Dure-Mansoor - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
بیشک جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ہیں
1:۔ احمد وابن جریر (رح) ابوالقاسم البغوی ابن مردویہ (رح) الطبرانی بسند صحیح من طریق ابی سلمۃ بن عبد الرحمن اقرع بن جابس ؓ سے روایت کیا کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آواز دے، اے محمد ہماری طرف باہر تشریف لایئے آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اس نے پھر کہا اے محمد ﷺ میرا تعریف کرنا زینت ہے اور میرا مذمت کرنا عیب ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کے اختیار میں ہے اس پر یہ (آیت) نازل ہوئی ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت “ (جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں) ابن منیع نے کہا میں نہیں جانتا کہ اقرع کی یہ روایت اس سند کے بغیر بھی بیان کی گی ہے۔ 2:۔ الترمذی (وحسنہ) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے براء بن عازب ؓ سے (آیت) ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت، اکثرھم لایعقلون “ (جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے) کے بارے میں روایت کیا کہ ایک آدمی آیا اور کہا اے محمد ﷺ میری تعریف زینت ہے میرا مذمت عیب ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کی جانب سے ہے۔ 3:۔ ابن راھویہ ومسدد وابو یعلی والطبرانی وابن جریر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے حسن سند کے ساتھ زید بن ارقم ؓ سے روایت کیا کہ کچھ لوگ عرب میں جمع ہوئے اور انہوں نے کہا اس آدمی کے پاس چلو اگر وہ نبی ہے تو پھر ہم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہوں گے اور اگر یہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے زیرسایہ زندگی گزاریں گے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو بتایا جو انہوں نے کہا وہ سب آپ کی طرف آئے اور آپ کو آواز لگانی شروع کی۔ اے محمد ﷺ تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتری ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت، اکثرھم لایعقلون “ رسول اللہ ﷺ نے میرا کان پکڑا اور فرمانے لگے اے زید اللہ تعالیٰ نے تیری بات کی تصدیق کردی دو دفعہ فرمایا۔ 4:۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا اے محمد ﷺ میری تعریف اس کے لئے باعث زینت ہے اور میری مذمت اس کے لئے موجب عیب ہے۔ آپ نے فرمایا وہ اللہ کی جانب سے ہے تو یہ (آیت) نازل ہوئی ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت، اکثرھم لایعقلون “ 5:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ سعید بن جبیر ؓ کی جانب سے خبردی گئی کہ بنی تمیم میں سے ایک آدمی اور بنو اسد بن خزیمہ میں سے ایک آدمی نے گالی گلوچ کیا اسدی نے کہا (آیت) ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت “ سے بنی تمیم کے دیہاتی مراد ہیں تو سعید نے فرمایا اگر تمیمی فقیہ ہوتا تو کہتا بیشک اس کا پہلا حصہ بنوتمیم کے بارے میں ہے۔ اور اس کا آخری حصہ بنو اسد کے بارے میں ہے۔ 6:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے حبیب بن ابی عمر و (رح) سے روایت کیا کہ میری اور ابنواسد میں سے ایک آدمی کے درمیان گفتگو ہوئی اسدی نے کہا (آیت) ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت، بنوتمیم کے بارے میں ” اکثرھم لایعقلون “ (اکثر ان کے نہیں جانتے) یہ بات میں نے سعید بن جبیر ؓ کو بیان کی تو فرمایا کیا تو بنواسد سے یہ نہیں کہے گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” یمنون علیک ان اسلموا “ (وہ لوگ آپ پر احسان لگاتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے) کیونکہ عرب اسلام نہیں لائے یہاں تک کہ ان سے قتال کیا گیا اور ہم بغیر قتال کے اسلام لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ان کے بارے میں نازل فرمائی۔ 7:۔ عبد بن حمید (رح) نے قتادہ ؓ کے طریق سے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ بن اسد میں سے ایک آدمی نے بنوتمیم کے ایک آدمی سے کچھ کہا اور یہ آیت پڑھی (آیت) ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت “ یعنی ان کے اکثر بنوتمیم میں سے ہیں (آیت ) ” لا یعقلون “ (ہو عقل نہیں رکھتے) جب تمیمی کھڑا ہوا اور چلا گیا تو سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا بلاشبہ تمیمی اگر جانتا ہوتا اس بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسد کے بارے میں نازل فرمایا تو یقیناً بات کرتا ہم نے کہا ان کے بارے میں کیا نازل ہوا فرمایا وہ لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا بیشک ہم اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے اسلام لائے بیشک یہ ہمارا حق ہے (یعنی ہمارے ذمہ واجب ہے) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت ) ” یمنون علیک ان اسلموا “ (کہ وہ احسان جتلاتے ہیں آپ پر کہ ہم اسلام لے آئے) 8:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) اور بیہقی (رح) نے شعب الایمان میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت “ سے بنو تمیم کے دیہاتی مراد ہیں۔ 9:۔ ابن منذر وابن مردویہ (رح) نے یعلی بن الاشق کے طریق سے سعد بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت، اکثرھم لایعقلون “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ بداخلاق لوگ تھے بنوتمیم میں سے اگر یہ لوگ دوسرے لوگوں سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہونے کا دجال کو قتل کرنے کے لئے تو میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے بددعا کرتا کہ وہ ان کو ہلاک کردے۔ رسول اللہ ﷺ کی تعریف زینت ہے : 10:۔ ابن اسحاق وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بنوتمیم کا وفد اور وہ ستر یا اسی آدمی تھے ان میں سے زیرقان بن بدر، عطارد بن معید، قیس بن عاصم، قیس بن حارث اور عمروبن اھتم مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کے حجرہ مبارک کے پاس آگئے اور حجروں کے باہر سے ہی اونچی آواز دینے لگے یا محمد ﷺ ہماری طرف باہرآئیے، اے محمد ﷺ ہماری طرف باہر آئیے اے محمد ﷺ رسول اللہ ﷺ ان کی طرف باہر تشریف لائے۔ تو انہوں نے کہا اے محمد ﷺ اگر ہم کسی کی تعریف کردیں اس کے لئے باعث زینت ہے، اور اگر ہم کسی کی مذمت کردیں تو اس کے لئے موجب عیب ہے ہم عرب کے سب سے زیادہ عزت والے لوگ ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے جھوٹ کہا بلکہ اللہ کی تعریف زینت کا باعث ہے اور اللہ کی مذمت تحقیر کا باعث ہے اور تم سے اشرف واعلیٰ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں (پھر) انہوں نے کہا ہم آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے فخر کا اظہار کریں پس طویل وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس کے آخر میں یہ ہوا تمیمی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا اللہ کی قسم بلاشبہ اسی آدمی کے لئے سب کچھ بنایا گیا ہے اس کا خطیب کھڑا ہوا اور وہ ہمارے خطیب سے زیادہ اعلی خطابت کرنے والا تھا اور اس کا شاعر ہمارے شاعر کی نسبت زیادہ اپنے فن کا ماہر تھا راوی کا بیان ہے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت “ بنوتمیم میں سے ” اکثرھم لایعقلون “ فرمایا یہ پہلی قرأت میں تھا (آیت ) ” ولو انہم صبروا حتی تخرج الیہم لکان خیرا لھم واللہ غفور رحیم “ (اور اگر یہ لوگ صبر اور انتظار کرتے کہ آپ خود ہی باہر انکے پاس تشریف لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللہ غفور رحیم ہے۔ 11:۔ ابن سعد والبخاری فی الادب وابن ابی الدنیا والبیہقی (رح) فی شعب الایمان حسن ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کی ازواج کے گھروں میں داخل ہوتا تھا عثمان بن عفان ؓ کی خدمت کے زمانے میں تو اپنے ہاتھ سے ان کی چھتوں کی چھو لیتا تھا (یعنی چھت اتنی نیچی تھی کہ میرا ہاتھ ان کی چھتوں کو پہنچ گیا) 12:۔ البخاری فی الادب وابن ابی الدنیا والبیہقی (رح) نے داؤد بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حجرات کو دیکھا جو کھجور کی ٹہنیوں سے بنائی ہوئی تھی جو باہر سے بالوں سے بنے ہوئے کمبل سے ڈھکے ہوئے تھے اور میرا یہ گمان لگایا کہ کمرے کا عرض بال الحجرہ سے باب البیت تک چھ یا سات زراع کے قریب ہوگا اور ان کے سے کمرے کی لمبائی دس ذراع تھی اور میرا گمان ہے کہ گھر کی چھت سات آٹھ ذراع کے درمیان ہوگی۔ 13:۔ ابن سعد نے عطاخراسانی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی ازواج کے حجروں کو اس حال میں پایا کہ وہ کھجوروں کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازوں پر سیاہ بالوں سے بنے ہوئے کمبل تھے ولید بن عبد الملک کا خط آیا وہ پڑنے لگا اور اس نے حکم دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے حجروں کو رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں داخل کردیا جائے۔۔ سے اس دی میں نے لوگوں کو بہت روتے ہوئے دیکھا سعید بن المسیب (رح) کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم مجھے یہ بات پسند ہے کہ ان (حجروں) کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہ کچھ لوگ اہل مددینہ میں سے پیدا ہوں گے اور ساری دنیا سے یہاں تک آئیں گے تو وہ لوگ دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں کسی چیز پر اکتفی فرمایا اور یہ چیزیں لوگوں کو مال کثرت اور تفاخر میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے سے روکیں اور انکو دور رکھیں اور ابو امامہ بن سہل بن حنیف نے اس دن فرمایا کاش کہ ان کو (اس حال میں) چھوڑ دیا جاتا انکو نہ گرایا جاتا یہاں تک کہ لوگ رک جاتے بلند وبالا عمارتوں کے بنانے سے اور وہ دیکھ لیتے کہ کونسی چیز کو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کیلئے پسند فرمایا حالانکہ دنیا کے خزانوں کی چابیاں آپ کے ہاتھ میں تھیں۔
Top