Dure-Mansoor - Al-Maaida : 26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا فَاِنَّهَا : پس یہ مُحَرَّمَةٌ : حرام کردی گئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَرْبَعِيْنَ : چالیس سَنَةً : سال يَتِيْھُوْنَ : بھٹکتے پھریں گے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
اللہ تعالیٰ نے فرمایا سو یہ سرزمین ان لوگوں پر چالیس سال تک حرام رہے گی۔ زمین میں حیران پھرتے رہیں گے سو آپ نافرمان قوم پر رنج نہ کیجئے۔
(1) امام ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت فانھا محرمۃ علیھم یعنی یہ شہروں پر پیشہ کے لئے حرام کردیا گیا اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت یتیھون فی الارض سے مراد کہ وہ چالیس سال تک اس صحراء میں بھٹکتے رہے۔ (2) امام عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ آدمیوں کو بطور جاسوس بھیجا ہر قبیلہ میں سے ایک آدمی تھا تاکہ قوم کے بارے میں خبر لے آئیں (ان میں سے) دس نے اپنی قوم کو بزدل بنایا اور اس میں داخل ہوتا ناپسند کیا۔ لیکن یوشع بن نون اور ان کے ساتھی نے داخل ہونے کا حکم دیا اور اللہ کے حکم پر قائم رہے اور انہوں نے اپنی قوم کو اس بارے میں رغبت دی اور اس بارے میں ان کو خبر دی کہ وہ ضرور غالب ہوں گے یہاں تک کہ دوسرے افراد نے کہا لفظ آیت انا ھھنا قعدون جب قوم اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے سے بزدل ہوگئے اور اپنے رب کے حکم کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ وہ کنوؤں کا پانی پیتے رہے کسی بستی یا شہر میں نہیں جاسکتے تھے۔ اور اس کا راستہ نہیں پاتے تھے اور نہ اس پر قادر ہوتے تھے۔ (3) امام ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ان پر بستیاں حرام کردی گئیں تھیں۔ وہ کسی بستی میں نہیں جاسکتے تھے اور نہ اس پر قدرت رکھتے تھے۔ کنوؤں کے اردگرد چالیس سال تک پھرتے رہے اور اطوار سے مراد ہیں اور ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ موسیٰ چالیس سال میں وفات پا گئے اور ان میں سے کوئی بھی بیت المقدس میں داخل نہیں ہوا۔ مگر ان کی اولادیں اور وہ دونوں آدمی جنہوں نے (داخل ہونے کے لئے) کہا تھا۔ بنی اسرائیل میدان تیہ میں چالیس سال رہے (4) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا چالیس سال تک وہ لوگ حیران سرگردان پھرتے رہے۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی میدان تیہ میں وفات ہوگئی۔ وہ بھی فوت ہوگئے جن کی عمر چالیس سال سے اوپر تھی۔ جب چالیس سال گزر گئے تو یوشع بن نون نے ان کو ہمت دلائی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آپ ہی بنی اسرائیل کے معاملات چلا رہے تھے۔ اور یہ وہی آدمی ہے جس کو کہا گیا تھا کہ آج کا دن جمعہ کا دن ہے تو بنی اسرائیل نے مقدس شہر کو فتح کرنے کا ارادہ کیا۔ سورج غروب ہونے کے قریب ہوگیا تو ان کو خوف ہوا کہ اگر ہفتہ کی رات داخل ہوگئی تو لوگ ہفتہ کے دن میں داخل ہوجائیں گے۔ انہوں نے سورج کو آواز دی کہ بلاشبہ میں بھی مامور ہوں اور تو بھی مامور ہے۔ تو وہ ٹھہر گیا۔ انہوں نے اس (مال) کو آگ کے قریب کیا اگر آگ نہ آئی تو انہوں نے فرمایا تمہارے اندر کوئی خیانت ہے اور قبیلوں کے سرداروں کو بلایا جو بارہ آدمی تھے۔ ان سے بیعت لی ان میں سے ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ گیا۔ تو فرمایا خیانت تیرے پاس ہے اس کو نکال دے اس نے سونے کا ایک بیل کا سر نکالا۔ اس کی دو آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے تھے تو اس کو قربانی میں پیش کئے جانے والے مال کے ساتھ رکھ دیا۔ آگ آئی اور اس کو کھا گئی۔ (5) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا بنو اسرائیل چالیس سال تک ریت کے ریگستان میں حیران و سرگردان پھرتے رہے اور وہاں صبح کرتے جہاں انہوں نے شام کی ہوتی اور وہاں شام کرتے جہاں انہوں نے صبح کی ہوتی۔ (6) امام ابن جریر اور ابوالشیخ نے عظمۃ میں وہب بن منبہ (رح) سے روایت کی ہے کہ جب بنو اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے اس مقدس زمین میں داخل ہوتا حرام کردیا تو زمین میں حیران و سرگردان پھرتے تھے۔ انہوں نے موسیٰ کو شکایت کی اور کہنے لگے ہم کیا کھائیں ؟ فرمایا عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے پاس لائیں گے ان چیزوں کو جو تم کھاؤ گے کہنے لگے کہاں سے ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ عنقریب تم پر پکی پکائی روٹی نازل فرمائیں گے اور ان پر ترنجبین نازل ہوتا تھا اور وہ پتلی روٹی ہوتی تھی اور مکئی جیسے ہوتے پھر کہنے لگے ہم کیسے سالن پکائیں گے کیا ہم کو گوشت کا بدل ملے گا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اس کو لے آئیں گے۔ کہنے لگے کہاں سے ؟ فرمایا ان کے پاس ہوا بٹیروں کو لاتی اور وہ کبوتر کر طرح موٹا پرندہ ہے۔ کہنے لگے ہم کیا پہنیں گے ؟ فرمایا تم میں سے کسی کا کپڑا (چالیس) سال تک پرانا نہیں ہوگا۔ کہنے لگے ہم جوتا کیا پہنیں گے ؟ فرمایا تم میں سے کسی کا تسمہ بھی چالیس سال تک نہیں ٹوٹے گا۔ کہنے لگے چھوٹی اولاد جب پیدا ہوگی تو ہم ان کو کیا پہنائیں گے۔ فرمایا چھوٹا کپڑا اس کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔ کہنے لگے ہمارے لئے پانی کہاں سے آئے گا ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے پاس لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو حکم فرمایا کہ پتھر کو لاٹھی سے ماریں۔ کہنے لگے ہم کیسے دیکھیں کیونکہ ہم کو اندھیرے نے ڈھانک لیا ہے۔ انہوں نے ایک اونٹنی کا ستون اپنے لشکر کے درمیان کھڑا کردیا جو سارے لشکر کو روشنی دیتا تھا کہنے لگے ہم سایہ کس سے حاصل کریں گے سورج ہم پر سخت ہے فرمایا اللہ تعالیٰ تم پر بادلوں کا سایہ کرے گا۔ (7) امام ابن جریر نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ ان پر تیہ کے میدان میں بادل سایہ کرتے تھے۔ پانچ یا چھ فرسخ تک جب صبح کو چلتے تھے تو شام کو (اس جگہ) لوٹ آتے تھے۔ اور جب بھی شام کو چلتے تھے تو اپنی جگہ پر لوٹ آتے تھے جہاں سے چلے تھے۔ اسی طرح چالیس سال ہوگئے۔ ان پر ترنجبین اور بٹیر نازل کئے گئے۔ ان کا کپڑا پرانا نہ ہوتا تھا اور طور پہاڑ کے پتھروں میں سے ایک پتھر تھا۔ جس کو اپنے ساتھ اٹھائے پھرتے تھے۔ جب وہ کہیں بیٹھتے تھے تو موسیٰ (علیہ السلام) اپنی لاٹھی سے اس کو مارتے تھے تو اس میں بارہ چشمے پھوٹ پڑھتے تھے۔ (8) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ان کے کپڑے میدان تیہ میں نہ پرانے ہوتے تھے اور نہ پھٹتے تھے۔ (9) عبدالرزاق، عبد بن حمید اور ابن منذر نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ بنو اسرائیل جب اپنے تیہ کے میدان میں تھے تو ان کے کپڑے اس طرح بڑھتے تھے جس طرح وہ جوان ہوتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر (10) امام عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ پتھر کو اپنی لاٹھی سے مارو تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ موسیٰ نے ان سے فرمایا لوٹا دو گدھوں کے لشکر کو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی۔ تو نے میرے بندوں کو گدھوں کا لشکر کہا اس لئے میں نے تم پر مقدس زمین حرام کردی ہے۔ فرمایا اے میرے رب میری قبر ارض مقدس سے اتنی دور بنا دے جتنی دور پتھر پھینکا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کو دیکھوالبتہ تم اس کو دیکھو گے اور مقدس زمین اس سے اتنی دور ہے جتنا پتھر پھینکا جاتا ہے۔ (11) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے بارش کو طلب کیا تو ان کو پانی پلا دیا گیا پھر فرمایا اے گدھو پانی پی لو۔ تو اس سے (اللہ تعالیٰ نے) منع فرمایا اور فرمایا میرے بندوں کو اے گدھو کہہ کر نہ پکارو۔ (12) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس سے روایت کیا کہ لفظ آیت قلاتاس سے کیا مراد ہے غم نہ کرو۔ (13) امام طستی نے سائل میں نافع بن ارزق (رح) سے روایت کیا ہے انہوں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قوم لفظ آیت قلاتاس کے بارے میں بتائیے فرمایا اس کا معنی ہے غم نہ کرو۔ پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا کیا تو نے امراء القیس کا قول نہیں سنا۔ وقوفابھا صحی علی مطیھم یقولون لا تھلک اسی و تجمل ترجمہ : وہاں ٹھہرنے کی حالت میں جبکہ میرے ساتھی اپنی سواریوں پر سوار تھے وہ کہتے تھے غم کو ہلاک نہ کرو اور صبر جمیل کر۔ (14) امام عبد الرزاق نے منصف میں اور حاکم نے (اور اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انبیاء میں سے ایک نبی نے اہل شہر سے قتال کیا جب شہر کو فتح کرنے والے تھے تو سورج غروب ہونے لگا تو فرمایا اے سورج تو بھی مامور ہے (اللہ کی طرف سے) اور میں بھی مامور ہوں میں تجھے اپنا واسطہ دیتا ہوں کہ تو دن کے وقت یہی ٹھہر جا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو روک دیا یہاں تک کہ شہر فتح ہوگیا۔ جب وہ غنیمت کا مال پاتے تھے تو قربانی کی جگہ میں رکھ دیتے تو آگ آتی اور اس کو کھا جاتی جب انہوں نے غنیمت کا مال پایا تو اس کو قربانی کی جگہ میں رکھ دیا تو آگ اس کو کھانے کے لئے نہ آئی۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! ہم کو کیا ہوا کہ ہماری قربانی قبول نہیں ہوئی ؟ فرمایا کہ تمہارے اندر کوئی خیانت ہے۔ انہوں نے کہا ہم کس طرح جانیں گے کہ ہم میں سے کس نے خیانت کی ہے ؟ انہوں نے بارہ سرداروں کو بلایا اور فرمایا تم میں سے ہر قبیلہ کا سردار مجھ سے بیعت کرے ہر قبیلہ کے سرداروں نے بیعت کی۔ ان میں سے ایک آدمی کی ہتھیلی ان کو ہتھیلی سے چمٹ گئی لوگوں نے اس سے کہا تیرے پاس خیانت کا مال ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! میرے پاس خیانت کا مال ہے پوچھا وہ کیا ہے۔ اس نے کہا سونے کے بیل کا سر ہے جو مجھے اچھا لگا تو میں نے چرا لیا۔ پھر اس کو لے آیا اور اس کو غنیمت کا مال میں رکھا آگ آئی اور اس کو کھا گئی۔ کعب ؓ سے فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا وہ یوشع بن نون تھے پھر پوچھا تم کو بیان کیا کہ وہ کونسی بستی تھی ؟ فرمایا وہ اریحا کا شہر تھا اور عبد الرزاق کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم سے پہلے کسی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوری کو دیکھا تو ہمارے لئے حلال بنا دیا۔ اور لوگ گمان کرتے ہیں کہ سورج کسی کے لئے نہیں ٹھہرا اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔
Top