Dure-Mansoor - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور جب تقسیم کرنے کے موقعہ پر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین حاضر ہوجائیں تو اس میں میں سے ان کو بھی کچھ دے دو ، اور ان سے اچھے طریقہ پر بات کرو
(1) ابن ابی شیبہ و بخاری وابن المنذر وابن جریر وابن ابی حاتم اور بیہقی نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ (یہ آیت) ” واذا حضر القسمۃ اولوا القربی والیتمی والمسکین “ محکم ہے اور منسوخ نہیں ہے۔ (2) ابن جریر وابن المنذر نے مقسم کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا حضر القسمۃ “ (یہ آیت) محکم ہے اور اس پر عمل کیا جائے گا۔ (3) ابن ابی شیبہ نے وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حطان بن عبدا اللہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابو موسیٰ ؓ نے اس آیت کے مطابق فیصلہ کیا۔ (4) سعید بن جبیر وابن جریر وابن المنذر نے یحییٰ بن یعمر (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” تین آیات جو مدنی ہیں اور محکم ہیں بہت لوگوں نے ان کو ضائع کردیا (پہلی آیت) ” واذا حضر القسمۃ “ اور آیت استئذان ” والذین لم یبلغوا الحلم منکم “ اور تیسری آیت ” انا خلقنکم من ذکر وانثی “۔ (5) سعید بن منصور وعبد بن حمید والبخاری و ابوداؤد نے اپنی ناسخ میں وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم اور بیہقی نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ کردی گئی یعنی لفظ آیت ” واذا حضر القسمۃ “ اور یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اللہ کی قسم ! لیکن ان حکموں میں سے ہے جن کے ساتھ (عمل کرنے میں) لاپروائی کرتے ہیں۔ والی دو قسم پر ہیں ایک وہ والی ہے جو وارث ہوتا یہ وہ ہے جو کچھ کھانا اور کپڑے دے دیتا ہے اور دوسرا وہ والی ہے جو وارث نہیں ہوتا وہ اچھی بات کرتا ہے وہ کہتا ہے یہ یتیم کا مال ہے اس میں کسی کا کوئی حق نہیں۔ (6) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں وابن جریر اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا حضر القسمۃ اولوا القربی “ سے مراد ہے کہ کچھ مال ان کو دے دیا جائے اگر مال میں کچھ کمی ہے تو ان سے معذرت کرلی جائے اور یہی ” قولا معروفا “ ہے۔ (7) ابن المنذر نے عمر بنت عبد الرحمن بن عبد اللہ عبد الرحمن بن ابی بکر (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب ان کے باپ کی میراث تقسیم کرنے لگے تو انہوں نے ایک بکری کا حکم فرمایا جو بن مال سے خریدی گئی کھانا پکایا گیا یہ بات حضرت عائشہ ؓ کو ذکر کی گئی تو انہوں نے فرمایا انہوں نے کتاب پر عمل کیا یہ آیت منسوخ نہیں کی گئی۔ غیر وارث رشتہ دار کو کچھ دے دیا جائے (8) ابن جریر وابن ابی حاتم ونحاس نے اپنی ناسخ میں علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم فرمایا کہ جب میراث تقسیم کریں تو اپنے رشتہ داروں پر اور اپنے یتیموں پر اور اپنے مسکینوں پر صلہ رحمی کریں اگر ان کے لیے وصیت کی گئی ہو اور اگر ان کے لیے وصیت نہیں کی گئی تو وراثت میں سے ان کو کچھ دے دیں۔ (9) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ حکم فرائض کے نازل ہونے سے پہلے تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرائض کو نازل فرمایا تو ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا اور صدقہ صرف اس کے لیے مخصوص کردیا گیا جس کا متوفی نام لے۔ (10) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں وابن ابی حاتم نے عطا کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذا حضر القسمۃ “ کا حکم میراث والی آیت سے منسوخ ہے اب ہر انسان کے لیے ایک حصہ مقرر کردیا گیا ترکہ میں سے تھوڑا ہے یا زیادہ۔ (11) عبد الرزاق وعبد بن حمید و ابوداؤد نے اپنی ناسخ میں ابن جریر وابن ابی حاتم اور بیہقی اور ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ اسماء بنت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق اور قاسم بن محمد ابی بکر ؓ سے ان کو خبر دی کہ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر (رح) نے اپنے والد عبد الرحمن کی میراث تقسیم کی اور حضرت عائشہ ؓ زندہ تھیں دونوں نے بیان کیا کہ انہوں نے گھر میں موجود نہ کسی مسکین کو چھوڑا نہ کسی رشتہ دار کو چھوڑا مگر اس کو اپنے باپ کی میراث میں سے عطا کردیا اور یہ آیت پڑھی ” واذا حضر القسمۃ “ قاسم نے فرمایا کہ میں نے یہ بات ابن عباس ؓ کو بتائی تو انہوں نے فرمایا جو انہوں نے کیا ہے حکم اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ حکم وصیت کی صورت میں ہے بلاشبہ یہ آیت وصیت کے بارے میں ہے وصیت سے یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ ان کے لیے وصیت کرے۔ (12) نحاس نے اپنی ناسخ میں مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اس (آیت ) ” واذا حضر القسمۃ “ (کے حکم کو) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم “ نے منسوخ کردیا۔ (13) عبد الرزاق، ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم ونحاس اور بیہقی نے سعید بن المسیب (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے فرائض (کی آیت) سے پہلے (اس کا حکم) تھا جو آدمی ترکہ میں مال چھوڑتا ہے (اس کے) مال میں سے یتیم، فقیر، مسکین اور رشتہ داروں کو دیا جاتا تھا جب وہ تقسیم کے وقت حاضر ہوتے تھے پھر اس (آیت کے حکم) کو میراث والی آیت نے منسوخ کردیا اب اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کے حق کو مقرر فرمادیا اب اس کی وصیت ہوگی اس کے مال میں سے کہ جس کے ساتھ وہ وصیت کر جائے اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے اگر چاہے۔ (14) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اگر حاضر ہونے والے بڑے ہوں تو کچھ مال ان کو دے دیا جائے اگر وہ چھوٹے ہیں تو ان سے معذرت کرلی جائے اسی کو فرمایا لفظ آیت ” قولا معروفا “۔ (15) عبد بن حمید نے ابو صالح (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ لوگ کچھ مال اپنے قریبی رشتہ داروں کو دے دیتے تھے یہاں تک کہ فرائض کے احکام نازل ہوگئے۔ (16) ابن ابی شیبہ نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ اس کو میراث کی آیت نے منسوخ کردیا۔
Top