Dure-Mansoor - An-Nisaa : 114
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
نہیں ہے کوئی بھلائی ان کے بہت سے مشوروں میں مگر جو شخص صدقے کا یا اچھی باتوں کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کا حکم دے اور جو شخص یہ کام اللہ کی رضا جوئی کے لئے کرے گا سو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے
(1) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا خیر فی کثیر من نجوہم الا من امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس “ سے مراد ہے کہ جو شخص تیرے پاس آئے اور تجھ سے سرگوشی کرتا ہے اس مسئلہ میں تو اس سے سرگوشی کر اور جو شخص تیرے پاس آئے اور تجھ سے سرگوشی کرتا ہے اس کے علاوہ (کسی دوسرے مسئلہ میں) تو اس سے قطع نظر کر اور اس سے سرگوشی نہ کر۔ (2) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مقاتل بن حبان (رح) سے روایت کیا کہ ” الا من امر بصدقۃ “ میں معروف سے مراد قرض ہے۔ نیکی کے کام کیلئے مشورہ کرنا باعث اجر ہے (3) ترمذی وابن ماجہ وعبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں وابن ابی الدنیا نے الصحت میں وابن المنذر وابن مردویہ بیہقی نے شعب الایمان میں محمد بن عبد اللہ بن یزید بن حنیش (رح) سے روایت کیا کہ ہم سفیان ثوری (رح) کے پاس ان کی عبادت کے لئے آئے ہمارے ساتھ سعید بن حسان مخزومی بھی تھے انہوں نے سفیان سے کہا ہم کو حدیث سناؤ جو تو نے مجھ کو ام صالح سے روایت کی تھی انہوں نے فرمایا مجھ کو بیان کیا ام صالح بن صالح (رح) سے صفیہ بنت شیبہ رحمۃ اللہ علیہا سے (اور) اس نے ام حبیبہ نبی ﷺ کی زوجہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ ابن آدم کی ہر بات اس پر وبال ہے اس لئے فائدہ مند نہیں مگر نیکی کا حکم کرنا یا برائی سے روکنا یا اللہ عزوجل کا ذکر کرنا (یہ سب اعمال اس کے لئے فائدہ مند ہیں) محمد بن یزید نے فرمایا یہ حدیث کتنی سخت ہے سفیان نے فرمایا اس حدیث میں کیا سختی ہے اس کو ایک عورت نے ایک عورت سے بیان کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بھی ہے جس کے ذریعہ تمہارے نبی ﷺ بھیجے گئے کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” لا خیر فی کثیر من نجوہم الا من امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس “ یہ بالکل وہی ہے کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ” یوم یقوم الروھ والملئکۃ صفا لا یتکلمون الا من اذن لہ الرحمن وقال صوابا (38) “ اور یہ بالکل وہی ہے کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” والعصر (1) ان الانسان لفی خسر (2) الا الذین امنوا وعملوا الصلحت وتواصو بالحق وتواصوا بالصبر (3) “ یہ بھی بالکل وہی ہے۔ (4) مسلم و بیہقی نے ابن شریح خدا عی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور دن آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔ (5) بخاری و بیہقی نے سہل بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص مجھ کو ضمانت دے اس چیز کی جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے اور اس چیز کی جو اس کی ٹانگوں کے درمیان ہے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (6) بخاری نے ادب میں بیہقی نے سہل میں سعد سے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ جو چیزیں لوگوں کو جہنم میں داخل کریں گی وہ دو جوف ہیں ایک منہ اور دوسری شرم گاہ۔ (7) مسلم و ترمذی و نسائی وابن ماجہ و بیہقی نے سفیان بن عبد اللہ ثقفی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے ایسے کام کا حکم فرمائیے جس کو اس حالت اسلام میں مضبوطی سے پکڑ لوں آپ نے فرمایا تو کہہ دے کہ میں اللہ کے ساتھ ایمان لے آیا پھر اس پر پکا ہوجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کون سی چیز زیادہ خوف والی ہے کہ جس کا آپ مجھ پر خوف کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس سے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان کو اس کے کنارہ سے پکڑا (کہ اس زبان سے میں زیادہ تم پر خوف کرتا ہوں) ۔ (8) البیہقی نے ابو عمر والشیبانی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو اس گھر کے مالک یعنی عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا سا عمل افضل ہے۔ آپ نے فرمایا نماز اپنے وقت پر ادا کرنا میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل ہے یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا میں نے عرج کیا پھر کون سا عمل ہے یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا اپنی زبان سے لوگوں کو سلامت رکھ پھر میں چپ ہوگیا اگر میں اس کو زیادہ کرتا ہوں تو آپ بھی میرے لئے زیادہ فرماتے ہیں۔ (9) ترمذی اور بیہقی نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی کس چیز میں نجات ہے ؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھ اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور اپنی خطاؤں پر رویا کر۔ (10) بخاری نے اپنی تاریخ میں وابن ابی الدنیا نے الصحت میں اور بیہقی نے اسود بن اصرم محاربی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ ! مجھے نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا کیا تو اپنی زبان کا مالک ہے میں نے عرض کیا اگر میں اپنی زبان کا مالک نہیں تو میں کس چیز کا مالک ہوں ؟ آپ نے فرمایا کیا تو اپنے ہاتھ کا مالک ہے۔ میں نے عرض کیا اگر میں اپنے ہاتھ کا مالک نہیں تو میں کس چیز کا مالک ہوں آپ نے فرمایا اپنی زبان سے سوائے خیر کی بات کے کوئی بات نہ کر اور اپنے ہاتھوں کو نہ بڑھا مگر خیر کی طرف۔ (11) بیہقی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو بات کرے تو فائدے اٹھائے یا چپ رہے تو سلامت رہے۔ (12) بیہقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندہ پر رحم فرمائے جب بات کہے تو فائدہ اٹھائے یا خاموش رہے تو سلامت رہے۔ اکثر گناہ زبان سے سر زد ہوتے ہیں (13) بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ وہ صفا پہاڑی پر تشریف لائے اور فرمایا اے زبان ! خیر کی بات کہے تو فائدہ اٹھائے گی یا خاموش رہے تو سلامت رہے گی اس سے پہلے کہ تو ندامت اٹھائے لوگوں نے کہا اے ابو عبد الرحمن (یہ ان کی کنیت تھی) یہ چیز تم نے اپنے آپ سے کہی ہے یا اس کو سنا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا نہیں بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابن آدم کی اکثر خطائیں اس کی زبان میں ہیں (یعنی زبان سے صادر ہوتی ہیں) ۔ (14) احمد نے الزھد میں و بیہقی نے سعید بن جبیر (رح) وسلم سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ کو اپنی زبان کے کنارے کو پکڑ کر یہ فرماتے ہوئے سنا اے ہماری زبان ! خیر کی بات کہہ فائدہ اٹھائے گی یا بری بات سے خاموش رہ تو نادم ہونے سے پہلے سلامت رہے گی ان کو ایک آدمی نے کہا آپ کو کیا ہوا کہ آپ اپنی زبان کے کنارے کو پکڑ کر اس طرح اور اس طرح فرما رہے تھے ؟ انہوں نے فرمایا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ قیامت کے دن بندہ اپنے زبان سے بڑھ کر کسی سے زیادہ غضبناک نہیں ہوگا۔ (15) ابو یعلی و بیہقی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ بات خوش لگے کہ وہ سلامت رہے تو اس کو چاہئے کہ وہ خاموشی کو لازم پکڑے۔ (16) بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ابوذر سے ملے اور فرمایا کیا میں تجھ نہ بتاؤں دو ایسی چیزوں کے بارے میں جو دوسری کی نسبت زبان پر بڑی ہلکی اور میزان میں بڑی بھاری ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیوں نہیں ضرور بتائیے آپ نے فرمایا لازم پکڑاچھے اخلاق کو اور لمبی خاموشی کو اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے مخلوقات کا علم ان کی مثل نہیں۔ (17) بیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ مجھ کو وصیت فرمائیے آپ نے فرمایا میں تجھ کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تیرے ہر کام کو مزین کر دے گا میں نے عرض کیا اور زیادہ کیجئے فرمایا قرآن کی تلاوت کو اور اللہ کے ذکر کو لازم پکڑ کیونکہ یہ تیرے لئے ذکر ہوگا آسمان میں اور نور ہوگا تیرے لئے زمین میں۔ میں نے عرض کیا اور زیادہ کیجئے آپ نے فرمایا لمبی خاموشی کو لازم پکڑ کیونکہ یہ شیطان کو بھگانے والی ہے اور تیری مدد کرنے والی ہے۔ تیرے دین کے کاموں میں میں نے عرض کیا اور زیادہ کیجئے آپ نے فرمایا زیادہ ہنسنے سے بچ کیونکہ یہ دل کو مردہ کردیتا ہے اور اس سے چہرہ کا نور جاتا رہتا ہے میں نے عرض کیا اور زیادہ کیجئے آپ نے فرمایا حق بات کہے اگرچہ کڑوی ہو میں نے کہا اور زیادہ کیجئے آپ نے فرمایا اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈر۔ میں نے کہا اور زیادہ کیجئے آپ نے فرمایا تجھے روک دے لوگوں سے وہ چیز جو تو اپنی ذات کے بارے میں جانتا ہے۔ علم کے مطابق عمل کرنے والوں کے لئے بشارت (18) بیہقی نے رکب مصری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو اپنے علم کے ساتھ عمل کرتا ہے اور اپنے مال میں سے زیادہ مال کو خرچ کردیتا ہے اور اپنی بات میں زیادہ بات کرنے سے رک جاتا ہے۔ (19) ترمذی و بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو جسم میں سے ہر چیز زبان کو لعنت (یعنی معذرت) کرتے ہوئے کہتی ہے ہم تجھ کو اللہ کی طرح قسم دیتے ہیں کہ اگر تو سیدھی رہے تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (20) احمد نے الزھد میں والنسائی و بیہقی نے زید بن اسلم (رح) سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب، ابوبکر ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے انہوں نے فرمایا اسی نے ہی مجھ کو گھاٹیوں کے راستوں پر ڈالا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جسم میں کوئی حصہ ایسا نہیں جو زبان کی تیزی کی شکایت نہ کرتا ہو۔ (21) بیہقی نے ابو جحیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک کون سے اعمال افضل ہیں ؟ لوگ خاموش رہے کسی نے جواب نہیں دیا پھر فرمایا وہ زبان کی حفاظت ہے۔ (22) بیہقی نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کا خاموش رہنا افضل ہے ساٹھ سال کی عبادت سے۔ (23) بیہقی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک میں تھے لوگوں کو شدید آندھی نے آلیا۔ ( یعنی اتنے زور کی ہوا چلی) کہ لوگ بکھر گئے میں نے آنکھ کھولی تو اچانک میں رسول اللہ ﷺ سے لوگوں کی نسبت زیادہ قریب ہوں میں نے دل میں کہا کہ آج میں اس تنہائی کو ضرور غنیمت جانوں گا (اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا) میں آپ سے قریب ہوگیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جو مجھے جنت کے قریب کر دے یا فرمایا جو جنت میں داخل کر دے اور مجھے آگ سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا تو نے بڑا سوال کیا اور اس کے لئے آسان ہے جس پر اللہ تعالیٰ آسان فرما دیں تو اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنا اور فرض نمازوں کو ادا کر اور فرض زکوٰۃ کو ادا کر اور بیت اللہ کا حج کر اور رمضان کے روزے رکھ اور تو چاہے تو میں تجھ کو خیر کے دروازوں کے بارے میں بتاؤں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے آپ نے فرمایا روزہ ڈھال ہے اور صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ اور کسی بندے کا آدھی رات کو قیام کرنا (یعنی تہجد پڑھنا) اللہ کی رضا کا باعث ہوتا ہے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” تتجافی جنوبہم عن المضاجع “ (السجدہ آیت 16) پھر فرمایا اگر تو چاہے تو میں تجھ کو ہر کام کا سردار اور اس کا ستون اور اس کے کوہان کی چوٹی کے بارے میں بتاؤں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے آپ نے فرمایا ہر کام کا سردار اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے اور ان کے کوہان کی چوٹی جہاد ہے۔ اور اگر تو چاہے تو میں تجھ کو بتاؤں انسانوں کے اعضاء میں سے کون سا عضو اس کا مالک ہے میں نے عرض کیا وہ کیا ہیں یا رسول اللہ آپ نے اپنی انگلی مبارک سے اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا میں نے عرض کیا ہم پکڑے جائیں گے ہر اس بات سے جو ہم بولتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں تجھ پر روئے اے معاذ ! لوگ اپنی زبانوں کے کاٹنے کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ گرائے جائیں گے اور جو تو بات کرتا ہے وہ تجھ پر وبال ہے تیرے لئے (اجر وثواب) ہے۔ (24) بیہقی نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ ہم سے جو پہلے لوگ تھے وہ قرآن مجید کی تلاوت اور لفظ آیت ” امر بالمعروف نھی عن المنکر “ اور زندگی کی ضروری بات کے علاوہ ہر بات کو فضول شمار کرتے تھے اور اس بات کو یاد رکھو کہ تم پر حفاظت کرنے والے ہیں یعنی ” کراما کاتبین “ (اور) ” عن الیمین وعن الشمال قعید (17) ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید “ کیا تم سے کوئی اس بات سے نہیں شرمائے گا کہ اس کا اعمال نامہ (لوگوں میں) پھیلا دیا جائے جو اس کے دن کے شروع میں لکھا گیا اور اس میں کوئی چیز آخرت کے کام میں سے نہ ہو۔ (25) ابن سعد نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ کوئی بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوتا یہاں تک کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے۔ (26) احمد نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی بندے کا ایمان درست نہیں ہوتا جب تک اس کا دل درست نہ ہو ار اس کا دل درست نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو اور جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک اس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (27) عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں والحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ مومن کے اندر اس کی زبان سے بڑھ کر کوئی ٹکڑا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب نہیں کہ اس کے ذریعہ وہ جنت میں داخل ہوگا اور کافر کے اندر اس کی زبان سے بڑھ کر کوئی ٹکڑا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مبغوض نہیں کہ اس کے ذریعہ وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔ (28) احمد نے الزھد میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ بےمقصد بات نہ کر اور اپنی زبان کی اس طرح حفاظت کر جیسے تو اپنے درہموں کی حفاظت کرتا ہے۔ (29) ابن ابی شیبہ واحمد نے الزھد میں سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا اکثر لوگوں کے گناہ اللہ کی نافرمانی میں زیادہ باتیں کرنا ہے۔ (30) احمد نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اکثر لوگوں کے گناہ باطل میں زیادہ گھسنے سے ہیں۔ (31) احمد نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں زمین پر کوئی چیز زبان سے بڑھ کر ایسی نہیں جو زیادہ عرصہ تک قابو میں رکھنے کی محتاج ہو۔ تین موقعوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے (32) ابن عدی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جھوٹ جائز نہیں ہے مگر تین جگہوں میں وہ آدمی جو اپنی بیوی کو راضی کرتا ہے (جھوٹ بول سکتا ہے) اور جنگ میں بھی (جھوٹ بول سکتا ہے) اور لوگوں کے درمیان صلح کرنے میں بھی (جھوٹ بول سکتا ہے) ۔ (33) بیہقی نے نواس بن سمعان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جھوٹ جائز نہیں ہے مگر تین جگہوں میں جنگ میں کیونکہ وہ ایک تدبیر ہوتی ہے اور وہ مرد جو اپنی بیوی کو راضی کرے اور وہ آدمی جو دو کے درمیان صلح کرائے۔ (34) البیہقی نے اسماء بنت یزید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جھوٹ جائز نہیں ہے مگر تین جگہوں میں وہ آدمی جو اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے جھوٹ بول سکتا ہے تاکہ وہ راضی ہوجائے یا لوگوں کے درمیان مصالحت کے لئے یا جنگ میں جھوٹ بولتا ہے۔ لوگوں کے درمیان مصلحت افضل صدقہ ہے (35) البیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابن آدم کا کوئی عمل صدقہ سے افضل نہیں ہے اور آپس میں صلح کرانا اور اچھے اخلاق۔ (36) البیہقی نے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل صدقہ لوگوں کے درمیان مصالحت ہے۔ (37) البیہقی نے ابو ایوب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو ایوب کیا میں تم کو ایسی بات کی خبر نہ دوں کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تیرے اجر کو عظیم کر دے اور اس کے ذریعہ گناہوں کو مٹا دے تو لوگوں میں مصالحت کر رہا ہو جب کہ لوگ آپس میں بغض رکھیں یا آپس میں فساد کریں کیونکہ وہ صدقہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں۔ (38) احمد و بخاری ومسلم وابو داؤد اور ترمذی و نسائی والبیہقی نے ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے جو خیر کا ارادہ کرتا ہے اور خیر کی بات کہتا ہے اور فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو تین باتوں میں رخصت دیتے ہوئے سنا جنگ میں لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں اور مرد کا اپنی بیوی سے بات کرنا یا بیوی کا اپنے شوہر سے بات کرنا۔ (39) احمد ابو داؤد اور ترمذی (نے اس کو صحیح کہا) و بیہقی نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو روزہ، نماز اور صدقہ میں صلح کرانا اور فرمایا آپس میں فساد کرانا مونڈ دینے والی ہے۔ (یعنی ایمان کو مونڈ دیتی ہے) ۔ (40) البیہقی نے ابو ایوب ؓ سے روایت کیا کہ ان کو نبی ﷺ نے فرمایا اے ابو ایوب ! کیا میں تم کو ایسے صدقہ کا نہ بتاؤں جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی ہوتے ہیں عرض کیا ہاں ضرور بتائیے فرمایا لوگوں کے درمیان صلح کرانا جب وہ آپس میں فساد کریں اور ان کے درمیان قرابت پیدا کرنا جب وہ آپس میں دور ہوجائیں۔ (41) البزار نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے ابو ایوب ؓ سے فرمایا میں تم کو تجارت نہ بتاؤں ؟ فرمایا ضرور بتائیے آپ نے فرمایا لوگوں کے درمیان صلح کی کوشش کرنا جب وہ فساد کریں اور ان کے درمیان قربت پیدا کرنا جب وہ آپس میں دور ہوجائیں۔ (42) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن حبیب ثابت (رح) سے روایت کیا کہ میں محمد بن کعب قرظی (رح) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی ان کے پاس آیا قوم نے اس سے کہا تو کہاں تھا اس نے کہا قوم کے درمیان صلح کررہا تھا محمد بن ثابت نے فرمایا تو نے اپنے لئے مجاہدین کا اجر ثابت کرلیا پھر یہ آیت ” لا خیر فی کثیر من نجوہم الا من امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس “۔ (43) ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ ” ومن یفعل ذلک “ کے بارے میں روایت کیا کہ یعنی جس نے صدقہ کیا یا قرضہ دیا یا لوگوں کے درمیان صلح کرائی۔ (44) ابو نصر السجزی نے الابانہ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کے پاس آیا تو نبی ﷺ نے اس سے فرمایا اے دیہاتی ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآن میں اتارا (اور فرمایا) ” لا خیر فی کثیر من نجوہم “ سے لے کر ” نؤتیہ اجرا عظیما “ تک اے دیہاتی اجر عظیم جنت ہے اعرابی نے کہا اللہ تعالیٰ کے لئے ساری تعریفیں ہیں جس نے ہم کو اسلام کی ہدایت دی۔
Top