Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 21
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح جو قَالُوْا : انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَهُمْ : حالانکہ وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہیں سنتے
ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جنھوں نے کہا ہم نے سن لیا حالانکہ وہ سنتے نہیں
ارشاد فرمایا : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْاسَمِعْنَا وَھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ۔ (الانفال : 21) (ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے کہا ہم نے سن لیاحالان کہ وہ سنتے نہیں۔ ) یہود کی طرف اشارہ ہے اس آیت کریمہ میں جن لوگوں کی مشابہت سے روکا گیا ہے اور ان کی بطور خاص ایک صفت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ وہ صفت خود بول رہی ہے کہ اشارہ یہود کی طرف ہے کیونکہ قرآن کریم نے متعدد مواقع پر یہود کی اس عادت بد کا ذکر فرمایا کہ جب بھی ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ ” سنو اور اطاعت کرو “ تو وہ جواب میں کہتے ” سمعنا وعصینا “ سمعنا کو بلند آواز سے کہتے اور عصینا دبی آواز سے کہتے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ” ہم نے سن لیا اور ہم نے نافرمانی کی “ یا ممکن ہے یہ ان کے حال کی تصویر ہو کہ وہ زبان سے توسمعنا کہتے تھے کہ ہم نے آپ کا حکم سن لیا ہے لیکن اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو سننے کے بعد عمل نہیں کیا کرتے بلکہ بعض دفعہ تو ان کی سنگدلی اور حق دشمنی اس انتہا کو پہنچ جاتی کہ وہ صاف کہتے کہ ہمارے دل غلافوں میں ملفوف ہیں تم جو کہتے ہو ہمارے دلوں میں اترتا نہیں۔ اس لیے ہم اس کے قبول کرنے سے معذور ہیں۔ یہاں ان کے اسی رویے کی طرف اشارہ فرما کر مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تم ان یہود کی طرح بننے کی کوشش مت کرو کہ وہ لوگ اپنے پیغمبروں کی تعلیمات اور تنبیہات کو سنتے ضرور تھے لیکن قبول نہیں کرتے تھے اور سننے سے مقصود اصل تو قبول کرنا ہی ہوتا ہے کیونکہ محض سننا اور پھر اس کا کوئی اثر قبول نہ کرنا یہ وہ چیز ہے جو حیوانیت کی سطح سے بھی گری ہوئی ہے کیونکہ حیوانوں میں سے جن جانوروں کو سدھایا جاتا ہے وہ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں وہی کچھ کرنے لگتے ہیں جو انھیں سکھایا جاتا ہے۔ انسانوں میں یہ طرز عمل صرف منافقین کا ہوتا ہے کیونکہ کافر تو سرے سے سنتاہی نہیں آپ اصرار کریں تو وہ سننے سے انکار کردیتا ہے بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی نہ سننے دیا جائے۔ لیکن منافق اپنے آپ پر پردہ ڈالنے کے لیے بظاہر قریب ہو کر سنتا ہے لیکن کسی بات کو دل میں اترنے نہیں دیتاکیون کہ اس کے دل اور زبان کے درمیان نفاق کی دیوار حائل ہوجاتی ہے۔ تو تم اگر یہی رویہ اختیار کرکے منافقت کے راستے پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہو تو پھر سوچ لو تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو اس سے پہلے یہود کا ہوچکا ہے۔ وہ دنیا میں عبرت کے طور پر زندہ رکھے گئے ہیں لیکن انسانوں کا عجیب حال ہے بجائے ان سے عبرت حاصل کرنے کے ان کے راستے پر چلنا پسند کرتے ہیں حالانکہ یہ راستہ مسلمانوں سے تو فروتر ہے ہی انسانوں کی سطح سے بھی گرا ہوا ہے۔
Top