنا ابن مریم وامہ اٰیۃ “ ابن عباس سے پوچھا گیا آیتان نہیں فرمایا جبکہ دو نشانیاں تھے ابن عباس نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اٰیۃ فرمایا کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ان کا کوئی باپ نہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے معاملہ میں حضرت مریم کے ساتھ کوئی مرد شریک نہیں ہوا تو نشانی میں ایک ہوئے۔ آیت ” واوینہما الی ربوۃ ذات قرار ومعین “ سے مصر کی زمین مراد ہے۔ 14۔ سکع والفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم وتمام الرازق فضائل النبوہ میں وابن عساکر بسند صھیح سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” الی ربوۃ “ ہم کو یہ خبر دی گئی کہ بلا شبہ وہ دشمق کی سرزمین ہے۔ 15۔ ابن عساکر نے عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ سے دمشق مراد ہے۔ 16۔ ابن عساکر نے روایت کیا کہ یزید بن سخبرہ صحابی ؓ نے فرمایا دمشق ہی مبارک ربوہ ہے۔ 17۔ ابن عساکر نے بسند ضعیف سے ابو امۃ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے یہ آیت آیت ” واوینہما الی ربوۃ ذات قرار ومعین “ تلاوت فرمائی اور فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ وہ (جگہ) کہاں ہے صحابی نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں پھر فرمایا وہ شام کی زمین ہے جس کو غوطہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک شہر ہے جس کو دمشق کہتے ہیں جو شام کے بہترین شہروں میں سے ہے۔ 18۔ عبدالرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ سے دمشق مراد ہے۔ 19۔ ابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وابن مردویہ وابن عساکرے مرہ بہزی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رملہ ربوہ ہے۔ ربوہ فلسطین میں واقع ہے 20۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم وابو نعیم وابن عساکر نے روایت کیا کہ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ آیت ” واوینہما الی ربوۃ “ میں ربوہ سے مراد فلسطین میں رملہ کا مقام ہے۔ 21۔ الطبرانی وابن السکین وابن منذر و ابونعیم ابن عساکر من طرق اقرع بن (شفی) العکی ؓ سے روایت کیا کہ میرے پاس نبی ﷺ بیماری میں عیادت کے لیے لیے آئے، میں نے عرض کیا کہ میرا یہ گمان ہے کہ میں اپنے اس مرض میں مرجاؤں گا آپ نے فرمایا ہرگز نہیں تو ضرور باق رہے گا یہاں سے ضرور ہجرت کرے گا شام کی زمین کی طرف اور تو مرے گا فلسطین کے علاقہ میں ربوہ کے مقام پر ددفن ہوگا تو (یہ صحابی) عمر ؓ کے دور خلافت میں فوت ہوئے اور رملہ میں دفن ہوئے۔ 22۔ ابن عساکر نے قتادہ سے روایت کیا اور انہوں نے حسن (رح) سے آیت ” واوینہما الی ربوۃ ذات قرار ومعین “ کے بارے میں روایت کیا کہ ربوہ سے مراد درختوں اور نہروں والی دمشق کی زمین مراد ہے اور دوسرے لفظ میں فرمایا کہ اس سے پھلوں اور بہت پانی والی زمین مراد ہے اور وہ دمشق کی زمین ہے۔
Top