Dure-Mansoor - An-Nisaa : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَتَبَيَّنُوْا : تو تحقیق کرلو وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : تم کہو لِمَنْ : جو کوئی اَلْقٰٓى : دالے (کرے) اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلٰمَ : سلام لَسْتَ : تو نہیں ہے مُؤْمِنًا : مسلمان تَبْتَغُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : اسباب (سامان) الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فَعِنْدَ : پھر پاس اللّٰهِ : اللہ مَغَانِمُ : غنیمتیں كَثِيْرَةٌ : بہت كَذٰلِكَ : اسی طرح كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَمَنَّ : تو احسان کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر فَتَبَيَّنُوْا : سو تحقیق کرلو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا :خوب باخبر
اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں سفر کرو تو تحقیق کرلیا کرو، اور جو شخص تمہارے سامنے اطاعت ظاہر کے اسے یوں نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے، تم دنیا والی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو، سو اللہ کے پاس غنیمت کے بہت مال ہیں، اس سے پہلے تم ایسے ہی تھے، سو اللہ نے تم پر احسان فرمایا، سو خوب تحقیق کرلیا کرو، بیشک اللہ ان کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو
(1) عبد الرزاق و سعید بن منصور، عبد بن حمید و بخاری و نسائی وابن المنذر وابن ابی حاتم ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ایک آدمی سے ملے جس کے پاس اپنی بکریاں تھیں اس نے کہا السلام علیکم انہوں نے اس کو قتل کردیا اور اس کی بکریوں کو لے لیا۔ تو (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا “ سے لے کر ” عرض الحیوۃ الدنیا “ تک فرمایا اس سے مراد مال غنیمت ہے ابن عباس نے السلام پڑھا ہے۔ (2) ابن ابی شیبہ واحمد و طبرانی اور ترمذی (نے اس کو حسن کہا) وعبد بن حمید (نے اس کو صحیح کہا) وابن جریر وابن المنذر وحاکم نے (اس کو صحیح کہا) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی بنو سلیم میں سے نبی ﷺ کے اصحاب کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا وہ اپنی بکریوں کو ہانک رہا تھا اس نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ہم کو اس لئے سلام کر رہا ہے تاکہ ہم سے بچ جائے انہوں نے اس کو قتل کردیا اور نبی ﷺ کے پاس غنیمت کا مال لے آئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم “۔ بلا تحقیق کوئی فیصلہ کرنا بڑا گناہ ہے (3) ابن سعد وابن ابی شیبہ واحمد وابن جریر و طبرانی وابن المنذر وابن ابی حاتم وابو نعیم و بیہقی دونوں نے دلائل میں عبد اللہ بن ابی سلول حدرد اسلمی ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے اصنم (ایک جگہ کا نام) کی طرف بھیجا میں بھی مسلمانوں کی اس جماعت میں نکلا کہ ان میں حرث بن ربعی، ابو قتادہ اور محلم بن جثامہ بن قیس اللیثی بھی تھے ہم نکلے یہاں تک کہ ہم بطن اصم میں تھے تو ہمارے ساتھ عامر بن اصبط اشجعی اپنی سواری پر گزرا اس کے ساتھ اپنا سامان اور ایک دو دھ کا برتن بھی تھا۔ جب وہ ہمارے پاس سے گزرا تو ہم کو اس نے سلام کیا ہم اس سے رک گئے اور محلم بن جثامہ نے اس پر حملہ کردیا کسی باہمی ناراضگی کی وجہ سے جو اس کے اور اس کے درمیان تھی اور اس کو قتل کردیا اور اس کا اونٹ اور اس کا سامان لے لیا جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے اور ان کو یہ خبر سنائی تو ہمارے بارے میں یہ قرآن نازل ہوا۔ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا “۔ (4) ابن اسحاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبغوی نے اپنی معجم میں یزید بن عبد اللہ بن قسیط کے طریق سے ابو حدرد اسلمی ؓ نے اپنے والد سے اسی طرح روایت کیا کہ اس میں یہ بھی تھا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تو نے اس کو قتل کردیا اس کے کہنے کے بعد کہ اللہ پر ایمان لے آیا تو قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (5) ابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے محلم بن جثامہ کو ایک لشکر میں بھیجا ان کو عامر بن اضبط ملا اس نے اسلام کے مطابق ان کو سلام کیا اور جاہلیت کے زمانہ میں ان کے درمیان کوئی رنجش تھی محلم نے عامر کو تیر مارا اور اس کو قتل کردیا یہ خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچی محلم دو چادروں میں آئے اور نبی ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے تاکہ ان کے لئے استغفار کریں آپ نے فرمایا اللہ تجھے نہ بخشے وہ کھڑا ہوگیا اور اس کے آنسوں اس کی چادر پر گر رہے تھے کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ مرگیا لوگوں نے اسے دفن کیا زمین نے اس کو باہر پھینک دیا لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور یہ واقعہ ذکر کیا آپ نے فرمایا بلاشبہ زمین قبول کرلیتی ہے جو اس تمہارے ساتھ سے بھی زیادہ برا ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو نصیحت کرنے کا ارادہ فرمایا ہے پھر اس کو پہاڑ میں پھینک دیا گیا اس پتھر ڈال دئیے گئے یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم “ (الآیہ) ۔ (6) البزار ودارقطنی نے الافراد میں اور طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا جس میں مقداد بن اسود بھی تھے جب وہ دشمن قول کے پاس آئے تو ان کو اس حال میں پایا کہ وہ سب لوگ بھاگ چکے تھے صرف ایک آدمی باقی تھا جس کے پاس بہت مال تھا وہ اپنی بستی ہی میں رہا اس نے کہا ” اشھد ان لا الہ الا اللہ “ مقداد ؓ اس کی طرف جھکے اور اس کو قتل کردیا ان کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی نے کہا کیا تو نے ایسے آدمی کو قتل کردیا جس نے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ “ کی گواہی دی ؟ اللہ کی قسم میں ضرور اس بات کو نبی ﷺ سے ذکر کروں گا جب یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک آدمی نے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ “ کی گواہی دی مگر مقداد نے اس کو قتل کردیا آپ نے فرمایا مقداد کو میرے پاس بلاؤ (جب وہ آئے) تو آپ نے اس سے فرمایا کیا تو نے ایسے آدمی کو قتل کردیا جو ” لا الہ الا اللہ “ کہتا تھا کل قیامت کے دن کو ” لا الہ الا اللہ “ کا کیا جواب دے گا اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ “ سے لے کر ” کذلک کنتم من قبل “ تک رسول اللہ ﷺ نے مقداد سے فرمایا وہ آدمی مومن تھا کفار قوم کے ساتھ تھے اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے پھر اس نے اپنے ایمان کو ظاہر کیا تو اس کو تو نے قتل کردیا اور اسی طرھ تم بھی اس سے پہلے مکہ میں اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے۔ (7) ابن ابی حاتم نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم “ مرد اس کے بارے میں نازل ہوئی۔ (8) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی جو اسلام کا اظہار کرتا تھا اور اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا تھا اور وہ اپنی قوم میں رہتا تھا جب رسول اللہ ﷺ کا لشکر آیا تو اپنی قوم کو اس کی خبر دیتا تو وہ آدمی وہی ٹھہرا رہتا اور مومنین سے نہ ڈرتا کیونکہ وہ ان کے دین پر تھا یہاں تک کہ جب وہ ایمان والوں سے ملتا تو ان کو سلام کرتا صحابہ کہنے لگے کہ تو مومن نہیں ہے حالانکہ اس نے سلام کیا تھا مگر انہوں نے اس کو قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا “ سے لے کر ” تبتغون عرض الحیوۃ الدنیا “ تک یعنی تم نے اس کو قتل کیا اس ارادے سے کہ تمہارے لئے وہ مال حلال ہوجائے گا جو تم نے اس کے پاس پایا تھا اور یہ دنیا کا سامان ہے جبکہ میرے پاس غنیمتیں بہت ہیں اور اللہ کے فضل کو تلاش کرو اور وہ آدمی جس کا نام مرداس تھا اس کی قول لشکر کی وجہ سے بھاگ گئی جو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا اس لشکر میں بنو لیث کا ایک آدمی تھا اس کا نام قلیب تھا یہاں تک کہ جب وہ گھوڑا سوار پہنچے تو اس نے ان پر سلام کیا مگر انہوں نے اس کو قتل کردیا رسول اللہ ﷺ نے اس کے گھر والوں کو دیت دینے کا حکم فرمایا اور اس کا مال ان کی لوٹا دیا اور مومنین کو ایسا کرنے سے منع کردیا گیا۔ (9) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ حدیث مرداس کے بارے میں جو غطفان میں سے ایک آدمی تھا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک لشکر بھیجا ان پر غالب لیثی امیر تھے فدک والوں کی طرف سے اور اس کے ساتھ کچھ لوگ غطفان والوں میں سے تھے اور مرداس ان میں سے تھا اس کے ساتھی بھاگ گئے تو مرداس نے کہا میں مومن ہوں اور تمہارے دین پر ہوں صبح سویرے جب گھوڑا سوار پہنچے اور اس سے ملے تو اس نے ان کو سلام کیا لیکن نبی ﷺ کے صحابہ ؓ نے اس کو قتل کردیا اور جو سامان اس کے پاس تھا اس کو لے لیا اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا “ اس لئے کہ مسلمان کا تحفہ سلام ہے اس کے ساتھ وہ پہنچانے جاتے ہیں اور اسی کے ساتھ مسلمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں۔ ایک کلمہ گو کا قتل بڑا گناہ ہے (10) ابن جریر نے سدی (رح) سے لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا بنو ضمرہ کی طرف اس پر اسامہ بن زید امیر تھے ان میں سے وہ ایک آدمی کو ملے جس کو مرد اس بن ٹھیک کہا جاتا تھا اس کے پاس بکریاں تھیں اور سرخ تھا جب اس نے ان کو دیکھا تو ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گیا اسامہ اس کے پیچھے لگے جب مرداس تک پہنچا تو اس نے اپنی بکریاں اس میں چھوڑ دیں اور صحابہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا السلام علیکم میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اسامہ نے اس پر حملہ کردیا اور اس کے اونٹ اور اس کی بکریوں کی وجہ سے اس کو قتل کردیا اور نبی ﷺ جب اسامہ ؓ کو بھیجتے تو اس بات کو محبوب رکھتے تھے کہ اسامہ ؓ کی تعریف کی جائے اور اس کے ساتھیوں سے اس کے بارے میں پوچھتے جب یہ لوگ واپس لوٹے تو آپ نے ان لوگوں سے اس (یعنی اسامہ) کے بارے میں نہ پوچھا تو لوگوں (یعنی ان کے ساتھیوں نے) نبی ﷺ کو یہ بتانا شروع کیا اور کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ اسامہ کو اس وقت دیکھتے جبکہ ان کو ایک آدمی نے کہا : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (لیکن) اسامہ نے اس پر حملہ کردیا اور اس کو قتل کردیا جبکہ رسول اللہ ﷺ ان صحابہ سے اعراض کر رہے تھے جب انہوں نے زیادہ باتیں کیں تو آپ نے اسامہ کی طرف سر مبارک اٹھایا اور فرمایا تیرا اور لا الہ الا اللہ کا کیا معاملہ ہوگا ؟ اسامہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے یہ جملہ جان بچان کے لئے کہا کہ وہ اس کے ساتھ بچ جائے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے اس کا دل کو کیوں نہیں چیر لیا تاکہ تو دیکھ لیتا اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور خبر دی کہ انہوں نے اس کو اس کے اونٹ اور اس کی بکریوں کی وجہ سے قتل کیا۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمائی۔ اسامہ نے قسم اٹھائی کہ وہ آئندہ کسی آدمی کو قتل نہیں کرے گا جو لا الہ الا اللہ کہے گا اور رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد انہوں نے یہ رویہ نہ دیکھا۔ (11) ابن ابی حاتم اور بیہقی نے دلائل میں حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ کے صحابہ راستہ تلاش کر رہے تھے دشمن میں سے کچھ لوگوں سے ملے صحابہ نے ان پر حملہ کیا اور ان کو شکست دی ان میں سے ایک آدمی بھاگ کھڑا ہوا تو ایک آدمی اس کے پیچھے لگ گیا جو اس کے سامان کا ارادہ رکھتا تھا۔ جب اس کو نیزہ گھونپ دیا پھر اس کو قتل کردیا اور اس کا سامان لے لیا یہ بات رسول اللہ ﷺ کی طرف لے جائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے قاتل سے فرمایا تو نے اس کو قتل کردیا بعد اس کے کہ اس نے کہا میں مسلمان ہوں ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے صرف جان بچانے کے لئے ایسا کہا تھا آپ نے فرمایا کہ تو نے اس کے دل کیوں نہیں چیر لیا اس نے کہا کس لئے یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تاکہ تو جان لیتا کہ وہ سچ بولنا والا تھا یا جھوٹ بولنے والا تھا اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں اس بات کو جان سکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی زبان بتارہی تھی۔ راوی نے کہا کچھ دنوں کے بعد قاتل مرگیا اس کے ساتھیوں نے اس کے لئے قبر کھودی (تاکہ اس کو دفن کیا جائے) تو قبر نے اسے باہر پھینک دیا پھر انہوں نے دوبارہ دفن کیا پھر وہ صبح کو کیا دیکھتے ہیں کہ زمین نے اسے قبر سے باہر ایک جانب پھینک دیا ہے حسن (رح) نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے اس کو کتنی مرتبہ دفن کیا دو یا تین مرتبہ ہر دفعہ زمین نے اس کو قبول نہ کیا جب ہم نے دیکھا کہ زمین اس کو قبول نہیں کرتی تو ہم نے اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر اس کو پہاڑ کی گھاٹی میں پھینک دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا “ حسن (رح) نے فرمایا اللہ کی قسم اس سے بھی زیادہ شریر لوگوں کو زمین چھپا لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قوم کو یہ نصیحت فرمائی کہ پھر ایسا نہ کرنا۔ (12) عبد الرزاق وابن جریر نے معمر کے طریق سے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا “ کے بارے میں روایت کیا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے مشرکین میں سے ایک آدمی پر حملہ کیا تو مشرک نے اس سے کہا میں مسلمان ہوں لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوں اس کے کہنے کے بعد بھی مسلمان نے اس کو قتل کردیا یہ بات نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے اس سے فرمایا جس نے قتل کیا تھا کیا تو نے اس کو قتل کردیا حالانکہ اس نے لا الہ الا اللہ کہا تھا قاتل نے معذرت کرتے ہوئے کہا اے اللہ کے نبی اس نے صرف بچاؤ کے لئے کہا تھا حقیقت میں اس نے کلمہ نہیں پڑھا تھا نبی ﷺ نے فرمایا تو نے اس کے دل کو چیر کر دیکھا تھا پھر وہ قاتل مرگیا اور دفن کردیا گیا (لیکن) زمین نے اس کو باہر پھینک دیا یہ بات نبی ﷺ کو بتائی گئی تو آپ نے اس کو دفن کرنے کا حکم فرمایا پھر اس کو زمین نے باہر پھینک دیا حتی کہ یہ معاملہ تین دفعہ ہوا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ زمین نے اس کو قبول کردیا اس کو ایک غار میں ڈال دو معمر نے کہا کہ ان میں سے بعض صحابہ نے فرمایا کہ زمین اس سے زیادہ شریر لوگوں کو قبول کرلیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس کو عبرت بنا دیا۔ (13) ابن جریر نے ابو الاضحی کے طریق سے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ایک مشرک آدمی سے ملے اور اس کے پاس بکریاں تھیں اس نے کہا السلام علیکم میں مومن ہوں انہوں نے یہ سمجھا کہ اس سے بچاؤ کر رہا ہے اس کو قتل کردیا اور اس کا ریوڑ لے لیا اس پر اللہ تعالیٰ نے ( یہ آیت) اتار دی لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا تبتغون عرض الحیوۃ الدنیا “ یعنی مال کو (تم نے طلب کیا) ۔ (14) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ مقداد بن اسود ؓ ایک لشکر میں گئے جس کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا تھا وہ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس کے پاس اپنی بکریاں تھیں اس نے کہا میں مسلمان ہوں ابن اسود نے اس کو قتل کردیا جب وہ واپس آئے تو نبی ﷺ کو یہ بات بتائی گئی تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا تبتغون عرض الحیوۃ الدنیا “ یہاں عرض سے مراد مال غنیمت ہے۔ (15) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی جس کو ابو درداء نے قتل کردیا تھا پھر اس طرح کا واقعہ ذکر کیا جس طرح کا واقعہ اسامہ بن زید کے بارے میں ذکر کیا تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطئا “ یہاں تک پہنچے ” ان اللہ کان بما تعلمون خبیرا “۔ (16) عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ایک بکری چرانے والے سے مومنین کی ایک جماعت ملی انہوں نے اس کو قتل کیا۔ اور اس کے ساتھ جو مال تھا وہ بھی لے لیا اور انہوں نے اس سے ” السلام علیکم انی مؤمن “ کو قبول نہیں کیا۔ (17) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین پر یہ حرام کردیا جیسا کہ ان پر مردار کو حرام کردیا کہ یوں نہیں کہیں کہ جو آدمی لا الہ الا اللہ کی گواہی دے اس کو کہو تو مومن نہیں ہے۔ پس وہ اپنے مال اور خون کے بارے میں محفوظ ہے اس کا قول رد نہ کرو۔ (18) سعید بن منصور وعبد بن حمید نے ابو رجاء والحسن (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم “ سین کے کسرہ کے ساتھ۔ (19) سعید بن منصور وعبد بن حمید نے مجاہد اور ابو عبد الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا کہ دونوں ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم “ پڑھتے تھے۔ (20) عبد الرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” کذلک کنتم من قبل “ سے مراد ہے کہ تم بھی تو اپنے ایمان کو چھپایا کرتے تھے جیسے اس گڈریا نے اپنے ایمان کو چھپایا اور دوسرے لفظ میں یوں ہے تم اپنے ایمان کو مشرکین سے چھپایا کرتے تھے ” فمن اللہ علیکم “ پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا کہ تم نے اسلام کو ظاہر کیا اور اپنے ایمان کا اعلان کیا ” فتبینوا “ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو دفعہ وعید ہے۔ (21) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے ” کذلک کنتم من قبل “ کے بارے میں روایت کیا کہ تم بھی تو کافر تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اسلام کے ذریعہ سے احسان فرمایا اور اس کی تم کو ہدایت دی۔ (22) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ ” کذلک کنتم من قبل “ سے مراد ہے تم بھی (پہلے) مومن نہیں تھے۔ (23) عبد بن حمید نے نعمان بن سالم (رح) سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہذیل میں سے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی۔ (24) عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ ” فتبینوا “ یاء کے ساتھ پڑھا۔ (25) ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم وابو داؤد و نسائی نے اسامہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر میں بھیجا ہم صبح کے وقت جہینہ قبیلہ کے مضافات میں پہنچے میں نے ایک آدمی کو پایا اس نے کہا لا الہ الا اللہ میں نے اس کو نیزہ مارا (اور قتل کردیا) میرے دل میں کوئی بات واقع ہوئی تو میں نے اس کو نبی ﷺ سے ذکر کیا آپ نے فرمایا اس نے لا الہ الا اللہ کہا اور تو نے اس کو قتل کردیا میں نے کہا یا رسول ! اس نے ہتھیار سے ڈر کر ایسا کہا آپ نے فرمایا کہ تو اس کے دل کو چیر کو دیکھ لیتا یہاں تک کہ اس کے کہنے کو جان لیتا کہ اس نے دل سے کہا یا نہیں آپ برابر اس بات کو فرماتے رہے حتی کہ میں نے یہ تمنا کی میں آج کے دن ہی مسلمان ہوا ہوتا۔ دل چیر کر کیوں نہ دیکھا ؟ (26) ابن سعد نے جعفر بن یرقان (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو اہل یمانہ میں سے ایک حضرمی آدمی نے یہ بیان کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسامہ بن زید کو ایک لشکر پر امیر بنا کر بھیجا اسامہ نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو یہ بات بتائی کہ جب قوم شکست کھا گئی تو میں نے ایک آدمی کو گھیر لیا اور میں نے نیزہ مارنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا لا الہ الا اللہ میں نے اس کو نیزہ مارا اور قتل کردیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ تبدیل ہوگیا اور فرمایا افسوس ہے تجھ پر اے اسامہ تیرا کیا حال ہوگا لا الہ الا اللہ کے مقابلہ میں افسوس ہے تجھ پر اے اسامہ ! تیرا کیا حال ہوگا کہ لا الہ الا اللہ والے مقابلے میں آپ برابر یہ فرماتے رہے یہاں تک کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ میں ہر عمل سے نکل چکا ہوں جو میں نے کئے اور میں آج کے دن نئے سرے سے اسلام لایا ہوں اللہ کی قسم ! اب میں کسی لا الہ الا اللہ کہنے والے کو قتل نہیں کروں گا بعد اس کے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سن لی۔ (27) ابن سعد نے ابراہیم تیمی (رح) سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اسامہ بن زید ؓ نے فرمایا میں لا الہ الا اللہ کہنے والے کو کبھی قتل نہیں کروں گا سعد بن مالک میں فرمایا اللہ کی قسم ! میں کبھی کسی لا الہ الا اللہ کہنے والے آدمی کو قتل نہیں کروں گا ان دونوں کو ایک آدمی نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا لفظ آیت ” وقتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ “ (البقرہ آیت 93) دونوں نے کہا ہم نے قتال کیا یہاں تک کہ فتنہ نہیں رہا اور سارا دین اللہ کے لئے ہوگیا۔ (28) ابن سعد وابن ابی شیبہ واحمد نسائی نے عقبہ بن مالک لیثی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا انہوں نے ایک قوم پر حملہ کیا لشکر میں سے ایک مجاہد نے تلوار کو سونتتے ہوئے ایک آدمی کے پیچھے لگ گیا دشمن کے بھاگنے والے آدمی نے کہا میں مسلمان ہوں اس نے جو کہا مجاہد نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اس کو قتل کردیا یہ خبر رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ نے اس بارے میں سخت بات فرمائی قاتل کو یہ بات پہنچی تو اس درمیان کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اچانک اس قاتل نے کہا اللہ کی قسم اس نے قتل سے بچنے کے لئے یہ بات کہی تھی رسول اللہ ﷺ نے اس سے اس طرف کے لوگوں سے منہ پھیرلیا اور آپ خطبہ ارشاد فرماتے رہے پھر اس قاتل نے کہا کہ اس نے قتل سے بچنے کے لئے یہ بات کہی تھی آپ نے اس سے اس طرف کے لوگوں سے منہ پھیرلیا اور اپنا خطبہ ارشاد فرماتے رہے پھر اس نے صبر نہیں کیا اور تیسری مرتبہ وہی کہا اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! اس نے قتل سے بچنے کے لئے یہ بات کہی تھی رسول اللہ ﷺ متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرہ مبارک میں ناراضگی کے آثار پہچانے جاتے تھے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے (اس کی توبہ قبول کرنے پر) انکار فرمایا ہے اس شخص کے لئے جو کسی مومن کو قتل کر دے تین مرتبہ آپ نے ایسا فرمایا۔ (29) شافعی وابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم وابو داؤد اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں مقداد بن اسود ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ بتائیے اگر میں اور مشرکین میں سے ایک آدمی آپس میں لڑیں اور وہ میرا ہاتھ کاٹ دیں اور جب میں اس پر تلوار کو اونچا کروں تو وہ کہہ دے لا الہ الا اللہ اس کو ماروں یا چھوڑدوں ؟ آپ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو میں نے عرض کیا اس نے میرا ہاتھ کاٹا (اس سے بدلہ نہ لوں) آپ نے فرمایا اگر تو اس کو مارے گا اس کے کلمہ کہنے کے بعد تو وہ تیری حالت جیسا ہوجائے گا پہلے اس سے کہ تو اس کو قتل کرے اور تو اس کی اس حالت جیسا ہوجائے گا جو اس کی تھی پہلے بھی اس کلمہ کے کہنے سے پہلے۔ (30) الطبرانی نے جندب بجلی ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا آپ کے لشکر میں سے ایک خوشخبری دینے والا آیا اس نے آپ کو لشکر کے لئے اللہ کی مدد اور اس کی فتح کے بارے میں خبر دی۔ کہ اس نے ان کو فتح عطا فرمائی اس نے کہا یا رسول اللہ ! اس درمیان کہ ہم قوم کا پیچھا کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دے دی تھی کہ میں نے تلوار لے کر ایک آدمی کا پیچھا کیا جب وہ ڈرا کہ تلوار اس پر واقع ہونے والی ہے تو وہ ڈرتے ہوئے کہنے لگا میں مسلمان ہوں بیشک میں مسلمان ہوں آپ نے فرمایا تو نے اس کو قتل کردیا ؟ میں عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے اپنا بچاؤ کرنا چاہا۔ آپ نے فرمایا تو اس کا دل کیوں نہیں چیر لیا کہ وہ سچ بولنے والا ہے یا جھوٹ بولنے والا ہے۔ اس نے کہا آپ نے فرمایا تو اس کا دل کیوں نہیں چیر لیا کہ وہ سچ بولنے والا ہے یا جھوٹ بولنے والا ہے۔ اس نے کہا آپ نے فرمایا تو اس کا دل کیوں نہیں چیز لیا کہ وہ سچ بولنے والا ہے یا جھوٹ بولنے والا ہے اس نے کہا اگر میں اس کے دل کو چیر لیتا تو بھی مجھے کوئی علم نہ ہوتا کیونکہ اس کا دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے آپ نے فرمایا نہ تو اس کے دل کی بات کو جانتا ہے اور نہ ہی تو اس کی زبان کی تصدیق کرتا ہے اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے لئے استغفار کیجئے آپ نے فرمایا میں تیرے لئے استغفار نہیں کروں گا وہ آدمی (یعنی قاتل) مرگیا اس کو دفن کیا تو صبح کو وہ زمین پر پڑا ہوا تھا پھر انہوں نے اس کو دفن کیا پھر صبح کو وہ زمین پر پڑا ہوا تھا تین مرتبہ ایسا ہوا جب لوگوں نے یہ دیکھا تو شرمندہ ہوئے اور اس کی مصیبت سے رنجیدہ ہوئے انہوں نے اس کی لاش کو اٹھایا اور اس کو ایک گھاٹی میں ڈال دیا۔
Top