Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 146
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ١ۙ مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌ١ۚ فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ نَّبِيٍّ : نبی قٰتَلَ : لڑے مَعَهٗ : ان کے ساتھ رِبِّيُّوْنَ : اللہ والے كَثِيْرٌ : بہت فَمَا : پس نہ وَهَنُوْا : سست پڑے لِمَآ : بسبب، جو اَصَابَھُمْ : انہیں پہنچے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَمَا : اور نہ ضَعُفُوْا : انہوں نے کمزوری کی وَمَا اسْتَكَانُوْا : اور نہ دب گئے وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور بہت سے نبی گذرے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی، پھر جو مصیبتیں ان کو اللہ کی راہ میں پہنچیں ان کی وجہ سینہ ہمت ہارے نہ کمزور پڑے اور نہ عاجز ہوئے، اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
(1) سعید بن منصور وعبد بن حمید نے ابو عبیدہ کے طریق سے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے یوں پڑھا لفظ آیت ” وکاین من نبی قتل معہ ربیون “ اور وہ کہتے تھے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فما وھنوا لما اصابہم فی سبیل اللہ “۔ (2) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کوئی نبی جنگ کے دوران شہید کیا گیا ہو۔ (3) سعید بن منصور وعبد بن حمید نے حسن اور ابراہیم رحمۃ اللہ عنہ سے روایت کیا کہ وہ یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” قتل معہ “۔ (4) عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ لفظ آیت ” وکاین من نبی قتل معہ ربیون “ بغیر الف کے پڑھتے تھے۔ (5) زر کے طریق سے ابن مسعود ؓ سے اسی کی مثل روایت کیا کہ وہ بھی بغیر الف کے پڑھتے تھے۔ (6) عبد بن حمید نے عطیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ بھی لفظ آیت ” وکاین من نبی قتل معہ ربیون “ بغیر ال کے پڑھتے تھے۔ (7) الفریابی وعبد بن حمید ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم و طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ربیون “ سے مراد ہے ہزارہا۔ (8) سعید بن منصور نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ربیون “ میں ایک ” ربہ “ سے ایک ہزار مراد ہے۔ (9) ابن جریر وابن ابی حاتم وابن المنذر نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” ربیون “ سے مراد ہے جماعتیں۔ (10) سعید بن منصور نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ربیون “ کے بارے میں فقہا و علماء اور ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس سے کثیر جماعتیں مراد ہیں۔ (11) ابن الانباری نے الوقف والا بتداء میں والطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے لفظ آیت ” ربیون “ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے جماعتیں مراد ہے (پھر) انہوں نے پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے حضرت حسان ؓ کا قول نہیں سنا ؟ واذا معشر تجافوا القصد املنا علیہم ربیا ترجمہ : اور جب لوگ اعتدال سے دور ہوگئے ہم نے ان پر جماعتوں کو موڑ دیا۔ (12) ابن جریر نے سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ربیون کثیر “ سے مراد ہے علماء کثیر۔ (13) عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ربیون کثیر “ سے مراد ہے کہ کثیر جماعتیں۔ (14) عبد بن حمید ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ربیون “ سے مراد ہے کثیر علماء۔ (15) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الربیون “ سے مراد رعایا اور ” ربانیون “ سے مراد ہے حکام۔ (16) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وکاین من نبی قتل “ سے مراد وہ قوم ہے جب نبی نے جہاد کیا نہ کمزور ہوئے اور نہ ہی عار محسو کی کیونکہ ان کے نبی نے قتال کیا تھا۔ (17) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فما وھنوا لما اصابہم فی سبیل اللہ “ سے مراد ہے کہ اپنے انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے ان کو اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں آئیں اس میں انہوں نے کمزوری نہ دکھائی۔ (18) ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما وھنوا لما اصابہم فی سبیل اللہ “ یعنی وہ اپنے دشمن سے عاجز نہیں ہوئے۔ کفار سے قتال میں ثابت قدمی (19) عبد بن حمید وابن ابی حاتم وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فما وھنوا “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ عاجز نہیں ہوئے اور نہ کمزور ہوئے اپنے نبی کے قتال کی وجہ سے (اور) لفظ آیت ” وما استکانوا “ یعنی نہ وہ اپنی بصیرت سے پھرے اور نہ اپنے دین سے پھرے کہ وہ قتال کریں اس دین پر جس پر اللہ کے نبی نے قتال کیا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملتے۔ (20) ابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما استکانوا “ سے مراد ہے نہ انہوں نے عاجزی کی۔ (21) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما استکانوا “ سے مراد ہے کہ وہ ذلیل اور عاجز نہیں ہوئے (22) سدی نے ابن زید (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” وما استکانوا “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ اپنے دشمن کے لیے ذلیل اور عاجز نہیں ہوئے۔ (23) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” واسرافنا فی امرنا “ سے مراد ہے کہ ہماری خطاؤں کو معاف کر دے اور جو ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اسے بھی معاف فرمادے۔ (24) عبد بن حمید ابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واسرافنا فی امرنا “ سے مراد ہے کہ ہماری خطاؤں کو معاف کر دے اور جو ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اسے بھی معاف فرمادے۔ (25) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واسرافنا فی امرنا “ سے مراد ہے بڑے گناہ (بھی معاف کر دے) ۔ (26) ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فاتہم اللہ ثواب الدنیا “ سے مراد ہے مدد اور مال غنیمت اور ” وحسن ثواب الاخرۃ “ سے مراد ہے اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت۔ (27) عبد بن حمید وابن المنذر ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فاتہم اللہ ثواب الدنیا “ سے مراد ہے کامیابی غلبہ اور قدرت اور دنیا میں اپنے دشمنوں پر فتح (اور) ” وحسن ثواب الاخرۃ “ سے مراد ہے جنت۔
Top