Dure-Mansoor - An-Nisaa : 93
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
وَمَنْ : اور جو کوئی يَّقْتُلْ : قتل کردے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان کو مُّتَعَمِّدًا : دانستہ (قصداً ) فَجَزَآؤُهٗ : تو اس کی سزا جَهَنَّمُ : جہنم خٰلِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَغَضِبَ اللّٰهُ : اور اللہ کا غضب عَلَيْهِ : اس پر وَلَعَنَهٗ : اور اس کی لعنت وَاَعَدَّ لَهٗ : اور اس کے لیے تیار کر رکھا ہے عَذَابًا : عذاب عَظِيْمًا : بڑا
اور جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کر دے تو اس کی جزاء جہنم ہے اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور اس پر اللہ کی لعنت ہوگی، اور اس کے لئے اللہ نے بڑا عذاب تیار فرمایا ہے
(1) ابن جریج وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ انصار میں سے ایک آدمی نے مقیس بن ضبابہ کے بھائی کو قتل کردیا نبی ﷺ نے اس کو دیت دی تو اس نے قبول کرلی پھر وہ اپنے بھائی کے قاتل پر کود پڑا اور اس کو قتل کردیا ابن جریج نے کہا اور دوسرے علماء نے کہا کہ نبی ﷺ نے اس کی دیت بنو نجار پر رکھ دی پھر حضور ﷺ نے مقیس اور بنو مہر کے ایک آدمی کو کسی کام کے لئے بھیجا مقیس نے فہری کو اٹھایا کیونکہ وہ سخت آدمی تھا اس کو زمین پر گرا کر اس کے سر کو دو پتھروں کے درمیان کچل دیا یہ اشعار پڑھنے لگا۔ قتلت بہ فھر او حملت عقلہ سراۃ بنی النجار ارباب قارع ترجمہ : میں نے فہر نامی شخص کو قتل کیا اور اس کی دیت کو قلعوں والے بنی نجار کے سرداروں پر لازم کیا۔ نبی ﷺ کو اس بات کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا میں خیال کرتا ہوں کہ اس نے بہت بڑا ظلم کیا اللہ کی قسم اگر ایسا ہوتا میں اس کو حل میں اور نہ حرم میں اور نہ صلح میں اور نہ جنگ میں اس کو پناہ دوں گا پھر وہ فتح مکہ کے دن قتل کردیا گیا ان جریج نے فرمایا اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “۔ عمدا کسی مسلمان کو قتل کرنے کی سزا جہنم ہے (2) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت مقیس بن ضبابہ کنانی کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ اس وجہ سے کہ وہ اسلام لایا اور اس کا بھائی ہشام بن ضبابہ بھی اور دونوں مدینہ منورہ میں رہتے تھے قیس نے اپنے بھائی ہشام کو ایک انصار کے قبیلہ بنو نجار میں قتل کیا ہوا پایا وہ نبی ﷺ کے پاس گیا اور ان کا یہ واقعہ بتایا رسول اللہ ﷺ نے قیس کے ایک قبیلہ بنو فہر میں سے ایک آدمی بنو نجار کے پاس بھیجا اور اس کے ساتھ مقیس تھا بنو نجار کے گھر ان دنوں قباء میں تھے (اور کہا بھیجا) کہ مقیس کو اس کے بھائی کے قاتل دے دو اگر تم جانتے ہو وگرنہ اس کو دیت دے دو جب ان کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ کے رسول کا پیغام سنا اور اس کی اطاعت کی اللہ کی قسم ہم قاتل کو نہیں جانتے لیکن ہم ان کو دیت دیں گے تو انہوں نے مقیس کو اس کے بھائی کی دیت کے سواونٹ اس کو دے دئیے جب مقیس اور فہری قباء سے مدینہ منورہ کی طرف واپس لوٹے تو مقیس نے فہری پر حملہ کردیا جو رسول اللہ ﷺ کے قاصل تھے اور اس کو قتل کردیا اور اسلام سے پھر گیا اور اس میں سے ایک اونت پر سوار ہو کر باقی اونٹوں کو ہانک کر مکہ مکرمہ جا پہنچا اور وہ اپنے لئے یہ شعر کہتا تھا۔ قتلت بہ فھر او حملت عقلہ سراۃ بنی النجار ارباب قارع ترجمہ : میں نے فہر (نامی شخص) کو قتل کیا اور اس کی دیت کو قلعون والے بنی نجار کے سرداروں پر لازم کیا۔ وادرکت ثاری واضطجعت موسدا وکنت الی الاوثان اول راجع ترجمہ : اور میں نے اپنا بدلہ پا لیا اور تکیہ لگا کر لیٹ گیا اور بتوں کی طرف اول رجوع کرنے والا ہوگیا۔ یہ آیت اس کے بعد نازل ہوئی کہ اس نے ناحق قتل کیا دیت لی اسلام سے مرتد ہوا وہ (یعنی مقیس) اسلام سے پھر گیا اور کافر ہو کر مکہ چلا گیا اسی پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “۔ (3) البیہقی نے شعب الایمان میں (کلی کے طریقہ سے) ابو صالح سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ (4) عبد بن حمید و بخاری ومسلم وابو داؤد و نسائی وابن جریر و طبرانی نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اہل کوفہ نے مومن کے قتل میں اختلاف کیا میں اس بارے میں ابن عباس ؓ کی طرف روانہ ہوا اور ان سے اس بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ یہ آخری آیت ہے جو نازل ہوئی اور اس کو کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا۔ (5) احمد و سعید بن منصور نسائی وابن ماجہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم ونحاس نے اپنی ناسخ میں و طبرانی نے سالم بن ابی جعد کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا مجھے بتائیے کہ ایک آدمی کو ایک آدمی نے جان بوجھ کر قتل کردیا تو انہوں نے فرمایا لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم خلدا فہھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا عظیما “ پھر فرمایا یہ آیت آخرت میں نازل ہوئی کہ اس کو کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے چلے گئے اور رسول اللہ ﷺ کے بعد وحی نازل نہیں ہوئی۔ سوال کیا بتائیے اگر کوئی آدمی توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے پھر وہ ہدایت پالے انہوں نے فرمایا اس کے لئے توبہ کہا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اس کی ماں اس کو گم کرے کہ ایک آدمی نے اگر ایک آدمی کو جان بوجھ کر قتل کیا اس حال میں قیامت کے دن آئے گا کہ اس اپنے قاتل کو قیامت کے دن اپنے داہنے یا بائیں ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہوگا اور اپنا سر دائیں یا بائیں ہاتھ سے پکڑا ہوگا اور اس کی آنتیں خون سے بہتی ہوں گی عرش کے سامنے اور وہ مقتول کہے گا اے میرے رب اپنے بندے سے سوال کیجئے مجھے اس نے کیوں قتل کیا تھا۔ (6) ترمذی نے (اس کو حسن کہا) عمرو بن دینار کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا مقتول اپنے قاتل کو قیامت کے دن اس حال میں لائے گا کہ اس کی پیشانی اور اپنا سر اس کے ہاتھ میں تھا اور اس کی آنتیں خون بہا رہی ہوں گی اور وہ کہے گا اے میرے رب ! مجھے اس نے قتل کیا ہے یہاں تک کہ وہ عرش سے قریب ہوجائے گا لوگوں نے ابن عباس ؓ سے اس کی توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “ تلاوت فرمائی اور فرمایا یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نہ اس کا حکم بدلا گیا تو پھر اس کے لئے تو کہاں ہے۔ (7) عبد بن حمید و بخاری وابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ عبد الرحمن بن ابزی نے مجھ سے فرمایا کہ ابن عباس سے لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اس کو کسی چیز سے منسوخ نہیں کیا اور اس آیت کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “ (الفرقان آیت 68) یہ اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی۔ (8) عبد بن حمید و بخاری وابن جریر وحاکم وابن مردویہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ عبد الرحمن بن زہری سے پوچھا کہ وہ ابن عباس سے ان دونوں آیتوں کا سوال کرے جو نساء میں ہے یعنی ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ آخری آیت تک اور وہ جو فرقان میں ہے ” ومن یفعل ذلک یلق اثاما “ راوی نے کہا میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا جب کوئی آدمی اسلام میں داخل ہوگیا اور شریعت کے احکام کو جان لیا پھر اس نے ایک مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا تو اس کی جزاء جہنم ہوگی اور اس کی توبہ نہیں ہے۔ اور جو آیت سورة فرقان میں ہے جب یہ نازل ہوئی تو مکہ کے مشرکین نے کہا ہم نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اور ہم نے ناحق قتل کئے اور ہم نے برے اعمال کئے تو پھر ہم اسلام کوئی نفع نہ دے گا تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” الا لمن تاب “ (فرقان آیت 70) یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے۔ (9) ابن جریر وابن ابی حاتم نے شہر بن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ سورة فرقان کی اس آیت ” الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا “ کے ایک سال کے بعد نازل ہوئی۔ (10) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “ سورة فرقان کی آیت کے ساٹھ سال کے بعد نازل ہوئی یعنی ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “ سے لے کر ” غفورا رحیما “ تک۔ (11) ابن جریر ونحاس و طبرانی نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا اس شخص کے لئے توبہ ہے جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا ؟ فرمایا نہیں تو میں نے ان پر یہ آیت پڑھی جو سورة فرقان میں ہے ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “ پھر فرمایا یہ آیت مکی ہے جبکہ سورة نساء کی آیت مدنی ہے۔ سورة نساء کی اس آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “ نے اسے منسوخ کردیا۔ (12) عبد الرزاق اور ابن جریر زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ آیت شدیدہ آیت بینہ کے چھ ماہ بعد نازل ہوئی یعنی ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “ کے بعد ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ “ (نازل ہوئی) ۔ (13) سعید بن منصور وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ آیت شدیدہ آیت بینہ کے چھ ماہ بعد نازل ہوئی یعنی لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “ سورة فرقان کی اس آیت ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “ کے چھ ماہ بعد نازل ہوئی۔ (14) ابو داؤد ابن جریر والنحاس و طبرانی وابن مردویہ نے بیہقی نے زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ وہ آیات جو سورة فرقان میں ہیں ان کے چھ ماہ بعد وہ آیات نازل ہوئیں جو سورة نساء میں ہیں۔ (15) طبرانی وابن مردویہ نے زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت جو سورة فرقان میں ہے لفظ آیت ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “ نازل ہوئی ہم نے اس کی نرمی پر تعجب کیا پھر ہم سات ماہ ٹھہرے رہے پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ جو سورة نساء میں ہے ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “ نازل ہوئی۔ (16) عبد الرزاق نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ان دونوں آیتوں کے نزول کے درمیان آٹھ سال کا عرصہ ہے اور سورة نساء والی آیت سورة فرقان والی آیت کے بعد نازل ہوئی۔ (17) سمویہ نے اپنے فوائد میں زید بن ثابت (رح) سے روایت کیا کہ سورة نساء کی یہ آیت سورة نساء کی اس آیت ” ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء “ کے چار ماہ بعد نازل ہوئی۔ مسلمان کا قاتل ملعون ہے (18) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سب سے بڑے گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی جان کو قتل کرنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” فجزاؤہ جہنم خلدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعد لہ عذابا عظیما “۔ (19) عبد بن حمید وابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ دونوں مبہم ہیں اور ایک شرک اور دوسرا قتل۔ (20) عبد بن حمید وابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت محکم ہے اور زیادہ نہیں کرتی مگر شدت یعنی سختی ہے۔ (21) سعید بن منصور وابن المنذر نے کردم سے روایت کیا کہ ابوہریرہ، ابن عباس اور ابن عمر ؓ (تینوں حضرات) سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا تھا تو انہوں نے فرمایا کیا وہ ایسا کرسکتا ہے کہ اس کو موت نہ آئے اور کیا وہ ایسا کرسکتا ہے کہ وہ ایک سرنگ زمین میں بنا لے یا آسمان میں ایک سیڑھی لگا لے یا مقتول کو زندہ کرلے۔ (22) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر سعید بن میناء (رح) سے روایت کیا کہ میں ابوہریرہ ؓ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی آیا اور اس نے مومن کے قاتل کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس کے لئے توبہ ہے تو انہوں نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے۔ (23) ابن المنذر نے ابو رزین کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ مبہم ہے اس کی توبہ کو نہیں جانا گیا۔ (24) عبد بن حمید وابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ اس شخص کے لئے کوئی توبہ نہیں جس نے کسی مومن کو قتل کردیا اور اس حکم کو کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا۔ (25) سعید بن منصور وابن المنذر نے سعید بن میناء (رح) سے روایت کیا کہ میرے ایک ساتھی اور تاجر کے درمیان جھگڑا ہوا میرے ساتھی نے کرسی اٹھائی اور اس آدمی کے سر پردے ماری اور اس کو قتل کردیا پھر نادم ہوا اور کہا میں سب کچھ چھوڑتا ہوں پھرجاتا ہوں اور اس اپنی جان کو اللہ کے راستے میں لگاتا ہوں میں نے کہا ہمارے ساتھ چل ابن عمر ؓ کے پاس ہم ان سے پوچھتے ہیں کیا تیرے لئے کوئی توبہ ہے ؟ ہم دونوں چلے یہاں تک کہ ہم ان کے پاس آئے میں نے ان کو وہ سارا واقعہ بیان کیا پھر میں نے کہا کیا آپ اس کے لئے توبہ کی کوئی راہ پاتے ہیں انہوں نے فرمایا کھاؤ اور پیو اور مجھ سے کھڑا ہوجا میں نے عرض کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا فرمایا یہ جھوٹا ہے تم میں سے ایک آدمی لکڑی کو اٹھا کر مسلمان آدمی کے سر کو مارتا ہے پھر کہتا ہے کہ میں نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا یہ جھوٹ ہے (پھر) اس سے فرمایا کھا اور پی جتنا ہو سکے میں تجھ پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں مجھ سے کھڑا ہوجا (یعنی چلا جا) پھر آپ نے ہم سے مزید کوئی بات نہ کی۔ یہاں تک کہ ہم کھڑے ہوگئے۔ (26) سعید بن منصور نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ مومن کا قتل لٹکا ہوا ہے (کوئی نہیں جانتا کیا ہوگا) ۔ (27) بخاری نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن برابر اپنے دین کی کشادگی میں رہتا ہے جب تک وہ ناحق خون کو نہ بہائے۔ قصدا قتل کو حلال سمجھ کر قتل کرنے والے کی مغفرت نہ ہوگی (28) احمد و نسائی وابن المنذر نے معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر گناہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دین گے مگر وہ آدمی جو کافر ہو کر مرا یا وہ آدمی جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا۔ (29) ابن المنذر نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر گناہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیں گے مگر وہ آدمی جو مشرک ہو کر مرا یا کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردیا۔ (30) ابن المنذر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمہ کے ساتھ مدد کی اس دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہوگا اللہ کی رحمت سے مایوس۔ (31) ابن عدی والبیہقی نے البعث میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کے (ناحق) خون پر آدھے کلمہ سے مدد کی تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا اللہ کی رحمت سے مایوسی۔ (32) ابن المنذر نے ابو عوف (رح) سے روایت کیا کہ جب تو کسی کے بارے میں قرآن میں ” خلودا “ (کا لفظ) سنے تو اس کے لئے کوئی توبہ نہیں۔ (33) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب سے مومن کے قاتل کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے لئے توبہ مقدر کردی جائے تو مجھ پر انکار کیا گیا۔ (34) ابن ابی حاتم والطبرانی وابو القاسم بن بشر نے اپنی امالیہ میں (ضعیف سند کے ساتھ) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہی اس کی جزاء ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کو جزا دے۔ (35) ابن ابی حاتم نے ضحاک کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے یہ قاتل کی جزاء ہے اگر وہ جزاء دے یعنی یہ حکم مومن کے لئے ہے نہ کہ کافر کے لئے اگر اللہ تعالیٰ چاہیں گے تو مومن سے معاف فرما دیں گے اور اگر چاہیں گے تو سزا دیں گے۔ (36) ابن المنذر نے عاصم بن ابی النحود کے طریق سے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فجزاؤہ جہنم “ کے بارے میں روایت کیا کہ جہنم اس کی جزاء ہوگی اگر (اللہ تعالیٰ ) چاہیں گے تو اس کو عذاب دیں گے اور چاہیں گے تو اس بخشش دیں گے۔ (37) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر و بیہقی نے البعث میں ابو مجلز (رح) سے لفظ آیت ” فجزاؤہ جہنم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ اس کی جزا ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کی جزا سے تجاوز کرنا چاہے گا تو ایسا کرے گا۔ (38) ابن المنذر نے عون بن عبد اللہ (رح) سے ” فجزاؤہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ اس کی جزا ہے اگر اللہ تعالیٰ اسے جزا دینا چاہے گا۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابو صالح سے اسی طرح روایت کیا۔ (39) ابن المنذر نے اسماعیل بن ثوبان (رح) سے روایت کیا کہ میں لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا بڑی بیماری سے پہلے جامع مسجد میں میں نے ان کو یہ پڑھتے ہوئے سنا ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ سے لے کر ” عذابا عظیما “ تک مہاجرین اور انصار نے کہا جس نے ایسا کام کیا اس کے لئے یہ آگ واجب ہوگئی یہاں تک کہ یہ آیت ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء “ تو مہاجرین اور انصار نے کہا اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں تو میں خاموش ہوگیا۔ (40) عبد بن حمید وابن المنذر والبیہقی نے البعث میں ہشام بن حسان (رح) سے روایت کیا کہ ہم محمد بن سیرین (رح) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی نے ان سے کہا لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ یہاں تک کہ آیت کو ختم کیا تو محمد غصہ ہوگئے اور فرمایا تم آیت سے ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء “ سے کیوں غافل ہو میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور نکل جاؤ مجھ سے راوی نے کہا تو میں نکل گیا۔ (41) القیس والبیہقی نے البعث میں قریش بن انس (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عمرو بن عبید کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن مجھے لایا جائے گا اور میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں گا اور اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا کہ تو نے ایسا کیوں کیا کہ قاتل آگ میں ہے میں عرض کروں گا آپ ہی نے فرمایا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم “ میں نے عرض کیا گھر میں مجھ سے کوئی چھوٹا نہ تھا مجھ کو بتائیے اگر اللہ تعالیٰ آپ کو فرمائے میں نے یہ بھی فرمایا ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء “ وہ فرماتے تو نے کہاں سے جان لیا کہ میں اس کی مغفرت نہیں کروں گا تو وہ مجھے کوئی جواب نہ دے سکے۔ (42) عبد بن حمید نے ابو اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی عمر کے پاس آیا اور کہا کیا مومن کے لئے توبہ ہے ؟ فرمایا ہاں پھر یہ آیت پڑھی ” حم (1) تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم (2) غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب “ (سورۃ غافر) ۔ (43) عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے مومن کے قاتل کے بارے میں فرمایا کہا جاتا ہے اس کے لئے توبہ ہے جب وہ نادم ہو۔ عبد بن حمید عکرمہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ (44) سعید بن منصور وابن المنذر نے کردم سے اور انہوں نے عبد الرزاق وعبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا میرا حوض بھر گیا اور میں اپنے اونٹوں کا انتظار کرنے لگا (مجھے نیند آگئی) میں نہیں جاگا مگر ایک آدمی اپنی اونٹنی کو لا کر اس حوض کے پاس اتر گیا اور پانی کو بہایا میں گھبرا کر کھڑا ہوا اور میں نے اس کو تلوار سے مارا اور اس کو قتل کردیا تو ابن عباس نے فرمایا یہ اس جیسا (معاملہ) نہیں ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور اس کو توبہ کرنے حکم فرمایا سفیان نے کہا وہ اہل علم تھے جب ان سے پوچھا گیا تو ان (علماء) نے کہا اس کے لئے توبہ نہیں ہے جب آدمی نے یہ کام کرلیا (کہ ایک مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردیا) اور جب کوئی آدمی اس مصیبت کا شکار ہوتا تو وہ کہتے تو نے جھوٹ بولا ہے۔ (45) عبد الرزاق وعبد بن حمید نے عبد اللہ بن جعفر (رح) سے روایت کیا کہ قتل کا کفارہ قتل ہے۔ (46) عبد بن حمید والنحاس نے سعد بن عبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے جو شخص کسی مومن کو قتل کر دے اس کے لئے توبہ ہے (پھر) ایک آدمی ان کے پاس آیا اور پوچھا کیا مومن کو قتل کرنے والے کے لئے توبہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں۔ مگر (اس کے لئے) آگ ہے جب وہ آدمی کھڑا ہوا تو اس کے ہم مجلس لوگوں نے آپ سے کہا کہ ہم کو تو آپ نے ایسا فتوی نہیں دیا تھا (بلکہ) ہم کو یہ فتوی دیا تھا کہ اس شخص کے لئے مقبول توبہ ہے جو کسی مومن کو قتل کر دے پس آج کیا ہوا (کہ ایسا فتوی دے دیا) تو انہوں نے (یعنی ابن عباس ؓ سے فرمایا کہ میں نے یہ خیال کیا کہ یہ آدمی غصہ میں ہے اور کسی مومن کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ ساتھ اس کے پیچھے اٹھے تو ان لوگوں نے اس کو ایسے ہی پایا۔ (47) النحاس نے نافع وسالم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے پوچھا آپ کیا فرماتے ہیں ایسے آدمی کے بارے میں جس نے کسی آدمی کو جان بوجھ کر قتل کردیا انہوں نے پوچھا کیا تو نے اس کو قتل کیا ؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اللہ کی کی طرف توبہ کر تیری توبہ قبول کی جائے گی۔ (48) عبد بن حمید نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ قاتل کے لئے کوئی توبہ نہیں مگر یہ کہ اس سے قصاص لیا جائے یا اسے معاف کردیا جائے یا اس سے دیت لی جائے۔ قتل عمد کی سزاء قصاص ہے (49) عبد بن حمید نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص کسی کو جان بوجھ کر قتل کر دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس سے قصاص لیا جائے یا اس سے معاف کردیا جائے یا اس سے دیت لی جائے اگر ایسا کرلیا تو ہم امید کرتے ہیں کہ اس کا کفارہ ہوگیا اور وہ اپنے رب سے استغفار بھی کرے اگر اس میں سے کچھ بھی ایسا نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے چاہے اس کو بخش دے چاہے اس کو نہ بخشے سفیان نے فرمایا کوئی ایسا شخص تیرے پاس آئے جس نے قتل نہیں کیا تو اس پر سختی کر اور اس کو اجازت نہ دے تاکہ وہ اس عمل سے خارج ہوجائے۔ اور اگر ایسا آدمی سوال کرے جو قتل کرچکا ہے اس کو بتادو شاید کہ وہ توبہ کرلے اور اس کو مایوس نہ کر۔ (50) عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ میں شرک سے توبہ کروں مجھ کو یہ زیادہ محبوب ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے توبہ کروں۔ (51) احمد نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے کہ اس نے کسی چیز کو شریک نہیں بنایا تھا اور اپنے مال کی زکوٰۃ کو ادا کیا تھا دل کی خوشی کے ساتھ ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور اس نے اللہ کے احکام کو سنا اور اطاعت کی تو اس کے لئے جنت ہے۔ اور پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے لئے کوئی کفارہ نہیں اللہ کے مال کے ساتھ شرک کرنا کسی جان کو ناحق قتل کرنا۔ کسی مومن کو بہتان لگانا، جنگ سے بھاگ جانا اور جھوٹی قسم کی جس سے ناحق کسی کا مال لینا چاہتا ہو۔ (52) ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ بیشک ایک آدمی دنیا میں ایک قتل کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ ہزار قتل ہوں گے ابو زرعہ (رح) نے کہا جس طرح اس نے مارا اسی طرح اسے قتل کیا جائے گا۔ (53) ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم و ترمذی و نسائی وابن ماجہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اللہ پر زیادہ آسان ہے ایک مسلمان کے ناحق قتل ہونے سے۔ (54) نسائی ونحاس نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا کا ختم ہوجانا اللہ کے نزدیک زیادہ آسان ہے ایک مسلمان کے ناحق قتل ہونے سے۔ (55) ابن المنذر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک مومن کا قتل زیادہ بڑا ہے اللہ کے نزدیک دنیا کے ختم ہونے سے۔ (56) البیہقی نے شعب میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ایک مسلمان کا قتل ہونا زیادہ بڑا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے ختم ہونے سے۔ (57) ابن عدی و بیہقی نے شعب میں بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک مومن کا قتل ہونا زیادہ بڑا گناہ ہے اللہ کے نزدیک دنیا کے ختم ہونے سے۔ (58) سعید بن منصور و بیہقی نے شعب الایمان میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی برابر اپنے دین کے لحاظ سے گنجائش میں رہتا ہے جب تک اس کی ہتھیلی (کسی مومن کے) خون سے خالی رہتی ہے جب وہ اپنے ہاتھ کو خون حرام میں ڈبو دے تو اس کی حیا چھین لی جاتی ہے۔ مقتول قاتل کو گھسیٹ کر اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر کرے گا (59) بیہقی نے شعب الایمان میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) ایک آدم ی کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے لائے گا اور وہ کہے گا اے میرے رب اس نے مجھے قتل کیا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کو کیوں قتل کیا وہ کہے گا تاکہ عزت تیرے لئے رہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے بیشک وہ میرے لئے ہے اور ایک آدمی دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑ کر لائے گا اور کہے گا اے میرے رب اس نے مجھ کو قتل کیا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں تو نے اس کو کیوں قتل کیا تھا وہ کہے گا میں نے اس کو اس لئے قتل کیا تھا تاکہ فلاں کے لئے عزت ہوجائے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے عزت اس کے لئے نہیں ہے اسے اس کے عوض مار ڈالا جائے گا۔ ابن ابی شیبہ نے عمرو بن شرحبیل (رح) سے موقوفا روایت کی ہے۔ (60) البیہقی نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ قیامت کے دن مقتول کو بٹھا دیا جائے گا جب قاتل اس کے پاس سے گزرے گا جس نے اس کو قتل کیا تھا تو وہ کھڑا ہو کر اس کو پکرے گا اور اس کو لے چلے گا اور کہے گا اے میرے رب ! اس سے پوچھئے اس نے مجھے کیوں قتل تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کو کیوں تو نے قتل کیا تھا ؟ وہ کہے گا مجھے فلاں نے حکم کیا تھا تو پھر قاتل اور حکم کرنے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا۔ ایک مومن کے قتل میں شریک ہونے والے سب لوگ جہنمی ہیں (61) ابو سعید و ابوہریرہ ؓ دونوں سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اگر آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں گرا دے گا۔ (62) ابن عدی بیہقی نے شعب میں والاصبہانی نے ترغیب میں براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ان سب کا ختم ہوجانا اللہ کے نزدیک زیادہ آسان ہے ایک مومن کے قتل سے اور اگر آسمان اور زمین والے ایک مومن کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم کی آگ میں داخل کر دے گا۔ (63) بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں ایک قتل ہوگیا نہیں جانا گیا کہ کس نے اس کو قتل کیا۔ نبی ﷺ منبر پر چڑھے اور فرمایا اے لوگو ! ایک قتل ہوگیا اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور ہم نہیں جانتے کہ کس نے اس کو قتل کیا اگر آسمان اور زمین والے ایک آدمی کے قتل میں جمع ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب دے گا مگر جو وہ کرنا چاہے کرے۔ (64) عبد الرزاق اور بیہقی نے جندب البجلی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص تم میں سے یہ طاقت رکھے کہ اس کے اور جنت کے درمیان ہتھیلی بھر کسی مسلمان کا خون نہ ہو۔ تو اسے چاہئے کہ اس کو نہ بہائے ورنہ جب بھی وہ کسی دروازے کے سامنے آئے گا وہ خون اس کے اور دروازوں کے درمیان حائل ہوجائے گا۔ (65) الاصبہانی نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا مسلمان ہمیشہ عزت والا اور صالح رہتا ہے۔ جب تک کہ ناحق خون نہ کرے جب اس نے ناحق خون کرلیا تو محتاج ہوجاتا ہے۔ (66) الاصبہانی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر جن وانس کسی مومن کے قتل میں اکٹھے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو اوندھے منہ آگ میں گرادیں گے اور اللہ تعالیٰ نے قاتل اور حکم دینے والے پر جہنم کو واجب کردیا ہے۔ (67) بیہقی نے شعب الایمان میں صحابہ ؓ میں سے ایک آدمی سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جہنم کی آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا جائے گا حکم کرنے والے کے لئے 99 حصے ہوں گے اور ایک حصہ قاتل کے لئے ہوگا۔ (68) بیہقی نے محمد بن عجلان (رح) سے روایت کیا کہ اسکندریہ میں تھا ایک آدمی کی موت قریب ہوئی اور اللہ کی مخلوق میں سے ہم نے کسی کو اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا جب وہ اس کو کسی چیز کی تلقین کرتے تھے تو وہ قبول کرلیتا تھا سبحان اللہ اور الحمد للہ کی تلقین کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرتے تھے تو وہ انکار کردیتا تھا ہم نے اس سے کہا ہم نے کسی کو اللہ کی مخلوق میں سے تجھ سے زیادہ ڈرنے والا نہیں دیکھا جب ہم تجھے لا الہ الا اللہ کی تلقین کرتے ہیں تو انکار کردیتا ہے (اس کی کیا وجہ ہے) اس نے کہا کوئی چیز میرے درمیان حائل ہوجاتی ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں نے اپنی جوانی میں ایک جان کو (ناحق) قتل کیا ہے۔ (69) ابن ماجہ وابن مردویہ و بیہقی نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کوئی بندہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے کہ وہ کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ کرتا ہو اور اس نے حرام خون سے ہاتھ آلود نہیں کیا تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگا جنت کے دروازوں میں سے جس سے چاہے گا داخل ہوجائے گا۔ (70) البیہقی نے عبد اللہ بن مسلم زہری کے بھائی سے روایت کیا کہ میں سالم بن عبد اللہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اہل مدینہ کی ایک جماعت میں ایک آدمی نے کہا امیر نے ابھی ابھی ایک آدمی کو کوڑے مارے ہیں تو وہ مرگیا ہے سالم نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کے قتل کرنے میں موسیٰ (علیہ السلام) پر عیب لگایا۔ (71) البیہقی نے شہر بن حوشب (رح) سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی ابوذر کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے ایک حاجی کو ظلما قتل کیا کیا اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے ؟ ابوذر نے اس سے فرمایا افسوس ہے تجھ پر کیا تیرے والدین زندہ ہیں اس نے کہا نہیں پھر پوچھا ان میں سے کوئی ایک (زندہ) ہے اس نے کہا نہیں۔ انہوں نے فرمایا اگر دونوں یا ان میں سے ایک زندہ ہوتا تو تیرے حق میں امید تھی اب میں تیرے لئے نجات کی ایک صورت پاتا ہوں مگر تین چیزوں میں سے ایک میں اس نے کہا وہ کیا ہیں انہوں نے فرمایا کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تو اس کو زندہ کر دے جیسا تو نے اس کو قتل کیا اس نے کہا اللہ کی قسم نہیں ! پھر فرمایا کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تجھے موت نہ آئے اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم ! موت کے سوا کوئی چارہ نہیں تیسری صورت کیا ہے تو فرمایا کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ زمین میں سرنگ بنا لے یا آسمان میں سیڑھی لگالے وہ آدمی کھڑا ہوگیا اور چیخ رہا تھا ابوہریرہ ؓ اس سے ملے اور اس سے پوچھا تو اس انہوں نے فرمایا افسوس ہے تجھ پر کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا نہیں پھر فرمایا اگر وہ دونوں یا ان میں سے ایک زندہ ہوتا تو میں تیرے لئے امید رکھتا لیکن (اب) تو اللہ کے راستے میں جنگ کر اور اپنے آپ کو شہادت کے لئے پیش کر ممکن ہے کوئی صورت بن جائے۔
Top