Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 98
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے اہل کتاب تم کیوں کفر کرتے ہو اللہ کی آیات کے ساتھ حالانکہ اللہ کو تمہارے سب کاموں کی اطلاع ہے۔
(1) ابن اسحاق وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا ہے کہ شاس بن قیس جو زمانہ جاہلیت میں بہت بوڑھا آدمی تھا بڑا کافر تھا مسلمانوں کے ساتھ سخت کینہ رکھنے والا اور ان پر بہت حسد کرنے والا تھا ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اوس اور خزرج میں سے ایک مجلس میں اکٹھے بیٹھ کر آپس میں باتیں کر رہے تھے اس نے ان کی آپس میں محبت اور ان کا آپس میں جمع ہونا اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے باہمی مصالحت کو دیکھ کر بہت غصہ ہوا جبکہ زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان آپس میں سخت دشمنی تھی اس نے کہا کہ بنو قیلہ کے خاندان آپس میں اس شہر میں اکٹھے ہوگئے، اللہ کی قسم ! جبکہ یہ شہر میں اکٹھے ہوجائیں گے تو ہمارے لیے یہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہ ہوگی تو اس نے یہود کے ایک نوجوان کو حکم دیا جو اس کے ساتھ تھا کہ ان کی طرف چلا جا اور ان کے پاس بیٹھ جا پھر ان کو بعاث کا دن یا دولت اور جو کچھ ان کے درمیان آپس میں لڑائیاں تھیں وہ ان کو یاد دلا اور ان اشعار کو پڑھ جو ان کے بعض آپس میں پڑھا کرتے تھے اور بعاث کا وہ دن تھا جس میں اوس اور خزرج آپس میں لڑتے تھے اور اس میں اوس کو خزرج پر فتح حاصل ہوئی تھی اس نے ایسا ہی کیا لوگوں نے (آپس میں) باتیں شروع کردیں اور (آپس میں) جھگڑا شروع کردیا اور ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے یہاں تک کہ وہ آدمی کود پڑے دونوں قبیلوں میں سے بنو حارثہ میں سے ایک آدمی تھے جو خزرج قبیلہ اوس میں سے تھے اور جبار بن صخر بنو سلمہ کے ایک آدمی تھے جو خزرج قبیلہ میں سے تھے ان دونوں نے باہم گفتگو کی پھر ان میں سے ایک نے کہا اپنے ساتھی سے اگر تم چاہو اللہ کی قسم ! اب ہم لوٹ جاتے ہیں بقیہ لڑائی کی طرف اور دونوں فریق سب سے غصہ ہوگئے اور کہنے لگے ہم (پھر آپس میں مقابلہ) کریں گے ہتھیار (دلاؤ) ہتھیار (دلاؤ) تمہارے ساتھ (جنگ کرنے کا) وعدہ ظاہرہ میں ہے ظاہرہ حرہ کو کہتے ہیں (یہ کہہ کر) وہ سب حرہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے اوس والوں نے اپنے ساتھ بعض لوگوں کو ملا لیا اور خزرج والوں نے بھی اپنے ساتھ بعض لوگوں کو ملا لیا اس پکار پر جو وہ زمانہ جاہلیت میں (جنگ کے لیے) پکارا کرتے تھے رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ ان کی طرف اپنے مہاجرین صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف لے گئے اور فرمایا اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ اللہ کیا تم جاہلیت کے دعوی کرتے ہو اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں بعد اس کے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اسلام کی طرف ہدایت دیا اور تمہیں اس کے ساتھ عزت دی اور اس کے ذریعہ تم سے جاہلیت کے کام کو کاٹ دیا اور اس کے ذریعہ تم کو کفر سے نکالا اور اس کے ذریعہ تمہارے درمیان محبت ڈال دی کیا تم پھر لوٹ جاؤ گے اس کفر کی طرف جس پر تم (پہلے) تھے (لڑنے والے) لوگوں کو پہچان لیا کہ یہ لڑائی پر اکسانا شیطان کا حملہ تھا اور یہ دشمن کا ایک مکرو فریب تھا (رسول اللہ ﷺ کی یہ بات سن کر) انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور روتے ہوئے بعض لوگوں نے بعض کو گلے لگا لیا پھر وہ سب لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل دئیے جبکہ وہ آپ کی نصیحت کو سننے والے اور آپ کی اطاعت کرنے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو بجھا دیا جو اللہ کے دشمن شاس نے جلائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے شاس بن قیس اور اس کے کرتوتوں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” قل یاھل الکتب لم تکفرون بایت اللہ واللہ شھید علی ما تعلمون “ سے لے کر ” وما اللہ بغافل عما تعملون “ تک اور اوس بن قیظی اور جبار بن صخر اور جو لوگ ان کی قوم میں سے ان کے ساتھ تھے ان کے بارے نازل فرمایا جو کچھ انہوں نے کیا تھا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا ان تطیعوا فریقامن الذین اوتوا الکتب یردوکم بعد ایمانکم کفرین “ سے لے کر ” واولئک لہم عذاب عظیم “ تک۔ مسلمانوں کے آپس میں خونریزی حرام ہے (2) الفریابی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابو نعیم کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ اوس اور خزرج میں زمانہ جاہلیت میں آپس میں جنگ ہوئی تھی ایک دن (اکٹھے) بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے آپس میں ان (پرانی دشمنیوں) کا ذکر کیا یہاں تک کہ وہ غضبناک ہوگئے اور ان کے بعض ہتھیار لے کر کھڑے ہوگئے ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بارے میں ذکر کیا آپ سواری پر سوار ہو کر ان کے پاس تشریف لے گئے تو اس پر یہ (آیت) ” وکیف تکفرون “ اور بعد والی دو آیات نازل ہوئیں۔ (3) ابن المنذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ دونوں قبائل، اوس اور خزرج میں زمانہ جاہلیت میں لڑائی ہوئی تھی جب اسلام آیا تو وہ (لڑائی سے) رک گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں محبت ڈال دی (ایک دفعہ) ایک یہودی اوس اور خزرج والوں کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اس نے وہ شعر پڑھ دیا کہ ایک قبیلہ اپنی جنگ میں پڑھا کرتا تھا گویا اس شعر کی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا تو دوسروں نے کہا ہمارے شاعر نے اس طرح اور اس طرح کہا (اس پر) وہ سب اکٹھے ہوگئے اور ہتھار اٹھا لیے اور لڑنے کے لیے جمع ہوگئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا ان تطیعوا فریقامن الذین اوتوا الکتب “ سے لے کر ” لعلکم تھتدون “ تک نبی اکرم ﷺ تشریف لائے یہاں تک کہ دونوں صفوں کے درمیان کھڑے ہوگئے ان پر یہ آیتیں اونچی آواز سے پڑھیں جب ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز کو سنا قرآن کے ساتھ تو وہ خاموش ہوگئے اور سننے لگے جب آپ فارغ ہوئے تو انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور روتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ (4) ابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ انصار کے قبائل اوس و خزرج طنین کے مقام پر جمع تھے اور ان کے درمیان زمانہ جاہلیت میں جنگ قصاص اور ناراضگی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا اسلام کے ذریعہ اور نبی ﷺ کے ذریعہ پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کی آگ کو بجھا دیا جو ان کے درمیان تھی اور اسلام کے ذریعہ ان میں محبت ڈال دی اس درمیان کہ ایک آدمی اوس میں سے اور ایک آدمی خزرج میں سے بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے اور ان کے ساتھ ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا وہ یہودی ان دونوں کو وہ جنگیں اور دشمنی یاد دلا رہا تھا جو ان کے درمیان پہلے سے موجود تھی یہاں تک کہ دونوں نے ایک دوسرے کو بھلا برا کہا اور لڑ پڑے تو (اس پر) ایک نے اپنی قوم کو بلایا دوسرے نے اپنی قوم کو بلایا تو وہ ہتھیار لے کر نکل کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے رسول اللہ ﷺ تشریف لائے آپ برابر ان کے درمیان چلنے رہے ان کی طرف بھی اور ان کی طرف بھی اور ان کو خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ گئے اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرمایا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا ان تطیعوا فریقامن الذین اوتوا الکتب یردوکم بعد ایمانکم کفرین “ (5) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت ثعلبہ بن عنمہ انصاری کے بارے میں نازل ہوئی کہ ان کے اور انصار کے لوگوں کے درمیان گفتگو ہوئی ان کے درمیان ایک یہودی قینقاع قبیلہ سے گذرا اور بعض کو بعض پر ابھارا یہاں تک کہ دونوں جماعتیں اوس اور خزرج نے ہتھیار اٹھانے کا ارادہ کرلیا تاکہ آپس میں لڑیں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری دی لفظ آیت ” ان تطیعوا فریقامن الذین اوتوا الکتب یردوکم بعد ایمانکم کفرین “ کہ اگر تم نے (ایک دوسرے پر) ہتھیار اٹھائے تو (گویا) تم نے قتل کیا اور تم نے کفر کیا۔ (6) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ اس آیت ” لم تصدون عن سبیل اللہ “ کا مطلب ہے ان سے کوئی سوال کرتا کیا تم نے محمد ﷺ کو پایا ؟ تو وہ کہتے تھے نہیں اس طرح وہ لوگوں کو آپ سے روکتے اور حد سے تجاوز کرتے۔ (7) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم کیوں روکتے ہو اسلام سے اور اللہ کے نبی سے اس شخص کو جو اللہ پر ایمان لاتا ہے حالانکہ تم گواہ ہو اس بات کے جو تم اللہ کی کتاب میں پڑھتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اسلام اللہ کا دین ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کیا جائے گا اس پر جزائے خیر عطا فرمائے گا اس کے بارے میں تم لکھا ہوا پاتے ہو تو رات میں انجیل میں۔ (8) ابن جریر نے حسن (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” لم تصدون عن سبیل اللہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ان سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں ان کو اللہ کے راستہ سے مسلمانوں کو روکنے سے منع کیا گیا تھا اور انہوں نے ارادہ کیا کہ لوگوں کو گمراہ کردیں۔ (9) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا بن تطیعوا فریقا “ کے بارے میں روایت کیا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے پہلے ہی سے ( حکم) بھیج دیا ہے ان کے بارے میں جیسا کہ تم سنتے ہو اور تمہیں خبردار کیا ہے اور تم کو ان کی گمراہی کی خبر دی ہے اس لیے اپنے دین کے بارے میں ان سے بےخوف نہ ہوجاؤ اور اپنے بارے میں ان کو مخلص نہ سمجھو کیونکہ تمہارے حسد کرنے والے گمراہ کرنے والے دشمن ہیں تم کس طرح تمنا کرتے ہو ایسی قوم کی جنہوں نے اپنی کتاب کا انکار کیا اور اپنے رسولوں کو قتل کیا اور اپنے دین میں تبدیلی کی اور اپنی جانوں سے عاجز ہوگئے اللہ کی قسم ! یہی لوگ تہمت لگانے والے اور دشمن ہیں۔ (10) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے اس آیت ” وکیف تکفرون وانتم تتلی علیکم ایت اللہ وفیکم رسولہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ دو واضح نشانیاں ہیں اللہ کے نبی اور اللہ کی کتاب لیکن اللہ کے نبی ﷺ تو وہ گذر چکے لیکن اللہ تعالیٰ کی کتاب تو اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان باقی رکھا جو اللہ کی طرف سے رحمت ہے اور نعمت ہے اس میں اس کے حلال اور اس کے حرام اور اس فرمان برداری اور اس کی نافرمانی (کا بیان) ہے۔ (11) ابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومن یعتصم باللہ “ سے مراد اللہ پر ایمان لانا۔ (12) عبد بن حمید وابن المنذر نے وابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الاعتصام باللہ “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا۔ ہدایت کا مستحق کون ہے (13) ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت نقل کی اور انہوں نے مرفوع حدیث روایت کی کہ آپ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر یہ فیصلہ فرما لیا ہے کہ جو شخص اس پر ایمان لائے گا اس کو ہدایت دے گا اور جو شخص اس پر بھروسہ کرے گا اس کو نجات دے گا ربیع (رح) نے فرمایا کہ اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں ہے لفظ آیت ” ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم “۔ (14) عبد بن حمید نے ربیع کے طریق سے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اقدس پر فیصلہ فرما لیا ہے کہ جو شخص ان پر ایمان لائے گا اس کو ہدایت دیں گے اور جو شخص ان پر بھروسہ کرے گا اس کی کفایت کریں گے اور جو شخص ان کو قرض دے گا (یعنی ان کے لیے صدقہ کرے گا) اس کو بدلہ دیں گے اور جو شخص ان پر اعتماد کرے گا اس کو نجات دیں گے اور جو شخص دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائیں گے ربیع رحمۃ اللہ نے فرمایا کہ اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں ہے۔ (1) ومن یؤمن باللہ یھد قلبہ۔ (التغابن آیت 11) (2) یحتسب ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ ان اللہ بالغ امرہ۔ (اطلاق آیت 3) (3) من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ۔ (الحدید آیت 11) (4) ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم۔ ( سورة بقرۃ آیت 101) (5) واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی ولیؤمنوا بی لعلہم یرشدون۔ ( سورة البقرۃ آیت 186) ۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے کامیاب ہیں (15) تمام نے اپنے فوائد میں کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے دادو (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی اے دادو ! جو بندہ مجھ پر اعتماد کرتا ہے میری مخلوق کو چھوڑ کر میں اس کو پہچانتا ہوں اس کی نیت سے آسمان والے اس کے لیے خفیہ تدبیریں کرتے ہیں مگر اس کے لیے ان سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردیتا ہوں اور جو بندہ میری مخلوق پر اعتماد کرتا ہے مجھے چھوڑ کر میں اس کو پہچان لیتا ہوں اس کی نیت سے مگر یہ کہ میں آسمان کے راستے اس کے آگے سے کاٹ دیتا ہوں اور ہوا کو نکال دیتا ہوں اس کے قدموں کے نیچے سے۔ (16) حاکم نے اس کو صحیح کہا لیکن ذھبی نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اس چیز کو طلب کرے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو آسمان اس کا سایہ ہوگا اور زمین اس کا بچھونا وہ کسی چیز کی کوشش نہیں کرتا دنیا کہ کام میں سے کھیتی نہیں اگاتا لیکن وہ روٹی کھاتا ہے وہ درخت نہیں بوتا لیکن وہ پھل کھاتا ہے جبکہ وہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کی رضامندی کا طالب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین میں اس کا رزق رکھ دیا ہے اور وہ زمین میں نکلتے ہیں اور اس کے لیے حلال رزق کھاتے ہیں اور وہ بغیر حساب کے پورا پورا رزق لیتا ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجاتی ہے۔ حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے ذھبی نے کہا بلکہ حدیث منکر ہے یا موضوع ہے اس میں عمرو بن قطنی ہے اور وہ متروک ہے۔ (17) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور معقل بن یسار ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارا رب کہتا ہے اے آدم کے بیٹے ! تو فارغ ہوجا میری عبادت کے لیے میں تیرے دل کو غنی سے بھر دوں گا اور تیرے ہاتھوں کو رزق سے بھر دوں گا اے آدم کے بیٹے ! مجھ سے دور نہ ہو میں بھر دوں گا تیرے دل کو فقر سے اور تیرے ہاتھوں کو کام میں۔ (18) الحکیم الترمذی نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ جو شخص مجھ پر اعتماد کرتا ہے میری مخلوق کو چھوڑ کر تو میں آسمانوں اور زمینوں کو اس کے بارے میں خفیہ تدبیریں کرتے ہیں مگر میں اس کے لیے اس سے نکلنے کی تدبیر کرتا ہوں اور جو بندہ مخلوق پر اعتماد کرتا ہے مجھے چھوڑ کر تو میں اس کے سامنے سے آسمان اسباب کو ختم کردیتا ہوں اور ہوا کو اس کے قدموں کے نیچے سے نکال دیتا ہوں۔ (19) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنے سارے مقاصد کو ایک مقصد بنا لیا تو اللہ تعالیٰ کافی ہوجاتا ہے اس کے دنیا و آخرت کے مقاصد کے لیے اور جس شخص کو مقاصد نے گھیر لیا ہو تو اللہ تعالیٰ پرواہ نہیں کرتے کہ وہ دنیا کی جس وادی میں ہلاک ہوجائے۔
Top