Dure-Mansoor - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو ! اللہ کی نعمت جو تمہیں ملی ہے اسے یاد کرو جبکہ تمہارے پاس لشکر آگئے سو ہم نے ان پر ہوا بھیج دیا اور لشکر بھیج دئیے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور اللہ ان کاموں کو دیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو
غزوہ احزاب کا تذکرہ 1۔ الحاکم وصححہ وابن مردویہ وابن عساکر وابو نعیم والبیہقی کلاہما فی الدلائل میں حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے احزاب کی رات کو دیکھا اور ہم صف باندھے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے اور ابو سفیان اور اس کے لشکر ہمارے اوپر تھے اور قبیلہ قریظہ کے یہودی ہماری جانب تھے ہم ان سے ڈر رہے تھے اپنے بچوں کے بارے میں ہم ایسی سخت اندھیری رات کبھی نہیں آئی اور نہ اس سے زیادہ تیز ہواوالی تھی اور ا سہوا کی آوازیں بجلی کڑک کی طرح تھیں اور یہ ایسا اندھیرا تھا کوئی اس میں سے اپنی انگلی کو نہیں دیکھ رہا تھا اور منافقوں نے نبی ﷺ سے اجازت لینا شروع کی اور کہتے تھے کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں اور وہ غیر محفوظ نہیں تھے ان میں سے کسی نے بھی اجازت نہیں لی تو اس کو اجازت دے دی گئی وہ کھسک جاتے تھے جبکہ ہماری تعداد تین سو کے قریب تھی کہ رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ایک آدمی کے پاس یہاں تک کہ میرے پاس سے گزرے میرے پاس دشمن سے بچاؤ کا کوئی سامان نہ تھا اور نہ سردی سے بچاؤ کا کوئی جبکہ مگر ایک چادر میری بیوی کی تھی وہ میرے پاس تھی اور وہ چادر میرے گھٹنوں سے نیچے نہیں ہوتی آپ میرے پاس تشریف لائے اور میں اپنے گھٹنوں میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا یہ کون ہے میں نے کہا حذیفہ ہوں میں زمین کی طرف سمٹ گیا میں نے عرض کیا ہا یا رسول اللہ کیونکہ کھڑا ہونا مجھے پسند نہ تھا آپ نے فرمایا کھڑا ہوجاؤ میں کھڑا ہوا آپ نے فرمایا قوم کے بارے میں ایک اطلاع ہے جاؤ حقیق خبر لے آؤ حذیفہ نے کہا اور میں قوم میں سے سب سے زیادہ ڈرپوک تھا اور ان میں سخت ٹھنڈک محسوس کرنے والا تھا میں باہر نکلا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ اس کی حفاظت فرما اس کے آگے سے اس کے پیچھے سے اس کے دائیں سے اس کے بائیں سے اور اس کے اوپر سے اور اس کے نیچے سے حذیفہ نے کہا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے کوئی گھبراہٹ اور ٹھنڈک کسی پیٹ میں پیدا نہیں فرمائی مگر وہ میرے پیٹ سے نکل گئی میں ان میں سے کسی چیز کو نہی پاتا تھا جب میں لوٹا تو آپ نے فرمایا اے حذیفہ میں کوئی بات نہ کرتا یہاں تک کہ تم میرے پاس آجاؤ میں اپنے پڑاؤ سے نکلا یہاں تک کہ جب یہ دشمن کے لشکر کے قریب ہوا میں نے آگ کی روشنی میں دیکھا ان کے لیے جلائی گئی تھی کہ ایک فقرہ موٹے جسم کا آدمی ہے یہ جو آگ میں ہاتھ تاپ رہا ہے اور آگ پر ہاتھ مارتا ہے اور کہہ رہا ہے کوچ کوچ جلدی روانہ ہوجاؤ پھر وہ لشکر میں داخل ہوا اچانک لوگوں میں بنو عامر کے آدمی تھے وہ بھی کہہ رہے تھے کوچ کوچ اے آل عامر تمہارے لیے اب ٹھہرنا نہیں اور جب ان کے لشکر میں کوچ ہوا اور تو ان کا لشکر ایک بالشت بھی چلا تھا اللہ کی قسم میں نے ان کے کجاوی کی آوازیں سن رہا تھا اور ان کے درمیان سخت ہوا تھی جو ان کو پتھر مار رہی تھی پھر میں نبی ﷺ کی طرف نکلا جب میں آدھا راستہ یا اس سے زائد طے کرچکا تھا تو بیس کے قریب شہسوار تھے پگڑی باندھے ہوئے انہوں نے کہا اپنے نبی کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف ہے میں رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹا اور آپ ایک چادر میں لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ پر جب کوئی مشکل گھڑی پیش آتی تھی تو آپ نماز پڑھتے تھے میں نے آپ کو قوم کی صورتحال بتائی کہ میں نے ان کو کوچ کرتے ہوئے چھوڑا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت یا ایہا الذین اٰمنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذا جاء تکم جنود اے ایمان والوں تم یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر ہے جب اچانک تمہارے پاس لشکر آگئے۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کی اطاعت ووفاداری 2۔ الفریابی وابن عساکر نے ابراہیم تیمی رحمۃ اللہ سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں اگر رسول اللہ ﷺ کو پاؤں تو میں ان کو سوار کرلوں گا اور میں ایسا ضرور کروں گا حذیفہ ؓ نے فرمایا میں نے احزاب کی رات کو دیکھا اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں اور رسول اللہ ﷺ سخت ٹھنڈی رات میں نماز پڑھ رہے اس جیسی ٹھنڈک نہ اس سے پہلے تھی اور نہ اس کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا آپ نے فرمایا کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو ان کافروں کی طرف جائے اور ان کی خبر ہمارے پاس لے آئے کہ اس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے تو ہم میں سے کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا اور سب چپ ہوگئے۔ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا تو لوگ خاموش رہے پھر آپ نے فرمایا اے ابوبکر عرض کیا میں اللہ کے رسول سے بخشش کا خواستگار ہوں۔ عرض کیا اگر آپ چاہیں تو میں چلا جاتا ہوں پھر فرمایا اے عمر حضرت عمر نے عرض کیا میں اللہ کے رسول سے بخشش کا خواستگار ہوں۔ پھر فرمایا اے حذیفہ میں نے عرض کیا میں حاضر ہوں میں کھڑا ہوا یہاں تک کہ میں آپ کے پاس آیا اور میرے دونوں پہلو سردی سے کپکپا رہے تھے۔ آپ نے میرے سر اور چہرے پر ہاتھ پھیرا پھر فرمایا اس قوم کے پاس جاؤ یہاں تک کہ ہمارے پاس ان کی خبر لے آؤ کسی سے اس وقت تک بات نہ کرنا یہاں تک کہ میرے پاس آجائے فرمایا اے اللہ اس کی حفاظت فرما اس کے آگے سے اس کے پیچھے سے اور دائیں اور بائیں سے اور اوپر نیچے سے یہاں تک کہ لوٹ آئے فلاں نے کہا اس کا بھیجنا مجھے زیادہ محبوب تھا دنیا اور مافیہا سے حذیفہ نے کہا کہ میں چلا اور میں اس طرح سے چل رہا تھا جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں پھر میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہوا بھیج دی ہے جس نے اس کے خیموں کی رسیاں توڑ دی ہیں اور ان کے گھوڑوں کو بھگا دیا اور ان کے ہر چیز کو تباہ و برباد کردیا ابو سفیان بیٹھا ہوا آگ تاپ رہا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے ایک تیر لیا اور اپنی کمان پر چڑھا یا اور میں پھینکنے والا تھا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی بات یاد آگئی کہ واپس آنے تک کسی میں سے بات نہ کرنا پھر میں نے اپنے تیر کو ترکش میں رکھ دیا قوم میں سے ایک آدمی نے کہا خبردار تم میں دشمن کا جاسوس ہے ہر ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑا میں نے بھی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کا ہاتھ پکڑ ا میں نے کہا تو کون ہے ؟ اس نے کہا سبحان اللہ تو مجھے نہیں جانتا میں فلاں بن فلاں ہوں اور وہ ہوازن میں سے ایک آدمی تھا میں رسول اللہ ﷺ کی طرف واپس لوٹا اور آپ کو خبر دی جب میں نے آپ کو خبر دی تو آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ رات کے اندھیرے میں آپ کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے اور مجھ سے گرمی چلی گئی رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے قریب کیا اور میں آپ کے قدموں کے قریب ہوگیا اور آپ نے اپنے کپڑے مبارک کا ایک کنارہ مجھ پر ڈال دیا اور میں نے اپنے پیٹ اور اپنے سینے کو آپ کے قدموں کے ساتھ چمٹا لیا جب صبح ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے لشکروں کو شکست دے دی اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے آیت فارسلنا علیہم ریحا وجنودا لم تروہا اور ہم نے ان پر ہوا بھیج دی اور ایسے لشکر جن کو تم نے نہیں دیکھا۔ 3۔ ابن ابی حاتم وابن جریر وابن مردویہ والبیہقی فی الدلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت یا ایہا الذین اٰمنو اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذجاء کم کنود اے ایمان والو یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تم پر ہے جب تمہارے پاس لشکر چلے آئے فرمایا کہ یہ ابو سفیان کا دن یعنی احزاب کا دن تھا۔ 4۔ احمد وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ خندق کے دن ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کوئی ایسی دعا ہے جو ہم کریں کہ کلیجے منہ کو آلگے ہیں ؟ فرمایا ہاں تم یوں کہا آیت اللہم استرعوراتنا واٰمن روعاتنا، اے اللہ ہماری بےپردگیوں پر پردہ ڈال دے اور ہمارے خوفوں کو امن میں بدل دے۔ تو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے چہروں پر ہوا سے ضرب لگائی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہوا کے ذریعہ شکست دی۔ 5۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے العظمۃ میں والبیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اذ جاء تکم جنود میں جنود سے مراد قبلوں عیینہ بن بدر ابو سفیان اور قریظہ ہیں آیت فارسلنا علیہم ریحا یعنی الصبا کی ہوا جو خندق کے دن لشکروں پر بھیجی گئی یہاں تک کہ اس ہوا نے ان کی ہانڈیوں کو الٹ دیا اور ان کے خیموں کو اکھیڑ دیا اور ان کو بھاگ جانے پر مجبور کردیا آیت جنودا سے مراد فرشتے ہیں اور فرمایا کہ اس دن فرشتوں نے قتال نہیں کیا۔ 6۔ ابن جریر وابن ابی حاتم فی الکنی وابن مردویہ وابو شیخ فی العظمۃ و ابونعیم نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب احزاب کی رات تھی تو ہوا شمال کی جانب سے جنوب کی طرف چلی اور اس نے کہا چلو اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرو جنوبی ہوا نے کہا کہ میں رات کو نہیں چلتی تو اس پر اللہ تعالیٰ غصے ہوئے اور اس کو بانجھ بنادیا اور ان کے خیموں کی رسیوں کو کاٹ دیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صبا کی ہوا سے میری مدد کی گئی۔ دبور سے قوم عاد ہلاک کی گئی اس کو فرمایا فارسلنا علیہم ریحا وجنودا لم تروہا۔ 7۔ البخاری ومسلم والنسائی وابن مردویہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب دن کے شروع میں جنگ نہ ہو تو جنگ کو موخر کردو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے اور ہوا چلنے لگے۔ 8۔ ابن ابی شیبہ والبخاری والنسائی وابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے دلائل میں عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آیت اذ جاء و کم من فوقکم ومن اسفل منکم غزوہ خندق کے بارے میں نازل ہوئی۔ فارس وروم کی فتح بشارت 9۔ ابن سعد وابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ وابو نعیم والبیہقی نے دلائل میں کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف المزنی رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ داد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کا نشانہ لگایا ہمارے لیے خندق میں سے ایک سفید گول چٹان نکل آئی ہماری گینتیاں ٹوٹ گئیں اور ہم پر مشقت پڑگئی ہم نے رسول اللہ ﷺ کو شکایت کی تو آپ نے سلمان سے کدال لیا اور اس چٹان کو ایک ضرب لگائی اور اس کو توڑ دیا اس میں سے آگ نکلی جس نے مدینہ کے دنوں کے درمیانی حصہ کو روشن کردیا گویا ایسا ہوا کہ تاریک رات میں چراغ و رسول اللہ ﷺ نے اللہ اکبر کہا تو مسلمانوں نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے اس کو دوسری ضرب لگائی اس نے اس چٹان کو ٹکڑے کردیا اس میں ایک چمک نکلی جس نے درمیانی حصہ کو روشن کردیا آپ نے کہا تو مسلمان نے بھی اللہ اکبر کہا پھر آپ نے اس کو تیسری ضرب لگائی جس نے اس چٹان کو توڑدیا اور اس میں سے ایک چمک نکلی جس نے لابتین کے درمیانی حصہ کو روشن کردیا آپ نے اللہ اکبر کہا تو مسلمانوں نے اللہ اکبر کہا ہم نے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا میرے لیے پہلی ضرب میں حیرہ اور مدائن کسری کے محلات روشن کیے گئے گویا کہ وہ کتوں کی داڑھیں ہیں مجھے جبرئیل نے بتایا کہ میری امت ان پر غالب آئے گی اور دوسری ضرب میں میرے لیے روم کے سرخ محلات روشن کیے گئے گویا کہ وہ کتوں کی داڑھیں ہیں اور مجھے جبرائیل نے بتایا کہ میری امت ان پر غالب آئے گی اور تیسری ضرب میں میرے لیے صنعاء کے محلات روشن ہوگئے گویا کہ وہ کتوں کی داڑھیں ہیں اور مجھے جبرئیل نے بتایا کہ میری امت ان پر غالب آئے گی تمہیں کامیابی کی بشارت ہو تو مسلمان خوش ہوگے اور انہوں نے کہا سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں یہ وعدہ سچا ہے کیونکہ ہماری مدد کا وعدہ حصر کے بعد ہے لشکر چڑھ آئے تو مسلمانوں نے کہا ہذا ما وعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ وما زادہم الا ایمان وتسلیمایہ وہی ہے جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا اور ان کے ایمان اور تسلیم کو اور زیادہ کردیا اور منافقوں نے کہا خوش نہ ہو کہ تم سے باتیں کرتا ہے وعدے کرتا ہے اور تم کو جھوٹی آرزویں دلاتا ہے وہ تم کو خبر دیتا ہے کہ وہ یثرب میں بیٹھ کر حیرہ اور مدائن کسری کے محلات دیکھتا ہے کہ وہ تمہارے لیے فتح ہوں گے۔ حالانکہ تم خندق کھود رہے ہو اور تم طاقت نہیں رکھتے سامنے آکر جنگ کرنے کی تو قرآن مجید نازل ہو آیت واذ یقول المنفقون والذین فی قلوبہم مرض ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا۔ اور جبکہ منافق کہہ رہے تھے اور وہ لوگ بھی جن کے دلوں میں مرض تھا کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو وعدہ کیا تھا وہ دھوکہ تھا۔ 10۔ ابن اسحاق وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خندق کے متعلق آیات کو نازل فرمایا اور مسلمان پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ برے گمان کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو کافی ہوگی ان کے دشمن کے مقابلے میں اور اس گفتگو کو بھی کافی ہوگیا جو منافقوں نے کی فرمایا آیت یا ایہا الذین اٰمنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جاء تکم جنود فارسلنا علیہم ریحا وجنودا لم تروھا اور یہ لشکر تھے جو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے آئے وہ بنو غطفان بنو اسد اور بنو سلیم تھے اور وہ لشکر جو اللہ تعالیٰ نے ان پر لڑنے کے لیے بھیجے وہ فرشتے تھے تو فرمایا اذ جاء وکم من فوقکم ومن افسل منکم جب لشکر آئے تمہارے پاس تمہارے اوپر اور تمہارے نیچے سے وہ لوگ جو ان کے پاس ان کے اوپر کے راستوں سے آئے وہ بنو قریظہ تھے اور وہ لوگ جو ان کے پاس ان کے نیچے کے راستوں سے آئے وہ قریش اسد اور غطفان کے لشکر تھے پھر فرمایا آیت ہنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدید واذ یقول المنفقون والذین فی قلوبہم مرض ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا۔ اس موقع پر مومنوں کا امتحان لیا گیا اور انکو سخت جھنجھوڑ ڈالا اور جبکہ منافق کہہ رہے تھے اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا نفاق کا کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ کیا تھا وہ دھوکہ تھ امعتب بن قشیر اور جو اس کی رائے پر تھے انہوں نے یہ بات کہی تھی آیت وزا قالت طائفۃ منہم یا اہل یثرب لا مقام لکم فارجعوا ویستاذن فریق منہم النبی اور جبکہ منافقوں کی ایک جماعت نے کہا اے یثرب والو تمہارے یہاں قیام کا کوئی موقعہ نہیں اس لیے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ اور ان میں سے ایک جماعت نبی سے اجازت مانگ رہی تھی اوس بن قیظی اور جو اس کی رائے پر تھے انہوں یہ بات کہی تھی پھر فرمایا آیت ولو دخلت علیہم من اقطارہا سے لے کر آیت لاتمتعون الا قلیلا۔ پھر اہل ایمان کے یقین کا ذکر فرمایا جب ان پر لشکر حملہ آور ہوئے اور انہوں نے ان کو گھیر لیا اور بنو قریظہ نے مشرکین کی مدد کی مسلمانوں پر مصیبت سخت ہوگئی اور فرمایا ولما رأ المومنون الاحزاب۔ سے لے کر ان اللہ کان غفور رحیما۔ تک اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی شکست کا ذکر فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو کافی ہوگیا اور آیت ورد اللہ الذین کفرو بغیظہم اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ان کے غصے کے ساتھ واپس لوٹادیا۔ 11۔ ابن اسحاق وابن جریر وابن المنذر والبیہقی نے دلائل میں عروہ بن زبیر اور محمد بن کعب قرطی رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ معتب بن قشیر نے کہا کہ محمد ﷺ خیال کرتے ہیں کہ وہ کسری اور قیصر کے خزانوں میں سے کھائیں گے جبکہ ہم میں سے کوئی ایک بھی امن سے قضائے حاجت کے لیے نہیں جاسکتا اور اوس بن قیظی نے بنوحارث کی ایک جماعت میں کہا آیت ان بیوتنا عورۃ کہ ہمارے گھر اکیلے ہیں جو مدینہ منورہ سے باہر تھے ہمارے لیے اجازت دیجیے کہ ہم اپنی عورتوں اپنی بیٹوں اور اپنی اولاد کی طرف لوٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ آیت نازل فرمائی جب وہ اس آزمائش سے فارغ ہوگئے جس میں وہ مبتلا تھے اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کو ان پر یاد دلایا جو ان پر کیں اور یہ بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے ان کے دشمنوں کے لیے کافی ہوگیا جبکہ ایمان والوں کو اس بارے میں براگمان ہوا تھا اور ان باتوں کا ذکر کیا جو منافقوں نے کی تھیں فرمایا آیت یا ایہا الذین اٰمنوا اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جاء تکم جنود فارسلنا علیہم ریحا وجنودا لم تروہا اور یہ لشکر قریش غطفان اور بنو قریظہ کے تھے اور وہ لشکر جو ان پر بھیجے گئے ہوا کے ساتھ وہ فرشتے تھے آیت اذجاء وکم من فوقکم سے مراد بنو قریظہ آیت ومن اسفل منکم سے مراد قریش اور غطفان والے تھے آیت ماوعنا اللہ ورسولہ الا غرورا کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے دھوکے کا وعدہ کیا اور یہ بات معتب بن زشیر اور اس کے ساتھیوں سے کہی تھی آیت واذا قالت طائفۃ منہم یا اہل یثرب اور جب کہا ایک جماعت نے ان میں سے اے یثرب والو یہ بات اوس بن قیطی اور جو اس کی قوم میں سے اس کے ساتھ تھے انہوں نے کہی تھی۔ 12۔ ابن ابی شیبہ نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خندق کھودنے کا حکم فرمایا پہاڑ میں سے ہمارے لیے ایک بڑی سخت چٹان سامنے آگئی کہ جس میں کدال نہ داخل ہوتا تھا تو ہم نے اس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف شکایت کی رسول اللہ ﷺ نے اس چٹان کو دیکھا تو ایک کدال لیا اور اپنا کپڑا رکھا اور پڑھا بسم اللہ پھر ایک ضرب لگائی تو اس کا تیسرا حصہ توڑدیا اور آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا مجھے شام کی چابیاں دی گئیں اللہ کی قسم میں اس وقت کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں پھر دوسری ضرب لگائی تو اس کا اور تیسرا حصہ توڑدیا آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا مجھے فارس کی چابیاں دی گئیں اللہ کی قسم میں مدائن کے سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ نے تیسری ضرب لگائی اور بسم اللہ پڑھا تو باقی ماندہ کو بھی توڑدیا آپ نے اللہ اکبر فرمایا اور فرمایا مجھے یمن کی چابیاں دی گئیں۔ اللہ کی قسم میں صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔ 13۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت اذجاء وکم من فوقکم سے مراد عیینہ بن حصن ہے آیت ومن اسفل منکم سے مراد سفیان بن حرب ہے۔ 14۔ ابن ابی شیبہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ آیت اذجاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم یہ واقعہ خندق کے دن ہوا۔ 15۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے آیت اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت احزاب کے دن نازل ہوئی اور رسول اللہ ﷺ کا ایک ماہ تک محاصرہ کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے خندق کھود دی ابو سفیان قریش اور ان کے ساتھیوں کو لے آیا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے عفو (یعنی وہ زمین جو آپ نے کسی کو نہ دی تھی) تک آپہنچا اور عیینہ بن حصن جو بنو بدر سے تعلق رکھتا تھا وہ بنو غطفان اور اس کے ساتھیوں کو لے آیا۔ یہاں تک کہ وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے عفو تک آپہنچے۔ یہودیوں نے ابو سفیان کو لکا اور اس کی مدد کی اللہ تعالیٰ نے ان پر رعب اور ہوا کو بھیج دیا یہ بات بیان کی گئی کہ جب بھی وہ کوئی خیمہ گاڑتے تھے تو اللہ تعالیٰ اس کی رسیوں کو کاٹ دیتے تھے اور جب بھی کسی جانور کو باندھتے تھے تو اللہ تعالیٰ اس کی رسیاں کاٹ دیتے تھے۔ اور جب بھی انہوں نے آگ جلائی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بجھا دیا یہاں تک کہ ہم کو یہ بتایا گیا کہ ہر قبیلہ کا سردار یہ کہتا تھا بنو فلاں میری طرف آجاؤ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس جمع تو کہتا بچاؤ بچاؤ تم اس وقت آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رعب بھیج دیا۔ 16۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت اذ جاء وکم من فوقکم سے مراد ہے عیینہ بن حصن نجد والوں میں سے تھا آیت ومن اسفل منکم سے مراد ہے ابو سفیان بن حرب جو اہل تہامہ میں سے تھا اور اس کے آمنے سامنے قریظہ تھے۔ 17۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت واذزاغت الابصار سے مراد ہے آنکھیں پتھرا گئیں۔ 18۔ عبدالرزاق وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے آیت وبلغت القلوب الحناجر سے مراد ہے کہ اس جگہ سے ان کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ اگر ان سے گلا تنگ نہ ہوتا کہ دل ان سے باہر نکلے تو دل باہر نکل آتے۔ 19۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت وبلغت القلوب الحناجر سے مراد ہے کہ وہ گھبراگئے۔ ابن ابی شیبہ کے لفظ میں یوں ہے اگر دل حرکت کرتے یا زائل ہوتے تو اس کی جان نکل جاتے لیکن تو یہ صرف گھبرانا ہے۔ 20۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت وتظنون باللہ الظنونا سے مراد ہے کہ انہوں نے مختلف گمان کیے منافقوں نے گمان کیا کہ محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب جڑ سے اکھیڑ دئیے جائیں گے (یعنی ان کو بالکل ملیا میٹ کردیا جائے گا) اور مومن یقین رکھتے تھے کہ جو ان سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا ہے وہ حق ہے عنقریب وہ سارے دینوں پر غالب آکر رہے گا۔ منافقین اللہ کے بارے میں مختلف گمان رکھتے تھے 21۔ الفریابی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت وتظنون باللہ الظنونا سے مراد وہ منافق ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختلف گمان رکھتے تھے آیت ہنالک ابتلی المونون سے مراد ہے کہ اس موقعہ پر ایمان والوں کا امتحان ہوا آیت ہنالک ابتلی المومنون یعنی منافقوں نے اپنے نفاق کی باتیں کیں جو ان کے دلوں میں تھا اور مومنوں نے حق اور ایمان کے ساتھ باتیں کی آیت قالو ہذا ما وعدنا اللہ ورسولہ انہوں نے کہا جو ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا ہے وہ حق ہے۔ 22۔ ابن ابی شیبہ والبیہقی نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ نے خندق کھودی تو نبی ﷺ اور مسلمانوں کو سخت مشقت اٹھانی پڑی تین تک اس حال میں رہے کہ کوئی چیز نہیں کھائی یہاں تک کہ نبی ﷺ نے اپنے پیٹ مبارک پر بھوک کی وجہ سے پتھر باندھ لیا۔ 23۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ منافقوں نے احزاب کے دن کہا جب انہوں نے مختلف قبائل کے لشکر دیکھے اور انہوں نے مسلمانوں کو ہر جانب سے گھیر لیا تھا اور وہ اللہ کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے تھے کہنے لگے کہ محمد ﷺ ہم سے فارس اور روم کو ختم کرنے کا وعدہ کرتے تھے حالانکہ ہم یہاں گھیراؤ میں آچکے ہیں یہاں تک کہ ہم اپنی حاجت کے لیے بھی باہر نکل سکتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت واذ یقول المفقون والذین فی قوللوبہم مرض ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرور ا۔ اور جب منافقوں نے اور ان لوگوں نے جن کے دلوں میں مرض ہے کہا کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے دھوکہ کا وعدہ کیا ہے۔ 24۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خندق کھودی قریش کنانہ اور غطفان کے قبائل جمع ہوگئے۔ ابو سفیان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں قریش کا لطیحہ بطور اجرت دے گا وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے فنا میں آ اترے تھے۔ قریش وادی کے نشیب میں اترے تھے اور غطفان ان کی داہنی جانب اور طلحہ الاسدی بنو اسید میں سے ان کی بائیں جانب تھے یہود میں سے بنو قریظہ نے ان کی مدد کی نبی ﷺ کے قتال پر جب وہ نبی ﷺ پر حملہ کرنے کے لیے آئے اور نبی ﷺ نے خندق کھودی اس درمیان کہ آپ اس میں کدال کے ساتھ ضرب لگا رہے تھے تو اچانک وہ کدال ایک چٹان پر آپڑی اس میں سے ایک شعلہ نکلا حضرت سلمان ؓ نے منظر دیکا تو پوچھا یا رسول اللہ میں نے دیکھا کہ ہر ضرب سے ایک شعلہ کی طرح نکلا وہ آسمان کی طرف پھیل گیا آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کو دیکھا ہے عرض کیا ہاں رسول اللہ ! پھر آپ نے فرمایا تمہارے لیے مدائن کے دروازے اور روم کے محلات اور یمن کے شہر کھول دئیے جائیں گے یہ بات نبی ﷺ کے اصحاب میں پھیل گئی اور انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی انصار میں سے ایک آدمی نے کہا جس کو قشیر بن معتب کہا جاتا تھا کہا محمد ﷺ ہمارے لیے یمن کے شہروں اور مدائن کے سفید محلوں اور روم کے محلات کے فتح ہوجانے کا وعدہ کرتے ہیں جبکہ ہم میں سے کوئی اپنی قضائے حاجت کو پورا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا مگر وہ قتل کردیا جاتا ہے اللہ کی قسم یہ دھوکہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت اتاری آیت واذ یقول المنفقون والذین فی قلوبہم مرض ما ودنا اللہ ورسولہ الا غرورا۔
Top